بے یارو مددگار لیاری کی کچھی برداری – از فیصل محمود
بدنام زمانہ پیپلزامن کمیٹی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں لیاری کے مظلوم عوام بالخصوص کچھی برادری، کاٹھیا واڑی برادری،میمن برادری اوردیگرپرامن برادریوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے، لیاری کے علاقے آگرہ تاج کالونی، بہارکالونی، بغدادی ، کلری ، ہنگورہ آباد اور دیگر علاقوں میں نام نہاد پیپلزامن کمیٹی کے دہشت گرد وں نے بھتہ خوری ، دہشت گردی ، اغواء برائے تاوان اورقتل وغارتگری کا بازار گرم کررکھا ہے ۔گزشتہ کئی ماہ سے ان دہشت گردوں کی جانب سے غریب ومظلوم کچھی برادری کے افرادکواغواکرنے کے بعد سفاکی سے قتل کیاجارہاہے –
جسکے باعث کچھی برادری کے عوام یہ سمجھنے پر مجبورہیں کہ ان کی نسل کشی کامذموم عمل کیاجارہا ہے اوران سے امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارنے کاحق چھینا جارہا ہے لیاری میں دو گروپوں میں جنگ نہیں یا قبضیے کی جنگ نہیں بلکہ امن کمیٹی کے غنڈے دھشت گرد پیپلز پارٹی کی سرپرستی میں کچھی اور میمن اور مہاجر کمیونٹی پر حملہ آور ہو کر ان کو لیاری سے بے دخل کروا رہے ہیں اور مزاحمت پر ان کو قتل کر رہے ہیںشہریوں کو بلاامتیاز جان ومال کا تحفظ فراہم کرنا اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا سندھ حکومت کا بنیادی فرض ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت سندھ کے اعلیٰ عہدیدار اور پیپلزپارٹی کے بعض رہنماء کھلے عام پیپلز امن کمیٹی کے دہشت گردوں کی حمایت اور سرپرستی کررہے ہیں
جسکے باعث ان دہشت گردوں کے حوصلے اتنے بلند ہوچکے ہیں کہ وہ نہ صرف کراچی کے تاجروں ، صنعتکاروں اور دکانداروں سے بھاری بھتے وصول کررہے ہیں بلکہ لیاری کے مظلوم عوام بالخصوص کچھی برادری کو کھلے عام دہشت گردی کانشانہ بنارہے ہیں مگر ان دہشت گردوں کو روکنے والا کوئی نہیں ہے.لیاری کے مختلف علاقوں میں بے گناہ شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف کچھی برادری کے بزرگ، خواتین ، بچے اورنوجوان اپنے گھروں سے نکل کر پرامن احتجاج کرنے پر مجبورہیں
لیکن سندھ حکومت کی جانب سے اس احتجاج اور دہائیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیاجارہا ہےلیاری میں گینگ وارکے دہشت گردوں کی جانب سے تسلسل کے ساتھ کچھی برادری خصوصاً نوجوانوں ، بزرگوں ،بچوں اورخواتین کودہشت گردی کانشانہ بنانے اوران کے گھروں پرراکٹوں اوربموں سے حملوں کے پیش نظر کچھی برادری لیاری سے اندرون سندھ بدین ، ٹھٹھہ ،میرپورخاص اور دھابیجی سمیت دیگرشہروں میں نقل مکانی کررہے ہیںاور وہ اپنے عزیز و اقارب سمیت مقامی اسکول اور مدرسہ میں رہنے پر مجبور ہیں. کچھی برادری کے متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ گینگ وار کے دہشت گرد لیاری میں سرعام قتل و غارت کر رہے ہیں،
ہماری جان و مال اور املاک کچھ بھی محفوظ نہیں ہیں۔کچھی برادری کے افراد لیاری کے قدیم باشندے ہیں جنہوں نے نہ صرف لیاری کوآبادکیابلکہ پاکستان کی تعمیروترقی میں بھی اپناخون پسینہ دیاتاہم آج انہیں گینگ وارکے دہشت گردوں کی جانب سے حکومتی سرپرستی میں دہشت گردی اور قتل وغارتگری کانشانہ بنایاجارہاہے اورکچھی برادری کی نسل کشی کرکے انکے گھروں پرقبضے بھی کئے جارہے ہیں جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ایک جانب گینگ وارکے دہشت گردوں کوکھچی برادری کے قتل کاکھلالائسنس دیکرکچھی برادری کی نسل کشی کی جارہی ہے اورانہیں لیاری چھوڑ کرمحفوظ علاقوں اور شہروں میں نقل مکانی پرمجبورکیاجارہاہے جبکہ دوسری طرف حکومت سندھ نقل مکانی کرنے والی کچھی برادری کوتحفظ فراہم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے جہاں انہیں بے یارومددگارچھوڑدیاگیاہے جس کے باعث کچھی برادی میں شدیدبے چینی اور مایوسی پھیل رہی ہے اوروہ اپنے جان ومال کے تحفظ کیلئے حکومت کو دوہائیاں دے رہے ہیں. ۔
کچھیوں نے لیاری میں اپنے گھروں کی دیواریں توڑ کر اپنی جانییں بچائیں
لیاری کے سکیڑوں افراد جنہوں نے بلدیہ ٹاؤن کے اسکول میں پناہ لے رکھی ہے ان کہنا ہے کہ گینگ وار والوں نے ان کے گھروں کو لوٹ کر آگ لگا دی ہے اور وہ بلدیہ ٹاؤن کے اسکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیںکچھی عوام نے کہا کہ گینگ وار والوں نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور وہ رات کےاندھیرے میں بھاگ کر یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوۓ ہیں
کچھیوں کے جنازے پر فائرنگ کرکے مارا گیا، ان پر مارٹر گولے اور راکٹ لانچر چلائے جاتے رہے۔ جب ان میں سے کچھ لوگوں نے احتجاج کیا تو انپر پولیس نے پانی پھینکنے والی گاڑیوں کی مدد سے انکے لاش کی بے حرمتی کی۔ جب اس پر بھی بس نہ چلا تو پھر ان پر ہوری ریاستی مشینری ٹوٹ پڑی۔
انکی خواتیں کو وزیراعلیٰ ہاوس میں دھکے دیے گئے۔ میڈیا ایک مہم چلا رہا ہے کہ ان کا احتجاج بے معنی ہے گینگ وار سے انکی کوئی لڑائی نہیں ہے بلکہ باہر سے آنے والے متحدہ کے کارکن لڑائی کی اصل وجہ ہے۔ جبکہ وہاں موجود خواتین کا کہنا تھا کہ گینگ وار کے کارندے ہمارے گھروں سے ہماری بیٹیوں تک کو اُٹھا رہے ہیں
گینگ وار کا کہنا ہے ہماری کچھیوں سے کوئی لڑائی نہیں ہے مگر کچھیوں کے کئی گھر پر گینگ وار نے قبضہ کرلیا ہے۔ کچھی در بدر ہیں اور اپنی بقاء کے لیے ہمت کا مظاہرہ کرکے اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔
کچھیوں کے نمائندے کہہ رہے ہیں کہ گینگ وار ہمارے لوگوں کو قتل، عورتوں کی آبروریزی اور ہمارے گھروں پر قبضے کررہی ہے اس لیے ہم اپنے گھروں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔
جبکہ پاکستانی میڈیا اور پیپلز پارٹی کے جرائم پیشہ سندہ لیول کے نمائندے اور رینجرز کا ڈی جی گینگ وار کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ تو کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تینوں خصوصا” میڈیا گینگ وار اصل میں ایک ہی مالے کی مختلف لڑیا اور کڑیاں ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلے یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ گینگ وار اصل میں متحدہ کے اثر کو کمزور کرنے کے لیے بنائی گئی ہے مگر عفریت تو عفریت ہوتا ہے بھائی اب یہ مونسٹر کراچی کا کینسر ہو گیا ہے اور میڈیا پاکستان کا۔ رینجرز کی موجودگی اصل
میں کراچی میں ایک زہریلی دوا کا کام کررہی ہے جو مرض کا علاج کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث ہے۔
جبکہ پاکستانی میڈیا اور پیپلز پارٹی کے جرائم پیشہ سندہ لیول کے نمائندے اور رینجرز کا ڈی جی گینگ وار کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ تو کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تینوں خصوصا” میڈیا گینگ وار اصل میں ایک ہی مالے کی مختلف لڑیا اور کڑیاں ہیں۔
آج کل جس طرح لیاری میں جس طرح بیگناہ کچھیوں کا قتل عام ہورہا ہے اس پر میڈیا,سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ اس ملک میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں اور ہم درندوں سے بھی بدتر معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں.میڈیا کی بےحسی کا یہ عالم ہے کہ وہ کچھیوں کے قاتل اور گینگ وار کے سربراہ کا انٹرویو اس طرح نشر کررہے ہیں جیسے وہ کوئی بہت نیک لیڈر ہو.
جبکہ جماعت اسلامی کے رہنمااسدبھٹو گینگ وار کے جلسے میں اس طرح شرکت کرتے ہیں جیسے وہ بہت شریف لوگ ہوں.جہاں تک بات عدلیہ کی ہے اس کے چیف جسٹس افتخار چودھدری گینگ وارکےدھشت گردحبیب جان بلوچ جس پر32قتل کیایف آئ آر ہے اس سے لندن میں اس طرح بغلگیر ہوئے جیسے وہ کوئی معزز آدمی ہو.باقی بات رہی رینجرز اور پولیس اس کی گینگ وار کی سرپرستی کسی سے ڈھکی چپھی نہیں.جس ملک کے حکمران,قانون نافذ کرنےوالےادارے, عدلیہ اور میڈیا دہشت گردوں کی حمایت اور سرپرستی کرتے ہوں وہاں کسی سےانصاف کی توقع رکھنا فضول ہےاور خود ہی کچھ اقدام کرنا ہوگا.تنگ آمد بجنگ آمد
لیاری سے کچھی برادری کی نقل مکانی شروع ہوگئی ہے، بہت سے مصیبت زدہ خاندانوں نے زخمیوں کے ساتھ ٹھٹھہ اور کلری میں اپنے رشتے داروں کے گھروں میں پناہ لے لی ہے۔ کیا اس ملک میں کوئی قانون نہیں جو ظالم لیاری گینگ وار کی گرفت کرسکے۔ لیاری میں کچھی برادری کے گھروں پر قبضہ کیا جارہا ہے اور بعض گھروں کو آگ لگائی ہے۔ اسلحے کے زور پر کچھی برادری کے مردوں کو اغوا کیا جارہا ہے اور بدترین تشدد کے بعد لاشوں کو پھینکا جارہا ہے۔ کیا اس ملک میں کوئی آئین ہے، کیا حقوق انسانی کے ادارے ختم ہوگئے ہیں۔ کہاں ہیں اسلام کے علمبردار نام نہاد مذہبی ٹھیکیدار۔ کیوں لیاری گینگ وار کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔
رمضان کے مبارک مہینے میں لیاری کی کچھی برادری کے مظلوم لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں، عورتوں، بزرگوں اور زخمیوں کو لیکر اپنے ہی وطن میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ کراچی میں سیکورٹی کے نام اربوں خرچ کرنے کے باوجود ہمارے ہم وطن اور ہم مذہب دربدر ہیں۔ “حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان
ہے مملکتیں کفر پر تو برقرار رہ سکتی ہیں مگر ظلم پر نہیں۔
Source:
http://faisalmahmood99.blogspot.com/2013/07/blog-post.html