From Charter of Democracy to 18th Amendment – by Nazir Leghari
سکہ بند دانشوروں کی پسینے سے شرابور پیشیانیاں….عرض حال…نذیر لغاری
15/ مئی 2006 کو لندن میں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مابین طے پانے والے میثاق جمہوریت میں ججوں کے تقرر کا طریقہ کار اس قدر جامع تھا کہ اگر اسے جوں کا توں 18 ویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنا دیا جاتاتو بہت سے سکہ بند دانشوروں کی پیشانیاں پسینے سے شرابور ہو جاتیں۔ میں نے گزشتہ دو سال کے مباحث میں ان دانشوروں کو میثاق جمہوریت کے درد میں مبتلا پایا اور پھر جب میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کا مرحلہ آیا تو مذکورہ دانشور بیک بینی و دوگوش اپنے پنجوں پر گھوم گئے اور میثاق جمہوریت کے سامنے اپنے من پسند تصورات کی باڑ لگا کر اس کی مخالفت میں کمربستہ ہو گئے۔
میثاق جمہوریت کے آرٹیکل 3 میں اس کمیشن کی بات کی گئی تھی جس کمیشن کی مخالفت میں دانت پیسے جا رہے ہیں، جھاگ بہائی جا رہی ہے اور آنکھیں سرخ کی جا رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کمیشن کے قیام کے آئینی خدوخال سنوارنے کے مرحلے میں میثاق جمہوریت کی فریق جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) میثاق کی شق اے کی ذیلی شق 1 اور دو کو آئین کا حصہ بنانے سے پسپائی اختیار کر گئی۔
آرٹیکل 3 کی شق اے کی ذیلی شق (i) یہ کہتی ہے کہ کمیشن کے چیئرمین ایسے چیف جسٹس ہوں گے جنہوں نے کبھی ماضی میں پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو جبکہ شق (ii) یہ کہتی ہے کہ کمیشن کے ارکان صوبائی ہائی کورٹوں کے ایسے چیف جسٹس صاحبان ہوں گے جو ماضی میں کبھی پی سی او کے حلف یافتہ نہ رہے ہوں، اور اگر ایسے چیف جسٹس موجود نہ ہوئے تو پھر کمیشن میں ایسے سینئر ججوں کو شامل کیا جائے گا جنہوں نے پہلے کبھی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو گا۔
کیا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور میثاق جمہوریت کا مسودہ تیار کرنیوالے رہنما اس امر سے بے خبر تھے کہ میثاق جمہوریت میں آرٹیکل 3 اور اس کی تمام شقوں اور ذیلی شقوں کو وضع کرنے کی اصل غایت کیا تھی۔ وہ سب جانتے تھے کہ وہ ججوں کے تقرر کے معاملے میں کیا کہنا چاہتے ہیں، دراصل انہوں نے شان بے نیازی سے کام لیا اور اب یہ بے نیازی اس حد تک آگے چلی گئی ہے کہ قائد حزب اختلاف ریاست کے سب سے سپریم ادارے کی بے توقیری پر تل گئے ہیں۔ آئین اپنی پہلی شق سے آخری شق تک آئین ہی ہے۔
یہ ریاست کا سپریم لا ہے جسے ریاست کا سپریم ادارہ وجود میں لایا ۔ جنرل ضیاء الحق کے 1985 کے غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ وجود میں آئی اس نے آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کو ایوان صدر کا طفیلی ادارہ بنا دیا اور دوسری جانب ایوان صدر کے وردی پوش مکیں کو حکومت کو برطرف کرنے اور پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا اختیار بھی دیا گیا۔ آج ملک کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی مشترکہ کاوشوں اور نو ماہ کی عرق ریزی سے وجود میں آنیوالی 18ویں ترمیم پراپنی جبین نیاز میں شکنیں ابھارنے والے دانشوروں نے جنرل ضیاء الحق کی 8ویں ترمیم کو صحیفہ ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔
ریاست کے ایک ستون کو پی سی او اور ایل ایف او کا حلف بردار بنانے والے آمروں نے جب دیگر ستونوں ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ کی بنیاد پر 58 (2) بی کا تباہ کن تابکاری مواد رکھا تھا تو آئینی جادو گروں کی اس جادوگری پر تمام مصلحت پسند آئینی دانشوروں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ دنیا کے دیگر ممالک کے دساتیر کی طرح پاکستان کے آئین میں ججوں کے تقرر کیلئے ایک شفاف طریقہ کار وضع کئے جانے میں آخر کون سی ایسی برائی ہے جس پر آئینی بزرجمہر سیخ پا ہو رہے ہیں۔
امریکی آئین کے مطابق امریکی صدر عدالت عظمیٰ میں ججوں کی نامزدگی کرتے ہیں اور پھر سینیٹ اکثریتی ووٹ کے ذریعے صدر کی طرف سے ججوں کی نامزدگی کی توثیق کرتی ہے، جج کے تقرر کیلئے سینیٹ کا مشورہ اور رضا مندی لازمی ہے۔ برطانیہ میں 2005 کے آئینی اصلاحات کے ایکٹ کے مطابق ججوں کا تقرر ایک کمیشن کرتا ہے قبل ازیں ججوں کی تقرری کے معاملات لارڈ چانسلر کا محکمہ کرتا تھا۔ ججوں کے تقرر کے برطانوی کمیشن کی چیئر پرسن ایک کینیا نژاد خاتون ہیں، جن کا خاندان بھارت سے نقل مکانی کر کے کینیا اور پھر برطانیہ آیا تھا ۔یہ خاتون اوشاکماری سپریم کورٹ یا کسی بھی ہائی کورٹ کی جج نہیں ہیں۔
بھارت میں ججوں کا تقرر عدلیہ کے مشورے سے ریاست کی ایگزیکٹو برانچ کرتی ہے اور چیف جسٹس کے تقرر کیلئے صدر مملکت سپریم کورٹ کے دیگر ججوں سے مشورہ کرتا ہے اور اگر صدر ضروری سمجھے تو وہ صوبائی ہائی کورٹوں کے ججوں سے بھی مشورہ کرتا ہے ۔ اگرچہ بھارت میں چیف جسٹس کے تقرر کیلئے سینیارٹی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے مگر کئی بار سینیارٹی کو نظر انداز بھی کیا گیا بالخصوص جب مسٹر جسٹس اے این رائے کو بھارتی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا تو ان سے سینئر تین جج سپریم کورٹ میں موجود تھے تاہم بعد ازاں ایس پی گپتا کیس میں حکومت کو اس امر کا پابند کیا گیا کہ وہ سب سے سینئر جج کو ہی بطور چیف جسٹس نامزد کرے۔
امریکی آئین میں چیف جسٹس کے عہدے کا باقاعدہ ذکر نہیں ہے اور اس کے بارے میں الگ سے کوئی صراحت بھی نہیں کی گئی ہے۔ امریکی آئین کے آرٹیکل 1 کے سیکشن 3 کی شق 6 میں چیف جسٹس کے حوالے سے محض اس قدر ذکر موجود ہے کہ ”جب ریاستہائے متحدہ امریکا کے صدر پر مقدمہ چلے گا تو اس کی سربراہی چیف جسٹس کریں گے۔“ اس آئینی ابہام کے باوجود امریکا میں روز اول سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ موجود ہے تاہم چیف جسٹس اور ایسوسی ایٹ جسٹس کے عہدوں کے درمیان کسی بھی اعتبار سے کوئی ذکر امریکی آئین میں موجود نہیں۔
امریکی سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عمر کے اعتبار سے ایک خاتون جج کے علاوہ دیگر تمام جج صاحبان سے بہت چھوٹے ہیں۔پیالی میں طوفان اٹھانے والے پاکستان کے آئینی بزرجمہر آئینی جادوگر اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ کی آمریت پسند دانش سے استفادہ کرتے ہیں۔ 18 ویں ترمیم نے ملک میں سنجیدہ نوعیت کے غیر آئینی بحرانوں کے آگے بند باندھ دیا ہے اور یہی بات پارلیمانی بالادستی کے جمہوری تصور سے خوفزدہ آئینی دانشوروں کو سمجھ میں نہیں آرہی۔
Source: Jang, 4 May 2010