مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو شاید صحیح اندازہ نہیں کہ اس نے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافے کی مخالفت کرکے عوام خصوصاً پنجاب کے عوام کی کتنی مخالفت مول لی ہے، وہ بیچارے بجٹ تقریر کے بعد ہر وقت کیلکولیٹر ہاتھ میں تھامے جمع تفریق کرتے رہتے تھے اور خوش ہوتے تھے کہ تنخواہ میں اتنے اضافے کے بعد ان کے گھر کا بجٹ بہتر ہو جائے گا لیکن قومی اسمبلی میں قائد حزب ِ اختلاف چودھری نثار علی خان کی تقریر نے ان کی سب امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، اگر ایک لمحے کے لئے اس خیال پر یقین بھی کرلیا جائے کہ مرکزی حکومت نے اپنے حریفوں کو زچ کرنے کے لئے تنخواہوں میں اتنے بڑے اضافے کا اعلان کیا ہے جبکہ وہ جانتی ہے کہ صوبوں کو اس کے لئے وسائل ہی مہیا نہیں کئے گئے تو بھی سیاست کا جواب سیاست میں دینا چاہئے تھا مگر چودھری نثار علی خان جو ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، جنہوں نے کبھی اپنی جماعت نہیں بدلی اور جن پر کرپشن کا بھی کوئی الزام نہیں، سیاست کا جواب سیاسی طرز ِ بیان سے نہیں دے سکے بلکہ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں تنخواہوں کے اضافے کی تجویز کو رد کر دیااور وہ بہت زیادہ طیش میں نظر آئے۔ حالانکہ وہ ایک بہترین مقرر بھی ہیں اور مقررتو اپنی خطابت کے زور پر کسی بھی موضوع کو کوئی بھی رنگ دینے پر قادر ہوتا ہے چنانچہ اگر مسلم لیگ (ن) نے تنخواہوں میں اضافے کی مخالفت ہی کرنا تھی تو بھی اس پر غصیلی تقریر کرنے کی بجائے کسی دوسرے طریقے سے حکومت تک اپنا نقطہ ٴ نظر پہنچایاجاسکتاتھا۔ نیز یہ مخالفت اگر تقریر ہی میں کرنا ضروری تھا تو بھی تنخواہوں میں اضافے کے متبادل کوئی ایسی تجاویز بھی پیش کی جاتیں جن سے پریشان حال عوام کو تسلی ہوتی کہ ان کی پسندیدہ جماعت ان کے مسائل سے بے خبر یالاتعلق نہیں ہے!
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کہنے اور کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ مسلم لیگ (ن) کی طاقت پاکستان کا متوسط طبقہ ہے اور اس جماعت کی کامیابی میں اس کے ووٹر وں کا مرکزی کردار رہاہے۔
میں پرامید ہوں کہ میاں صاحب میری ان گزارشات کو اس کی اعلیٰ سپرٹ میں لیتے ہوئے اصلاح احوال کی طرف توجہ دیں گے، میں عوام میں اٹھنے بیٹھنے والا آدمی ہوں اور میں انہیں خبردار کر رہا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کاگراف نیچے آ رہا ہے جس کا ایک ثبوت حالیہ انتخابات میں سامنے آیا ہے کہ عوام نے مسلم لیگ کے ”کھمبوں“ کو ووٹ نہیں دیئے اور اس کے باقی ثبوت عام انتخابات میں سامنے آسکتے ہیں اگر مسلم لیگ (ن) نے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی
مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو شاید صحیح اندازہ نہیں کہ اس نے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافے کی مخالفت کرکے عوام خصوصاً پنجاب کے عوام کی کتنی مخالفت مول لی ہے، وہ بیچارے بجٹ تقریر کے بعد ہر وقت کیلکولیٹر ہاتھ میں تھامے جمع تفریق کرتے رہتے تھے اور خوش ہوتے تھے کہ تنخواہ میں اتنے اضافے کے بعد ان کے گھر کا بجٹ بہتر ہو جائے گا لیکن قومی اسمبلی میں قائد حزب ِ اختلاف چودھری نثار علی خان کی تقریر نے ان کی سب امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، اگر ایک لمحے کے لئے اس خیال پر یقین بھی کرلیا جائے کہ مرکزی حکومت نے اپنے حریفوں کو زچ کرنے کے لئے تنخواہوں میں اتنے بڑے اضافے کا اعلان کیا ہے جبکہ وہ جانتی ہے کہ صوبوں کو اس کے لئے وسائل ہی مہیا نہیں کئے گئے تو بھی سیاست کا جواب سیاست میں دینا چاہئے تھا مگر چودھری نثار علی خان جو ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، جنہوں نے کبھی اپنی جماعت نہیں بدلی اور جن پر کرپشن کا بھی کوئی الزام نہیں، سیاست کا جواب سیاسی طرز ِ بیان سے نہیں دے سکے بلکہ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں تنخواہوں کے اضافے کی تجویز کو رد کر دیااور وہ بہت زیادہ طیش میں نظر آئے۔ حالانکہ وہ ایک بہترین مقرر بھی ہیں اور مقررتو اپنی خطابت کے زور پر کسی بھی موضوع کو کوئی بھی رنگ دینے پر قادر ہوتا ہے چنانچہ اگر مسلم لیگ (ن) نے تنخواہوں میں اضافے کی مخالفت ہی کرنا تھی تو بھی اس پر غصیلی تقریر کرنے کی بجائے کسی دوسرے طریقے سے حکومت تک اپنا نقطہ ٴ نظر پہنچایاجاسکتاتھا۔ نیز یہ مخالفت اگر تقریر ہی میں کرنا ضروری تھا تو بھی تنخواہوں میں اضافے کے متبادل کوئی ایسی تجاویز بھی پیش کی جاتیں جن سے پریشان حال عوام کو تسلی ہوتی کہ ان کی پسندیدہ جماعت ان کے مسائل سے بے خبر یالاتعلق نہیں ہے!
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کہنے اور کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ مسلم لیگ (ن) کی طاقت پاکستان کا متوسط طبقہ ہے اور اس جماعت کی کامیابی میں اس کے ووٹر وں کا مرکزی کردار رہاہے۔
میں پرامید ہوں کہ میاں صاحب میری ان گزارشات کو اس کی اعلیٰ سپرٹ میں لیتے ہوئے اصلاح احوال کی طرف توجہ دیں گے، میں عوام میں اٹھنے بیٹھنے والا آدمی ہوں اور میں انہیں خبردار کر رہا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کاگراف نیچے آ رہا ہے جس کا ایک ثبوت حالیہ انتخابات میں سامنے آیا ہے کہ عوام نے مسلم لیگ کے ”کھمبوں“ کو ووٹ نہیں دیئے اور اس کے باقی ثبوت عام انتخابات میں سامنے آسکتے ہیں اگر مسلم لیگ (ن) نے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی
کیا مسلم لیگ (ن) کو نوشتہ ٴ دیوار نظر نہیں آرہا؟….روزن دیوار سے…عطاالحق قاسمی
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=440625