طاہر اشرفی: چپڑاس سے شاہی خلعت تک

نوٹ: طاہر اشرفی کے بارے میں سپاہ صحابہ پاکستان کے ان کے پرانے ساتھی نے ایک تحریر لگائی ہے۔یہ تحریر اصل میں طاہر اشرفی کے آئینے میں تکفیری دیوبندی ازم اور اس کے مجرمانہ کردار کا چہرہ ہے۔یہ تحریریں ہمیں یہ بتانے میں مدد کرتی ہیں کہ دیوبندی ازم کی صرف ریڈیکلائزیشن ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کا تکفیری چہرہ بدترین کریمنلائزڈ لوگوں پہ مشتمل ہے۔ضیاء ناصر نے جتنے جرائم بتلائے وہ زاتی عیب تو کسی صورت نہ تھے۔اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تکفیری دیوبندی ازم کے علمبردار اخلاقیات کے کس حد تک قائل ہیں۔تکفیری دیوبندی ازم ایک ناسور ہے جو دیوبند تحریک کو نگل گیا ہے۔طاقت، پیسہ، مفادات یہ سب کے سب دیوبندی مذھبی قیادت کو ایک Cult میں بدل چکے ہیں۔ہم یہ مضمون من و عن شایع کررہے ہیں لیکن پڑھنے والوں کو کہتے ہیں کہ وہ کینوس بڑا کریں اور غور کریں کہ ادارہ تعمیر پاکستان لمبے عرصے سے تکفیری دیوبندی ازم کے ناسور ہونے کے حوالے سے پاکستانی عوام کو باور کراتا رہا ہے۔

یہ کہانی رنگین بھی ہے اور سنگین بھی! میں نے یہ کہانی منظر عام پہ لانے کا اعلان اپنے فیس بک پر کیا تو اشرفی صاب کے ہم پیالہ و ہم نوالہ خاص دوستوں نےمیرے ذاتی دوستوں تک اپروچ کی، ان دوستوں میں سے کچھ نے فون اور کچھ نے ٹیکسٹ میسیجز کے ذریعہ مجھے سمجھانے اور دھمکانے کی بہت کوشش کی، اور دلیل یہ دی، کہ وہ ایک دیوبندی عالم ہے، آپ خود مولوی ہوکے علماء کے مقام کو لبرلز کی نظرمیں گرانے اور ملیامیٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، یہ مناسب نہیں!
میرا جواب ان سب کو یہ تھا کہ اگر طاہر اشرفی کے عیوب صرف اس کی ذات تک محدود ہوتے تو والله میں اب بھی ان پہ پردہ ڈالے رکھتا، جس طرح اتنے سال پہلے بھی ڈالے رکھا، لیکن اب وہ انٹرنیشنل فورمز پہ پاکستان اور علماۓ پاکستان کو ذلیل و خوار کرنے کے لئےعالمی طاقتوں کاایجنٹ بن چکاہے، اگر اب بھی میں خاموش رہا، تو عندالله میں مُجرم ہونگا، نیز ایک مچھلی پورے جل کو گندا کردیتی ہے، جب تک ہم اپنی صفوں میں چُھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو ظاہر نہیں کریں گے، ہماری اپنی صداقت پہ بھی انگلیاں اٹھیں گی، کوئی شخص اگر اپنے آپ کو دیوبندی کہلواتا ہے، یا کسی دیوبندی ادارے کی طرف اپنی نسبت ظاہر کرتاہے، اور انٹرنیشنل فورمز پہ اپنے آپ کو پورے پاکستان کے علماء کا صدر یا چئیرمین بتلاتا ہے،
تو اسے یہ حق کس نے دیا ہے؟ کم از کم میں تو قطعی طور پہ یہ برداشت نہیں کرسکتا! کہ وہ ہمیں یا ہمارے مدارس کو دنیا میں جب اور جہاں چاہے، چند ٹکوں کے عوض بیچ دے! آج کے اُمت اخبار نے بھی موصوف کے کُچھ حقائق چھاپے ہیں، لیکن جو باتیں میں شئیر کرنے لگاہوں، ان میں سے ایک بات بھی کُھل کے اُمت یا کسی دیگر اخبار نے آج تک چھاپنے کی جُرات نہیں کی! وجہ کسی قسم کی لالچ یا خوف والله اعلم۔ لاہورانجینئرنگ یونیورسٹی کے قریب رہائش پذیر حافظ طاھر محمود اشرفی نے کچھ عرصہ لاہور کےایک بہت بڑے تعلیمی ادارہ میں تعلیم حاصل کی! بعد ازاں موصوف جمعیت علماء اسلام کے لاہور آفس چوک رنگ محل میں بطور چپڑاسی تعینات ہوئے، وہیں سے ایک بہت بڑے عالم دین کی سفارش پہ موصوف کو لاہور میونسپل کارپوریشن کے زیر اہتمام چلنے والےایک پرائمری اسکول میں ٹیچر تعینات کیا گیا، کچھ عرصہ موصوف یہ ٹیچری کرتے رہے، لیکن موصوف دنیا فتح کرنے کی اُمنگ دل میں لئےاپنے وقت کے مشہور ترین عالم اور خطیب پاکستان ( اب مرحوم ) کی چوکھٹ پہ جاپہنچے، باربار کی منتوں سماجتوں کے بعد خطیب پاکستان نے اپنے قریبی دوست جو راولپنڈی کے رہائشی ہیں، جن کافرضی نام ہم عبدالله تصور کرلیتے ہیں، ( یہ عبدالله صاحب میرے بھی ذاتی اور قریبی ترین دوست ہیں،
یوسف رضا گیلانی کے بیٹے والی سٹوری بھی مجھے انہوں نے ہی بتائی تھی ) ان عبدالله صاحب کے پوری پاکستانی ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ سے 1974 سے بہت ہی قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں، عبدالله صاحب نے موصوف کو اپنے تعلقات کے بل بوتے پہ CID لاہور میں 1500روپے ماہوار پہ ملازمت دلوادی، CID کے افسران بالا کوانٹرویو کے درمیان جب یہ معلوم ہوا، کہ موصوف جمعیت کے آفس میں نوکری بھی کرتے رہےہیں، جہاں جمعیت کے تمام بزرگوں کاآناجانا اور اکثر ٹھہرنا بھی ہوتا ہے، تو موصوف کی ڈیوٹی علماء کی مُخبری کرنے پہ لگادی گئی، کچھ عرصہ بعد انٹیلی جنس بیورو پنجاب جسے عرف عام میں IB کہاجاتاہے، کے جائنٹ ڈائریکٹر جو ایک جنرل کے ماموں بھی تھے،( نام ظاہر کرنا مناسب نہیں ) کو ان کے چند افسروں نے بتلایا، کہ ہمارے دیگر مُخبر ناکام ثابت ہورہےہیں، CID پنجاب کاایک مخبر طاھر اشرفی اس وقت بہت کامیاب جارہاہے،
اسی وجہ سے سی آئی ڈی کی علماء کے بارہ میں رپورٹس زیادہ تفصیلی بھی ہوتی ہیں، اور کارآمد بھی! لہٰذا اس کو کسی طریقہ سے انٹیلی جنس بیورو میں لایاجائے! اس آفیسر نے جب چھان پھٹک کی، کہ یہ شخص کس طریقہ سے سی آئی ڈی کا مُخبر بنا ہے، تو اسے معلوم ہوا، عبدالله صاحب نے جو جائنٹ ڈائریکٹر صاحب کا بھی دوست ہے، اسے خطیب پاکستان کے کہنے پہ سی آئی ڈی میں بھرتی کروایا ہے، جائنٹ ڈائریکٹر آئی بی نے اپنے عبدالله سے ملاقات کی اور درخواست کی، کہ آپ نے اسے سی آئی ڈی میں لگوایا ہے، ایسا کارآمد بندہ تو ہمیں چاہئے، جائنٹ ڈائریکٹر کے اصرار پہ عبدالله صاحب نے طاھر اشرفی کو ان سے ملوایا، تو ان صاحب نے 2000 روپے ماہانہ کے عوض انٹیلی جنس بیورو پنجاب میں مُخبر کی ڈیوٹی تفویض کردی! اب موصوف نےایک ہی وقت میں دو ایجنسیوں، CID اور IB میں بطور مُخبر کام کرنا شروع کردیا، اس زمانہ میں موصوف کا موبائل نمبر یہ تھا، 03008446612 ان ملازمتوں کے دوران موصوف کے علم میں یہ بات آئی، کہ تیز ترین ترقی کے لئے افسران بالا کی گُڈ بُک میں آنا ضروری ہے، اور افسران بالا کا شوق دو ہی چیزیں ہیں، اچھی شراب اور خوبصورت لڑکی!
اب موصوف نے علماء کی مُخبری کے ساتھ ساتھ ان دونوں اشیاء کی افسران بالا کو سپلائی کا ٹھیکہ بھی اپنے ہاتھ میں لےلیا، اپنی انہی خدمات کے عوض موصوف اس زمانہ میں CID کے DIG پنجاب کی نگاہوں میں آگئے, یہ ڈی آئی جی سی آئی ڈی بعد میں ترقی کرتے کرتے ایف آئی اےپاکستان ( FIA ) کے ڈائریکٹر جنرل بنے! ایف آئی اے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کا مُخفف ہے! 1990 کی دھائی کو اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں پاکستان میں مذہبی منافرت اور دھشت گردی کے عروج کا دور کہاجاتاہے، اس زمانہ میں بڑے بڑے قیمتی علماء کو شھید کیاگیا، اور یہی زمانہ تھا، جب اپنی خدمات کی وجہ سے طاھر اشرفی DIG, CID کی نظروں میں سمایا، اسی نوے کی دھائی میں ڈی آئی جی سی آئی ڈی مذہبی دھشت گردی کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار اداکررہے تھے، انہوں نے طاھر اشرفی کو اپنے زیر سایہ لےلیا، اس زمانہ میں اک محتاط اندازے کے مطابق اسی فیصد سے زائد دیوبندی علماء کی گرفتاریاں یا گرفتاریوں کے لئے چھاپےطاھر اشرفی کی رپورٹس پہ ہی مارے جاتے تھے، خوشامد اور چاپلوسی موصوف کا طُرۂ امتیاز تھا،
اورہے! علماء کرام اپنی سادہ لوحی سے اسےاندرکی ہر بات بتادیاکرتےتھے، اور موصوف اپنے افسران بالا کو! اسی دوران طاھر اشرفی نے عمرہ ویزا کا کاروبار بھی شروع کیا، لیکن اس میں خاطر خواہ آمدن نہ ہونے کے سبب کچھ ہی عرصہ بعد اس کاروبار کو چھوڑ دیا، لاہور کی خوبصورت ترین ٹاپ کلاس کال گرلزکو دلاورخان ڈی آئی جی پولیس کے جعلی نام سے بلیک میل کرکے ان کے ساتھ راتیں گذارنا بھی موصوف کامحبوب ترین مشغلہ رہاہے! اسی زمانہ میں پنجاب پولیس کے ایک دبنگ آفیسر ذوالفقار احمد چیمہ جنہیں بعد میں موٹروے پولیس کا آئ جی لگایاگیا، شدت سےاس بات کے خواہاں رہے، کہ میں اس شخص کو گرفتارکرکے جیل میں ڈالوں، لیکن ہر بار انٹیلی جنس بیورو کے اعلٰی افسران کی مداخلت پہ چیمہ صاحب ناکام ہوتے رہے،
عزیز دوستوں کے سامنے چیمہ صاحب اپنی اس تاریخی ناکامی کو اپنے کیریر پہ بدنماداغ کے طور پہ لیتے ہیں، 9/11 کے بعد جب مجاھدین پہ مشکلات کا دور شروع ہوا، تو موصوف نے مجاھدین سے رقم لے کےانہیں سرحد پار کروانے کا کام شروع کیا، کچھ لوگوں کو موصوف بارڈر کراس کروادیتے تھے، اور اہم ترین لوگوں کی مُخبری کرکے ان کو گرفتار کروادیتے تھے، اور اس کا معاوضہ حکومت پاکستان سے لیتے تھے! سابق بریگیڈیر اعجاز شاہ( جنہیں محترمہ بے نظیر بھٹو شھید نے 2007 میں کراچی آمد پہ دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پہ چوھدری پرویز الٰہی اور ارباب غلام رحیم وغیرہ کے ساتھ نامزد کیاتھا) یہ صاحب کافی سالوں تک آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر رہے ہیں، پھر پنجاب کے ہوم سیکریٹری بعد ازاں چارسال تک آئی بی پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہےہیں، اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں چُھپانےاور حرکت المجاھدین کے کچھ معاملات کے ساتھ ساتھ اور بہت سے معاملات میں ان سابق بریگیڈئیر صاحب کا لنک بتایا جاتا رہا ہے، انہیں پرویز مشرف کا رائٹ ہینڈ ہی نہیں بلکہ مشرف کی ناک کا بال سمجھا جاتاتھا، ان بریگیڈیر اعجاز شاہ کو 2004 میں جب انٹیلی جنس بیورو کا چیف مقرر کیا گیا،
تو موصوف نے طاھر اشرفی کی اب تک کی خدمات کے عوض طاھر اشرفی کو ایڈوائزرمذہبی امور برائے گورنر پنجاب لگوادیا! ( اس سے پہلے گورنر لیفٹیننٹ جنرل صفدر سے بھی طاھر اشرفی کے قریبی تعلقات تھے، لیکن اس سے وہ کوئی پوسٹ حاصل نہ کرسکا) ایڈوائزرمذہبی امور کو صوبائی وزیر کے برابر پروٹوکول ملتا ہے، اسی پروٹوکول کے مطابق پولیس کا حفاظتی دستہ بمعہ گاڑی جب موصوف کو ملنا شروع ہوا، تو لاہور ڈیفنس K بلاک مکان نمبر 7 میں لاہور کے سب سے بڑے جوئے کےاڈےکی سرپرستی موصوف نے شروع کردی، یہ جوئے کااڈا بدنام زمانہ پرویز خان عرف P K Khan کا ہے، اس مکان کے باھر ساری ساری رات پولیس سکواڈ کی گاڑی کھڑی رہتی تھی، جو موصوف کو ان کی حفاظت کے لئے ملی ہوتی تھی،
اسی جوئے کے اڈے پہ لاہور کی مہنگی اور خوبصورت ترین کال گرل علوینہ بھی جوا کھیلنے آیاکرتی تھی، طاھر اشرفی اس پہ عاشق ہوگیا، شراب کے نشے میں دُھت ہوکے ساری رات اپنے عشق کا دَم بھرتا رہتا، اسی زمانہ میں انٹیلی جنس بیورو پنجاب نے پنجاب میں جوئے کے بڑے اڈوں اور ان کے سرپرستوں کی لسٹ اخبارات کو مہیا کی، جس میں مکان نمبر 7 , K بلاک ڈیفنس لاہور کے اڈے کا مالک پرویز خان کو اور اس اڈے کا سرپرست طاھر اشرفی کو ظاہر کیا گیا، اور یہ سرپرستی مذہبی امور کی ایڈوائزری کے پورے دورانیہ پہ مُحیط ہے، جو کہ تقریبا پانچ سال کا عرصہ ہے، لال مسجد کا واقعہ تو ہر پاکستانی مسلمان کے دل پہ نقش ہے، اس ہنگامہ میں بھی موصوف نے اپنا کردار خوب نبھایا، مقتدر حلقوں کو عبدالرشید غازی سے ہتھیار ڈلوانے کا لالچ دے کے موصوف اسلام آباد آئے، بلیو ایریا اسلام آباد کے ہوٹل میں موصوف کو ٹھہرایاگیا، ہوٹل کا نام Hotel De Papae intl ہے، آفیسر مہمانداری کے طور پہ اسلام آباد کے ایک مجسٹریٹ صاحب کی ڈیوٹی لگائی گئی، موصوف کا پہلا حکم ہی یہ تھا، مجھے دو بوتل شراب مہیا کی جائے ” حکم علامہ مرگِ مفاجات ” مجسٹریٹ صاحب نے دو بوتل ولایتی شراب مہیا کی، دو روز تک تو روزانہ دو بوتل شراب مجسٹریٹ صاحب مہیا کرتے رہے،
تیسرےدن کسی عزیز کی بیماری کا بہانہ کرکے ڈیوٹی سے چھٹی لے کےمجسٹریٹ صاحب غائب ہوگئے، اور اشرفی صاحب چند روز بعد لال مسجد پہ فاتحہ پڑھ کے واپس لاہور آگئے! کچھ عرصہ قبل پولیس کے حفاظتی سکواڈ کے ساتھ براستہ موٹروے جب گولڑہ موڑ کی چیک پوسٹ پہ پہنچے، تو ناکہ پہ پولیس نے روک لیا، روکنے والا ایک سب انسپکٹر تھا، جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی، جب اسے شراب کی بو آئی، تو اس نے کار سے نیچے اتار لیا، اس سے تلخ کلامی ہوئی، سب انسپکٹر نے اشرفی کے منہ پہ ایک تھپڑ جڑدیا، اور کہا، کہ تم اپنے آپ کو مولوی کہلواتے ہو، اور سرعام شراب پی رہے ہو، تمہیں شرم آنی چاہئے، اشرفی نے اسے مُعطل کروانے کی بُہت کوشش کی،
لیکن اس سب انسپکٹر کے افسرانِ بالا نے اُس کا ساتھ دیا، اور وہ آج بھی اپنی ڈیوٹی کررہا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل کا واقعہ تو جب بھی یاد آتا ہے، تو سر شرم سے جُھک جاتاہے، موصوف ایک یورپین ایمبیسی کی ایک تقریب میں مہمان تھے، وہاں اتنی زیادہ شراب پی لی، کہ طبیعت خراب ہوگئی، اور کار ہی میں اُلٹیاں شروع کردیں، پولیس ناکہ پہ پولیس نے روکا، اور تھانہ کوہسار لے گئے، وہاں کے آفیسر انچارج شراب نوشی کا مقدمہ درج کرنا چاہتے تھے، کہ اسلام آباد کے ایک بااثر ترین صحافی چھڑوانے کے لئے پہنچ گئے۔ قارئین کے ذہنوں میں ایک بہت بڑا سوال پیداہوگا، کہ اتنا کرپٹ ترین شخص اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر کیسے بن گیا، تو آئیے، آپ کے اذھان کا خلجان دور کرتا ہوں۔ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لئےکچھ عرصہ قبل سیفما کے نام سے ایک تنظیم بنی تھی، جس کا صدر معروف صحافی امتیاز عالم ہے،
امتیاز عالم ہر وقت شراب کے نشے میں دُھت رہنے والا شخص ہے، موصوف اور ان کی تنظیم سیفما کا اندرون خانہ بنیادی ایجنڈا تقسیم ہند کی لکیر کو ختم کرنا ہے، طاھر اشرفی کے ساتھ چونکہ ہر وقت پولیس سکواڈ ہوتی ہے، اس لئے اس کی گاڑی اکثر پولیس ناکوں پہ نہیں روکی جاتی، موصوف اسلام آباد سے درجنوں کے حساب سے ولایتی شراب کی بوتلیں لاکے لاہور کے باثر شرابی صحافیوں کو بطور تُحفہ دیتے ہیں، اس تُحفےسے پیپلزپارٹی کے دور میں سب سے زیادہ فیض حاصل کرنے والے امتیاز عالم کو موصوف نے مجبور کیا، کہ مجھے اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر بنوائیں، امتیاز عالم نے پیپلز پارٹی کے مرکزی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کو مجبور کیا، قمر زمان کائرہ کی سفارش پہ موصوف کو اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر بنایاگیا!
پیپلز پارٹی دور کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو سفر حج کے دوران عبدالله ( فرضی نام ) نے کہا، راجہ صاحب آپ نے اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر ایک انتہائی کرپٹ، زانی، شرابی، بلیک میلر انسان کو بنایاہے، آپ کا یہ گناہ مُعاف نہیں ہوگا، راجہ پرویز اشرف نے جواب دیا، یہ گُناہ قمر زمان کائرہ کے حساب میں جائےگا، کہ اس نے مجھ سے یہ کام کروایاہے۔ جن دوستوں کے پیٹوں میں یہ درد ہوتارہا، کہ یہ ایک عالم دین ہے اور آپ عالم دین کی توہین کے مُرتکب ہورہے ہیں، ان واقعات کو پڑھ کے وہ اپنے اپنے ضمیروں سے یہ سوال کریں، کیا علماء دین اسی طرح کے ہوتے ہیں، جو جوئے خانوں کی فقط سرپرستی ہی نہ کرتے ہوں، بلکہ خود بھی کروڑوں کا جوا کھیلتے ہوں، لاہور کے بُکیوں میں جنہیں گاڈفادر سمجھا جاتاہو، جب بھی کوئی سیاسی ہلچل ہو، تو ُبکی اس سے پوچھ کے جوئے کے ریٹ نکالتےہوں،
طاھر اشرفی یااس کے کسی حواری اور چمچے نےمیرے پیش کردہ حقائق کو جھوٹا ثابت کرناہو، تو عدالت عالیہ یا عدالت عُظمٰی میں میرے خلاف ہتک عزت کی رٹ دائر کریں، میں زندہ گواہوں ویڈیو ریکارڈنگز اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ عدالت میں اس کا کچا چٹھاطشت ازبام کرونگا۔ لیکن نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔ کہاں تک سُنوگے؟کہاں تک سُناؤں؟ میرے پاس بے شمار مصدقہ واقعات موجود ہیں، میں صرف ان افراد کےنام لکھ رہاہوں، جو زندہ ہیں، اور تصدیق یا تردید کرسکتے ہیں۔ اب اک اور داستان سنیئے۔ قارئین کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے، کہ کسی بھی مغربی ملک کی نیشنلٹی کے حصول کے کچھ اصول و ضوابط ہیں، جن میں سے بنیادی اصول ایک مقررہ مدت تک اس ملک میں قیام پذیر رہنے کے بعد اس ملک کی نیشنیلٹی ملتی ہے!
آئیے آپ کو ایک تہلکہ خیز خبر یہ بھی دیتاجاؤں، کہ طاھر اشرفی اپنی پیدائش سے لے کے آج تک کبھی بھی برطانیہ میں مستقل قیام پذیر نہیں رہا، نہ اس کے والد برطانوی شہری ہیں، نہ اس کی والدہ نہ بیوی نہ بچے، یہ وہ رشتے ہیں، جن کی بنیاد پہ بھی آپ برطانوی شھریت کے حقدار بن سکتے ہیں ، یا آپ ایک مخصوص انویسٹمنٹ برطانیہ میں کرکے جو تین کروڑ پاکستانی کے قریب ہے، صرف رہائشی ویزا حاصل کرسکتے ہیں، اس میں بھی کافی سالوں کے بعد جاکےنیشنلٹی ملتی ہے، اس میں بھی ایک بنیادی شق ہوتی ہے، کہ ان ڈیفینیٹ سٹمپ لگنے کےبعد پورے سال کے دوران برطانیہ سے تین ماہ سے زیادہ ایک منٹ کے لئے بھی باھر نہ جایاجائے، پھر آپ نیشنیلٹی اپلائی کرنے کے حقدار بنتے ہیں۔ طاھر اشرفی نے ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کیا، پھر بھی وہ برطانیہ کا پاسپورٹ ہولڈرہے!
پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی لیڈر کافی سال برطانیہ میں گذارنے کے باوجود برطانوی پاسپورٹ حاصل نہ کرسکے! لیکن طاھراشرفی نے پاکستان میں بیٹھ کے یہ ناممکن کام کردکھایا؟ حالانکہ طاہرالقادری جیسے شخص کو بھی کینیڈین نیشنیلٹی لینے کے لئےادارہ منھاج القرآن فارسٹ گیٹ لندن کے اکاؤنٹ میں سے تین لاکھ پاؤنڈ انویسٹمنٹ کے نام پہ کینیڈا ٹرانسفرکرنے پڑے تھے، اور پھر وہاں کا ویزا ملنے کے بعد مستقل وہاں ڈیرا ڈالنا پڑا تھا، لیکن طاھر اشرفی نے اک ناممکن کام کردکھایا، کہ پاکستان میں رہ کے برطانوی سُرخ پاسپورٹ حاصل کرلیا! اخبارات پڑھنے والے قارئین کو اسلام آبادکی نواحی بستی کی رہائشی 14 سالہ رمشا مسیح کا اگست 2012 کا کیس یاد ہوگا، جسے قرآن مجید کے اوراق جلانے کے الزام میں گرفتار کیاگیاتھا! جسے نومبر 2013 میں تمام الزامات سے بری کرواکےپوری فیملی سمیت کینیڈین ایمبیسی نے کینیڈاکے کسی نامعلوم مقام پہ منتقل کروادیاتھا!
اس کیس میں طاھر اشرفی نے رمشامسیح کی کُھل کےتمام میڈیا میں حمایت کی تھی، رمشامسیح اور اسکی فیملی کے مُلک سے جانے کے فوراً بعد سوئس ایمبیسی، سویڈش ایمبیسی ، فرنچ ایمبیسی اور برطانوی ایمبیسی کے آفیسران سے طاھر اشرفی نے ملاقات کی، اور اپنے آپ کو ملنے والی جھوٹی قتل کی دھمکیوں اور دیگر پرانی خدمات کے معاوضے کے طور پہ پاسپورٹ کی ریکوئسٹ کی، جسے برطانوی ایمبیسی میں قبول کرلیاگیا، اور موصوف کو گھر بیٹھے ہی سُرخ پاسپورٹ مل گیا۔ اسلام آباد میں ایک برادر عرب مُلک کے سفیر صاحب بھی موصوف کے پیش کردہ تحائف ولایتی شراب اور لڑکیوں سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں، جس کی رپورٹ پاکستانی ایجنسیوں نے متعلقہ مُلک تک پہنچادی ،جس کی پاداش میں سفیر موصوف کو اگلے ماہ تک ان کے ملک واپس بلوایاجارہاہے، 2016 میں موصوف نے امریکن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دعوت پہ امریکہ کا پانچ روزہ خفیہ دورہ کیا،
اس دورہ میں موصوف کو واشنگٹن ڈی سی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا، اور ان سے وہ مشہور معاہدہ کیاگیا، جس کی تفصیلات اخبارات میں پہلے ہی چھپ چکی ہیں، اور حالیہ ستاسی لاکھ یورو کے جرمن معاھدہ کی تفصیلات بھی منظر عام پہ آچکی ہیں۔ پاکستان کے نوجوان علماء جن کو موصوف یہ دھمکیاں دے کے اپنے ساتھ ملاتےہیں، کہ اگر تم نے میرا ساتھ نہ دیا، تو تمہیں میں فورتھ شیڈول میں ڈلوادونگا اور پولیس تمہیں ہروقت تنگ کرے گی تمہارا بنک اکاؤنٹ، شناختی کارڈ وغیرہ ضبط ہوجائیں گے، تمہارا نام دھشت گردوں میں آجائےگا! ان نوجوان علماء سے میں یہ گذارش کرونگا،
یہ شخص تو خود لشکر جھنگوی کے دھشت گردوں کا قریبی ساتھی رہاہے، اور ان دھشت گردوں سے لوگوں کواٹھواکے ان سے بھتے وصول کرتارہاہے، اور یہ سب کچھ ایجنسیوں کے علم میں ہونے کے باوجود آج تک اس پہ اس لئے ہاتھ نہیں ڈالاگیا، کہ اس نے ان کو یہ تاثر دیاہواہے، میرے ساتھ پاکستان کے ہزاروں نوجوان علماء ہیں، میں ایک لمحے میں پورا ملک بند کروادونگا، میں دیوبندیت کا مُحافظ ہوں، تمام دیوبندی تنظیمیں میرا دم بھرتی ہیں، وغیرہ وغیرہ میرے دوستو! اپنے گذرے ہوئے یا موجودہ اکابرین کے تقوٰی اور للھیت کی طرف نظر کریں اور اِس شخص کی طرف بھی کہ جس کا سگا باپ اس کے گھر کا پانی پینا بھی گوارا نہیں کرتا( موصوف کے والد تبلیغی جماعت کے ساتھ منسلک اور انتہائ متقی انسان ہیں) آپ ایسے ننگِ دین ننگ اسلاف شخص کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں، اور پوری دنیا کو یہ بات بتادیں، کہ طاھر اشرفی جیسے دین دشمن اور دین فروش شخص سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ بہت سارے حقائق ہیں، فی الحال اسی پہ اکتفا کرتا ہوں، اگر ضرورت پڑی تو دوسری قسط اس سے بھی تہلکہ خیز سامنے لاؤنگا، موصوف کی ناقابل اشاعت تصاویر، ویڈیوز اور آڈیو ریکارڈنگز کے ساتھ ان شاءالله!
الله ہم سب کا حامی و ناصر ہو
تحریر و تحقیق؛ صاحبزادہ ضیاءالرحمٰن ناصر
Source:

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.