اعلان، خبریں، تجزیے پڑھنے کے بعد لگ رہا تھا کہ نواز شریف کی وطن واپسی، گرفتاری سے پہلے ممکنہ طور پر کارکنوں سے خطاب اور پھر جیل جانا، یہ ایک بڑی خبر ہوگی اور حقیقت بھی یہی ہے۔

اخبارات میں نواز کی واپسی کو مقتدر حلقوں میں کھلبلی اور بڑے دباؤ سے تعبیر کیا جارہا تھا۔

دوسری جانب جس وسیع پیمانے پر استقبال کی تشہیر اور تیاریاں کی جارہی تھیں۔خیال کیا جارہا تھا کہ تاریخی موقع ہوگا۔

گزری رات سے یہ خبریں میڈیا پر چل رہی تھیں رکاوٹیں کھڑی کر دیں شہر سیل کردیا گیا، اس سب کے پیش نظر میں اور میرےساتھی جو سینئیر صحافی ہیں، نے ریلی کے روٹ پر مال روڈ سے ائر پورٹ اور ذیلی سڑک ضرار شہید روڈ پر جائزہ لیا۔

رات تک وہاں کچھ نہ تھا البتہ جب رنگ روڈ پر چڑھے تو انہوں نے اتنا بتایا کہ رات گئے اسے بند کر دیا جائے گا۔

صبح بارہ بجے ہم پھر نکلے اور مال روڈ سے ریلی کے نقطہ آغاز لوہاری تک چلتے گئے۔

راستے میں ہمیں کنٹینر سڑکوں کے ساتھ کھڑے سٹینڈ بائی پوزیشن میں نظر آئے، پولیس کی بہت کم نفری دکھائی دی۔

ایک بجے کے قریب انارکلی پہنچے سوچا آگے دقت ہوگی گاڑی نیلا گنبد کھڑی کردیں لیکن آگے راستہ صاف دکھائی دیا تو سیدھے لوہاری تک چلتے چلے گئے اور بڑی سہولت سے گاڑی قریب ہی کھڑی کردی کیونکہ اس وقت تک وہاں صرف میڈیا کی گاڑیاں تھیں اور چند متوالے جن میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی، نعرے بازی کر رہے تھے۔

امیدوار کے سٹکر والی گاڑی سے اندازہ ہوا کہ یہ شاہدرہ سے آئے ہیں۔

سوا دو بجے تک ادھر ادھر کھڑے لوگ جو نعرے لگانے والوں کو تماشائی کی حیثیت دے دیکھ رہے تھے، ان کی تعداد ’مظاہرین‘ سے زیادہ تھی۔مسلم مسجد کے نیچے کی مارکیٹ بند ہوچکی تھی اور یہ(تماشائی) اسی کے دکاندار تھے۔

نماز جمعہ کے بعد ریلی کے آغاز کا اعلان تھا۔جمعے کی نماز شروع ہوئی تو ان کی نعرے بازی اس دوران بھی جاری رہی۔نماز کے اختتام پر جواباً مولوی صاحب نے بھی ’لبیک یارسول لبیک‘ کے نعرے لگوادیے۔جس سے ان کی ناراضی واضح ہوگئی۔ان کی دعا بھی اس کے خیالات کا کھلا اظہار تھی۔

ہم باہر نکلے تو کشمیر اور بلتستان سے آئے لوگ جمع تھے، لاہوری اب بھی کم تھے۔شاید اپنے علاقوں میں جمعہ پڑھنا ہو، یا اپنے مقامی قائدین کے منتظر ہوں کیونکہ سننے میں آیا تھا کہ امیدواروں اور رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیاہے۔

نظر یہ آرہا تھا کہ ملکی تاریخ کی کمزور ترین نگران حکومت معمول کے روایتی اقدامات سے لیگی کارکنوں کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

لوہاری کے گرد و نواح میں پولیس کی نفری بھی واجبی تھی۔بھاٹی چوک میں ٹریفک پولیس کے معمول کھڑے ہونے والے اہلکاروں نے تین بجے ایک جانب کا راستہ گاڑیوں کے لیے بند کیا وہ بھی اس لیے کہ مسجد کے باہر لوگ جمع ہوگئے تھے۔انہوں نے ٹریفک کو ڈائیورٹ کرنا شروع کردیا۔

ہم بھاٹی سے موہنی روڈ، ٹیکسالی، آزادی چوک اور راوی روڈ کے علاقے سے راوی کے پل تک گئے تاکہ آنے والوں اور انہیں روکنے والوں کا اندازہ لگاسکیں۔وہاں سب کچھ معمول کے مطابق تھا یعنی کوئی لیگی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

ہم سمجھ رہے تھے کہ اس دو تین کلومیٹر کے علاقے میں لیگی بڑی تعداد میں جمع ہوں گے کہ ویسے بھی یہ علاقے حمزہ شہباز کے انتخابی حلقے میں شامل ہیں۔

وہاں ان کے پوسٹر تو دکھائی دیئے مگر حمزہ کہیں نظر نہ آئے۔

کارکنوں میں شور اٹھا کہ حمزہ آگئے لیکن وہ آزاد کشمیر کے وزرا تھے جن میں ہمارے دوست مشتاق منہاس بھی شامل تھے۔کشمیر اور بلتستان والے آگئے تھے، لوہاری، بھاٹی والے نہ جانے کس انتظار میں تھے۔

میرے دوست نے مجھے یاد دلایا کہ سوشل میڈیا پر کیسا شور مچا تھا، ’پورا ملک سیل کردیا گیا، لاہور جانے والے راستے بند، شہر مکمل سیل، رہنماؤں کارکنوں کی گرفتاریاں ۔۔۔ حتیٰ کہ شہباز شریف کا بیان آگیا تھا کہ انہیں گرفتار کیا گیا تو حمزہ ریلی کی قیادت کریں گے لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں۔‘

 حمزہ جنہوں نے پہلے اسلام آباد ائیر پورٹ کی کال دی تھی۔ان کے بیان کے فوری بعد مریم نواز نے واضح کردیا تھا کہ ’ہم لاہور آرہے ہیں۔‘ اس بات سے رابطے کا فقدان نہیں کچھ اور ظاہر ہوگیا۔

مسلم لیگ نون پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں مقبول ترین جماعت ہے۔عمران خان کے مقابلے میں نواز شریف اب بھی مقبولیت کے اعشاریوں میں آگے ہیں لیکن ن لیگ کے کارکنوں کو ایجی ٹیشن کی سیاست کے بارے میں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔

لوہاری گیٹ کی مسلم مسجد سے نماز جمعہ کے بعد ڈھائی بجے ریلی نکالنے کا اعلان تھا لیکن سوا چار بجے شہباز شریف کی آمد کے بعد جلوس ساڑھے چار بجے روانہ ہوا۔اسے راستے میں کسی نے نہیں روکا، بلکہ ریلی شروع ہونے سے پہلے ہائیکورٹ کے حکم پر زیرحراست رہنما اور کارکن رہا کر دیے گئے اور روٹ کے راستے میں رکاوٹیں ہٹادی گئیں۔

کئی شہروں سے قافلوں کو نکلنے نہیں دیا گیا لیکن جنہوں نے آنے کی ٹھانی تھی وہ پہنچ گئے۔

شہباز شریف کا قافلہ شاید اس امید پر آہستہ چل رہا تھا کہ متوالوں کی تعداد بڑھ جائے گی لیکن تعداد کی بجائے قائدین کی پریشانی بڑھتی ہوئی نطر آئی۔

یہ ریلی بڑی خبر اس لیے بھی نہ بن سکی کہ میڈیا پر دباؤ تھا لیکن لیگی رہنماؤں خصوصاً رانا ثنا نے میڈیا پر اور کچھ کارکنوں نے پولیس سے جھڑپیں کر کے حاضری لگوالی۔

مجھے 10 اپریل 1986ء کا دن یاد آگیا جب جنرل ضیا باندھے بند کو لوگوں کے سیلاب نے بہا دیا تھا۔آج پورا لاہور مسلم لیگ کا قلعہ کہلاتا ہے لیکن نگرانوں نے جیسے متوالوں کو قلعہ بند کردیا تھا۔جتنے نکلے انہیں شہباز کی ہلکی پرواز ائرپورٹ تک نہ لے جاسکی۔

میں نے رات 12 بجے دھرم پورہ میں شہباز شریف کے خطاب کا اعلان سنا تو فوراً دفتر سے نکل کر وہاں پہنچا مگر شہباز شریف مختصر خطاب کرکے واپس مال روڈ جارہے تھے۔

ٹی وی چینل بتا رہے تھے کہ ریلی کا اختتام ہوگیا مگر وہاں موجود جس سے پوچھا اس کی منزل اب بھی ائر پورٹ تھی۔انٹر نیٹ اور موبائل فون سروس کی بندش نے رابطے توڑ دیے تھے۔

میں نے لوگوں کو بتایا کہ نواز شریف 8 بج کر 40 منٹ پر لاہور اترے تھے جہاں سے خصوصی طیارے کے ذریعے انہیں اسلام آباد پہنچا کر اڈیالہ جیل منقتل کردیا گیا ہے مگر وہ شہباز کے پیچھے چل رہے تھے۔حتیٰ کہ بڑے ٹرک سے بار بار لاؤڈ سپیکر پر اعلان ہونے لگا ’یہاں سے یوٹرن لے لیں، یہاں سے یو ٹرن لے لیں۔‘

میں مڑا اور گھر کی طرف چل دیا۔

Source:

http://sujag.org/nuktanazar/shehbaz-rally-lahore-friday-pmln