کیا پاکستانی پارلیمان کسی کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے؟ – عدنان خان کاکڑ

adnan-khan-kakar-mukalima-3

حمزہ علی عباسی نے یہ معاملہ اٹھایا ہے اور اس پر خوب بحث چل رہی ہے۔ حمزہ عباسی عام طور پر انتہائی دائیں بازو کی لائن لیتے ہیں اور عام معاملات میں شدت پسند موقف کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جانا تعجب خیز ہے۔

ان کی طرف سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا پاکستان کی پارلیمان کو کسی کا عقیدہ متعین کرنے کا حق حاصل ہے؟ سوال واضح ہے اور جواب واضح تر۔ ہمارے ملک کا نام ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان’ ہے۔ پاکستان کے فکری بانی اقبال کے مطابق پارلیمان ہی خلافت کی جدید شکل ہے۔ اس صورت میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔ اور صرف پارلیمان کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ کسی کی تکفیر کرے، کوئی فرد ایسا کرے تو ریاست کو اس پر فساد فی الارض کے جرم کے تحت مقدمہ چلانا چاہیے۔ یہ حق صرف خلیفہ کو حاصل ہے اور افراد کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ پارلیمان اگر علما کی رائے لینا چاہے تو اسی انداز میں لے سکتی ہے جیسے اس نے احمدی ترمیم کے معاملے میں لی تھی۔ اس وقت احمدی علما نے ہی یہ قرار دیا تھا کہ ان کے علاوہ باقی سب غیر مسلم ہیں اور اس کے جواب میں باقی سب علما نے یہ قرار دیا تھا کہ ان کے نزدیک احمدی غیر مسلم ہیں۔ معاملہ اس نہج پر پہنچ گیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا کثیر المشرب شخص بھی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ احمدی علما کی بات مان کر خود کو کافر قرار دے دے یا اپنی مسلمانی بچا لے اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دے۔

ہاں اگر یہ ایک سیکولر ریاست ہوتی تو پھر یہ سوال اٹھایا جا سکتا تھا کہ کیا ریاست کو کسی کا عقیدہ متعین کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں ہے۔ ایک سیکولر ریاست کے نزدیک اس کے شہریوں کا عقیدہ ان کا نجی معاملہ ہوتا ہے اور ریاست کو اس میں دخل دینے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا ہے۔

اب یا تو ریاست کو سیکولر کر لیں، یا پھر اسلامی کر لیں اور اقبال کی نہایت سوچی سمجھی رائے کو مانتے ہوئے پارلیمان کو خلیفہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی اطاعت کریں اور عقائد، مسالک، مساجد، مدارس، وغیرہ کا انتظام ریاست کے تحت ہو۔ صرف اور صرف ریاست کو یہ حق دیں کہ وہ کسی کو مسلم یا غیر مسلم تسلیم کرے۔ جیسا کہ مشرق وسطی اور بیشتر اسلامی ممالک میں ہوتا ہے اور قرون اولی سے روایت ہے کہ خطبہ حاکم وقت کا ہی پڑھا جاتا ہے، اسی روایت کے پیش نظر تمام مساجد میں خطبہ صرف حکومت ہی جاری کرے۔ امام اعظم ابو حنیفہ تک کو ان کے حاکم شہر نے فتوی دینے سے منع کیا تھا تو انہوں نے اپنے گھر میں اپنی بیٹی تک کو ایک فقہی مسئلے پر رائے دینے سے معذوری ظاہر کر دی تھی۔ پارلیمان کو بھی یہی اختیار حاصل ہونا چاہیے کہ وہ ہر ایک فرد کو، خواہ وہ فرد عالم ہو یا جاہل، مذہبی معاملے میں رائے دینے سے روک سکے اور صرف ریاستی ادارہ ہی یہ رائے دے سکے۔

کنٹرول نہ ہو تو فساد ہی ہوتا ہے اور ہمیں اس وقت بھی ‘فلانا کافر جو نہ مانے وہ بھی کافر’ ٹائپ کے نعرے سننے کو عام ملتے ہیں اور مسلک کے نام پر قتل و غارت ہوتی ہے۔ ہمارے محدود علم کے مطابق ہر مسلک کے کم از کم موجودہ علما کسی دوسرے مسلک کو کافر نہ سہی تو کفر کے درجے کو پہنچے ہوئے گمراہ ضرور مانتے ہیں۔ ایسے میں کفر کے فتووں پر ریاستی کنٹرول ہونا چاہیے۔ ورنہ پھر فساد سے بچنے کے لیے ریاست کو سیکولر ڈیکلئیر کر دیں اور ایسی نفرت آمیز گفتگو پر قدغن لگا دی جائے جو کہ کسی کو تشدد پر ابھارے۔

پاکستان ایک کثیر المسلک ملک ہے۔ اس میں مسالک کو باہمی تصادم سے بچانے کے لیے یا تو ریاست کو خود کو مذہبی مانتے ہوئے مذہب کا کنٹرول خود سنبھالنا ہو گا، یا پھر مذہب کو افراد کا نجی معاملہ قرار دیتے ہوئے اسے خود کو کسی بھی مخصوص مسلک و مذہب سے جدا کر کے صرف امن و امان اور انسانی بہتری کے امور کی طرف توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا کسی بھی مسلک کے علما اس بات پر راضی ہوں گے کہ وہ راضی خوشی اپنی مساجد و مدارس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کے حوالے کر دیں؟ غامدی صاحب یہ رائے دے چکے ہیں کہ تمام مساجد حکومت کے زیر انتظام ہوں، لیکن ایسی رائے دینے کی وجہ سے ہی وہ جان بچا کر ملک سے باہر مقیم ہیں۔ اس صورت میں ریاست ایک معذوری کی حد کو پہنچی ہوئی بے اختیار نیم مذہبی ریاست ہی رہے گی۔

دوسری طرف، اب جبکہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے، تو اب ہم آگے کیا چاہتے ہیں؟ وہ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے ہیں، اپنی عبادت گاہوں کو مسجد نہیں کہہ سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کیا وہ مرتد ہیں اور ان کو قتل کر دیا جائے یا ان سے توبہ کروائی جائے؟ اس سوال کے جواب میں بھی امام اعظم ابو حنیفہ کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ جب خارجی مار دھاڑ کرتے ہوئے ان کے شہر پہنچے تو تمام آبادی کو مرتد قرار دے کر قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ امام اعظم نے ان کے سردار سے پوچھا کہ کیا یہ لوگ ابھی اسلام سے پھرے ہیں یا اپنے باپ دادا کے دین پر ہیں؟ سردار نے جواب دیا کہ اپنے باپ دادا کے دین پر ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمایا کہ پھر ایسی صورت میں تو یہ پیدائشی کفار ہوئے، مرتد تو نہ ہوئے۔ پھر آپ ان کو مرتد کی سزا کیسے دے سکتے ہیں؟ امام اعظم نے جو دلیل مسلمانوں کو خوارج سے بچانے کے لیے دی تھی، اسی دلیل کی رو سے تو موجودہ احمدی بھی اپنے باپ دادا کے مذہب پر ہونے کی وجہ سے مرتد نہ ہوئے اور پارلیمان کی رائے کے مطابق عام غیر مسلم ہی ہیں۔

پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کا درجہ معاہد کا ہے، ذمی کا نہیں۔ انہیں وہی حقوق آئین دیتا ہے جو کہ مسلمانوں کو حاصل ہیں، تو ایسی صورت میں کیا اب ہم اپنی اقلیتوں کو اکثریت کے گروہی جبر کا نشانہ بناتے رہیں یا انہیں غیر مسلم قرار دینے کے بعد جینے کا حق دے دیں گے؟ ان کی مذہبی شناخت واضح ہو چکی ہے کہ وہ غیر مسلم ہیں، اب انہیں اسی آئین کے مطابق برابری کے شہری حقوق دے دیے جائیں جس نے انہیں غیر مسلم قرار دیا ہے۔ ملک میں ایسے حالات ہرگز نہیں ہونے چاہئیں کہ کوئی بھی غیر مسلم یہاں سے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے ترک وطن پر مجبور ہو جائے۔

ہماری بحث طے شدہ احمدی شناخت کے مسئلے کی بجائے اس بات پر ہونی چاہیے کہ کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے، یا سیکولر۔ ترکی بھی پاکستان ہی کی مانند ایک نوے پچانوے فیصد مسلم آبادی والا ملک ہے۔ عام خیال ہے کہ سیکولر آئین اس پر اتاترک نے مسلط کیا ہے۔ مگر اسلام کے علمبردار طیب ایردوان جب مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت قائم ہونے کے بعد مصر گئے تو انہوں نے اخوان کو مشورہ دیا کہ وہ سیکولر آئین ہی بنائے۔ اس پر اخوان کی جانب سے ان پر خوب لے دے کی گئی مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ طیب ایردوان کا مشورہ صائب تھا۔

مذہبی ریاست کی جدید تعبیر دیکھی جائے تو اس پر ملائیت چھائی نظر آتی ہے۔ جدید دور کی مذہبی ریاستوں میں سعودی عرب اور ایران کا نام آتا ہے۔ اس کے بعد افغانستان میں طالبان نے مذہبی ریاست قائم کی۔ پھر داعش نے ایسا کیا۔ ہر جگہ سے ہم نے اس ریاست کے لوگوں کو بدحال ہو کر فرار ہوتے ہوئے ہی دیکھا۔ ان میں سے کسی ملک نے اپنے شہریوں کو جدید عصری علوم اور معاشی پیداوار کے حصول کی طرف راغب نہیں کیا بلکہ اس قدر گھٹن پیدا ہو گئی کہ لوگ برے حالوں میں ہی ہیں۔ اس صورت میں اگر ہم خود سے اپنے موجودہ حالات کے مطابق خود سے کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں تو پاکستان کے فکری بانی اقبال سے ہی استفادہ کر لینا چاہیے۔ مندرجہ ذیل تمام پیراگراف اقبال کے انگریزی خطبے کا اقبال اکیڈمی کا کیا گیا ترجمہ ہیں۔ خاص طور پر غور کریں کہ وہ اتاترک کی سیکولر اسمبلی کو خلافت کی جدید شکل قرار دے رہے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں۔۔۔۔

آئیے اب دیکھیں کہ (ترکی کی) قومی اسمبلی نے خلافت کے ادارے کے بارے میں اجتہاد کے اختیار کا کس طرح استعمال کیا ہے۔ ترکوں کے اجتہاد کی رو سے یہ اسلام کی روح کے بالکل مطابق ہے کہ خلافت یا امامت افراد کی ایک جماعت یا منتخب اسمبلی کو سونپ دی جائے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ترکوں کا موقف بالکل درست ہے اور اس کے بارے میں بحث کی بہت کم گنجائش ہے۔

موجودہ دور کے لبرل مسلمانوں کا یہ دعوی کہ اس (دور) کے اپنے تجربات کی روشنی میں اور زندگی کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اسلامی کے بنیادی اصولوں کی ازسر نو تعبیرات ہونی چاہئیں، میری نظر میں مکمل طور پر جائز اور انصاف پر مبنی ہے۔ قرآن کی یہ تعلیم کہ زندگی ایک ارتقا پذیر تخلیقی عمل ہے خود اس امر کی متقضی ہے کہ ہر نسل کو اپنے اجداد کی رہنمائی میں انہیں رکاوٹ سمجھے بغیر یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکے۔

سچ تو یہ ہے کہ آج کی مسلمان اقوام میں سے صرف ترکی نے ہی عقیدہ پرستی کی خفتگی کو توڑا ہے اور خود آگاہی حاصل کی ہے۔ صرف ترک قوم نے فکری آزادی کے حق کا مطالبہ کیا ہے۔ صرف اسی نے تخیل سے حقیقت پسندی کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ ایک ایسا اقدام جو شدید فکری اور اخلاقی جدوجہد کا متقضی ہے۔

جدید مسلم اسمبلی کی قانونی کارکردگی کے بارے میں ایک اور سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ کم از کم موجودہ صورت حال میں اسمبلی کے زیادہ تر ممبران مسلم فقہ (قانون) کی باریکیوں کے بارے میں مناسب علم نہیں رکھتے۔ ایسی اسمبلی قانون کی تعبیرات میں کوئی بہت بڑی غلطی کر سکتی ہے۔ قانون کی تشریح و تعبیر میں ہونے والی غلطیوں کے امکانات کو ہم کس طرح ختم یا کم سے کم کر سکتے ہیں؟

ایران کے 1906 کے آئین میں علما کی ایک الگ کمیٹی کے لیے گنجائش رکھی گئی تھی جنہیں امور دنیا کے بارے میں بھی مناسب علم ہو اور جنہیں آئین سازی کی قانونی سرگرمیوں کی نگرانی کا حق حاصل تھا۔ میری رائے میں یہ خطرناک انتظامات غالباً ایران کے نظریہ قانون کے حوالے سے ناگزیر تھے۔ اس نظریے کے مطابق بادشاہ مملکت کا محض رکھوالا ہے جس کا وارث درحقیت امام غائب ہے۔ علما امام غائب کے نمائندوں کی حیثیت سے اپنے آپ کو معاشرے کے تمام پہلوؤں کی نگرانی کے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اگرچہ میں یہ جاننے میں ناکام ہوں کہ امامت کے سلسلے کی عدم موجودگی میں علما امام کی نیابت کے دعوے دار کیوں کر ہو سکتے ہیں۔

تاہم ایرانیوں کا نظریہ قانون کچھ بھی ہو، یہ انتظام بڑا خطرناک ہے۔ تاہم اگر سنی ممالک بھی یہ طریق اپنانے کی کوشش کریں تو یہ انتظام عارضی ہونا چاہیے۔ علما مجلس قانون ساز کے طاقتور حصے کی حیثیت سے قانون سے متعلقہ سوالات پر آزادانہ بحث میں مددگار اور رہنما ہو سکتے ہیں۔ غلطیوں سے پاک تعبیرات کے امکانات کی واحد صورت یہ ہے کہ مسلمان ممالک موجودہ تعلیم قانون کے نظام کو بہتر بنائیں، اور نظر میں وسعت پیدا کریں اور اس کو جدید فلسفہ قانون کے گہرے مطالعے کے ساتھ وابستہ رکھا جائے۔

Source:

http://www.humsub.com.pk/18578/adnan-khan-kakar-128/

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.