Valentines day, Mullahs and the Liberals / ویلنٹائن ڈے ، ملا، اور لبرل

529079_4915231031019_1803382991_n

بہت سارے لبرل پاکستان میں ایسے بیانات دے رہے ہیں جس کو انگریزی میں محاورہ “جھاڑی کے ارد گرد لاٹھی مارنا” ہی بیان کرسکتا ہے. جب سے مولوی حضرات نے کہا کہ ہم ویلنٹائن ڈ ے نا منائیں ، لبرل بیانات دے رہے ہیں “کیا ہو گیا اگر میں نے اپنے شوہر کو پھول دے دیے.” یا “کیا ہو گیا اگر میں نے اپنے بچوں کو توہفے دیے .”

مولوی کو اپ کے شوہر سے تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں. یہ بات اپ کو بھی پتا ہے. وقت آ گیا ہے کہ کچھ لوگ وہ بات کریں جو آج سے بہت سال پہلے مغرب کے معاشرے میں ہوئی. مولوی کو نوجوان لوگوں کی دوستی اور تعلقات پر اعتراض ہے.

نوجوان لوگوں کا اپس میں رشتہ یا دوستی کرنا دراصل ایک قدرتی عمل ہے.یہ ایک صحت مند زندگی گزا رنے کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ جاب کا ہونا.

تعلقات روزآنہ کی دوسری ضروریات کی طرح ضروری ہیں. لوگوں کو ایک دوسرے کی ذہنی اور جسمانی طور پر ضرورت ہوتی ہے . وہی معاشرے ترقی یافتہ ہیں جنہوں نے انسان کی ضروریات کو پہلے رکھا ہے. ہمارے نوجوان لوگ بہت سارا وقت اپنے اپ سے لڑنے اور قدرت سے لڑنے اور اپنے اپ کو شرمسار کرنے اور دوسروں کو شرمسار کرنے میں گزار دیتے ہیں. اگر اپ کو میری بات کی سمجھ نہیں ا رہی تو میں اپ کو الزام نہیں دیتی، مجھے بھی اس بات کی سمجھ امریکا میں بہت سال رہ کر آئی ہے. مجھے آج بھی یاد ہے میں کیسے سمجھا کرتی تھی کہ یہاں کی غیر شادی شدہ عورتیں بری عورتیں ہیں اور یہ کہ وہ استعمال ہوتی ہیں .

آخر سمجھ آئ وہ برابر کی انسان ہیں. استعمال نہیں ہوتیں ، استعمال کرتی بھی ہیں.

کہنا یہ ہے کہ جو لوگ اپ کو شرمسار کرتے ہیں وہ بےچارے نہ پڑہے لکھے ہیں، نہ کبھی کسی اور کلچر میں رہے، ان کو خود بھی نہیں پتا کہ شرم کس بات میں ہونی چاہیے. سب سے بڑی بات کہ وہ کوئی اخلاقی طور پر بہتر نہیں. ان میں سے بہت سارے لوگوں کی کہانیاں ایسی ہیں کہ آپ حیران رہ جائیں.

اور عورتوں کو پیچھے رکھنے، گھروں میں قید کرنے ، برقع کروانے، کبھی اسکول نہ بھیجنے کی بھی یہ ہی وجہ ہے کہ مرد ان پر کنٹرول چاہتے ہیں. اپنی بہن بیٹی پر کنٹرول.

یہ ہے خوف کہ کسی کے ساتھ مرضی نہ کرے .

اگر عورت اپنے فیصلے خود کرے تو اس کو گھر میں رکھنے، یا قید کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی. مغرب میں ایسا ہی ہے. عورت کے فیصلےصہی ہوں یا غلط اس کے اپنے ہیں اور یہ ایسی آزادی ہے جو یہاں کی عورت کسی صورت ترک کرنے کو تیار نہیں

This Valentines day, a lot of Pakistani liberals are doing on social media what is called “beating around the bush”.

On Mullah’s criticism on Valentines day, liberals are making statements, such as “What is wrong with giving my husband flowers?” or “What is wrong if I give my children presents?”

They are not talking about your husbands or kids. You have a piece of paper (marriage certificate) with your husband, and remember, as long as the state allows you, it is okay to love.

Mullahs and conservatives don’t want young people to love, have sex and celebrate Valentines day. Frankly, after living in the USA for fourteen years, and after practicing medicine here for ten, that sounds insane to me now.

But I remember very clearly when I used to look at these western women as bad women. When I thought they were being “used”.

People have to start saying it now and have to accept what the west has already accepted. Having romantic relationships for young people is just a part of their healthy lives, just like having good jobs and eating everyday is.

Young people need the opposite or same sex people to meet their emotional and physical needs. It is best to allow young people to date each other. All studies have shown that societies that let their youngsters date freely are more successful and developed societies. Our young minds spend so much time on controlling and fighting with their natural desires and needs that it affects their productivity.

Most people who preach against love are illiterate people who have not lived among other cultures and have not seen better. They are also not morally superior because many of them are child molesters, perverts, or rapists.

Do not let them tell you what morality is. Also, the sole reason for female oppression of all kinds in Indo-Pak is a desire to control their bodies. Once women are given control of their own bodies, there really is no reason left to keep them in the houses, veiled, or oppressed.

screen-shot-2013-01-31-at-9-12-14-pm

جنید جمشید کا پاگل پن

مجھے تو سواے ترس کے جنید جمشید پر کچھ بھی نہیں آتا. نہ ہی غصّہ آتا ہے اور نہ ہی امپریس ہوتی ہوں. جس نے بھی جنید جمشید کا انٹرویو دیکھا، اس کو ایک ایسے ذھن میں جھانکنے کا موقع ملا جس کو سوچنے سے روک دیا گیا ہے. اپنے انٹرویو میں ہی جنید جمشید نے بتایا کہ اس کے دوستوں نے اس کو اس طرھا کا بنایا ہے. اچھا بھلا آدمی تھا. وہ اس کو کوئی بات مذہب کا نام لے کر بتا دیتے ہیں اور پہلے سے ہے پاگل آدمی اور بھی پاگلوں جیسی باتیں کرتا ہے.

پاکستان کوئی سعودی عرب نہیں. ہماری عورتیں باہر نکلتی ہیں، ڈرائیو کرتی ہیں اور جابز کرتی ہیں. جنید جمشید نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اس کو اپنی بیوی پر اعتبار نہیں تھا، کیوں کہ وہ بوہت خوبصورت تھی. اس لیے جنید نے اسے گھر سے کم نکلنے دیا اور اسے ڈرائیونگ نہیں سکھائی . تاکہ وہ گھر سے خود نہ نکل سکے. جنید بھا ئی ، اپ اپنے اپ کو کم عقل ٹھیک ہی بلاتے ہیں.
جس عورت نے اپ کا انٹرویو کیا، وہ بھی گھر سے نکلی اور شاید ڈرائیو کر کے ہی آئ .
شادی ڈرائیونگ کرنے سے ناکام نہیں ہوتی. بیوی کو اپنا بنانے کے لیے اس کو
خوش رکھنا ہوتا ہے. آدمی کی طرح اگر عورت بھی خوش ہو اور ازدواجی زندگی سے مطمئن ہو، پھر ہی وہ بھی اپ کی بن کر رہتی ہے. ورنہ جیل میں رکھنے سے مسلے حل نہیں ہوتے. جیل میں رہنے والے لوگ موقع پا کر بھاگ جاتے ہیں.
اور یہ بھی یاد رکھیں کے ہم سارے اپنے بچوں کو ہینگر سے نہیں ما ڑ تے. اس لئے نہیں کہ ویسٹ نے کہا ہے بلکہ اس لئے کہ بچہ کمزور ہے اور اپنا دفع نہیں کر سکتا. ماڑنے سے بچے ڈھیٹ اور باغی ہو جاتے ہیں اور ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے. ماڑنے سے بچہ زیادہ زہین نہیں ہوتا. جھوٹ بولنا سیکھ لیتا ہے.

Junaid Jamshaid: A sick mind

I did not find it inspiring and I did not find it offensive; I just found JJ’s interview very sad. How can an adult human have such an inability to think clearly? And JJ actually answered that question for us. It’s his friends. Somehow, he became a part of a crowd that does not allow him to think. They tell him things in the name of religion and he just follows, and uses his fame to “spread” that message.

Pakistan is not Saudi Arabia; Pakistan is a country where women get out of their houses and go to offices. Pakistan is a country where women drive. When JJ said on national Tv that he does not let his wife get out of the house and doesn’t let her drive because he doesn’t trust her due to his own insecurities, that gave us a look in to a very sick mind. Did he know that the woman sitting and interviewing him was also actually talking to a Na-Mehram? And he was insulting that very woman with his statements?

I just feel sad for his wife who married a rockstar and ended up spending her life with a very insecure and almost an ill man. JJ also admitted that he is Kam-Aqal, means stupid. And this is exactly what he is. Then he looked in the eye of the Camera and advised rest of the Pakistani men-in a firm voice- to not let their wives drive or go out of their houses freely, so that they won’t be tempted.

And interestingly, when the interviewer asked questions about “those women fans”, he requested for privacy in that matter. Seems like JJ bhai has done Toba.

Idea of caging another human and controlling another human physically just so that human would not cheat on you is insane JJ bhai. But only if that insane idea worked, it would be worth it for some. Just like men, women too only stay faithful if they are in happy marriages. If they love their husbands. If they are satisfied with their lives. Otherwise, just like men, they too find a way to look for happiness.

If you can not trust your spouse, you probably should leave your spouse. More importantly, your spouse should leave you. No one should suffer because of your mental problems. Let me tell you JJ bhai, my driving ability is the least likely factor to affect my relationship with my husband; other things in marriage are more important.

Watching JJ’s interview was nothing but very sad. Also, in the civilized world, we don’t beat our children with hangers. It is not a “western idea” to not beat your children. It is just humane. Children are physically weaker and can’t defend themselves, and beating them creates mental problems for them, and does not increase their IQ even one point. Abused kids also become insecure and angry and they learn to lie. Probably JJ should see a psychologist to find a connection between his current insecurities and childhood beatings.

ایدھی ہوم یا ایدھی جیل

پچھلے سال میں جب پاکستان گئی تو میں نے بلقیس ایدھی سینٹر جانے کا فیصلہ کیا . مرے پاس کچھ چیزیں تھیں جو میں ان کو دینا چاہتی تھی . بہت سارے کپڑے اور جوتے. ان کی عیمارت تو بہت خوبصورت اور بڑی تھی. باہر گارڈ بھی تھا اور بہت سرے آفسز. مجھے انھوں نے چیزیں ایک کمرے میں رکھنے کے لئے کہا . اس کمرے میں پہلے ہی بوہت سارے کپڑے اور سامان تھا. میں نے کہا مجھے ٹور تو کروا دیں. ایک خاتون مجھے اندر لے گئیں . اندر جانے کے لئے ان کی تالا کھولنا پڑا . اندر ایک بوہت بڑا برآمدا تھا اور صحن بھی. صحن کے ارد گرد بوہت سارے کمرے تھے. کچھ سونے کے کمرے، ایک کمرہ اسکول کے لئے . ایک مسجد، ایک کچن اور کھیلنے کا کمرہ. کچن میں لڑکیاں مل جل کر کام کر رہی تھیں . میں نے ان سے پوچھا کہ کیا لڑکیاں باہر جاتی ہیں ?خاتوں کہنے لگیں کہ ہم بڑ ی لڑکیوں کو باہر لے کر نہیں جاتے. کہیں وہ بھاگ نہ جائیں. ایک دفع جو لڑکی اندر آتی ہے وہ اندر ہی رہتی ہے جب تک اس کے وارث آ کر اس کو نہ لے جائیں. بیس سال کی لڑکی جس نے دروازہ کھولا تھا، اس نے مجھے بتایا کے وہ اس چار دیواری سے دو سال سے نہیں نکلی. اس کی آنکھوں میں یہ کہتے ہویے آنسو آ گیے . مجھے ایک دم سمجھ آ گئی کہ یہ ایدھی ہوم نہیں بلکہ ایدھی جیل ہے. لڑکیاں باہر والے گیٹ تک بھی نہیں جا سکتیں. مجھے معلو م ہے کہ ھم ایدھی صاحب پر تنقید کرنا کتنا بڑا گناہ سمجھتے ہیں مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ اگر ایدھی صاحب نے ذمے داری لی ہے تو پوری بھی صح طر ہ سے کریں. اگر لڑکیاں لاوارث ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو جیل میں ڈال دیں. اگر لڑکیوں کو اپنی مرضی سے آنے جانے کی آزادی ہو گی تو وہ بھاگیں گی کیوں. کیا ایدھی صاحب لڑکون کا یتیم خا نہ بھی ایسے ہے چلاتے ہیں. ہم سب کو ہی ایدھی صاحب سے بوہت محبت ہے اور ہم ان کی بہت عزت کرتے ہیں مگر ان کو چاہیے کے لڑکیوں کے با ہر جانے کا انتظام کریں. ایک ٹیچر ہو جو ساری لڑکیوں کو ہفتے میں تین چار دفہ باہر لے کر جاے. بڑی لڑکیاں چھوٹی لڑکیوں کو ساتھ لے کر بازار جا سکیں. اگر کوئی لڑکی بھاگ بھی جاتی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کے باقی لڑکیوں کو جیل میں دال دیا جا ے . آزادی بہت ہی بڑ ی چیز ہے. لڑکیوں کو بھی لڑکون کی طرح ہی کھلی ہوا پسند ہوتی ہے. وہ بھی باھر گھومنا پھرنا چاہتی ہیں. ان کو بھی عا م اسکول میں بھیجا جا ے . انکو با ہر جاب بھی کرنے دیں. لاوارث لڑکیاں عام لڑکیوں سے بیوقوف نہیں کہ کوئی زیادہ ہی بیوقوفی کے کام کریں گی. لڑکے بھی سڑکوں پر زیادتی کا شکار ہوتے ہیں . اس بات کو بہانہ بنا کر اپ ان کو قید تو نہیں کر دیتے.

My visit to an Edhi jail

Last year when I visited Pakistan, I visited one of the Balquis Edhi centers located in Lahore. I had a few things to give away to charity, and what other charity could be better than Edhi charity? People trust them, love them, and donate a lot to them.

It started out as a great visit. The building was beautiful; new, huge, sparkling clean, and had an armed guard sitting at the door. I requested for the tour of the facility. Tour began at a locked door which was locked from outside. The woman who decided to give me a tour opened the lock and a twenty year old girl welcomed us inside.

There was a huge compound inside the locked door; a big open playground in the middle and several rooms around that playground. There was a prayer room, a kitchen, a small school, and several bedrooms. I met a lot of little girls there, all those unfortunate ones who had to leave home and live there with each other. They seemed very friendly with each other. The girl who gave us the tour was the oldest. I was very happy to see all this.

Right before I left, I asked the woman if girls went out sometimes. She said, “We take younger girls out sometimes but the ones twelve or older stay inside once they join us.” I was told that once a girl comes in, she does not leave those four walls of the compound until her family comes and gets her. The twenty year old teenager who gave us the tour told me that she joined the compound two years ago and had not left those four walls since. When she said that she had tears in her eyes. They can not even go to the main door to the guard or to the offices. That shocked me and broke my heart. It was not an Edhi home at all, it was an Edhi jail. Those girls were in prison with out committing a crime. I spoke with several Pakistanis on that issue after that, a typical Pakistani’s opinion is that this is the right way to do it, “Those girls are safer that way. If they got out, they can get pregnant.” This type of mentality is shocking. Imagine if all girls’ hostels were like jails just because if girls got out, they might get pregnant? Imagine the purposeless life of an adult twenty year old girl with all those little girls, every single day for two years, and God knows for how long more?

I know people don’t like to hear criticism on Edhi Sahib, but I have to say it; if he has taken a responsibility, he must fulfill it properly. Those girls must be given freedom: they must be sent to regular schools, they should be taken out at least three times a week for shopping or outing. It is a crime to jail young girls. Interestingly, the woman who showed me the facility said, ” well, we are afraid they would run away if we took them out.” Now that itself has an answer in it, of course they would run away given an opportunity to run away from that jail. Women are humans just like men. They like open air and freedom to walk on an open road just as much. I wonder how a boys’ orphanage is run by Edhi Sahib? Can boys go out in form of groups? If these girls were allowed to go out in form of groups, why would they run away? And if a couple of them ran away, should that make you jail rest of them? Would you care so much if a boy ran away from an orphanage? Boys are molested and abused a lot more than girls in Pakistan. But I guess their honor is not in their private parts. You don’t make a boy’s potential molestation an excuse to jail him, why do it to a girl?

کیا پاکستان میں عورت کی عزت کی جاتی ہے‎

کچھ دن پہلے میں یو ٹیوب پر ویڈیو دیکھ رہی تھی اور مجھے پنجاب اسمبلی کا ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا . ویڈیو میں اسمبلی کے اراکین بجٹ پر بحث کر رہے تھے کہ اپس میں جھگڑا شرو ہو گیا. چودہرے علاؤ دین جو کے مسلم لیگی نوں کے ممبر ہیں ایک دم بوھت طش میں آ گیے. کسی خاتون رکن کے ساتھ الجھ گیے. خاتون ان کی ساتھی قانون ساز تھیں. کہنے لگے ” میں جانتا ہوں تم کہاں سے آئی ہو. تم موت کے کنویں میں ناچنے والی عورتیں ہو. مجھے پتا ہے تم لوگوں کی اصلیت کیا ہے” چودہری صاحب نے اور بھی بڑی بڑی باتیں کیں اور کہا کے وہ سب جانتے ہیں کون کیا کرتی ہے. چودھرے صاحب کے ساتھ بیٹھےداڑھی والے صاحب، عورتوں کی اس “اصلیت کے انکشاف” پر اپنی خوشی کو کابو میں نا لا سکے اور زور زور سے تالی بجانے لگے. چودھرے صاحب کی بات سے مجھے وہ جرنلسٹ بھائی یاد آیے جن سے ایک دفع میری بحث ہو گئ. میں نے کہیں لکھ دیا کے امریکا میں عورتوں کی بڑی عزت کرتے ہیں. انکو اتنا غصہ آیا کے مجھے نا سمجھ کہا اور کہنے لگے کےہمارے ملک میں عورت کی بوھت عزت ہے . خاص طور پر جیسے جیسے عورت کی عمر زیادہ ہوتی ہے ، اس کی عزت بھی بڑھتی جاتی ہے. ہم تو اپنی ماں بہن کی بوھت ہی عزت کرتے ہیں. این گوروں کو کیا پتا عزت کیا ہوتی ہے. میں نے کہا، “بھائی آپ تو اپنی ماں بہن کی بوھت عزت کرتے ہیں مگر وہ گلی کے کونے میں کھڑا لڑکا ان کو چھیڑتا ہے .” اور بلکل یہی ہی بات ہے. پاکستان میں رشتوں کی عزت کی جاتی ہے مگر عورت کی کوئی عزت نہیں کی جاتی. اصل بات یہی ہے کے بوھت سارے پاکستانیوں کو یہ پتا نہیں کے عورت کی عزت کرنے کا کیا مطلب ہے. اب آپ چودہرے علاؤ دین کی ہے مثال لے لیں. بات صرف یہی نہیں کے انہوں نے اسمبلی کی عورتوں کی بے عزتی کرنے کی کوشش کی، بات یہ ہے کے جن معاشروں میں عورت کی عزت کرتے ہیں، ان معاشروں میں ڈانس کرنے والی عورتوں کی بھی عزت کی جاتی ہے. عورت اگر ڈانس کرنے والی بھی ہو، تو کوئی چیخ چیخ کر یہ نہیں کہتا، “او ڈانس کرنے والی.” امریکا اور دوسرے یورپی ملکوں میں تو طوائف کو بھی عزت دی جاتی ہے اور اس کے بھی حقوک ہوتے ہیں. پاکستان میں، خاص کر چھوٹے شہروں میں تو کوئی عورت یا لڑکی گھر سےاکیلی باھر جا ہی نہیں سکتی . ہمیشہ بھائی یا باپ کو ساتھ جانا پڑتا ہے. گلی کے لڑکے آوازیں لگاتے ہیں. گلی میں چلنا مشکل کر دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو کوئی بڑا ہی بزدل لڑکا دوپٹہ کیچنے کی کوشش بھی کرتا ہے. عزت تو وہ صرف اپنی ماں بہن کی ہے کرتے ہیں. چاہے سات تہیں بھی پہن لو، برقع پہن لو، چھیڑیں گے ضرور. اور یہاں امریکا میں جو مرضی پہنو، کسی کے مجال نہیں کے آپ کو کچھ کہے. آپ پوری آزادی سے پھر سکتے ہیں . پاکستان میں تو میں یہی سمجھتی تھی کہ یہی زندگی گزارنے کا سہی طریقہ ہے کہ گھر میں رہو یا بھائی کے ساتھ باھر جاؤ. اب یہاں امریکا رہ کر پتا چلا کے عورتیں بھی انسان ہیں اور ان کو بھی سڑکوں پر چلنے کی پوری آزادی کسی خوف خطرے کے بغیر ملنی چاہیے. اور معاشرے کے ساری عورتوں کی عزت ہو. اپ کی بہن کی بھی اور کسی دوسرے کی بہن کی بھی جو کے سڑک پر اکیلے جا رہی ھے. ہر قسم کی عورت کی عزت ہو، ڈاکٹر عورت کی بھی اور مزدور عورت کی بھی. ناچنے والی کی بھی عزت کی جایے اور بنک میں کم کرنے والی کی بھی. آپ عزت پر شرطیں نہیں لگا سکتے. اگر نقاب لو گی تو عزت کریں گے. اگر دوپٹے کے بغر نکلو تو عزت نہ ملے گی. امیر عورت سے دب کے کچھ نا کہیں گے اور مڈل کلاس کی لڑکی پر آواز لگانی ہے. یہ سارے غلط طور طریکے ہیں. یہ بات کے کسی عورت کی بے عزتی کرنی ہو تو اسے ناچنے والی کہو ، یہ بڑی ہی جہالت کی بات ہے. اس لئےکہ آپ یہ کہ رہے ہیں کے ناچنے والی بری ہیں. ناچنے والے لوگ فنکار ہیں اور ان کی عزت اور پیار ہی کرنا چاہیے . اگر انڈیا والے اپنی کترینا کی عزت کرتے ہیں تو ہم اپنی دلدار کی عزت کیوں نہیں کر سکتے. اور ناچنے والے دیکھنے والوں سے برے کیسے ہو گیے ؟ اگر میں آپ کو سو روپے دوں ناچنے کے اور پھر خود اچھی بن جاؤں، تو یہ کہاں کا انصاف ہے. مزے کی بات ہے کے وہی کام پیسے والی اور انگرزی بولنے والی کرے تو اس کی عزت ہے. وہ راک ستارہ ہے. .جیسا کے میں نے کہا، پاکستان میں عورت کی عزت نھی. یا تو رشتوں کی ہے اور یا پھر پیسے کی. افسوس کی بات یہ ہے کے پاکستان مسلم لیگ نوں کی عورتوں نے چودھرے علا ہ و دین کا ساتھ دیا اور ان عورتوں کا نہیں جن کو چودھرے نے ناچنے والی کہا. یہ بھی پاکستان کے کلچر کی بڑی ہی گندی بات ہے کہ زیادہ عورتیں ایک دوسرے کی بے عزتی پرخوش ہوتی ہیں. مگر پھر آخر ایک دن آ ہی جاتا ہے جب کوئی ان کو ناچنے والی یا طوائف کہ کر بلاتا ہے. جب تک پاکستانی عورتیں ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گی. پاکستانی مرد ان کی عزت نہیں کریں گے .

tumblr_mc3htxzagz1re08g8o1_5006

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. Haris
    -
  2. Khurshid Khan
    -