The 18th amendment: “A mother can give birth to a child but could not kill the child.” – by Khalid Wasti

Last week, senior lawyer Abdul Hafeez Pirzada (notorious for his affiliation with General Musharraf), while expressing his views in Geo TV Programme, ‘Mery Mutabiq’ of Dr Shahid Masood (notorious for his affiliation with the Taliban), said certain articles of the 18th amendment could be challenged and the court could reject the same. He said the 18th amendment was beyond his comprehension as the four basic elements of the constitution, on which the whole constitution depends, had been violated by parliament.

Pirzada said it was the duty of parliament to enact laws and the executive was responsible to implement laws but the Supreme Court would decide whether the law was enacted in accordance with the Constitution or not. To cite an example, he said, if all the Senate and National Assembly members amended the Constitution to make Pakistan part of India, “If they are empowered to do so”. “A mother can give birth to a child but could not kill the child. If she does so, she will be punished,” he elaborated.

Khalid Wasti has written an excellent article on this topic for LUBP, which is provided below:

عدلیہ کی آزادی ——- پارلیمینٹ کی بالا دستی
============================
ماں بچے کو جنم دے سکتی ہے ، قتل نہیں کر سکتی
===============================

اٹھانوے فیصد عوام پر دو فیصد “ قبضہ گروپ “حکمران ہے – جمہری نظام ، ایک آدمی ایک ووٹ کا نظام اس قبضہ گروپ کی موت ہے – یہ ٹولہ اپنی موت قبول کرنے کی بجائے ایک آدمی ایک ووٹ کے نظام کو برباد کرنے کی ہر ممکن سازش کرتا چلا آیا ہے اور کرتا چلا جائے گا

اکیسویں صدی میں میڈیا کی قوت سے کسی کو انکار نہیں چنانچہ یہ ٹولہ دیگر تمام حربے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کی طاقت کو بھی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیئے آلہءکار بنانے کی ناپاک کوشش میں مبتلا ہے

چنانچہ اس “قبضہ گروپ“ کی وکالت کرنے والے حضرات رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیئے اپنے زعم میں بڑی مضبوط دلیلیں پیش کر رہے ہیں لیکن جھوٹ جھوٹ ہی رہتا ہے چاہے اس کا بولنے والا ابو جہل ہو ، یزید ہو یا میکاولی

اعتزاز احسن ، علی احمد کرد ، جسٹس طارق محمود اور اطہر من اللہ کی کرسی سنبھالنےکی سازش کرنے والے نابغے عدلیہ کی پارلیمینٹ پر بالادستی ثابت کرنے کے لیئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں

آئینی ، قانونی اور سیاسی امور کے طالب علم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ قانون سازی پارلیمینٹ کا کام ہے اور آئین کی پاسداری عدلیہ کی ذمہ داری ہے

آئین کی حفاظت کا فرض عدلیہ کو کس ادارے نے سونپا ہے ؟

سول بیوروکریسی نے؟ فوج نے یا پارلیمینٹ نے ؟ ظاہر ہے کہ پارلیمینٹ نے عدلیہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ دیکھو ! ہم آئین بنا رہے ہیں ، تم نے اس آئین کی حفاظت اس طرح کرنی ہے کہ کوئی طالع آزما ، کوئی قبضہ گروپ ، کوئی انتہا پسند ٹولہ اس کی کسی شق کی توجیہہ اور تشریح اپنی خواہشات کےمطابق آپ سے منوانے میں کامیاب نہ ہو بلکہ آپ نے اس کی توجیہہ اور تشریح اس ادارے کی خواہشات کےعین مطابق کرنی ہے جس نے اس آئین کو تخلیق کیا ہے

خدا تعالی نے اپنا حق حکمرانی عوام کو اپنے منتخب نمائیندوں کے ذریعے استعمال کرنے کا اختیار دیا – عوام نے اپنے منتخب نمائیندوں کو آئین کی تخلیق کا اختیار دیا عوام کے نمائیندوں نے آئین کی بالا دستی کو قائم رکھنے کا اختیار عدلیہ کو سونپا

عوام اور قوم کے نمائیدوں نے طے کیا کہ آئین کے بنیادی خدوخال کیا ہوں گے ، انہوں نے حالات حاضرہ کے تقاضوں کے مطابق آئین مرتب کیا اور اس میں واضح طور پر درج کیا کہ آنے والے وقتوں میں ، بدلے ہوئے حالات اور حقائق کے پیش نظر اس وقت زمین پر خدا تعالی کا حق حکمرانی استعمال کرنے والے عوام کے منتخب نمائندے اپنی دو تہائی اکثریت سے اس کے اندر حسب منشا تبدیلی کر سکتے ہیں

پارلیمینٹ ایک سوچ ، ایک نقطہءنظر ایک فلاسفی کے تحت آئین مرتب کرتی ہے اور کسی ادرے کو اس آئین کا محافظ مقرر کرتی ہے تو کیا اس کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ محافذ اس سوچ ، نقطہءنظر اور فلاسفی کو یکسر پامال کرتے ہوئے ایک نئی اور انوکھی تاویل ، تشریح ، تعبیر اور تفسیر پیش کر دے جو آئین تخلیق کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو تو کیا کوئی معقول انسان کہہ سکتا ہے کہ محافظ نے اپنے فرض کو ایمانداری سے ادا کیا ہے ؟ کیا یہ واضح طور پر امانت میں خیانت نہیں ہے ؟

ایک مثال دیکھیئے – پارلیمینٹ قانون بناتی ہے کہ دیواروں پر اشتہار لگانا منع ہے کیا سپریم کورٹ اس کی تشریح کرتے ہوئے یہ کہہ سکتی ہے کہ اس قانون کا دراصل مقصد یہ ہے کہ دیواروں پر اشتہار لگائے جائیں ؟ کیا اس صورت میں قانون بنانے والے یہ نہیں کہہ سکتے کہ سپریم کورٹ کی یہ توجیہہ ہمارے منشا کے خلاف ہے

کیا کسی مکان کا محافظ یا چوکیدار کہہ سکتا ہے کہ چونکہ میں اس مکان کا کسٹوڈین اور محافظ ہوں اس لیئے مجھے حق حاصل ہے کہ میں اس کے ڈرائینگ روم میں ایک ٹائلٹ بنا دوں ؟ نہیں اور ہر گز نہیں بلکہ اسے اس مکان کی حفاظت مالک مکان کی دی ہوئی ہدایات کے تابع رہ کر ہی کرنی ہے

اب ایک اور اہم پوائنٹ دیکھیئے – اٹھانوے فیصد عوام کے کندھوں پر سوار دو فیصد قبضہ گروپ کے وکلا کہتے ہیں کہ پارلیمینٹ نے آئین کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کو دے دیا – اب یہ اختیار واپس نہیں لیا جا سکتا اس لیئے کہ ایک ماں بچے کو جنم دینے کے بعد اسے قتل نہیں کر سکتی – درست ہے ، قتل نہیں کر سکتی لیکن کیا اس بچے کی تربیت ماں کی ذمہ داری نہیں ؟ کیا وہ اپنے بچے کو آوارہ ، چور ، ڈکیت اور دھوکہ باز بننے دے ؟ نہیں اور ہر گز نہیں – بچے کو بھولنا نہیں چاہیئے کہ اگر اسے خدا تعالی کی رضا کی جنت درکار ہے تو وہ صرف ماں کے قدموں تلے ہی ملے گی

آخری بات آئین کے بنیادی ڈھانچے (بیسک سڑکچر) کے متعلق ہے – معروف جمہوری نظام کے تحت منتخب ہوکر ایوان اقتدار میں مرتے دم تک نہ پہنچ سکنے والے دو فیصد آبادی کے قبضہ گروپ اوردین و ایمان اور مذہب کے ٹھیکیدار ٹولہ کے وکلا کہتے ہیں کہ پارلیمینٹ آئین کے بیسک سڑکچر کے خلاف کوئی آئین سازی نہیں کر سکتی – درست ہے – یہ اصول کس نے بنایا ؟ بنیادی ڈھانچے کی وضاحت کس نے کی ؟ کسی بیوروکریٹ نے ؟ کسی جرنیل نے ؟ کسی چیف جسٹس نے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ زمین پر خدا تعالی کا حق حکمرانی استعمال کرنے والے عوام کے منتخب نمائندوں نے ! سو اس امر کا آخری فیصلہ کرنے والے بھی وہی ہیں کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے اور کون سا قانون اس سے متصادم ہے

عدلیہ نے آئین کی حفاظت کرنی ہے – عدلیہ آئین کی کسٹوڈین ہے – کسی بھی آئینی شق کی حتمی وضاحت عدلیہ نے کرنی ہے – یہ سب کچھ سو فیصد درست ہے – کسی کو کوئی اعتراض نہیں – لیکن سپریم کورٹ اپنے یہ تمام فرائض زمین پر خدا تعالی کا حق حکمرانی استعمال کرنے والے عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ادارے پالیمینٹ کے تابع رہتے ہوئے ہی سر انجام دے گی اور کسی اختلاف رائے کی صورت میں پارلیمینٹ کی رائے آخری اور حتمی ہوگی کہ یہ زمین پر خدا تعالی کا حق حکمرانی استعمال کرنے والا واحد ——- واحد ——- اور واحد ادارہ ہے

حکمرانی کا یہ حق نہ سیکریٹیریئٹ کو ہے ، نہ جی ایح کیو کو اور نہ ہی سپریم کورٹ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
!!

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akhtar
    -
  2. Bukhari
    -
  3. Sarah Khan
    -
  4. AHR
    -
  5. Akhtar
    -
  6. Sarah Khan
    -
  7. Delbert Graner
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.