مسلم لیگ نواز کے حامی لبرل قلم کاروں کی چیتھڑا صحافت کا جائزہ – عامر حسینی

 

نوٹ: اس مضمون کا بنیادی خیال سید ریاض الملک حجاجی کا ہے جس کے لئے میں ان کا شکر گزار ہوں

مسلم لیگ نواز اور اس کی لیڈر شپ نے اپنے دائیں بازو کی انتہائی رجعت پرستانہ طاقتوں سے روابط،ان کی سرپرستی اور ان کی عقیدے و مذہب کی بنیاد پہ کی جانے والی پرتشدد سیاست اور انتہا پسندی پہ مبنی ڈسکورس کو پھیلانے والی قوتوں کے ساتھ بنائے اتحاد سے نظریں ہٹانے کے لئے لیفٹ اور لبرل چہرے رکھنے والے انگریزی اور اردو پریس کے کئی ایک ناموں کو خرید رکھا ہے۔ان ناموں میں ایک تو سیرل المیڈا ہے اور دوسرا نام فارو‍ق ندیم پراچہ /این ایف پراچہ کا ہے۔اور یہ صحافت اور سماجی تنقید پہ نام پہ مسلم لیگ نواز کی عذر خواہی میں مصروف رہتے ہیں۔سیرل المیڈا کے بارے میں یہ بات تو اب ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اصل میں اس کا اپنا کوئی چہرہ تو ہے ہی نہیں۔وہ سمجھوتہ باز، اسٹبلشمنٹ کا چمچہ بننے میں بھی اسے دیر نہیں لگتی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اس نے منتخب حکومت کے خلاف کئی آرٹیکلز لکھے اور یہاں تک کہ کھلے عام پاکستان کے اندر مارشل لاء تک کی حمایت کرڈالی۔آج کل بھی وہ اینٹی اسٹبلشمنٹ پوسچر کے ساتھ ہمیں یہ باور کرانے میں لگا ہوا ہے کہ وہ کوئ؛ بہت بڑا اینٹی اسٹبلشمنٹ ہے۔

حالانکہ وہ تو اصل میں سیکورٹی اسٹبلشمنٹ اور سعودی نواز اسٹبلشمنٹ جس کی تشکیل مسلم لیگ نواز کرتی ہے اس میں وہ نواز شریف کی طرف کھڑا ہوا ہے۔سیرل المیڈا کا تعلق اس لبرل کمرشل مافیا سے ہے جو پاکستانی ریاست کے اداروں اور پاکستانی معاشرے میں رجعت پرستانہ اور مذہبی بنیادوں پہ انتہا پسندی پھیلانے والی طاقتوں میں مذہبی بنیادوں پہ دہشت گردی اور تشدد کو جہاد ازم اور تکفیر ازم پہ مبنی نیٹ ورک کے سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کے اندر موجود رشتوں پہ تو بہت بات کرتا ہے لیکن ان کے سعودی کنکشن،مسلم لیگ نواز سے روابط اور تعلق پہ خاموشی اختیار کرتا ہے بلکہ اس حوالے سے گمراہ کن موقف اختیار کرتا ہے۔

ندیم فاروق پراچہ نے ایک عرصے تک اپنے آپ کو ایسے مضمون نگار کے طور پہ متعارف کرایا جوکہ پاکستان میں لبرل لیفٹ کی نمائندگی کرنے والا خیال کیا جاسکتا تھا۔اس نے بہت سے فیتے لگائے۔بائیں بازو کی ترقی پسند طلباء تنظیم این ایس ایف کا سابق رکن ہونے کا فیتہ،پھر ایک جذباتی بھٹو کے عاشق ہونے کا ناٹک اور اپنے آپ کو پاکستان میں دائیں بازو کے غلط اور مسخ کردہ تاریخی بیانیہ کے خلاف ٹھیک عوامی تاریخی بیانیہ کا علم بردار بنتلانے کا ناٹک اور آخر کار آج کل وہ نجم سیٹھی نے مسلم لیگ نواز سے ملنے والے مال پانی کواپنی میز پہ جو سجایا ہوا ہے اس میں سے اپنا حصّہ کھرا کرنے میں لگا ہوا ہے۔

ہمارا یہ کمرشل لبرل مافیا “قانون کی حکمرانی ” کا بہت شور مچاتا رہا ہے۔یہ شور سیرل المیڈا نے پی پی پی کی حکومت کے دوران بھی بہت مچایا تھا لیکن یہ کیا کہ ” پانامہ ٹائم ” نامی مضمون میں (روزنامہ ڈان،اشاعت 12 مارچ 2017ء) وہ شریف خاندان کی کرپشن پہ پردے ڈالتا ہے اور اپنے نصب العین “قانون کی حکمرانی ” کو بھول جاتا ہے۔اسے اب یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس نے تو اپنے پڑھنے والوں کو لمبے عرصے تک یہ سبق پڑھایا تھا کہ کرپشن ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہی ہے اور وہ پی پی پی کے صدر،وزیراعظم اور جملہ وزراء کے خلاف سخت احتساب کی بات کرتا رہا ہے اور آج جب نواز شریف کے خاندان کی باری آئی تو اسے مسلم یگ نواز کا مینڈیٹ ( وہ بھی دھاندلی زدہ )کا بار بار خیال آرہا ہے۔اپنے آقا و مولا نجم سیٹھی کی طرح سیرل المیڈا اسٹبلشمنٹ کو ڈکٹیشن دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے لئے پی ٹی آئی اور پی پی پی قابل قبول نہیں ہیں۔وہ سرعام شریف خاندان کی بادشاہت کی وکالت کرتا ہے جو 40 سال سے پنجاب پہ حکمرانی کررہی ہے۔

سیرل المیڈا شریف برادران کو حقیقت میں سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اپنے اختلافات کو دور کرنے کا مشورہ دیتا ہے اور یہ کبھی نہیں بتاتا کہ شریف خاندان کی کرپشن کے ساتھ ساتھ شریف خاندان کے اقربا پرور سرمایہ دار ایمپائر کے طالبان نواز دہشت گردوں سے کیا روابط ہیں۔

سیرل المیڈا جس کے کالموں کو انگریزی اشرافیہ کا سب سے بڑا علمبردار ڈان میڈیا گروپ کے انگریزی اخبارات اور ویب سائٹ پہ نمایاں کرکے شایع کیا جاتا ہے 13 جنوری 2017ء کو اپنے ایک آرٹیکل میں نواز شریف کو یہ کہتا ہے کہ “نواز شریف کو سیاسی طور پہ یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی کہ وہ صاف ستھرا ہے بلکہ ان کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ آصف علی زرداری کے لیول کا کرپشن سے لتھڑا ہوا نہیں ہے۔یہ کونسی صحافت ہے جو سیرل المیڈا کررہے ہیں۔

سیرل المیڈا کا کسی کی حمایت کا پیمانہ صرف یہ ہے کہ اس کی طرح کے بدعنوان صحافیوں کو مراعات اور فیور ملتی رہے اور وہ یہ حمایت فراہم کرنے والوں کے لئے عوام کو گمراہ کرنا جاری رکھیں گے۔سیرل المیڈا جیسے کمرشل لبرل مافیا کے بدعنوان صحافی قوم کو جھوٹی اور من گھڑت کہانیاں بیچتے رہیں گے کہ مسلم لیگ نواز پاکستان سے انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے مگر صرف یہ جی ایچ کیو میں بیٹھے جرنیل ان کو ایسا کرنے نہیں دیتے۔جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کے وزراء اور شریف خاندان مسلسل اعلانیہ انتہا پسند رہنماؤں اور دہشت گردوں کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑے ہوئے ہے۔

ندیم فاروق پرچہ صاحب بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔12 مارچ 2017ء کی روزنامہ ڈان کی اشاعت ” ایک نیا مستقبل ” میں پاکستان سپر لیگ پہ لکھتے ہوئے ایسے عقلی بلوغت کی کمی کا شکار اور بس جوش و جذبات میں لڑکے بالوں کی طرح سوچ کا آطہار کرتے نظر آئے۔ہم ان کے مشاہدات کے نام پہ لکھے گئے فرمان کو ایک فریب اور وہم ہی کہہ سکتے ہیں۔

لاہور میں خودکش بم دھماکوں سے لیکر سہیون شریف میں ہوئے بم دھماکوں تک اور پورے ملک میں جاری مذہبی بنیادوں پہ دہشت گردی کا اس کے نظریہ سازوں سے اور سب سے بڑھ کر سعودی عرب کے وائسرائے نواز شریف کا کیا تعلق بنتا ہے اور اس کی سنگینی کیا ہے اسے پاکستان سپر لیگ کے فائنل کے لاہور میں انعقاد سے چھپانے کی کوشش خود کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔ندیم فاروق پراچہ نجم سیٹھی کا نواز لیگ سے خریدا ہوا پی ایس ایل چورن بیچنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

لیکن یہ منجن نہ تو بین الاقوامی سرمایہ دار خریدنے کو تیار ہیں اور نہ ہی پاکستانی سرمایہ دار اسے خریدنے کو تیار ہے جبکہ پاکستانی سٹاک مارکیٹ سے مقامی اور انٹرنیشنل سرمایہ داروں کے حصص کو بیچنے کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستانی ریاست کی اشرافیہ کا پالنہار امریکہ بھی اس سے بیوقوف بننے والا نہیں ہے جس کی کانگریس پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردی کو سپانسر کرنے والے ملکوں کی فہرست میں رکھنے بارے سوچ بچار کررہی ہے۔یاد رہے کہ 1990ء ميں جب پاکستان کو اس فہرست میں رکھا گیا تھا تو تب بھی نواز شریف کی حکومت تھی۔لیکن ہمیں ایسا کوئی تذکرہ فاروق ندیم پراچہ کے آرٹیکل میں نہیں ملتا۔حد تو یہ ہے کہ فاروق ندیم پراچہ نے اگر اپنے ہی ادارے کے ماہنامہ ہیرالڈ میں حافظ سعید کی گرفتاری پہ چھپی خصوصی سٹوری جسے عمر فاروق نے لکھا پڑھی ہوتی تو وہ یہ باتیں نہ کرتے۔

” A future carved from an attitude which is bold, inclusive and decisive. Not defeatist, cynical or timorous.”

کیا واقعی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کا رویہ جرات مندانہ، بے باک،فیصلہ کن ،شکست خودرگی سے دور،خود پسندی سے الگ اور ڈرسے خالی ہے جس سے پاکستان کا مستقبل تابنک نظر آرہا ہے ؟

میرا جواب تو نفی میں ہے ۔

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.