میں کوئٹہ جانے کے لیے خانیوال کے ریلوے اسٹیشن سے رات ساڑھے سات بجے جعفر ایکسپریس سے سوار ہوا۔ جس بوگی میں میں سفر کررہا تھا اس بوگی میں قریب قریب سب لوگ ایک کنبے سے تعلق رکھتے تھے۔

یہ خٹک قبیلے کے لوگ تھے جن کی اکثریت پنجاب کے شہر ساہیوال میں آباد تھی جن کو وہاں فوجی خدمات کے صلے میں زرعی رقبے الاٹ ہوئے تھے۔

یہ خاندان اسی سابق آرمی میجر کے بھائی (جو کہ خود نیوی کے بڑے افسر ہیں) کے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں میں کوئٹہ کینٹ جارہا تھا۔ بتایا گیا کہ دلہن کے والد بھی فوجی افسر ہیں۔

پڑھا لکھا گھرانا تھا۔ گاڑی میں سوار خواتین بھی خاصی پڑھی لکھی تھیں ان میں کچھ ٹیچر اور پروفیسر تھیں۔

اس خاندان میں ایک نوجوان، جس نے تازہ تازہ کومسیٹ یونیورسٹی سے گریجویشن کی تھی، سے میرا تفصیلی مکالمہ بھی ہوا جبکہ آرمی سے ریٹائرڈ افسر سے بھی۔

اس بوگی میں ہی دو اور سکیورٹی آفیشلز سفر کررہے تھے جن کی ڈیوٹی بلوچستان کے اس حصے میں لگی ہوئی تھی جو ان کے بقول بہت زیادہ شورش زدہ تھے۔

یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ جو قوم  ریاست سے لڑ رہی ہوتی ہے وہ اپنی لڑائی کو مزاحمت اور اسے قومی آزادی و خود مختاری کی تحریک کہتی ہے جبکہ ریاست اسے شورش، فساد، دہشت گردی اور شر پسندی کہتی ہے۔

بلوچ تحریک کے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے لیے ’فراری‘ کا لفظ سرکاری ہرکاروں کو بہت مرغوب ہے۔

میں نے ان احباب سے گفتگو سننے پہ اکتفا کیا اور خود سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا۔

کوئٹہ تک اس سفر میں پہلی بڑی اور  اپنی طرف  متوجہ کرانے والی تبدیلی مجھے ’سبی‘ میں نظر آئی۔

گاڑی جب سبی ریلوے سٹیشن پہنچی تو ایف سی کے اہلکاروں نے اسے چاروں طرف سے حصار میں لے لیا۔

میں نے نیچے اتر کر دیکھا تو ریلوے سٹیشن کے ہر داخلی دروازے یا راستے پر ایف سی کے جوان تعینات تھے۔

تھوڑی دیر کے بعد کچھ فوجی، ہاؤنڈز( سدھائے ہوئے کتوں) کی رسیاں پکڑے نمودار ہوئے اور پوری گاڑی کی تفصیلی چیکنگ ہوئی۔

گاڑی کے روانہ ہونے سے پہلے ایک پائلٹ انجن آگے روانہ کیا گیا جو ایک میل کا فاصلہ ٹرین سے رکھتا ہے اور وہ  ہر ایک میل کے بعد راستہ کلئیر ہونے کا کاشن دے رہا تھا۔ اس دوران ٹرین کی تمام بوگیوں کے دروازے، کھڑکیاں بند کرا دی گئیں اور کوئٹہ سٹیشن آنے تک اس کی پابندی کرائی گئی۔

جیسے ہی ٹرین کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پہنچی تو ایف سی کی سربراہی کرنے والے کو میں نے ٹرین سے یہ کہ کر اترتے سنا  Thank God! Train has been safely arrived ( شکر خدا کا! ٹرین بحفاظت پہنچ گئی) اور اس نے اطمینان کی سانس لی۔

اس کا کیا مطلب ہے؟

اس کا صاف مطلب یہ بنتا ہے کہ بلوچستان میں سب ٹھیک تو ہرگز نہیں ہے اور حکومت کو پتا ہے کہ اس کی ریاستی مشینری کس حد تک تناؤ کی کیفیت میں ہے۔

سکیورٹی آفیشلز اور فوج کے سابق و حاضر سروس میجرز سے بات چیت ہوئی اور اس میں پہلے میں نے ان کی رائے سنی۔

حیرت انگیز طور پہ ان عسکری پس منظر اور بلوچستان میں کام کا تجربہ رکھنے والے افراد نے یہ حقیقت مان لی کہ ’فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں افراد کی بیخ کنی کرسکتی ہیں، وقتی طور پہ طاقت سے کچل سکتی ہیں لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے‘۔

’فیلڈ‘ میں دن رات جتے رہنے والے انٹیلی جنس کے یہ دو اہلکار بلوچستان کی ساحلی پٹی اور ایران سے لگے باڈر کے قریب علاقوں میں بڑا وقت گزار چکے تھے۔

ان سے جب میں نے یہ سنا کہ ’سیاسی حل‘ تلاش کیے بغیر بلوچ سوال حل نہیں ہوگا تو حیران ہوئے بغیر نہیں رہا۔

یہ بلوچستان میں مزاحمتی قوم پرست عناصر کے بارے ذرا بھی نرم رویہ نہیں رکھتے تھے لیکن ان کا یہ ماننا تھا کہ بلوچستان میں ’انسرجنسی‘ اس مرتبہ ’سردار فنومنا‘ نہیں ہے۔ یہ بلوچ قوم کی لوئر مڈل کلاس اور انتہائی غریب خاندان کے نوجوانوں کی تحریک بن چکی ہے۔

اب یہ اتفاق تھا کہ یہ سکیورٹی آفیشلز تبلیغی جماعت کی جانب رجحان رکھتے تھے اور خاصے مذھبی خیالات کے بھی مالک تھے۔

ان کا خیال یہ تھا کہ را اور افغان انٹیلی جنس بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کررہی ہے اور بلوچ نوجوانوں کو بے دین اور ملحدانہ خیالات کی جانب لے کر جا رہی ہے۔

ان کے خیال میں بلوچستان کے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ مذھبی اقدار سے آگاہی کی ضرورت تھی اور اس مقصد کو بلوچستان میں سرگرم مذھبی تنظیمیں، مدارس اور مساجد بخوبی پورا کررہے ہیں۔

ان کا خیال تھا کہ جے یو آئی، جے یو پی، اہلسنت والجماعت، تبلیغی مراکز، جمعیت اہل حدیث، جماعت دعوۃ، یہاں تک کہ جماعت اسلامی، یہ سب بلوچستان میں پھیلی ’الحاد پرست زہریلی قوم پرستی‘ اور ’وطن دشمن عناصر‘ کے خیالات کی بیخ کنی کے لیے موثر کردار ادا کررہی ہیں۔

مچھ ریلوے سٹیشن کی مسجد اہلسنت والجماعت /سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے امام کے پاس تھی۔

اس مسجد کے باہر بنے چبوترے پہ چند مولوی ’ضرب مومن‘ کا مطالعہ کررہے تھے۔

تھوڑی دیر میں نے ان سے بات چیت کی تو پتا چلا کہ مچھ سٹی میں اہلسنت والجماعت دیوبند کا مذھبی چہرہ بن چکی ہے اور سیاسی چہرہ جے یو آئی (ایف) اور جے یو آئی (نظریاتی) ہیں۔

ویسے جیکب آباد سے لے کر سبی تک ریلوے سٹیشن کے ساتھ ملحقہ آبادیوں کے اندر دیواروں پہ وال چاکنگ، کئی مکانوں پہ لہراتے جھنڈے اور اس ریلوے ٹریک کے کنارے نظر آنے والے مدارس اور کئی ایک مساجد سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بلوچستان میں بہرحال عسکریت پسند، فرقہ پرست، جہادی اور تکفیری عناصر کے لیے فضا سازگار ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ عسکریت پسند، فرقہ پرست اور جہادی اپنے آپ کو بہت بڑے محب وطن اور پاکستان پرست بتاتے ہیں اور ان سے پاکستان کے سکیورٹی اداروں اور بلوچستان کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کا کوئی تضاد نہیں آتا۔

ایک اور انتہائی دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ شیعہ اور ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے اندر مذھبی دایاں بازو بھی اپنے آپ کو ’پاکستان پرست‘ ظاہر کرنے اور اسے بتانے کے لیے دیوبندی اور سلفی فرقہ پرست، عسکریت پسند اور جہاد پرست حلقوں کی طرح بظاہر  بلوچستان میں بلوچ ایشو کو اسٹیبلشمنٹاور موجودہ اسلام آباد حکومت و بلوچستان حکومت کی نظر سے ہی دیکھتا ہے۔

مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ یہ دایاں بازو شیعہ و ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے اندر مزاحمت کو ٹھنڈا کرنے کا ایجنڈا لیے ہوئے ہے۔ اس کی جانب سے ہزارہ کمیونٹی کے اندر ترقی پسند، روشن خیال، مزاحمتی عناصر کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ دایاں بازو بلوچ مظلوم قوم کے ایشو پہ ہزارہ کمیونٹی کو اسٹیبلشمنٹ اور اسلام آباد کے قریب کرنے کے ایجنڈے پہ عمل پیرا ہے۔

اس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں اور ہزارہ کمیونٹی کے اندر بتدریج دائیں بازو کے مذھبی عناصر کا اثر رسوخ بڑھتا جارہا ہے۔

بلوچ ، پشتون اور ہزارہ یہ تین بڑی برادریاں ہیں اور ان تینوں کے درمیان نسلی و مذھبی بنیادوں پہ منافرت اور دوری کا ایجنڈا کون چلا سکتا ہے؟

 کون اسے بڑھاوا دے رہا ہے؟

بلوچ اور پشتون علاقوں میں ریڈیکل دیوبندی ازم کے لیے جگہ کیوں بڑھ رہی ہے؟

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جہاں جہاں مرکز کو سخت مزاحمت اور چیلنجز کا سامنا ہے وہیں پہ ریڈیکل تکفیری، جہادی اور الٹرا کنزرویٹوازم تیزی سے پھل پھول رہا ہے؟

آخر ایرانی سرحد کے قریب، بلوچستان کی ساحلی پٹی پہ، سندھ ۔ بلوچستان ۔ پنجاب باڈر پہ ریڈیکل دیوبندی تکفیر ازم اور داعش، القاعدہ اور طالبان سے ہمدردی یا متاثرہ لوگوں کا اثر و رسوخ کیوں بڑھ رہا ہے؟

کیا وفاقی حکومت اور بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے جیکب آباد ۔ کشمور ۔ بلوچستان ۔ پنجاب سرحد پہ مشترکہ اقدامات کیے ہیں؟

مستونگ میں سابق مشیر وزیراعظم نصیر مینگل کے بیٹے جاوید مینگل کے تربیتی کیمپ اور ایسے ہی سندھ ۔ بلوچستان باڈر پہ حفیظ بروہی، جاوید مینگل، شفیق مینگل گروپس کیسے سرگرم ہیں؟ اور ان کی بیخ کنی کیوں نہیں ہوپارہی؟

یہ بہت اہم سوالات ہیں جن کے جواب تلاش کرنے میں ہی بلوچستان میں ہزارہ، بلوچ، پشتون کے موجودہ حال کے ذمہ داران کا تعین کرنا آسان ہوجائے گا۔

ورنہ یہاں سب ٹھیک نہیں ہے۔

Source:

http://nuktanazar.sujag.org/baluchistan-insurgency-sibi