سانحہ باچاخان یونیورسٹی کے شہداء ہمارا سلام ہو آپ پر – از حیدر جاوید سید

خیال یہی تھا کہ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں نشاط ثانیہ کے لئے سرگرم عمل بلاول زرداری کی قیادت میں لاہور سے فیصل آباد تک کی پرجوش عوامی ریلی کے حوالے سے کچھ معروضات ا ور سوال پڑھنے والوں کے سامنے رکھوں۔ مگر اسی اثناء میں یہ بات سامنے آئی کہ سانحہ باچا خان یونیورسٹی مردان کی پہلی برسی کے حوالے سے یونیورسٹی میں منعقدہ مرکزی تقریب میں کسی بڑے یا چھوٹے صوبائی حکومت کے عہدیدار اور کسی دوسرے ادارے کے فرد کو شریک ہونے کی توفیق نہ ہوئی۔

مردان کے فعال سیاسی کارکن اور قانون دان برادرم وقاص بٹ نے مجھ سے سوال کیا ‘ شاہ جی! کیا ہمارے بچے جو سال بھر قبل کے سانحہ میں شہید ہوئے تھے کسی طرح آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں سے کم درجہ کی حیثیت کے حامل تھے؟ وقاص بٹ ایڈووکیٹ کے اس سوال میں چھپی تلخی نے مجھے لرزا کر رکھ دیا۔ لیکن ہمیں سوالوں سے بھاگنے کی بجائے ٹھنڈے دل سے سوالوں کا جواب دینے کے ساتھ اب یہ بھی سوچنا ہوگا کہ لوگ آخر یوں کس لئے سوچنے پر مجبور ہوئے۔ شکوہ بلا وجہ نہیں ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے وزر اعظم’ آرمی چیف’ گورنر’ وزیر اعلیٰ و دیگر اہم شخصیات کو سانحہ باچا خان یونیورسٹی کی برسی میں شرکت کے لئے لگ بھگ مہینہ قبل دعوت دی تھی۔ ان صاحبان میں سے کسی نے برسی کی تقریب میں شرکت کی نہ کسی نے کوئی پیغام بھیجا۔ یہ رویہ قابل افسوس تو ہے مگر اس سے جو تاثر پید ا ہوا اس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ کیا ہم اب اپنے اپنے شہید و مقتول اور اپنے اپنے ظالم و مظلوم کی منفی فکر کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ سانحہ باچاخان یونیورسٹی کی برسی کے لئے اس طرح کی تقریبات کا انعقاد نہیں ہوسکا جیسی تقریبات آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کی یاد میں منعقد ہوئی تھیں۔؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران محاذوں پر دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے افسر اور جوان ہوں یا دہشت گردی کا سڑکوں’ تعلیمی اداروں اور مقدس مقامات پر نشانہ بننے والے مرد و زن شہری اور معصوم طلباء و طالبات’ ہم زمین زادوں کے لئے یہ سارے شہداء باعث فخر اور لائق تکریم ہیں۔

عجیب بات ہے کہ عام شہری سب کے لئے یکساں جذبات رکھتا ہے مگر حکمران’ اشرافیہ اور بالا دست طبقات کی سوچ عام شہروں کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ دوریاں اس طرح کی سوچ اور انداز فکر سے پیدا ہوتی ہیں۔ کیا باچاخان یونیورسٹی آرمی پبلک سکول’ مزار حضرت بلاول شاہ نورانی’ بانو بازار’ علامہ اقبال پارک’ سانحہ ہزارہ ٹائون’ پشاور کے سانحہ گرجا گھر اور دیگر سانحات میں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے خون کے رنگ میں کوئی ایسا فرق تلاش کرلیا گیا کہ جو اس قابل افسوس طرز عمل کی بنیاد بنا؟

مجھے امید نہیں کہ ارباب اختیار اور دیگر بڑے طبقات و سیاسی جماعتوں کے قائدین اس کڑوے سوال کا کوئی جواب دے پائیں گے۔ ایک عام زمین زادے کے طور پر میرا شکوہ اے این پی ‘ پیپلز پارٹی’ نون لیگ’ قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعتوں سے بھی ہے جو دعویدار ہیں کہ ان کی سیاست طبقاتی امتیازات کے خلاف اور حقیقی جمہوریت کے لئے ہے۔

ان جماعتوں کو کیوں توفیق نہ ہوئی کہ وہ خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں سانحہ باچاخان یونیورسٹی کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد کرتیں اور ان معصوم طلباء و طالبات کے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر حامد حسین کو یاد کر تیں جنہوں نے اپنے طلباء کو اولاد کی طرح عزیز از جان سمجھتے ہوئے اپنی جان ان بچوں پر نچھاور کردی جن کے لئے وہ روحانی باپ کا درجہ رکھتے تھے۔زندہ سماج کی نشانی یہی ہے کہ وہ اپنے ان پرعزم فرزندوں کو زندگی کے ہر قدم اور موڑ پر یاد رکھتا ہے جو سماج کو ظلم و جبر اور جہل کے اندھیروں سے نجات دلانے کے لئے اپنے لہو کے چراغ جلا کر رخصت ہوئے۔

ہمیں معاف کرنا باچاخان یونیورسٹی کے شہید طلباء و طالبات اورلائق تکریم پروفیسر حامد حسین’ ہم آپ کی قربانی کے ثمرات سے استفادہ تو کرنا حق سمجھتے ہیں مگر آپ کی یاد میں منعقدہ تقریب میں شرکت کرنے یا اپنے اپنے ہاں یاد گیری کی تقریب کا انعقاد کرنے کے احساس اور فرض کورے ہیں۔ وائے غربتا زندگی کے جھمیلوں نے ہمیں اپنے ہی محسنوں کا مجرم بنا دیا۔ کاش کہ کبھی ہم سب وقت نکال کر ٹھنڈے دل سے یہ سوچ سکیں کہ ہمارے اس طرز عمل نے دنیا کو کیا پیغام دیا۔ سانحہ باچاخان یونیورسٹی کے شہدائ! آپ نے ہمارے آج اور ہمارے بچوں کے کل کے لئے جو قربانی دی وہ ہمارے لئے قابل فخر و باعث تقلید ہے۔

لاریب علم کے ساتھ جہل کے اندھیروں کو کاٹا جاسکتا ہے۔ اتحادکی قوت سے اندرون و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کیا جاسکتاہے۔ فکری استقامت کے ساتھ ایک ایسا نظام قائم کیا جاسکتا ہے جو جبر و استحصال سے محفوظ اور عوام دوستی کی زندہ مثال ہو۔ ہمارے بچو! ہم آپ کو نہیں بھولے۔ آپ ہمارا فخر ہیں البتہ ہم آپ سے شرمندہ ضرور ہیں کہ آرزوئوں کے تعاقب میں دوڑتے بھاگتے اپنے اصل اور فرض کو بھلا بیٹھے۔ عزیز از جان بچو! یہ زمین زادوں کی معذرت ہے۔ بالا دست طبقات’ حکمرانوں اور ارباب سیاست کے اس رویہ کو ہم کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ آپ کے لہو سے روشن چراغوں کی چار سو پھیلتی روشنی ہمیں اس منزل تک پہنچائے گی جو ایک حقیقی فلاحی جمہوری معاشرے اور نظام کے قیام کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرسکے۔ سانحہ باچاخان یونیورسٹی کے شہداء ہمارا سلام ہو آپ پر’کاش ہم آپ کی قربانی کا حق ادا کر پاتے۔

Source:

http://www.mashriqtv.pk/24-Jan-2017/11587

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.