اوریا مقبول جان کا عشق – از سید محسن

orya-n-hillary

اوریا مقبول صاحب حسب معمول ان دنوں عشق کے عارضے میں مبتلا ھیں۔ وھی عارضہ جو انہیں کبھی تحریک طالبان، القائدہ اور کبھی ایف ایس اے (فری سیرین ارمی) سے ھوا کرتا تھا اور اب داعش کی محبت میں لاحق ھوا ھے۔ ویسے تو اس قسم کے کالم کی حیثیت طنز و مزاح سے زیادہ نہیں ھوتی البتہ ان پر کبھی کبھی اظھار رائے کر دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ ماشاء اللہ سے اس وقت تک داعش کی توصیف میں اس وقت تک محترم تقریبا چار کالم لکھ چکے ھیں جن کا بنیادی نکتہ خلافت کا قیام اور مسلم امہ کی اس اھم فریضے کیخلاف صف بندی ھے۔

اوریا صاحب کی فہم و دانش کی داد دینے پڑے گی۔ انہوں نے داعش کے اخلاص کا اندازہ پاکستان میں بیٹھ کر لگا لیا اور تف ھے عراق کے ان اہلسنت علماء پر جو ببانگ دہل اس گروہ کو تکفیری اور خارجی گروہ کہہ رہے ھیں۔  پورے پاکستان میں داعش کو خلافت جیسے بابرکت نظام کیلئے اگر دعوت دینی پڑی تو صرف سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان کو۔ یہ ھی تو وہ حق پرست گروہ ھیں جن کی صورت میں اوریا صاحب کو پاکستان میں بھی خلافت رائیج ھوتی دکھائی دے رھی ھے۔ داد دینی پڑے گی اوریا صاحب کے مشاہدے اور قابلیت کی۔  البتہ ایسی خلافت میں ان تمام تعلیمی اداروں کا وجود نہ رھے گا جہاں کبھی کبھی اوریا صاحب اپنے افکار عالیہ سنانے جاتے ھیں، لیکچرز کی صورت میں۔ ویسے تو ان گروہوں کی موجودگی میں شاید کوئی دوسرا موجود ھی نہ رھے جس پر خلافت کا نظام لاگو کیا جائے لیکن پھر بھی ازمائیش شرط ھے۔

نہ جانے ان جیسی فراصت پاکستان میں موجود کسی بھی عالم کو کیوں نہ مل سکی، جو بلا امتیاز داعش کی مذمت کر رھے ھیں۔

داعش کے حق پر ھونے کی ایک اور دلیل اوریا صاحب کے نزدیک یہ بھی ھے کہ اس نے اپنے قیام کے بعد اپنی ایک برگیڈ کا نام لال مسجد میں مارے جانے والے عبد الرشید غازی کے نام پر رکھا۔ ایسی حقانیت پر مبنی دلیلیں انھی کو مبارک ھوں۔ کل کو برقع پوش مولوی عبد العزیز کے کارناموں کو بھی بطور دلیل پیش کر دیجے گا۔

اوریا صاحب نہایت فخر سے ان مجاھدین کا ذکر فرما رھے ھیں جو یورپی ممالک سے داعش کا ساتھ دینے کیلیئے پہنچ رھے ھیں۔ البتہ وہ ان نوجوان خواتین کا ذکر کرنا بھول گئے جو جہاد النکاح کی تلاش میں پہلے شام جایا کرتی تھیں اور اب عراق۔ شاید ان کی نظر سے وہ ویڈیو بھی نہیں گذری ھوگی جو میں داعش کے مجاھدین شامی خواتین بازار میں فروخت کر رھے ھیں یا شاید یہ سی آئی اے کی پراپگنڈا ویڈیو ھوگی، ان سینکڑوں ویڈیوز کی طرح جس میں بیدردی سے لوگوں کی سر قلم کیئے جا رھے ھیں یا گولیاں ماری جارھی ھیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا ھم خلافت کے نظام کیلئے کبھی کوئی بہتر مثال نہیں دے سکتے؟

کیا ھماری ٹوکری میں سوائے ان حیوانوں کے اور کوئی نہیں جو خلافت کو نظام قائم کر سکے؟ یا ھم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ھیں کہ خلافت وہ نظام ھے جو سوائے جبر ظلم اور خوف کے بغیر نہیں چل سکتا۔ غالبا اسی لیئے اپ کی تمام تر امیدیں کبھی سکولوں کالجوں کو بموں سے اڑانے والے طالبان، جہاد النکاح جیسے قبیح فعل کی آڑ میں خواتین کی آبرو ریزی کرنے والے شام میں موجود جنگجو یا انسانوں کی بستیاں اجاڑنے والے داعش کے غنڈوں سے وابستہ ھیں۔ کیا آپ کے پاس خلافت کا نظام رایج کرنے کیلیے کوئی ایک بھی مثال ایسی موجود نہیں جس کی شخصیت میں سیرت نبوی (ص) کی ھلکی سی بھی جھلک موجود ھو؟

کیا یہ اکھڑ، ظالم، جابر اور رحم سے عاری حیوان نما انسان آپ کے نزدیک خلیفہ کہلانے کے لائق ھیں؟ کیا ھر بات کو سی آئی اے کا پراپگنڈا کہہ کر ان حیوانوں کو مسیحا بنا کر پیش کرنا زیادتی نہیں؟ اور اس کے بعد جو آپ کی رائے سے اختلاف کرے اسے طرح طرح کی خطاب سے نوازدیا جائے۔ گویا تمام دنیا کا علم سمٹ کر آپ کی ذات شریف میں جمع ھو گیا ھے۔

انہیں داعش کے مقابلے کیلئے حزب اللہ اور ایرانی مداخلت کا بھی شبہ ھے اور اعتراض ھے، کیونکہ یہ مسلکی بنیادوں پر ھے۔ البتہ یورپی ممالک سے اور سعودی عرب سے شام اور عراق آکر جہاد اور جھاد النکاح کرنے والوں پر سات خون معاف ھیں۔ شائد اوریا صاحب کی نظر سے عراق کے وہ اھلسنت اور مسیحی بھی نہیں گذرے جو داعش کے خلاف اور مقامات مطھرہ کی حفاظت کیلئے میدان میں موجود ھیں۔ داعش کو سنیوں کا حمایت یافتہ گروہ سمجھنے والےاگر صرف اربیعن امام حسین (ع) میں سنیوں، شعیوں اور حتی مسیحوں کو کربلاء کی جانب پیدل گامزن دیکھ لیں تو کبھی ایسی بات نہ کریں۔ البتہ نا معلوم وجوہ کی بنیاد پر موصوف کچھ عرصے خدا جانے کیوں اپنے افکار کے ذریئعے فرقہ وارانہ انتشار کو فروغ دے رھے ھیں، جن میں شیعہ دشمنی واضح نظر آتی ھے۔

سب سے بہترین بات جو اوریا صاحب نے ایک کالم میں کی وہ کرنسی کے حوالے سے ھے۔ پہلے وہ فرماتے ھیں کہ کس طرح دنیا کی ساری معیشت مصنوئی سودی نظام اور جعلی نوٹوں پر قائم ھے۔ کاغذ کے نوٹوں پر عدم اعتماد کی مثال وہ چین کے سونا خریدنے میں دلچسپی سے دیتے ھیں۔ وہ داعش کی سونے اور چاندی کی بنی کرنسی (دینار) کا ذکر کرتے ھیں۔ اورھمیں بتاتے ھیں دنیا جس کرنسی کا مذاق اڑا رھی ھے، ذرا سوچیں اگر داعش نے، جو روزانہ اسی لاکھ ڈالر کر تیل فروخت کررھی ھے، تیل کی قیمت سونے میں وصول کرنا شروع کردی تو کیا ھوگا؟ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے سودی عمارت گر جائی گی، واہ کتنا اسان حل ھے۔ اب اوریا صاحب کو کون بتائے کہ دنیا میں ان کے تجزیوں کے علاوہ بھی بہت کچھ موجود ھے غور کرنے کیلئے۔

حالات حاضرہ سے منسلک رھنے والوں کو اس بات کا بخوبی علم ھے کہ امریکہ اور روس کے مابین یوکرین کے مسئلے کو لیکر ایک سرد جنگ جاری ھے۔ اس سرد جنگ کے اثرات کا دائرہ دن بدن وسیع ھوتا جا رھا ھے۔ روس کو یوکرین میں مداخلت کے بعد امریکہ کی جانب سے معاشی پابندیوں کو سامنا ھے، جس کے اثرات روس کی معیشت پر نظر آنا شروع ھو گئے ھیں۔ ان پابندیوں کے جواب میں پیوٹن نے چین کو تیل کی فراھمی کا معاہدہ کرلیا۔

اس معاہدے نے اوبامہ انتظامیہ کو مزید سیخ پا کر دیا اور جوابا انہوں نے مشرق وسطی میں تیل بر آمد کرنے والے اپنے تین اھم حامیوں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کےذریعہ تیل کی قیمتوں میں مصنوئی کمی پیدا کر دی۔ مقصد روس چین تیل معاہدہ کا سپوتاژ کرنا تھا۔ تیل کی قیمتوں میں بین الاقوامی سطح پر کمی اسی سرد جنگ کا نتیجہ ھے اور اسی وجہ سے سونے کی قیمت میں بھی واضح کمی دیکھنے کو ملی۔ ان اوریا صاحب اس سرد جنگ کے نتیجے میں پیش آنے والے مصنوئی واقعات سے اپنی تاویلیں گھڑنی چاہیں تو بصد شوق۔

اوریا مقبول صاحب کے حالیہ اور شام کے موضوع پر لکھے جانے والے کالم پڑھ کر نہ جانے کیوں مجھے حامد میر کی یاد آگئی جو القائدہ اور اسامہ کے حق میں کالم لکھنے میں مشہور تھے البتہ غور کرنے سے نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ ان کالم کا مقصد دراصل امریکہ کے ھی مقصد کے بارے میں رائے عامہ کو ہموار کرنا ھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ھے ۲۰۰۴ میں جب جارج بش دوسری مرتبہ الکیشن لڑ رھے تھے اور ان کی مقبولیت کا گراف جان کیری کے مقابلے میں کافی نیچے تھا۔

ایسے میں القائدہ کے رھنما اسامہ بن لادن کی طرف سے اچانک ایک ویڈیو پیغام سامنے آتا ھے جس میں بش اور امریکن عوام کو دھمکی دی جاتی ھے مزید کاروائیوں کی۔ اندھے کو بھی نظر آرھا تھا کہ یہ ویڈیو بش کی گرتی ھوئی مقبولیت کو سہارا دینے کیلیئے اور الیکشن میں ان کی کامیابی کو ممکن بنانے کی ایک کوشش ھے۔ البتہ حامد میر صاحب ان چند افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا یہ باور کرانے میں کہ نہ صرف یہ ویڈیو اصلی ھے بلکہ یہ اسامہ کی ایک بہت زبردست چال ھے کیونکہ جارج بش کو اقتدار  رھنا ان کیلئے فائدہ مند ھے۔ ان کا یہ یادگار کالم آج بھی روزنامہ جنگ کی آرکائیو میں موجود ھوگا۔

لہذا اوریا صاحب کی امریکہ دشمنی بھی آپ اسی پیرائے میں لے سکتے ھیں کیونکہ داعش کے ذریعے بھی اب وہ ھی کام کیا جائے گا جو القائدہ کے ذریئعے کیا گیا۔ لہذا یہ بہت ضروری ھے کہ مسلم دنیا کو ایک کشمکمش میں مبتلا رکھا جائے۔ نئی نئی تاویلیں گھڑی جایئں اور خلافت جیسے جذباتی نعروں اور فرقہ وارانہ امیزش کے ساتھ رائے عامہ کو غیر محسوس انداز میں ھموار رکھا جائے۔ یہ کام حامد میر بھی کرتے ھیں اور اوریا مقبول بھی۔ ورنہ کوئی اوریا صاحب کی وہ پر

ذرا یہ تصویر ملاحظہ فرمایئں جو ھیلری کلنٹن کو بادشاھی مسجد کی سیر کرواتے وقت لی گئی۔ محترم کی خوشی ان کے چھرے سے پھوٹ رھی تھی۔

clinton-pakistan

آخر میں مختصرا ذکر کردوں ای میل پر ھوئی ان سے کچھ باتوں کا۔ یہ ای میل ۲ سال پرانی ھے جو میں نے اس وقت لکھی تھی جب موصوف شام کے معاملے پر شامی باغیوں کے فضائیل سنانے میں مصروف تھے۔ آپ بھی پڑھئے اور سر دھنیئے۔ افسوس ھوتا ھے کہ ان جیسے دانشور ھمارے تعلیمی اداروں میں موجود ھیں، جن کی جگہ شاید اس ملک میں نہیں ھونی چاہیئے۔

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.