اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

گزشتہ کئی دنوں سے میڈیا اور سوشل میٍڈیا پر ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ہونے والی بحثوں کو دیکھ رہا تھا۔کوئی اس کے حق میں تو کوئی مخالفت میں دلائل دے رہا تھا۔ویلنٹائن منانا چاہئے یا نہیں یہ ایک فضول بحث ہے۔جس کا دل چاہے منائے جس کا دل چاہے نہ منائیں۔فضول کی بحث کی کیا ضرورت ہے۔ جو اسلامی جماعتیں یا شخصیات اس دن کو منانے کے خلاف آوازیں اٹھارہے ہیں ان کے منہ سے کبھی مذہب کے نام پر قتل و غارت گری اور خود کش حملوں کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔یہی وہ لوگ ہیں جو ویلنٹائن ڈے کو بے حیائی کہتے کہتے نہیں تھکتے۔جو جماعتیں اور لوگ وینٹائن ڈے کو بے حیائی کہتے کہتے نہیں تھکتے وہ کبھی طالبان کی دہشت گردی کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔اب ان طالبان کی حمایتیوں سے زیادہ بے حیا کون ہوگا؟جہاں تک بے حیائی کی بات ہے تو کیا خود کش حملہ کرکے کسی بے گناہ کی جان لینا بے حیائی نہیں؟کیا مذہب کے نام کسی کے قتل کی ترغیب دلانا بے حیائی نہیں ہے؟

 اس نیم قبائلی جاگیردارانہ معاشرے میں بہت سی ایسی رسومات ہیں جو بے حیائی سے کم نہیں،کیا کارو کاری جیسی رسم کسی بے حیائی سے کم ہے؟کیا کبھی اس کے خلاف اتنی شدت سے آواز اٹھائی گئی جتنی ویلنٹائن ڈے کے خلاف اٹھائی جاتی ہے؟

جو لوگ ویلنٹائن ڈے کو مغربی رسم کہتے ہیں کیا انہوں نے کبھی عورتوں کی شادی قرآن سے کرانے کی رسم کے خلاف آواز اٹھائی؟ کیا عورتوں کو جائیداد سے محروم کرنے کے لیئے ان کی قرآن سے شادی کرادینا بھی مغربی رسم ہے؟

اس نیم قبائلی جاگیردارانہ معاشرے میں عورتوں کو ونی کرنے کی بھی رسم موجود ہے؟کیا یہ بھی کوئی مغربی رسم ہے؟کیا یہ کھلی بے حیائی نہیں کہ خاندانی دشمنیوں کو ختم کرنے کے لیئے معصوم عورتوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھادیا جائے؟کیا ویلنٹائن ڈے کے خلاف بولنے والوں نے کبھی اس بیہودہ رسم کے خلاف اتنی شدت سے آواز اٹھائی جتنی شدت سے وہ ویلنٹائن ڈے کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں؟سوارہ نامی اس نیم قبائلی معاشرے کی وہ رسم ہے جس نے عورت ذات کی سب سے زیادہ تذلیل کی ہے۔صدیوں  پرانی جہالت کا عملی رنگ آج بھی پاکستان کے کئی علاقوں  میں  نافذ ہے،جہاں  آج بھی عورتوں  کو ماں ،بہن اور بیٹی کے بجائے صرف عورت سمجھا جاتا ہے  اور انہیں عورتوں  کو قربانی کا متبادل بنا دیا جاتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے کے خلاف منظم احتجاج کرنے والوں نے کیا کبھی عورت ذات کی تذلیل کرنے والے فرسودہ رسومات کے خلاف کبھی منظم احتجاج کیا؟

کھبی ، جہیز ، کم عمری میں شادی ، زنا بالجبر ، کاروکاری ،قرآن سے شادی،ونی، سوارہ ، بیٹی بہن کے بیچنے کے گھناؤنے کاروبار اور غیرت کے نام پر قتل کے خلاف کسی نے منظم احتجاج کیا ہے ؟

 آئے دن خواتین کو ونی اورقرآن سے شادی جیسی غیرانسانی رسومات کی بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے،گنجا کرکے منہ کالا کرکے سر عام بازاروں میں برہنہ کھمایا جاتا ہے، پسند کی شادی کرنے پر انہیں کاری قرار دیکر بے رحمی سے قتل کردیا جاتا ہے اور انکے چہروں پر تیزاب پھینک کران کو عمر بھر کیلئے منہ چھپانے یا خودکشی کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے یا پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر اور بسا اوقات زمین میں زندہ گاڑ کر نام نہاد غیرت کے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کو ان مسائل پر بات کرنے کی کوئی توفیق نہیں۔گزشتہ کچھ دنوں سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہونے والی بحثوں سے یہ لگ رہا تھا کہ پاکستان میں سب مسائل حل ہوچکے ہیں اور اس معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہی ویلنٹائن ڈے ہے۔

سننے میں یہ بھی آیا ہے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت کچھ شہروں میں ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔یہ وہ ملک ہے جہاں نفرتوں کے سوداگر کھلے عام مذہب کے نام پر نفرتیں بیچ رہے ہوتے ہیں اور محبت کے نام پر پھول دینے پر پابندی لگادئ جاتی ہے۔کیا یہ وہی اسلام آباد نہیں ہے جہاں لال مسجد کا خطیب کھلے عام نفرت انگیز تقریر کرتا ہے جو آرمی  پبلک اسکول میں معصوم بچوں کے قتل کو درست کہتا ہے۔کھلے عام نفرت کا پرچار کرتا ہے لیکن اس کی نفرت انگیز تقاریر پر پابندی لگانے کے بجائے محبت کا دن منانے پر پابندی لگادی جاتی ہے۔اسی ملک میں ہم نے مسلک اور فرقے کے نام پر مخالف فرقے کے خلاف نفرت انگیز تقاریر سنی ہیں۔لیکن اس کے باوجود ان تقاریر کرنے والوں کو سفیر امن کا نام دیا جاتا ہے۔ان ٹی وی پر یوں انٹرویو لیا جاتا ہے جیسے وہ قومی لیڈر ہوں۔یہ وہ لوگ ہیں جو مخالف فرقوں کو کافر کافر کہتے کہتے نہیں تھکتے لیکن ان کے خلاف کوئی پابندی نہیں۔اسی ملک میں اشتعال انگیز تقاریر کرکے مسیحیوں کی پوری پوری بستیوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا جاتا ہے لیکن اس پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی لیکن  محبت کا دن منانے پر پابندی لگادی جاتی ہے۔

فیض احمد فیض نے اپنی نظم  “مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ “میں یہ کہا تھا کہ

 راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا


اور بھی   دکھ  ہیں زمانے میں محبت کے سوا

 

شاید ہماری قوم کو فیض احمد فیض کے اس شعر کی سمجھ آجائے اور وہ وینلٹائن ڈے منایا جائے یا نہیں اس قسم کی فضول بحث کو چھوڑ کر معاشرے میں موجود اصل مسائل پر توجہ دیں اور ان مسائل کو کس طرح حل کیا جائے اس پر بحث کریں۔

 

 

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.