پیوستہ رہ شجر سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت ساری خبریں اس ایک ہفتے میں اکٹھی ہوگئی ہیں-اور اس دوران بہت سی سرگرمیوں کا میں خود بھی حصہ رہا ہوں-ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سب پر الگ الگ کالم لکھتا لیکن “ہر خواہش پر دم نکلے” والامعاملہ ہوگیا ہے-تو سوچا کہ سب کو ایک ہی کالم میں سمیٹ لوں-سب سے پہلے ہمارے سماج میں وہی تیزی سے بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی کہانی کا تذکرہ-ابھی کچھ دیر قبل کراچی سے کامریڈ نغمہ اقتدار کا فون آیا کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی موجودہ ڈائریکٹر پروین الرحمان کو نامعلوم دھشت گردوں نے گولیاں مارکر شہید کردیا-پروین ایک مشفق ماں تھیں جنہوں نے اس معاشرے کے کمزور طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے کا کام گذشتہ 25 سالوں سے شروع کررکھا تھا-اور میں نے ان کو خلق خدا کے دکھ درد بانٹنے میں ہمیشہ سب سے آگے پایا تھا-بہت زیادہ مہربان اور نرم دل خاتون تھیں-نجانے کون لوگ تھے جو اس پاک روح کا خون بہانے کو بے تاب تھے-کراچی ہو یا کوئٹہ دھشت گردوں کو کسی اخلاق اور کسی روائت کا پاس نہیں ہے-بس اندھا دھند خون کی ھولی کھیلنے سے غرض ہے-پروین الرحمان ان خواتین میں شامل تھیں جو پاکستان میں امن اور آشتی کی بہت بڑی علمبردار تھیں-امن کی ایک اور آواز کو خاموش کردیا گیا-یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب پاکستان میں امن پسند حلقے لاہور میں بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی کو نذر آتش کیے جانے اور وہاں پر لوٹ مار کرنے پر سراپا احتجاج ہیں-یہ واقعہ اب جیسے جیسے حقائق سامنے آرہے ہیں اس لیے پیش آیا کہ جہاں یہ کالونی واقع ہے اس کے ساتھ ہی لوہا مارکیٹ ہے-اور اس کالونی کے ساتھ ہی ایک اور کرسچن کالونی ہے ان دونوں کالونیوں کی زمین پر لوہا مارکیٹ کے ایک مافیا کی نظر ہے-وہ اس مارکیٹ کو توسیع دینے کی کافی عرصے سے کوشش کررہا ہے-اب کہا جارہا ہے کہ اسی قبضہ کے لیے یہ سارا کام کیا گیا-اس میں پولیس اور ایک ایم این اے کے کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے-وہ پولیس جو جوزف کالونی کے مکینوں کے لٹنے اور ان کے مکانات کے جلنے کا تماشہ دیکھتی رہی اور کچھ نہ کرسکی لیکن اس نے احتجاج کرنے والے کرسچنز کے خلاف لاٹھی اور آنسو گیس و ہوائی فائرنگ کا خوب استعمال کیا-اس واقعہ کے رونما ہونے پر ایک مرتبہ پھر یہ سوال سامنے آیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کرسچنز آبادیوں پر حملے،چرچ جلائے جانے اور انجیل مقدس کی بے حرمتی کے واقعات مسلم لیگ نواز کی حکومت کے دوران ہی کیوں رونماء ہوتے ہیں؟سپریم کورٹ نے بھی اس حوالے سے بہت اہم سوالات پنجاب حکومت سے پوچھے ہیں-کہ گوجرہ میں کرسچن آبادی پر حملے اور کرسچنز کو زندہ جلائے جانے کے واقعات کی انکوائری کے لیے جو جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا اس کی رپورٹ کو اب تک پلک کے سامنے کیوں نہیں لایا گیا-اور اس رپورٹ میں جن لوگوں کو زمہ دار کہا گیا تھا ان کے خلاف کاروائی کیا کی گئی؟یہ بہت اہم سوالات ہیں جن کا جواب ملنا ضروری ہے-سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے اس کے احکامات پر عمل نہیں کیا-یہ ریمارکس اس لیے بھی فکر کا سبب ہیں کہ مسلم لیگ نواز کی قیادت وفاق پر یہ تنقید کرتی آئی ہے کہ وہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کرتی-اور سپریم کورٹ کے ریمارکس سے لگتا ہے کہ پنجاب حکومت کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے-سیاسی مصلحتوں کا شکار حکمران طبقات اس ملک میں قبضہ گروپوں اور مافیاز کے خلاف کاروائی کرنے سے گریزاں ہیں-اور یہ مافیا اس ملک میں اقلیتوں کی جان و مال سے کھیلنے کے لیے مذھب کا منفی استعمال کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہے-یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں ذاتی جھگڑوں کو مذھبی تنازعہ کا رنگ دیا گیا ہے-اس طرح کے واقعات پنجاب میں کرسچن،احمدی ،ہندؤ برادریوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ خود مسلمان برادری کے لوگوں کے ساتھ بھی رونما ہورہے ہیں-اگر غور سے دیکھا جائے تو ان واقعات کا کوئی تعلق توھین مذھب سے نہیں ہے-نہ ہی پاکستان میں توھین مذھب کا کوئی ایشو موجود ہے-ذاتی مفادات کے لیے ایسے جھوٹے اور من گھڑت قصے اور کہانیاں بنائی جاتی ہیں اور فساد پھیلایا جاتا ہے-میں یہاں پر ایک اور ایشو کا زکر بھی کرنا مناسب خیال کرتا ہوں-اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس مرتبہ مذھبی اور نسلی بنیادوں پن جبر کا نشانہ بننے والی برادریوں کے الگ الگ احتجاج اور دھرنے دیکھنے کو مل رہے ہیں-اور ان احتجاج کے دوران ان کمیونٹیز پر دائیں بازو کی ایسی قوتوں کا غلبہ دیکھنے کو مل رہا ہے جو مظلوم برادری کے احتجاج کو آئسولیشن،تنہائی اور بے گانگی کے اندر رکھنا چاہتے ہیں اور اس کو تھیوکرٹیک شکل میں آگے لیجانے کی شدید خواہش کے حامل ہیں-یہ قوتیں اس جبر اور ظلم کے خلاف احتجاج کو ایک مشترکہ احتجاج بنانے سے روکنے کی کوشش میں بھی ملوث ہیں-لگتا ہے کہ وہ اس طرح سے اپنی سیاست اور اپنی لیڈرشپ کو باقی رکھنے کی کوشش کررہے ہیں-مجھے لاہور،ملتان،کراچی اور خانیوال میں اس کا شدت سے احساس ہوا-کہ ہم نے جب کوئٹہ اور کراچی کے واقعات پر احتجاج منظم کیا تو اس میں زیادہ تر شیعہ ہی شریک ہوئے-اور بادامی باغ والے واقعہ پر ہماری کوشش کے باوجود ریلیوں کو مذھبی ریلیوں کی شکل دے دی گئی-اور ایسی فضاء سامنے آئی کہ دائیں بازو کی سخت گیر قیادت نے اس کو تمام کمیونٹیز کا احتجاج بننے سے روک دیا-میں پاکستان کے اندر مذھبی اکثریت اور مذھبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ دائیں طرف جھکتا اور انتہاء پسندوں کی طرف مائل ہوتا دیکھ رہا ہوں-اقلیتوں کے اندر بھی ترقی پسند،معتدل بیانیہ کمزور پڑ رہا ہے-یہ خطرے کی علامت ہے-اس کے تدارک کی کوشش بہت ضروری ہے-اس سلسلے میں اقلیت اور اکثریت سے تعلق رکھنے والے معتدل حلقوں کو ایسے احتجاجوں میں باقاعدہ اعتدال پسند ایجنڈے کے ساتھ شرکت کرنے کی ضرورت ہے اور دائیں بازو کے فرقہ پرست بیانیوں کے استرداد کی بھی ضرورت ہے-اگر پاکستان میں مذھبی بنیادوں پر نسلی اور مذھبی جبر کے خلاف جدوجہد کے نام پر سیاسی پاور جیتنے کی دوڑ شروع ہوگئی اور مذھبی بنیادوں پر لوگ سیاسی گروہ بندی کا شکار ہوگئے تو پاکستان کے اندر لبنان،،عراق اور شام جیسی صورت حال پیدا ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا-ابھی تک یہ رجحان کمزور ہے مگر جلد ہی یہ طاقت پکڑ سکتا ہے-ہمیں اس کے خلاف ایک مشترکہ محاذ بنانے کی ضرورت ہے-اور یہ محاذ پاکستان میں ترقی پسند قوتیں ہی بنا سکتی ہیں-ایسی ہی ایک امید افزاء شکل ہمیں ایوان اقبال کے ہال میں 2800 ایسے نوجوان مرد اور عورتوں کے اجتماع کی شکل میں نظر آئی جو طبقاتی جدوجہد کی سالانہ کانگریس کے موقعہ پر ہوا-جس میں شریک نوجوانوں نے یہ عہد کیا کہ وہ رنگ،نسل،جنس،زات پات،فرقہ اور زبان کی بنیاد پر تقسیم اور لڑانے کے ایجنڈے کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے-اور پاکستان کے محنت کشوں کو ایک انقلابی رجحان کے جھنڈے تلے متحد کرنے کے لیے جو ہوسکا وہ کریں گے-پاکستان میں یہ اکٹھ بہت حوصلہ افزاء ہے-اسی دوران تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن میں ورکرز گروپ کی جیت نے بھی سیاست میں ایک روشنی کی شمع کو فروزاں کیا ہے-میں نےعورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے خانیوال میں لانڈھی جیسی کچی آبادی میں ورکنگ خواتین کے ایک اجتماع میں شرکت کی اور اس موقعہ پر وہاں سسٹرز اور جے پی سی کے شاہ زمان نے جن خیالات کا اظہار کیا اور لانڈھی کی خواتین نے جن رجحانات کی عکاسی کی اس سے بھی مجھے کافی حوصلہ ملا ہے کہ ہمارے سماج میں جہاں تاریکی اور جہالت کی آندھیاں چل رہی ہیں وہیں ان کے مقابلے میں باد صبا بھی چلتی نظر آتی ہیں-یہ شرار بولہبی سے چراغ مصطفوی کی ستیزہ کاری کا سماں ہے-اور مجھے امید ہے کہ باد صبا صرصر کو ختم کرنے میں بہت جلد کامیاب ہوگی-اندیشہ ہائے دور دراز اپنی جگہ مگر رجائیت کا دامن بھی ہاتھ سے ترک کرنا مناسب نہیں ہوگا-امن پسندوں کا کام فساد اور انتشار پھیلانے والوں کے مقابلے میں ہمیشہ سے سخت صبر آزماء ہوا کرتا ہے-اور اس یے لیے جان کا نذرانہ تو بہت معمولی بات ہوا کرتی ہے-میں یہاں امام حسین کی مثال دوں گا کہ کیسے انہوں نے حرم پاک کو خون ریزی سے بچانے کے لیے مدینہ و مکہ سے ہجرت کرلی تھی-اور کیسے امام حسن نے اپنے حق سے دستبرداری کی تھی-امن کے لیے اور آشتی کے لیے انسان کو اپنوں کے خون بھی معاف کرنے پڑتے ہیں-حضرت محمد علیہ الصلواۃ والتسلیم نے اپنے چچا حمزہ کا خون معاف کرڈالا تھا-دور جدید میں نیلسن منڈیلا کی مثال سب کے سامنے ہے-تو امن اور محبت کی جدوجہد کے لیے کینہ اور بغض سے نجات بہت ضروری ہے-اور صبر سے رول ماڈل بننے کی ضرورت ہے-ایسے لوگوں کی کمی آج بجا طور پر محسوس ہوتی ہے-لیکن اس سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے-
Comments
Latest Comments
akchishti @akchishti
Police Chief & CID Chief told me Parveen Rehman Baji killed by TTP / Mehsuds from Mainwali Coloney in Orangi – she was threatened by them!
Mighty @mightyobvious
Qari Bilal, named as a suspect in Parveen Rahman’s murder, “arrested, then killed” in an “encounter”. via @khalidkhan787 & @khalid_pk
once again deobandi militants involved in it
aswj threats marvi sarmad
M Ahmad Ludhyanvi @MAhmadLudhyanvi
@CMShehbaz میاں شہباز شریف پانچ سال وزیزر اعلیٰ ہماری وجہ سے رہے۔ ہم نے حمایت نہ کی ہوتی تو بڑے میاں کی طرح پانچ سال ایوان سے باہر رہتے۔
Marvi Sirmed @marvisirmed
Dear @CMShehbaz sir this tweet by @MAhmadLudhyanvi https://twitter.com/MAhmadLudhyanvi/status/312099480226918401 … needs your attention. Waiting 4 your denial & legal notice to him
aswj threats marvi sarmed
Sheikh Nadeem @ShkhNadeem
@aswjpakistan @cmshehbaz @mahmadludhyanvi @marvisirmed bb bolti band.
Ahlesunnat Wal Jamat @ASWJPakistan
@marvisirmed Bibi Tu Khamosh Beth Behtar Rahay Ga @cmshehbaz @mahmadludhyanvi