Imran Khan, tabdeeli ki hawa? – by Kashif Naseer

Source: Kashif Naseer ka blog

کوئی شک نہیں کہ میدان کپتان کے لئے خالی ہے، فضاء ہموار اور نوجوان تیار ہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ پورا شہری پنجاب، سرحد اور یہاں تک یہ شہر کراچی عمران خان کی جھولی میں گرنے کے لئے بے چین ہے، وجوہات کئی ہیں جن میں ایک یہ کہ قوم بھی کپتان کی طرح کنفیوز اور بیوقوف ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سال میں چھ ماہ دیار لندن اورچھ ماہ اسلام آباد کے بنگلے میں رہنے والا نازک جان رہنما کیا خود کسی تبدیلی کے لئے میدان میں اترنے کو تیار ہے، اگر ہے تو لاہور کے بعد کراچی اور لاڑکانہ کا نمبر آنا چاہنے اور جیسے لاہور میں تخت پنجاب کو چیلنج کیا گیا ویسے ہی کراچی میں گورنر ہاوس اور لاڑکانہ میں مفاہمت نامی کالی بلا کو چیلنج کیا جانا چاہئے لیکن قرائین بتارہے ہیں کہ معاملات کچھ اور ہیں، ہارون رشید ایسے لکھاریوں نے کپتان کو اسٹبلشمنٹ کے چنگل میں قید کردیا ہے اور اسٹبلشمنٹ عمران خان کو اپنا ایک نیا مہرا بنا چکی ہے یعنی وہ وزیر اعظم تو بن سکتا ہے انقلابی نہیں۔

کون تبدیلی نہیں چاہتا، اس نظام زر و ظلم سے ہر دکھی دل عاجز ہے مگر سوال یہ ہے کہ تبدیلی کیسے اور کن خطوط پر، عمران خان تبدیلی کی آواز ضرور ہے لیکن واضح لائحہ عمل ، قبلہ اور منزل سے کوسوں دور اور شاید اسی لئے جانے انجانے میں اس فرسودہ نظام کی سب سے بڑی طاقت اسٹبلیشمنٹ کے ہاتھوں میں کھلونہ بنتا جارہا ہے، یہ میں نہیں کہ رہا بلکہ عمران خان کا طرز عمل بتارہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ عمران کی نیت اور ارادہ صاف ہے اس لئے کامیابی اس کے قدم ضرور چومے گی لیکن دلیل اگر نیت اور قوت ارادی ہے تو مت بھولیں کہ پاکستان میں پچھلے ساٹھ ستر سالوں میں کئی باکمال لوگ اور کئی باکمال تحریکوں نے جنم لیا، اصغر خان اسکی سب سے بڑی مثال ہیں۔ لائن اور لینتھ سے عاری، نظریاتی اور تحریکی لٹریچر سے محروم اور تنظیمی صلاحیتوں سےلاتعلق اصغر خان نے شہری معاشرے کے ایک بہت بڑے طبقے متاثر کیا ، بڑے بڑے جلسے جلوس کئے لیکن نتیجہ نکلاصفر بٹا صفر نکلا۔ عمران خان بھی اصغر خان کے راستے کا مسافر ہے، اسی طرح لائن اور لینتھ سے عاری اور اسی طرح کنفیوز نظریات کا حامل لیکن قسمت سب کی ایک جیسی نہیں ہوتی اور قوی امید ہے کہ کپتان کی قسمت اصغر خان سے مختلف ہو لیکن اگر وہ اسٹبلشمنٹ کے چنگل سے نکل گیا، کسی واضع نظریاتی خدوخال پر راسخ ہوا اور اپنے جال پھینکے سے پہلے خود شکار نہ ہوا وگر عمران خان وزیراعطم تو بن سکتا ہے انقلابی نہیں۔

ممی ڈیڈی تنظیموں کے ہاتھوں لفظ انقلابی کوچہ کوچہ بدنام ہوچکا ہے لیکن انقلابی اور انتخابی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے، تاریخ شاہد ہے کہ آج تک کوئی بھی انقلاب جمہوریت کے دروازے پر دستک دے کر داخل نہیں ہوا یعنی انقلاب فرانس سے لیکر روس اور چین تک ہر جگہ تصادم ناگزیر ہوا۔ اسی لئے کپتان جو تصادم کے لئے تیار نہیں ہے انقلابی سیاست کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ البتہ اگر خود کو پچاس فیصد بھی بروکار لایا تو انتخابی میدان مار لے گا بس ایک ہوا کا رخ ہے جسے کپتان کو اپنی طرف موڑنا ہوگا۔ ہوا کے رخ سے یاد آیا اس ملک کے ساٹھ فیصد کو اپنی راج دھانی بنائے یہ جاگیردار اور سردار ہر انتخاب میں ہوا کے رخ کا تعین کرتے ہیں اور پھر ہوا کے رخ پر چل پڑتے ہیں، ستر میں ہوا کا رخ بھٹو کی طرف چلا، اٹھاسی میں انکی دختر کی طرف اور ستانوے میں نواز شریف کی طرف۔ ہوا کا یہی رخ ہے جسے ہارون رشید ایسے لکھاری عمران خان کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ چند بڑے نام شامل کرلئے جائیں تو راستہ بہت سہل ہوجاتا ہے۔سو ایسے کئی بڑے نام شامل ہوچکے اور کئی بڑے مستقبل قریب میں شامل ہوجائیں گے یعنی بہت جلد شاہ محمود قریشی ہوں یا ماروی میمن سب دودھ کے دھلے انقلابی ہو جائیں گے۔ ایک دوست نے پوچھا کہ ہوا کے رخ سے کیا مراد ہے دوسرے نے دریا کو کوزے میں بند کردیا کہا معنی مطلب میں کیا رکھا ہے بس یہ سجھو کہ جرنل کرنل کیا چاہتے ہیں۔

جرنل کرنل جو اس نظام زر و ظلم کی سب سے بڑی طاقت ہیں، جن کے ہاتھوں یہ ملک پچھلے ساٹھ سالوں سے یرغمال بنا ہوا ہے، جنہوں نے بارہاں اس ملک کو فتح کیا اور بارہاں اسکو روندا، جنہوں نے کئی سیاسی مہرے تخلیق کئے، ان میں رنگ بھرے اور پھر انہیں اپنے ہی ہاتھوں سےمسل کے پھینک دیا۔ جو ہر غریب کا آدھا لقمہ کھا جاتے اور بدلے میں کبھی اجتماعی قبریں دیتے ہیں، کبھی اوجڑی کیمپ، اور کبھی لال مسجد کی جلی ہوئی لاشیں۔سچ تو یہ ہے کہ کارگل اور ڈھاکہ کے ان شیروں کے جلال اور دبدے سے خوف کھاکر انکے اپنے بھی خود کو دشمن کی آغوش میں زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں اور جنکی پیشہ ورانہ صلاحیتیوں کا تماشہ حال ایبٹ آباد اور پی این ایس کراچی میں ساری دنیا نے دیکھا۔ عجیب مزاق ہے کہ عمران خان انہی جرنل کرنل کی مدد سے اسٹیٹس کو بدلنا چاہتے ہیں۔ تیری سادگی پر رونے کو جی چاہتا ہے۔

عمران خان کے ساتھ کچھ اہل قلم کے حسن زن کو دیکھ کر بھی حیرت ہوتی ہے۔ جاوید چوہدری، شاہد مسعود اور مجیب الرحمان شامی یک قلم یک زبان ہوکر عمران خان کے ہاتھوں اسلامی نشاۃ ثانیہ کی نوید سناررہے ہیں اور انصار عباسی کو خوش فہمی میں اتنے آگے چلے گئے کہ عمران خان کو مستقبل کا امیر المومنین بنا دیا ہے گویا کعبہ کو پاسباں مل گیا صنم خانے سے۔ حیرت در حیرت کہ اقبال پارک کا شو بھی ان کی انکھیں نہ کھول سکا جہاں وہ طوفان بدتمیزی مچی کہ جسکا تصور لبرل ترین جماعتوں جیسےایم کیوایم اور پی پی پی کے جلسوں میں بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گویا ناچ گانا، دھکم پیل اور مرد و زن کا اختلاط اسلامی نشاۃ ثانیہ کی نئی کرن ہے اگر ہے تو اللہ غارت کرے ایسی کرن کو۔ اللہ بچائے ہمیں ایسے اسلامی انقلاب سے جسکے سرخیل علی عظمت، زید حامد اور ماریہ بی جیسے کردار ہو اور جسکے ترانے حسن نثار اورنجم سیٹھی گائیں۔ ہاں البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی انقلاب جب آتا ہے تب آئے، لیکن عمران خان تبدیلی کی ایسی امید ہے جو لوٹ کھسوٹ اور اسٹیٹس کو ختم کردے گا مگر ایسا بھی تبھی ممکن جب اسٹلیشمنٹ سے ٹکرایا جائے جسکے لئے کپتان فل حال تیار نہیں۔

ایک امر زیادہ تشویش ناک ہے جسکی بابت بات کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ عمران خان اور انکے ہارون رشید ایسے لکھاری اپنے تصوراتی انقلاب میں زید حامد جیسے مسخرے کے راستے پر آچکے ہیں جہاں ان کے ہر مخالف کو ہر طرح کے ردعمل کے لئے تیار ہونا پڑے گا، تازہ نشانہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زات ہے جن پر اب کرپشن کے الزامات لگانے سے بھی پرہیز نہیں کیا جارہا۔ ناجانے اور کتنے پاکباز اس تصوراتی انقلاب کی بھینٹ کی چڑھ کر تار تار ہوں گے۔

ان سب کے باوجود ماننا ہوگا کہ عمران خان سیاسی حمام میں اب تک ننگا نہیں ہوا کہ وہ کرپٹ اور لالچی نہیں ہے اور شاید اسی لئے اسکے لئے امید اور مواقع زیادہ ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ماننا ہوگا کہ عمران باتوں کا کھرا، اصول کا پکا اور نظریات میں پختا نہیں ہے۔ ان تمام اچھائیوں اور خامیوں کے روشنی میں دیکھنا یہ ہے کہ سال میں چھ ماہ دیار لندن اورچھ ماہ اسلام آباد کے بنگلے میں رہنے والا نازک جان رہنما کیا خود کسی تبدیلی کے لئے میدان میں اترنے کے لئے تیار ہے، اگر ہے تو لاہور کے بعد کراچی اور لاڑکانہ کا نمبر آنا چاہنے اور جیسے لاہور میں تخت پنجاب کو چیلنج کیا گیا ویسے ہی کراچی میں گورنر ہاوس اور لاڑکانہ میں مفاہمت نامی کالی بلا کو چیلنج کیا جانا چاہئے لیکن قرائین بتارہے ہیں کہ معاملات کچھ اور ہیں، ہارون رشید ایسے لکھاریوں نے کپتان کو اسٹبلشمنٹ کے چنگل میں قید کردیا ہے اور اسٹبلشمنٹ عمران خان کو اپنا ایک نیا مہرا بناچکی ہے یعنی وہ وزیر اعظم تو بن سکتا ہے انقلابی نہیں۔


Comments

comments

Latest Comments
  1. Mussalman
    -
  2. Zalaan
    -
  3. Malik
    -
  4. Zalaan
    -
  5. Abdul Nishapuri
    -
  6. Kashif Naseer
    -
  7. AHMED BALOCH
    -
  8. Malik
    -
  9. Malik
    -
  10. Janjua
    -
  11. Janjua
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.