پاکستان دیوبندی سٹیٹ بننے جارہا ہے جہاں ہرغیر دیوبندی خوف کے ساتھ زندگی گزارے گا: عارف جمال

Arif-jamal-2

Related post: Deobandization of Pakistan: TNS’s interview with Arif Jamal
https://lubpak.com/archives/293991

پاکستان دیوبندی سٹیٹ بننے جارہا ہے،جہاں ہر غیر دیوبندی خوف سے زندگی گزارے ہوگا-عارف جمال

انٹرویو:وقار گیلانی

مترجم:رپورٹر تعمیر پاکستان

مترجم کا نوٹ:جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز انٹرنیشنل کے سنڈے دی نیوز میں وقار گیلانی نے معروف صحاقی عارف جمال کا انٹرویو کیا جوکہ امریکہ میں مقیم ہیں اور شیڈو وار جیسی کتاب کے مصنف ہیں-ان کی لشکر طیبہ پر ایک کتاب آنے والی ہے-وہ پاکستان کی جہاد پراکسی پر ماہر خیال کئے جاتے ہیں-پاکستان کی جہادی اور فرقہ پرست تںطیموں اور گروپوں پر ان کی تحقیق کو عالمی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے-اپنے انٹرویو میں عارف جمال نے اگرچہ بہت واضح طور پر لفظ دیوبندی اور اہل حدیث استعمال کیا ہے-لیکن وہ بھی میڈیا کے اندر پائے جانے والے عام رجحان کے مطابق مسلم معاشروں میں بالعموم اور پاکستانی معاشرے میں بالخصوص ابھرنے والی فرقہ وارانہ دھشت گردی کو سنّیفیکشن کا نام دیتے ہیں-ان کے خیال میں موجودہ فرقہ واریت اور اس میں ریاست کا کردار پاکستان کو ایک سنّی ریاست بنانے کی جانب لے جارہا ہے جبکہ میرے خیال میں ان کا اگلا جملہ خود اس بات کی تردید کرتا ہے کہ پاکستان ایسی ریاست بننے جارہا ہے جہاں غیر دیوبندی اور غیر اہل حديث کا جینا مشکل اور اس کے لیے وہاں خوف کے بغیر رہنا مشکل ہے-عارف اپنے اس انٹرویو میں خود واضح کرتے ہیں کہ دیوبندی اور اہل حدیثوں کے حملے کی زد میں پاکستان کا اکثریتی سنّی مسلک بریلوی بھی ہے تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ پاکستان سنّیفیکشن کی بجائے دیوبندیفیکشن کی طرف جارہا ہے جسے ہم پاکستان کو دیوبندی سٹیٹ بنانے کی کوشش سے تعبیر کرتے ہیں-اسی لیے میں نے دیوبندستان کی اصطلاح استعمال کی ہے-جبکہ عارف جمال نے اپنے اس انٹرویو میں ایک اور تاریخی غلطی کی ہے کہ انہوں نے ملّی یکجہتی کونسل میں صرف دیوبندی سیاسی جماعتوں اور گروپوں کو شامل بتایا جبکہ اس کے پہلے صدر بریلوی عالم مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو جمعیت علمائے پاکستان کے صدر تھے اور ملّی یکجہتی کونسل کو ناکام بنانے میں کردار دیوبندی جماعتوں اور گروپوں کا تھا-

سوال:پاکستانی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو فرقہ واریت کی جڑیں ایرانی انقلاب سے پیدا ہونے والی صورت حال اور افغان جہاد میں پیوست ہیں-یہ اس وقت پیدا ہوئی جب پاکستان میں سپاہ صحابہ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی-کیا فرقہ واریت کا یہ تاریخی تناظر ٹھیک ہے؟

عارف جمال:یہ ٹھیک ہے-اگر ہم تاریخی تناظر میں دیکھیں تو پاکستان میں پرتشدد فرقہ واریت کی فصل اس وقت بوئی گئي جب جنرل ضیاءالحق نے ایک فرقہ کی شریعت کو دوسرے فرقوں کی قیمت پر مسلط کرنا چاہا-شیعہ مسلمانوں نے اس پر سخت ردعمل دیا-انہوں نے اسلام آباد پر عملی طور پر قبضہ کرلیا تھا-کئی دن تک ملک میں کوئی حکومت نہیں تھی-ضیاءالحق کو شیعہ مسلمانوں کے مطالبات کے آگے جھکنا پڑا –لیکن شیعہ مسلمانوں نے احتجاج کا جو طریفہ اپنایا تھا اس سے جنرل ضیاء الحق اور اس کے دیوبندی اتحادی بہت مجروح ہوئے-

اس کے بعد جنرل ضیاء اور اس کی اتحای دیوبندی پارٹیوں نے مسلسل کوشش شروع کردی کہ کسی بھی طرح سے پاکستان کو دیوبندی ریاست میں بدل دیا جائے-گویا یہ ریاست کی دیوبندی نائزیشن کی باقاعدہ منظم کوشش تھی جسے جنرل ضیاءالحق کی پشت پناہی حاصل تھی-اس طرح سے ریاست خود اپنے آپ کو دیوبندی ریاست میں بدلے جانے میں سرگرم ہوگئی اور اس سرگرمی کے نیجے میں پاکستان ایسی ریاست بنتا جارہا ہے جس میں غیر دیوبندی مسلمان اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کا جینا مشکل ہوتا جارہا ہے-اگر ایرانی انقلاب نہ آیا ہوتا تو شاید پاکستان کے شیعہ مسلمان ایسا ردعمل نہ دیتے-تو ایرانی انقلاب کا بس اتنا ہی کردار تھا-پاکستان اصل میں “دیوبندی نائزیشن”کے نام پر دوسرا ویسا ہی ایران بننے جارہا ہے جیسا کہ وہ شیعہ انقلاب کے بعد بنا تھا-مجھے لگتا ہے کہ پاکستان اس سے بھی بدتر بننے جارہا ہے-

پاکستان میں غیر دیوبندی اور غیر اہل حدیث کے لیے خوف کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہوتا جارہا ہے-المیہ یہ ہے کہ یہاں جو اکثریتی مسلک بیلوی ہے اس کو بھی دیوبندیوں اور اہل حدیث کے حملوں کا سامنا ہے-پاکستان کے شیعہ کو ایران کی حمائت وہابی عرب ریاستوں کی جانب سے دیوبندی اور وہابی پارٹیوں اور گروپوں کو ملنے والی حمائت کا نتیجہ ہے-

جب ہم پاکستان پر طالبان کے قبضے کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ اینٹی شیعہ،اینٹی بریلوی اور اینٹی نان مسلم آئیڈیا لوجی کا قبضہ ہوتی ہے جس کو سب دیوبندی اور اہل حیث مانتے ہیں
جب ہم پاکستان پر طالبان کے قبضے کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ اینٹی شیعہ،اینٹی بریلوی اور اینٹی نان مسلم آئیڈیا لوجی کا قبضہ ہوتی ہے جس کو سب دیوبندی اور اہل حیث مانتے ہیں

سوال:لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ پاکستان سے کیسے الگ ہوئی اور کیوں ہوئی؟پاکستانی معاشرے پر اس الگ ہونے نے کیا اثرات مرتب کئے؟

عارف جمال:میں نے کبھی سپاہ صحابہ پاکستان اور لشکر جھنگوی کو الگ خیال نہیں کیا-لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ پاکستان جو اب اہل سنت والجماعت کے نام سے کام کررہی ہے کا مسلح ونگ ہے-1990ء کے درمیان میں ہوا یہ کہ سپاہ صحابہ پاکستان یہ جان چکی تھی کہ اس کی مقبولیت (دیوبندی)لوگوں میں بڑھ رہی ہے-اور یہ جماعت اسلامی پاکستان کی طرح ایک مذھبی سیاسی پارٹی بن سکتی ہے-تاہم اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ دھشت گردی کا لیبل اس کے فوقی سیاسی پارٹی بننے کی راہ میں مزاحم ہوسکتا ہے-دوسرے لفظوں میں لوگ اس کے اینٹی شیعہ اور اینٹی ایران خیالات کو ووٹ دینے کو تیار تھے لیکن وہ اس کی جانب سے اینٹی شیعہ ایجنڈے کو طاقت کے ساتھ نافذ کرنے کی حمائت کرنے کو تیار نہ تھے-یہ وہ مقام تھا جب سپاہ صحابہ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ سیاست میں جائے گی-اور اس کا بازوئے شمشیر زن لشکر جھنکوی اس ایجنڈے کو دھشت گردی کے زریعے سے نافذ کرے گا-لشکر جھنگوی اپنی جگہ پر یہ کھیل مہارت سے کھیل رہا ہے-اور بظاہر الگ ہونے کا ڈرامہ بھی کررہا ہے-یہ مدرپارٹی کو قانون سے بچانے کی حکمت عملی ہے-ہم نے دیکھا کہ کس طرح لشکر جھنگوی کے بانی رہنماء راتوں رات سپاہ صحابہ پاکستان /اہل سنت والجماعت کے مرکزی رہنما بن گئے-اس عمل سے سپاہ صحابہ پاکستان اور لشکر جھنگوی کے درمیان انتہائی قریبی ررشتوں کا پتہ چلتا ہے-یہ بہت کامیاب سٹرٹیجی رہی-اس حکمت عملی کی وجہ سے سپاہ صحابہ پاکستان/اہل سنت والجماعت کو مختلف ناموں سے کام کرنے کا آزادانہ موقعہ میسر آیا-سپاہ صحابہ پاکستان /اہل سنت والجماعت مختلف ناموں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک اہم سیاسی جماعت کا درجہ حاصل کرچکی ہے-یہ قومی و صوبائی اسمبلی کافی نشستیں جیت سکتی ہے اور بہت سے حلقوں میں اس کا ووٹ بینک کسی کی ہار یا جیت کا سبب بن سکتا ہے-اس اہم مقام سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کیوں اس قدر سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتی ہے-

سوال:لشکر جھنگوی کا آج کل کیا کام ہے؟اس کے جو بہت سے دھڑے ہیں وہ کیا ہیں اور ان کے سپاہ صحابہ پاکستان سے کیا تعلقات ہیں؟لشکر جھنگوی اور لشکر جھنگوی العالمی میں کیا فرق ہے؟ملک اسحاق اور اکرم لاہوری جیسے بانی رہنماؤں کا لشکر جھنگوی میں اب کیا مقام ہے؟

عارف جمال:لشکر جھنگوی کے بہت سے دھڑے ہیں-لیکن یہ س دھڑے اپنی مدر پارٹی سپاہ صحابہ کے وفادار ہیں-مختلف دھڑے جو لشکر جھنگوی کے ہیں ان میں کافی سریس اختلافات بھی ہیں مگر انہوں نے کبھی سپاہ صحابہ سے وفاداری نہیں توڑی-ان کے اختلافات زیادہ تر حکمت عملی کے حوالے سے ہیں-اوراختلاف ایک بنیادی یہ ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف دھشت گردی کی شدت کس قدر ہونی چاہئیے-لشکر جھنگوی العالمی لشکر جھنگوی سے زیادہ انتہا پسند اور زیادہ تشدد کی طرف مائل ہے-

سوال :پاکستان کے اندر فرقہ واریت کو انٹرنیشنل فرقہ واریت سے کیسے جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے-کیا اس ربط کو ہم مالیاتی اور لاجسٹک دونوں طرح سے دیکھ سکتے ہیں؟

اسلام کے اندر بھی فرقہ واریت کا وجود اسی طرح سے ہے جیسے دوسرے مذاھب میں ہوا ہے-لیکن جس دھشت گرد فرقہ واریت کو ہم نے پاکستان میں دیکھا اس کی بنیاد افغانستان پائی جاتی ہے-فرقہ پرست اپنے زیادہ تر فنڈ چندہ،زکات عشر وغیرہ سے حاصل کرتے ہیں-گلف اور مغرب میں رہنے والے تارکین وطن بھی ان کو بڑے پیسے بھجواتے ہیں اور یہ زیادہ تر مذھب کے نام پر آتے ہیں-

سوال:1990ء میں تمام فرقوں کے بڑے گروپس نے ملکر ملّی یکجہتی کونسل بنائی تھی-یہ ناکام کیوں ہوئی-کیا اب ایسی کوئی اور کوشش کامیاب ہوسکے گی؟کیا لشکر جھنگوی جیسے گروپ اس میں شامل ہوں گے؟

عارف جمال:میرے خیال میں ملّی یکجہتی کونسل فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے سنجیدگی پر مبنی اقدام نہیں تھا-یہ سنّی پارٹیوں کا اتحاد تھا جو دیوبندی گروپس اور پارٹی کی حمائت کرتا تھا-ان کی کوشش تھی کہ شیعہ دیوبندیوں کے مطالبات مان لیں-سنّی ممبرز(ریوبندی)ہمیشہ سنّی (دیوبندی)لیڈروں کے قتل کی مذمت کرتے اور شیعہ مسلمانوں کا قتل ہوتا تو خاموش رہتے-

سوال:لشکر جھنگوی کے تحریک طالبان پاکستان اور القائدہ سے کیا تعلقات ہیں؟کیا یہ درست ہے کہ لشکر جھنگوی ان دھشت گردوں اور انتہا پسند گروپوں میں کے آپریشنل ونگز میں سے ایک ونگ ہے؟

عارف جمال:لشکر جھنگوی ٹی ٹی پی کا فعال حضہ ہے-سپاہ صحابہ پاکستان اور لشکر جھنگوی کی آ‏ئیڈیالوجی تحریک طالبان کی ریڑھ کی ہڈی ہے-اصل میں یہ تمام گروپس تنگ نظر فرقہ وارانہ سوچ رکھتے ہیں-یہ شیعہ اور دوسرے غیر مسلموں کا قتل جائز خیال کرتے ہیں-اصل میں دیوبندی فرقے کی سیاسی جماعتیں اور گروپس ٹی پی پی کی حمائت کرتے ہیں-وہ اگرچہ ان سے رابطوں سے انکاری ہیں-ان سب کا نکتہ نظر یکساں ہے-اگرچہ حکمت عملی پر اختلاف ہے-

سوال:پاکستانی ریاست کا کردار فرقہ واریت سے نمٹنے کے حوالے سے کیا بنتا ہے؟

عارف جمال:پاکستانی ریاست فرقہ واریت کا خاتمہ کرنے کی بجائے دیوبندی اور اہل حدیث فرقہ پرستوں کی سرگرمی سے حوصلہ افزائی اور مدد کررہی  ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فرقہ پرست کشمیر اور افغانستان کے اندر لڑرہے ہیں-سعودی عرب بھی کشمیر اور افغانستان میں جہاد سے بریلوی اور شیعہ کو آؤٹ کرنے پر فوکس کرتا آیا ہے-یہی وجہ ہے کہ ان دونوں جہادوں میں دیوبندی-وہابی کو ہی سرگرم دیکھتے ہیں-چونکہ دیوبندی اور اہل حدیث پاکستانی فوج کی جانب سے کشمیر اور افغانستان میں لڑتے ہیں تو پاکستان میں ان کی فرق وارانہ دھشت گردی سے صرف نظر کی جاتی ہے-

ریاست کی ان پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان ایک دیوبندی سٹیٹ بننے جارہا ہے-مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی دیوبندیفیکشن نہ صرف پاکستان کے لیے وجودی خطرہ ہے بلکہ یہ امن عالم کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے-ہم پہلے ہی دیکھ چکے کہ دیوبندی جہادیوں کی بندوقیں پاکستانی فوج کے خلاف اٹھ گئیں ہیں-اور بدقسمتی سے مستقبل میں اس سے بھی برا وقت آنے والا ہے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. saqib
    -
    • omer khattab-naam hi kafi ha
      -
    • qamar shair khandeobandi
      -
  2. aafia baloch
    -
    • Muhammad Ali
      -
      • Murtaza Lashari
        -
    • HAMBUL
      -
  3. aafia baloch
    -
  4. aafia baloch
    -
    • Muhammad Ali
      -
      • Murtaza Lashari
        -
  5. Muhammad Ali
    -
  6. Ashraq Hussain
    -
    • omer khattab-naam hi kafi ha
      -
  7. Yaseen Deobandi
    -
    • Syed Gohar Abbas Zaidi
      -
      • asli yazeed
        -
        • muaviya
          -
    • muaviya
      -
  8. Asif qaisrani deobandi
    -
    • harami deobandi
      -
      • muaviya
        -
  9. jnoji
    -
  10. harami deobandi
    -
  11. harami deobandi
    -
  12. ahmed
    -
  13. Iqbal
    -
  14. yaqoob
    -
  15. yaqoob
    -
  16. yaqoob
    -
  17. yaqoob
    -
    • muaviya
      -
  18. محمد یونس قاسمی
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.