On Isamization of Pakistan cricket team – by Farhan Qaiser
Former coach of Pakistan cricket team, Intikhab Alam, confessed to having heard that a group of “six to seven” players had gone to former captain Inzamamul Haq’s house before the UAE tour last November where they “took oath on the Quran that they will remain united against (the then skipper) Younis Khan”.The players in their statements denied the allegation with Shoaib Malik claiming that while an oath was taken, the venue was Yousuf’s hotel room and not Inzamam’s house. More significantly, Malik said what the players had vowed for on the occasion was that they will remain united in case a team member was dropped “unjustifiably”. In a most damaging diagnosis that could ever be attempted by a coach of his players, Intikhab Alam said “there is a mental problem with our players. They don’t know how to wear their clothes and how to talk in a civilised manner”. (Dawn)
One of our regular visitor Farhan Qaiser has thus analysed this mix up of cricket and Islam
کرکٹ ،کپتانی اور اسلامی نظام
کاشف :تمہارا کیا خیال ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان کیسے ہونا چاہیے ؟
زاہد :میرا خیال ہے محمد یوسف کو ہٹ جانا چا ہیے اور شعیب ملک ،یونس خان یا کسی اور کا کپتان ہونا چاہیے .
کاشف: پر یار میرا خیال ہے محمد یوسف کو ہونا چاہیے
زاہد : وہ کیوں ؟
کاشف :سب سے پہلی بات یہ کے وہ عیسائ مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوا ہے ،دوسری بات یہ کے وہ سب سے اچھا مسلمان ہے ،اس کی شرعی داڑھی بھی ہے ،پانچ وقت کا باجماعت نمازی اور اس کا ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت میں وقت لگانے والا بھی ہے .کیا بات ہے محمّد یوسف کی
زاہد : پر دوست یہ تو کھیل ہے نہ اس میں تو وہ دیکھا جائے گا جو کھیل کے حوالے سےہوگا ،مانا محمد یوسف ایک اچھا مسلمان ہے پر کھیل کے میدان میں تو یہ دیکھا جائے گا کے کون کس قابل ہے کھیل کے حوالے سے ،نہ کے مذہب کے حوالے سے
کاشف :یہی تو مسلہ ہے تم سیکولر لوگوں کا جو مذہب کو اپنے معملات سے الگ کر دیتے ہیں ،اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ ہوتا ہے ،مذہب کو الگ کرنے کی وجہ سے تو ہمیں نقصان ہو رہا ہے
زاہد : بھائی ، اسس کھیل میں اسلام کہاں سے آگیا ،یا تو تم یہ کہو کے کرکٹ میں اسلام کے اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہے اس لیہ نہ کھیلو یا اگر کھیلنا ٹھیک ہے تو اس کے اصول اور میرٹ پر کھیلو ،کیا اسلام نے کھیل کا بھی کوئی نظام دیا ہے ؟
کاشف : یہی پروبلم ہے تم سیکولر لوگو کا ہمیں اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنا ہے
زاہد : دیکھو اسلام نے اصول دیه ہیں ،پہلی بات کے یہ کھیل جائز ہے یا نہیں ،اگر جائز ہے تو ہم اس کے اصول کے حساب سے کھیلیں گے ،اس کو ہم غیر اسلامی یا اسلامی کیسے کہ سکتے ہیں ؟ ہاں یہ بات ہے کہ بحیثیت ایک اچھے مسلمان کے ہمیں کھیل میں fair رہنا چاہی یہ اور چیٹنگ نہیں کرنا ہوگی .باقی تم پلیز اسلام کو بیچ میں نالاؤ
کاشف :تم لوگ دین کو ذاتی عمل سمجھتے ہو اور ہم اجتماعی ،اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے .ہر چیز پر اسلام کو نافذ کرنا ہوگا
زاہد :یہ جو کرکٹ ہے وہ بھی تو کافروں سے آیا ہے اور اس کے اصول بھی
کاشف :وہ الگ بات ہے ،اسلام اس کو قبول کرتا ہے
زاہد : اب دیکھو اگر مذہب کی بنیاد پر کرکٹ کے پلیز لئے جائیں گے تو کھل کا تو برا حال ہو جائے گا نہ ،ہاں اگر محمد یوسف اچھی پرفارمنس دے تو اسی کو ہی کپتا ن ہونا چاہے ہے
کاشف : اچھا بھائی تمہارے بات مان لی ،کرکٹ سے اسلام کو الگ کرکے دیکھنا ہوگا ،اب خوش ؟
زاہد :تو یار جب ہم کھلاڑی ،منجرز ،ٹھیکیدار ،دکاندار ،محلہ کمیٹی کے ممبر کو منتخب کرنے میں مذہب نہیں بلکے قابلیت یا اسرو ر سوق دیکھتے ہیں تو پھر ہم سیاست میں اور ملک کے نظام میں مذہب کو کیوں لاتے ہیں ؟ ہاں مذہب کے اصول ضرور ہونے چاہیئے پر پر حکومت کوئی مولوی کرے یہ مذہب نے نہیں کہا ،اور اگر اسلام اجتماعی زیادہ اور انفرادی کم ہے تو جنّت اور دوزخ میں جانے کا فیصلہ بھی اجتماعی ہونا چاہیے ،وہاں تو انفرادی عمل کا جواب دینا ہوگا
کاشف : یہی تو کافروں اور سیکولر لوگوں کی سازش ہے کے وہ مذہب کو ذاتی معملا سمجھتے ہیں ،یہی تو ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے
زاہد :بھائی ،دنیا کی چیزوں کے لیہ جنہوں نہ کام کیا انہوں نے انعام پایا چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ،اور اسلامی عقائد کے مطابق جو دین کے لیہ کرے گا وہ جنّت میں انعام پے گا .تو دنیا کا کام دنیا کے لئے ور دین کا کام آخرت کے لئے
کاشف :دین اور دنیا الگ نہیں ،اسلامی نظام کو نافذ کرنا ہوگا
زاہد :یہ کہاں لکھا ہے ؟ قرآن میں جگہ جگہ ،نماز ،روزہ ،زکات کا ذِکر ہے نظام کا تو نہیں ؟
کاشف : پورا قرآن و سنّت ہی اسلامی نظام ہے
زاہد : اچھا یہ بتاؤ تم جس کمپنی میں کام کرتے ہو وہاں کا نظام اسلامی ہے یا نہیں ؟
کاشف :یہ کیا بات ہوئی ؟
زاہد : کمپنی کا نظام کیوں اسلامی نہیں ؟ اور کیسے اسلامی بن سکتا ہے ؟
کاشف :اسلامی یہ ہوگا کی سب لوگ ایمانداری سے کام کریں ،سچ بولیں اور اور وقت پر نماز پڑھیں
زاہد :پر یہ تو انفرادی عمل ہوا ،نظام کہاں گیا ؟
کاشف :کسی کمپنی کے نظام کو ایسے ہی فو لو کرنا ہوگا جیسا سسٹم ہے
زاہد : تو پھر ملک کا نظام کیسے اسلامی بنانا ہوگا ؟
کاشف : اگر سب ایمان داری سے کام کریں اور اسلام کے اصول کو دل سے مان کر چلیں .
زاہد : پر یہ نظام تو نہیں ہوا نہ ،یہ تو لوگوں کا عمل ہوا اور اچھا حکمران اور اچھی حکومت کے لیہ ضروری تو نہیں کے کوئی مولانا ،مفتی یا کوئی مذہبی جماعت حکومت کرے یہ تو کوئی بھی کر سکتا ہے نا؟
کاشف :اللہ کی حاکمیت ہو نافذ کرنا ہوگا
زاہد : پھر بتاؤ کرکٹ میں اسلامی نظام کو کیسے نافذ کروں ؟
کاشف : تم سیکولر لوگوں کو کبھی نہیں سمجھ ہے گا
زاہد : شاید تمہیں بھی میری بات سمجھ نہیں ہے گی ،اچھا یہ بتاؤ کپتان کس کو ہونا چاہیے ؟؟
کاشف :اچھا پھر بات ہوگی
Very good piece. Love the analogy. Wish there were no Urdu typos though.
<< پچھلا بلاگ | بلاگز 'سیمی فائنل روزے کی حالت میں۔۔۔' اصناف: مزاح, کھیل ہارون رشید | 2010-05-13 ،13:24 قبائلی علاقوں میں موجود ایک پنجابی طالب سے ٹیلیفون پر بات چیت کے دوران اس وقت اچانک حیرت ہوئی جب اس نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے بارے میں دریافت کیا۔ پوچھا کیا وہ بھی کرکٹ میں دلچسپی لیتے ہیں تو ان کا کہنا تھا: 'ہاں بچپن میں مدرسے کے باہر کھلے میدان میں کرکٹ ہی کھیلا کرتے تھے۔ لیکن اب وزیرستان میں ٹی وی تک رسائی تو ممکن نہیں لہذا انٹرنیٹ پر ہی سکور معلوم کرلیتے ہیں۔' اس مختصر گفتگو کے بعد سوچا کہ اگر طالبان بھی پاکستانی کرکٹ میں دلچسپی لیتے ہیں تو ان کے نزدیک اس کھیل کو دیکھنے کا قدرے اسلامی طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ میری یہ مشکل ای میل پر موصول ہوئے ایک 'ضروری اعلان' کو پڑھ کر ہوئی۔ مفتی عاشق حسین کرکٹوی جلالی نامی بظاہر فرضی نام کا یہ اعلان آپ کی خدمت میں حاضر ہے (چند تبدیلیوں کے ساتھ): ''ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی قومی کرکٹ ٹیم قوم کی دعاؤں سے سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے۔ اب سیمی فائنل دیکھتے وقت ان باتوں کا خیال رکھا جائے۔ 1۔ میچ سے ایک گھنٹہ قبل اپنے (لیکن اپنے سے زیادہ اپنے کھلاڑیوں کے) گناہوں کی معافی مانگنا شروع کر دیں۔ 2۔ میچ ہمیشہ باوضو اور مصلے پر بیٹھ کر دیکھیں۔ 3۔ میچ کے دوران کرکٹ کی بجائے دعاؤں میں خشوع و خضوع پیدا کریں۔ 4۔ کیچ گرانے پر فوری طور پر لاحول ولاقوت کا ورد جاری کر دیں۔ 5۔ کمزور دل حضرات میچ سجدے کی حالت میں سنیں۔ 6۔ سیمی فائنل روزے کی حالت میں دیکھیں۔ 7۔ مخالف کی اچھی کارکردگی کو امریکہ (بلیک واٹر) اور شیطان کی مکار چال سمجھیں۔ نوٹ: فائنل میں پہنچ جانے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کی دعائیں قبول ہوئیں اور گناہ معاف ہوئے بلکہ اس کی وجہ سٹے بازی کا مندا کاروبار بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستانی ٹیم کے فائنل میں پہنچنے کی صورت میں قریبی دینی مدرسے کے بیس طلبہ کو دو وقت کا کھنا کھلائیں اور اجتماعی دعا کا اہتمام کریں۔ اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ ہر دعا کرکٹ بورڈ کے شر سے محفوظ رہے۔۔۔ آمین! '' کیا یہ احکامات واقعی طالبان کی طرف سے ہیں، اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اب طالبان یہ چاہتے ہیں کہ کھیلوں کو دینی تناظر میں کھیلنا اور دیکھنا ان کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔۔۔؟ http://www.bbc.co.uk/blogs/urdu/2010/05/post_624.html