BBC Urdu continues to obfuscate #ShiaGenocide as an ethnic issue

Related post: #ShameBBCUrdu: An account of BBC Urdu’s misrepresentation of Shia genocide in Pakistan

BBC Urdu has published a report on 17 December 2012 (written by Ahmed Wali Mujeeb) in which Shia genocide in Quetta has been misrepresented as a Hazara specific ethnic issue.

LUBP has recorded a number of instances which show that BBC Urdu has been consistently obfuscating and misrepresenting Shia genocide in Pakistan. https://lubpak.com/archives/224019/ In other words, BBC’s role on Shia genocide in Pakistan is not much different from the shameful role (silence and obfuscation) it played during Jewish Holocaust in Nazi Germany.

A few observations about the current report under review:

1. The report uses the word “Hazara” 17 times, however, not a single time the word “Shia” or “Shia genocide” has been used.

2. The report fails to report that in addition to at 600 Shia Hazaras killed in Quetta, at least 300 non-Shia Hazaras too have been killed in the same city (Quetta). https://lubpak.com/archives/64797

3. The report fails to identify the killers of Shia Muslims in Pakistan including in Quetta, i.e., Takfiri Deobandi terrorists whose actual name is Sipah-e-Sahaba Pakistan which is currently operating as Ahle Sunnat Wal Jamaat (ASWJ) under the leadership of ISI-sponsored Deobandi cleric Ahmed Ludhianvi. https://lubpak.com/archives/231552

4. The report fails to contextualize murder of 500 Shia Hazaras in Quetta in the larger context of total 20,000 Shia Muslims of all ethnic backgrounds killed by ISI-sponsored Takfiri Deobandi terrorists killed in all parts of Pakistan. https://lubpak.com/archives/132675

5. The report presents Abdul Khaliq Hazara, a leader of ISI-sponsored ethnofascist group Hazara Democratic Party (HDP) as a representative of Shia Hazaras hiding the fact that Shia Hazaras are represented by Sardar Saadat Hazara, chief of Hazara tribe, and Syed Nasir Ali Shah of the PPP, the elected member of the National Assembly from Quetta. https://lubpak.com/archives/tag/abdul-khaliq-hazara

6. The report dishonestly suggests killing of Hazara as an outcome of Saudi-Iran proxy war giving a false neutral impression that both Shias and Sunnis are killing each other. https://lubpak.com/archives/223752

7. The report hides the fact that there are at least 1,000 Sunni Hazaras currently living in Quetta who remain untouched and unharmed by Takfiri Deobandi militants of Sipah Sahaba Taliban. https://lubpak.com/archives/223702

8. The report hides the fact that same Takfiri Deobandi militants who are killing Shia Muslims (both Shia Hazaras and Shias of Baloch, Pashtun, Qandahari, Punjabi backgrounds) in Quetta are also killing Sunni Barelvi and moderate Deobandi Muslims in the same city. https://lubpak.com/archives/74672

We note that there are certain affiliates of Hazara Democratic Party (Abdul Khaliq Hazara and his proxies in social media) who are being promoted by certain sections in Pakistani politics and media (Hamid Mir, Munawar Hasan, The Friday Times, Jinnah Institute, Dawn newspaper, some human right groups) to obfuscate Shia genocide in Sunni vs Shia sectarian or Hazara vs Baloch/Pashtun ethnic terms.

Recently Dawn newspaper published a similar report http://dawn.com/2012/12/15/state-blamed-for-failing-to-control-attacks-against-hazaras/ in which an HDP social media activist based in Sweden was shown as a Hazara activist based in Quetta and his HDP ethno-political propaganda was published as a perspective of Shia Hazaras. We urge all rights groups, media persons and others to refer to Karbala-e-Quetta http://www.facebook.com/Karbala.e.Quetta?fref=ts (more than 20,000 followers in social media) as a legitimate voice of Shia Hazaras of Quetta and also refer to Sardar Sadat Hazara, Chief of Hazara Tribe, to publish informed reports on Shia Hazaras.

Here’s a copy of the BBC Urdu news report under review;

کوئٹہ کے ہزارہ ’پراکسی وار‘ کا شکار؟
احمد ولی مجیب
بی بی سی نیوز، کوئٹہ
آخری وقت اشاعت: پير 17 دسمبر 2012

وادئ کوئٹہ کے مشرقی حصے میں پہاڑ کے دامن میں واقع قبرستان میں ایک نئی قبر پر خواتین اور بچے بلک بلک کر رو رہے تھے۔ یہ چار نومبر کو عسکری پارک کے قریب دہشت گردوں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے اشفاق حسین کی قبر تھی اور وہاں جمع ہونے والے اشفاق حسین کےعزیز و اقارب میں سے کچھ تو اپنا دکھ آنکھوں کی نمی میں سمیٹے ہوئے تھے مگر اکثر کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا تھا اور وہ بین کرتے نظر آئے۔

جب میں نے قبرستان میں موجود اشفاق حسین کے بڑے بھائی آفتاب حسین سے واقعے کی تفصیل جاننے کی کوشش کی تو انہیوں نے کہا کہ میرا ایک اور بھائی الطاف حسین بھی اس واقعے میں شدید زخمی ہوا ہے۔

ایسا نہ ہو کہ آپ کی رپورٹ کی اشاعت سے زخمی بھائی کو اشفاق کی ہلاکت کا علم ہو جائے۔ میرے اصرار پر بھیگی آنکھیں لیے آفتاب نے بس یہ کہا کہ ’ہمیں نہیں معلوم ہمارا قتل عام کیوں کیا جا رہا ہے۔ ہم تو سب کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔ میرے بھائیوں کی کسی سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی‘۔

یہ دل سوز منظر دیکھ کر ہم قبرستان سے نکلے ہی تھے کہ آفتاب کا پیغام ملا کہ ان کے دوسرے بھائی الطاف حسین بھی چل بسے ہیں۔
یوں مری آباد کے اس تاریخی قبرستان میں ایک نئی قبر کا اضافہ ہوگیا- میں کوئٹہ میں چار دن رہا اور ہر روز ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوتے رہے، نئی قبریں بنتی رہیں اور پتہ نہیں کب تک بنتی رہیں گی۔

ایسا لگتا ہے بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ ہزارہ برادی کا مقتل بن چکا ہے۔گزشتہ ساڑھے چار سال میں ہزارہ برادری کے پانچ سو سے زائد افراد کو قتل کیا جا چکا ہے اور تین ہزار سے زائد ہزارہ نوجوان بوڑھے اور بچے دہشت گردوں کے حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک ہزار سے زائد ایسے نوجوان بھی ہیں جوحالات سے تنگ آ کریورپ ہجرت کرنے کی کوششوں میں راستے میں جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

ہزارہ طلباء سہمے اور خوف زدہ ہیں۔ کشیدہ صورت حال نے بہت سے طالب علموں کو تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور کردیا ہے۔
چودہ جون کو جناح ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے میں زخمی ہونے والے طالب علم وقار حسین نے بتایا کہ ’جب ہماری بس کے قریب دھماکہ ہوا تو مجھے لگا کہ اب ہمارے ساتھ بھی مستونگ والا واقعہ پیش آنے والا ہے۔‘(مستونگ میں شعیہ زائرین کو بس سے اتار کر قتل کیا گیا تھا)

“ڈاکٹرز، انجینیئرز، کھلاڑی اور طالب علم جو بھی نظر آتا ہے بس اسے مار دیا جاتا ہے۔ ہزارہ تاجروں کو اغوا کیا جاتا ہے اور انہیں طرح طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ کاروباری علاقوں سے ہزارہ برادری کو بے دخل بھی کیا جارہا ہے۔۔۔یہ خالصتاّ مسلکی اور فرقے کی بنیادوں پر قتل عام ہے، اسے نسلی رنگ دینا غلط ہوگا۔”
عبدالخالق ہزارہ

وقار کے مطابق ایسے خوف کے ماحول میں تعلیم جاری رکھنا کیسے ممکن ہے۔ ’ہماری چھوٹی چھوٹی آنکھیں دیکھ کر ہمیں نشانہ بنایا جاتا ہے‘۔ وقار جب اس واقعے کی تفصیلات بتارہا تھا اس کی آنکھوں میں خوف صاف نظرآرہا تھا۔

کوئٹہ کی بڑی جامعات میں جہاں پہلے ہزارہ طلبا ءکی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی تھی اب وہ خال خال نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو ہزارہ برادری کے خلاف تشدد کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا اور دوسری طرف صوبہ میں سرکار کہیں نظر نہیں آتی۔

جب صورتحال پر موقف جاننے کے لیے صوبائی پولیس کے ترجمان حامد شکیل سے رابطہ کیا تو وہ پولیس نفری کی کمی کا رونا روتے نظر آئے۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا کے کوئٹہ شہر میں پولیس اور ایف سی کی موجودگی میں دہشت گرد کارروائی کر کے اطیمنان سے پیدل کیسے فرار ہو جاتے ہیں؟

ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ کے مطابق گزشتہ دس برس سے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو چُن چُن کے مارا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق ’ڈاکٹرز، انجینیئرز، کھلاڑی اور طالب علم جو بھی نظر آتا ہے بس اسے مار دیا جاتا ہے۔ ہزارہ تاجروں کو اغوا کیا جاتا ہے اور انہیں طرح طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ کاروباری علاقوں سے ہزارہ برادری کو بے دخل بھی کیا جارہا ہے‘۔

تین ہزار سے زائد ہزارہ نوجوان بوڑھے اور بچے دہشت گردوں کے حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں
عبد الخالق کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کونا صرف جان سے مارا جارہا ہے بلکہ ان کا معاشرتی، معاشی اور تعلیمی قتل عام بھی کیا جارہا ہے اور سرکار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’ایران اور سعودی عرب کی دشمنی کا بدلہ ہزارہ برادری سے لیا جا رہا ہے‘۔

تاثر یہ ہے کہ ہزارہ برادری دونوں ملکوں کے درمیان پراکسی وار کا شکار ہو رہی ہے۔ عبدالخالق کے مطابق اس جمہوری دور میں تو تشدّد کی حد ہوگئی ہے- ان کا کہنا تھا کہ ’یہ خالصتاّ مسلکی اور فرقے کی بنیادوں پر قتل عام ہے، اسے نسلی رنگ دینا غلط ہوگا‘۔

وادی کوئٹہ کے مشرقی دامن مری آباد اور مغربی علاقے ہزارہ ٹاؤن میں رہنے والے ہزاروں کی آبادی پانچ لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے اور شہر میں دہائیوں سے آباد ان ہزاروں کو اب ان کے علاقوں تک ہی محدود کر دیا گیا ہے۔

کالعدم لشکر جھنگوی ہزارہ برادری کے خلاف ہونے والے اکثر واقعات کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور ہر واقعے کے بعد مزید کارروائیوں کی دھمکی بھی دی جاتی ہے لیکن پنجاب میں بننے والا لشکر جھنگوی بلوچوں میں کیسے مقبول اور موثر ہوگیا اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/12/121217_hazara_killing_zs.shtml

Comments

comments

Latest Comments
  1. Behzad Bugti
    -
  2. Rahat Ali Changezi
    -
  3. Wahid
    -
  4. Waris Jatoi
    -
  5. Chowrangi
    -
  6. ahsan shah UK
    -
  7. Yasir
    -
  8. Abdul Nishapuri
    -
  9. Yasin
    -
  10. Abdul Nishapuri
    -
  11. Abdul Nishapuri
    -
  12. Abdul Nishapuri
    -
  13. Abdul Nishapuri
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.