Corrupt generals or corrupt politicians?

سالا کیریکٹر ڈھیلا ہے

وسعت اللہ خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

 

 اتوار 8 جنوری 2011

وہ اچھے بھلے چلتے نظام کا تختہ الٹ کر میرے ہی اوپر بیٹھ جائے تو نظریہ ضرورت۔

میں فیڈریشن کو کنفیڈریشن بنانے کی بات کروں تو ملک دشمن ۔

وہ اپنی پالیسیوں سے ملک توڑ دے تو صرف نااہل شرابی۔پھر بھی قومی پرچم میں لپٹ کر دفن ہونے کا مستحق۔

میں ہزاروں جنگی قیدی چھڑوانے اور ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے بعد بھی پھانسی چڑھ جاؤں تو میرے جنازے میں کسی کا شامل ہونا بھی جرم۔

وہ بھارت سے تین دریا تیرے، تین دریا میرے کا معاہدہ کرلے تو حقیقت پسند۔

میں بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں چلتے دریا پر بننے والے ڈیمز رکوانے کا مقدمہ ہار جاؤں تو نا اہل اور مشکوک ۔

وہ اگر کہے کہ کیا ہوا بھارت نے سیاچن قبضہ کرلیا وہاں تو گھاس کا تنکہ نہیں اگتا تو اس کا بیان محض ایک شگفتہ تبصرہ۔

میں اگر کہوں کہ ممبئی حملوں میں پاکستانی عناصر ملوث تھے تو کان پکڑوا کر نوکری سے باہر۔

وہ اگر مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر حل کرنے کا فارمولا پیش کرے تو مدبر۔

میں اگر بھارت کو تجارتی لحاظ سے موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ دینے کا فیصلہ کروں تو اگلے ہی لمحے اپنے ہی الفاظ واپس نگلنے پر مجبور۔

وہ اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی وکالت کرے تو حقیقت پسند۔

میں اگر بھارت سے سافٹ بارڈر اور ویزا پابندیاں ختم کرنے کی بات کروں تو حب الوطنی مشکوک۔۔۔

اس کے اگر بیرونِ ملک اکاؤنٹس ہوں تو کوئی بات نہیں۔اس حمام میں کون ننگا نہیں۔۔۔

میرے اگر بیرونِ ملک لاکھوں ڈالر کے اکاؤنٹ ہوں تو میں لٹیرا اور کرپٹ۔

وہ اگر آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے آزادانہ آڈٹ کروانے سے انکاری ہو تو اسے قومی سلامتی کے مفاد میں انکار کی اجازت۔۔۔

میں اگر آڈیٹر جنرل سے آڈٹ کروانے سے انکار کردوں تو میری داڑھی میں تنکہ۔

وہ اگر مجھے اغوا کرلے اور پھر کہیں لاش پڑی ملے تو شششششش۔۔۔بولنا مت۔۔۔

میں اگر کسی کو اغوا کر کے قتل کر دوں تو عدالتی سمن میرے آگے اور پولیس میرے پیچھے۔

وہ اگر بیمار ہو تو بس علیل، کام کی زیادتی کے سبب تھکن کا شکار۔۔۔

میں اگر بیمار تو کم ازکم جسمانی مفلوج یا ذہنی مریض یا پھر مفرور۔۔۔

وہ اگر چپکے سے کسی ملک کو اپنی فضائی و زمینی حدود کے استعمال کی اجازت دے دے، فوجی اڈے بھی دے دے، اپنے شہریوں کو مارنے کا لائسنس بھی دے دے تو یہ سب اہم قومی مفاد میں وقت کا تقاضہ۔

مگر میرے حوالے سے اگر کوئی بےنام پرچہ کسی اخبار میں چھپ جائے تو میں ٹرائیل کا حقدار اور فیصلہ ہونے سے پہلے ہی غدار، کتا، کمینہ، زلیل، نیچ، گھٹیا۔۔۔

جسے دیکھو یہاں وہ حسن کی بارش میں گیلا ہے۔

میں کروں تو سالا کیریکٹر ڈھیلا ہے۔۔۔

Source: BBC Urdu

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.