شام ایسے جیسے ہو غریب کی جورو

take this is sharper

تاریخ میں جب بھی آپ کو ایک ایسے گروہ سے واسطہ پڑتا ہے جو آپنے

آپ کو راہ راست پر خیال کرتا ہو اور باقی سب کو غلط تصور کرلے اور اس بنیاد پر دوسروں کو مٹاڈالنے کی تہیہ کرلے تو پھر وحشت اور درندگی کا ایک ایسا کھیل دیکھنے کو ملتا ہے کہ جس کو دیکھکر انسان تو انسان جانور بھی ابکائیاں لینے لگتے ہیں-

شام کے ملک میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے اس کا سیدھا سیدھا مقصد تو یہ ہے کہ کسی بھی طرح سے بشارالاسد سے اقتدار چھین لیا جائے کیونکہ وہ مڈل ایسٹ میں آج تک امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکاری رہا ہے-

بشار الاسد نے اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے امریکہ اور یوروپی یونین کا دم چھلّا بننے سے انکار کرتے ہوئے امریکہ اور یوروپی یونین کے حریف روس اور چین کے ساتھ تعاون ہی نہیں کیا بلکہ اس نے خطے میں ایران اور لبنان کی حزب اللہ بھی اپنے تعلق مضبوط کئے-

اس اتحاد اور تعاون نے مڈل ایسٹ میں امریکی بالادستی کے ناقابل شکست ہونے کے تصور پر کاری ضرب لگائی-اور اس اتحاد نے امریکہ کے خطے میں سب سے بڑے حامی اسرائیل کے لیے بھی خطرات پیدا کررکھے ہیں-

اس اتحاد سے ہٹ کر مڈل ایسٹ میں گلف ریاستوں کے اندر عوام میں بارشاہتوں اور ان کے قائم کردہ جابرانہ نظام کے خلاف نفرت باقاعدہ تحریک میں بدل چکی ہے-مصر میں حسنی مبارک کا تختہ الٹا گیا-تنزانیہ میں زین بن علی کا اقتدار گیا-بحرین میں خلیفہ کے خلاف عوامی ابھار اپنے عروج پر ہے-سعودی عرب کے اندر آل سعود کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے وہاں پر اب نوجوان مرد تو ایک طرف عورتیں بھی بغاوت پر آمادہ ہیں-شام کے اندر بھی ایک جمہوری تحریک شروع ہوئی تھی جس کو گلف کے حاکموں اور امریکہ سامراج اور یوروپی یونین کے حکمرانوں سے اغواء کرکے اس کو ایک فرقہ وارانہ شکل دے ڈالی اور اس کو مسخ کرڈالا-

پورے مڈل ایسٹ میں نوجوان سرمایہ داری کے نیولبرل ماڈل اور اس کے محافظ بادشاہوں اور آمروں سے بے زار ہیں-وہ بغاوت پر آمادہ ہیں-پورے خطے میں پرانے نظام کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی ہے-ایسے میں اس خطے کے جابر حکمران ،ان کے کنٹرول میں میڈیا اور ان کے کنٹرول میں آنے والی ملّائیت پورے خطے کے اندر گھناؤنی سازش کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں-

سازش یہ ہے کہ اس پورے خطے میں عربوں کو ایرانیوں کے خلاف کھڑا کیا جائے اور پورے مڈل ایسٹ میں بیداری اور شعور کی سیاسی لہر کو شیعہ بالادستی کا منصوبہ قرار دےکر پورے مڈل ایسٹ میں شیعہ سنی فساد کو بھڑکادیا جائے-

اس سازش کو کامیاب بنانے کے لیے ایک مرتبہ پھر آل سعود نے اپنے خطے میں پھیلے ہوئے سلفی نیٹ ورک کو متحرک اور سرگرم کیا ہے-آل سعود کے فنڈز پر پلنے والے ملّا اور مفتی سرگرم ہوگئے ہیں-

یہ تاریخ کے پرانے کرداروں کے لبادے پہن کر ہمارے سامنے آرہے ہیں-یہ ملّا اور مفتی پورے مڈل ایسٹ میں “الجہاد،الجہاد”کی صدائیں بلند کررہے ہیں-جہاد کن کے خلاف؟سنی آبادی کو کہا جارہا ہے کہ وہ شیعہ آبادی کے خلاف جہار کریں-

مڈل ایسٹ میں جہاں جہاں شیعہ اور سنی آبادی مخلوط ہے وہاں پر نام نہاد جہادیوں نے خود کش حملے ،کار بم دھماکے اور باقاعدہ شب خون مارنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے-

یہ سب اہل سنت کے نام پر سلفی ملّائيت نے کام شروع کررکھا ہے-آل سعود جو کہ محمد بن عبد الوہاب کی فکر کی پیرو ہے اسی فکر کو فکر اہل سنت کا نام دے کر مڈل ایسٹ کے اندر “شیعہ سنی فساد “کی درپے نظر آرہی ہے-

یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ عراق جہاں پر اس وقت امریکیوں کا ایک پٹھو مالکی حکومت کررہا ہے جس نے برسراقتدار آنے کے بعد عراق کے اندر شیعہ سنی اتحاد کو پارہ پارہ کرڈالا اور اس نے کردوں کو بھی لڑائی پر مجبور کیا-اور یہ سب کام اس نے “شیعہ پرستی “کے نام پر کیا-اس نے یہ سب کچھ امریکی اشارے پر کیا اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ عراق میں امریکی سامراج کے خلاف مزاحمت قومی بنیادوں پر استوار نہ ہوجائے-اور اس نے اس مزاحمت کو تباہ کرنے کے لیے اس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے ايڑی چوٹی کا زور لگایا-اور ان کی مدد القاعدہ اور دیگر سلفی گروپوں نے کی جو عراق کی عوام کی لڑائی کو فرقہ واریت کی نذر کرنے میں کامیاب ہوگئے-

حیرت کی بات ہے کہ فرقہ پرست وہ چاہے سنیوں کے لبادے میں آئے یا وہ شیعہ کے لبادے میں آئے انہوں نے کام امریکی سامراجیت کو مضبوط بنانے کا کیا-

امریکی سامراج اور صہیونیت کو بچانے کے لیے گلف کی ریاستوں کے بادشاہ،اخوان المسلمون کی تنزانیہ اور مصر کی حکومتیں اور خود کو آل عثمان ترکوں کا پیش رو کہنے والےترکی کے حاکم اور مڈل ایسٹ،افریقہ سمیت پوری دنیا میں اسلام کی حکمرانی کے لیے عالمی جہاد کرنے والے ایک ہوچکے ہیں اور وہ سب کے سب شام پر چڑھائی کرچکے ہیں-

شام غریب کی جورو بن چکا ہے-جس کو ایک طرف تو امریکہ،یورپ کی طرف سے سخت معاشی اور فوجی پابندیوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف پوری مسلم دنیا سے سلفی فکر سے متاثر نوجوانوں کو وہاں بھیجا جارہا ہے جن کو گلف سٹیٹ ،امریکہ،فرانس،برطانیہ،جرمنی سمیت امریکی سامراج کے حامیوں سے پیسہ بھی مل رہا ہے اور اسلحہ بھی-شام کی وہ سرحد جو ترکی سے ملتی ہے اور جو اردن سے ملتی ہے اور جو اسرائیل سے ملتی ہے وہاں سے حملوں اور دراندازی کا سامنا ہے-

ہم اس کالم کے زریعے محض اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت شام کے تناظر میں جو بھی ہورہا ہے اس کی وجہ شیعہ اور سنی کا تاریخی جھگڑا نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ مشرق وسطی کے اندر ایک جانب امریکی سامراج کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی ہے تو دوسری طرف صہیونی ریاست کی بقاء کے لیے خطرے کا باعث بننے والے عناصر کی سرکوبی ہے اور تیسری وجہ عرب کے بادشاہوں کی آمریت اور دولت کا تحفظ ہے-ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے سلفی فکر کے ملّا اہل سنت سے تعلق رکھنے والی عوام کو مشتعل کرنے کے لیے نفرتوں کو خانہ جنگی میں بدلنے کی سازش کررہے ہیں-اور وہ یوں ظاہر کرنے میں لگے ہوئے ہیں جیسے شیعہ مسلک کا غلبہ پورے مڈل ایسٹ میں ہونے والا ہے-اس لیے وہ بحرین کے اندر جمہوریت اور سماجی انصاف کے لیے اٹھنے والی تحریک کو شیعہ تحریک قرار دینے پر مصر ہیں-جبکہ وہ مڈل ایسٹ میں شیعہ آبادی کے تناسب کو چھپاتے ہوئے سنی کمیونٹی کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں-عراق،بحرین،جنوبی لبنان کو چھوڑ کر پورے مڈل ایسٹ میں سنی آبادی غالب اکثریت میں ہے-امریکی بڑی چالاکی کے ساتھ عراق میں اپنے پٹھو لوگوں کو شیعت کا لباس پہناکر عراق کی قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں کامیاب رہا ہے-اب مالکی کا چہرہ دکھاکر سنی آبادی کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے-ہمیں سیاہ شیعت کے جعلی پن کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے-سرمایہ دارانہ نظام کے چہرے پر مذھب کا جو خول چڑھایا گیا ہے اس کو نوچنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹھیک معنوں میں انقلاب کا راستہ اختیار کیا جاسکے-

پورے شام کے اندر امریکی کمیپ کے حامی پوری دنیا سے لڑنے کے لیے جمع ہوں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن جب لبنان کی حزب اللہ یہ دیکھے کہ شام پر قبضے کی آڑ میں اس کے خاتمے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے اور اسرائیل و صہیونیت کے خلاف آخری حصار کو بھی گرا دینا چاہئے تو وہ بقول حسن نصراللہ کے آخری جماعت تھی جو بطور فریق کے اس جنگ میں شریک ہوئی تو امریکہ کی اشیر باد سے مڈل ایسٹ کی عوام کی گردنوں پر سوار عرب آمروں کے بکاؤ مال ملّا اور مفتی نے “اسلام خطرے میں ہے اور اہل سنت خطرے میں ہیں کا راگ الاپنا شروع کردیا-اور اس طرح سے اپنے آپ کو پوری طرح سے بے نقاب کرڈالا-

مڈل ایسٹ کی عوام پر یہ بہت مشکل وقت ہے-کیونکہ ان کے ہادی اور مرشد کہلانے والے شیخ حرم ریالوں،درہموں اور ڈالروں پر فریفتہ ہوکر کتاب ہدائت کی آیات کو بیچنے پر لگ گئے ہیں-اور تاریخ ایک مرتبہ پھر سے خود کو دوہرارہی ہے-

ماضی میں “الحکم للہ “کا نعرہ لگانے والوں نے علمبرداران مساوات و حق کے خلاف باطل کا بلواسطہ ساتھ دیا تھا اور کتاب و سنت و سنت خلفاء الراشدین کا نعرہ لگانے والوں نے بنو امیہ و بنو عباس کی ملوکیت کا تحفظ کیا تھا اور کسانوں،غلاموں اور دست کاروں کی تحریک کو باغی اور بے دینوں کی تحریک قرار دے ڈالا تھا-ایسے ہی توحید و سنت کے احیاء کا نعرہ لگانے والے ابن سعود اور محمد بن عبد الوہاب نے برطانوی سامراج کے ایجنڈے کی تکمیل میں مدد فراہم کی تھی-اور اسی طرح ہم نے سرد جنگ کے زمانے میں دیکھا تھا کہ “سبیلنا سبیلنا ۔۔۔۔۔الجہاد و الجہاد “کے نعروں کے ساتھ امریکہ سامراج اور سرمایہ داری بلاک کی فتح کو ممکن بنایا گیا تھا-اور پھر ہم نے دیکھا تھا کہ کیسے “تیل کی سیاست “نے امریکہ کی سی آئی اے اور پاکستان کی آئی ایس آئی کے زریعے سے تحریک طالبان کی بنیاد رکھی تھی جس میں آگے اکوڑہ خٹک اور جامعہ بنوریہ کے مفتی اور مولوی تھے لیکن پیچھے جرنیلوں اور کرنیلوں کا دماغ کام کررہا تھا-مقصد زر پرستی تھا-اور پھر جب یہی طالبان چالاکی دکھانے لگے اور سی آئی اے سے بغاوت کرنے والے اسامہ کے ہاتھ چڑھ گئے تو پھر نیا ایجنڈا سامنے آگیا-

امریکہ ،یوروپی یونین اور اس کے مڈل ایسٹ میں کٹھ پتلی حکمرانوں کو ایک مرتبہ پھر نام نہاد مقدس جنگ جوؤں کی ضرورت پڑگئی ہے تو ان سب کو قطر کے دارالخلافہ دوحہ میں اکٹھا کیا جارہا ہے-مقصدایک طرف تو صہونیت کو ہر طرح سے محفوظ بنانا ہے-پھر اپنے آڈوں کی حفاظت کے عرب آمروں کے اقتدار کو ہر صورت باقی رکھنا ہے-مصر ،ترکی اور تنزانیہ میں اسلام کے نام پر ڈیموکریسی کا چولا زبردستی زیب تن کرنے والے مرسی،اردوگان اور غنوشی بے نقاب ہوکر سامنے آگئے ہیں-وہ آل سعود کے نمک کو حلال کرنے کی فکر میں اس قدر ہوش کھو بیٹھے کہ کل تک امریکہ کے خلاف اپنے نعروں کو بھلا بیٹھے ہیں-ویسے زین بن علی اور حسنی مبارک بھی حیران ہوں گے کہ ان کو امریکہ نوازی کا طعنہ دینے والے خود کیسے دن رات امریکہ پرستی کی فکر میں غلطان ہیں-ترکی کا اردوگان اسرائیل کی سرحدوں پر تو آج تک مزائیل نصب نہ کراسکا ہاں اس نے یہ مزائیل شام کی سرحد پر نصب ضرور کراڈالے-یہ مغرب غزہ کے محاصرے کے وقت کہاں مرگیا تھا؟عرب حاکموں اور مسی کا جذبہ جہاد اسرائیل کے غزہ پر حملے اور پھر لبنان پر حملے کے وقت کہاں دفن ہوچکا تھا؟سارا مڈل ایسٹ کا حکمران طبقہ خاموشی سے اسرائیل کے مزائیلوں کو جنوبی لبنان کے اوپر برستا دیکھ رہا تھا-

اس وقت دشمن کا کلیجہ چباجانے والے مجاہدین اسلام کہاں تھے؟النصرہ فرنٹ کہاں تھا؟آزاد شامی فوج کہاں تھی؟دوحہ میں اس وقت حماس کو اسلحہ اور پیسے دینے کے لیے کوئی اجلاس کیوں نہ بلایا گیا؟آل سعود کی دین داری کہاں رخصت ہوگئی تھی؟اس وقت یوسف القرضاوی نے آل سعود کے خلاف فتوی کیوں نہ جاری کیا؟

آل سعود ان ننگ ہائے دین و ننگ ہائے اسلاف میں سے ہیں جنہوں نے میدان جنگ میں حمزہ کا کلیجہ چبایا اور یہ اس نجد کے مکین ہیں کہ جس کے ایک باسی نے “محمد ابن عربی “پر انصاف نہ کرنے کا الزام عائد کرڈالا تھا(دیکھئے الجامع الصیح البخاری)اور یہ وہ نجد ہے جہاں سے شیطان کے سینگ کے نمودار ہونے کی پیشن گوئی کی گئی تھی-آل سعود اس روآئت کے ترجمان ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی انقلابی تحریک کے آثار و شعائر کو مٹاڈالنے میں اہم ترین کردار ادا کیا-اور یہ آج بھی مسلمانوں کے کلیجے چبانے کو اسلام کی فتح قرار دیتے ہیں-یہ سب کچھ اقتدار اور زر کی لالچ میں کیا جانے والا کھیل ہے جس کے پردے ماضی میں بھی چاک ہوئے تھے اور اب بھی چاک ہورہے ہیں-

مڈل ایسٹ میں سرمایہ داری ،اقتدار پرستی اور ہوس زر کا شیطانی کھیل “جہاد اور اسلام “کے نام پر کھیلا جارہا ہے-

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جو بات کہنے کی توفیق کیسی مسلم ملک کے حاکم کو نہ ہوئی وہ بات اس روس کے حاکم نے کی جس کوملحد قرار دیکر امریکی بالادستی کا کھیل آل سعود نے کھیلا تھا کہ

“اہل مغرب !تمہیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ تم ایسے درندوں کے ہاتھ میں خطرناک اسلحہ بارود دے رہے ہو جو اس قدر درندے ہیں کہ مرنے والے رشمنوں کے اعضاء نکال کرچباتے اور اس کی ویڈیو بناکر تقسیم کرتے ہیں اور پھر لاشوں کو جلاتے ہیں اور ان کو گھسٹتے syrianپھرتے ہیں”

لیکن پیوٹن شائد تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرگیا کہ وہ امریکہ کے حاکموں کی تاریخ سے واقف ہے کہ کیسے ان جرائم پیشہ بحری قزاقوں نے امریکہ کے اصل باشندوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا تھا اور کون سے شرمناک جرائم تھے جن کا ارتکاب نہیں کیا گیا-

Comments

comments

Latest Comments
  1. A
    -
  2. Wah
    -
  3. mansoor
    -
  4. ابن انوار
    -