پی آئی اے کی نجکاری اور غور طلب نکات

IRJ

ایک عام بلکہ غلط العام بیانیہ یہ ہے کہ پی آئ اے کی کارکردگی اس لئے خراب ہے کہ یہ سرکاری ادارہ ہے اور نجکاری سے اس کی کارکردگی صحیح ہو جائے گی، حالانکہ اس کی تباہی کی ذمّہ دار وہی اشرافیہ ہے جس نے اس ملک کی ایسی کی تیسی کر دی ہے، وہی اشرافیہ اپنی جیبیں بھرنے کے لئے اسے سرکار سے خرید لے گی، ٹیکس بھرنے والوں کو تب کیا ملے گا؟ ان امیروں میں سے کون ہے جو ٹیکس دیتا ہے؟ تیسری دنیا میں جو ریاست اپنے اثاثے فروخت کر دیتی ہے وہ مزید غربت کی دلدل میں دھنس جاتی ہے. حکومتی نا اہلی کو چلینج کرنے کے بجائے کارکنان کو کوسنا ایسا ہی ہے جیسے بیٹی پیدا ہونے پر ماں کو کوسنا. ضرورت ادارے کو مستعد اور فعال بنانے کی تھی، ایسا کیا ہے جو نجی ملکیتی ادارے کر سکتے ہیں مگر سرکاری ادارے نہیں کر سکتے ؟

روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمّہ داری نہیں ، مگر انصاف اور قوانین کی پاسداری تو اسی کی ذمہ داری ہے. کہاں ہے انصاف اور قانون اس ریاست میں ؟ اور یہ کس حکیم کی  منطق ہے کہ ریاست کے تحت کاروباری ادارے نہیں ہو سکتے ، کیوں نہیں ہو سکتے؟ یہ سنٹرل بینک ، ریوینو اور ٹیکسیشن، کسٹم، اور نہ جانے کیا کیا کچھ بلکہ فوج بھی ( بلکہ فوج تو پاکستان کا سب سے کامیاب کاروباری ادارہ ہے ، کیک سے لے کر طیارے تک یہ لوگ فروخت کرتے ہیں )، کر دیں ان سب کو نجکاری کے حوالے، یہ بھی تو ہو سکتا ہے، کیوں نہیں ہوتا؟ ریاست کے اثاثے عوام کے اثاثے ہیں، عوام کی ملکیت کا ختم ہو جانا ان کو مکمل طور پر سرمائے کے حوالے کر دینا ہے، ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا، جو ادارے نجی تحویل میں دے بھی دیئے جائیں وہاں بھی عوام کی ملکیت مکمل ختم نہیں ہوتی اور اس بات کا خیال معاہدوں میں رکھا جاتا ہے. اگر امریکہ ایک انتہا کی مثال ہے تو فرانس، بھارت، چین، جرمنی جیسی دوسری مثالیں بھی تو ہیں. دنیا میں سو سے زائد ائر لائنز سرکاری ملکیت میں ہیں. ایسا دفاعی حوالے سے بھی ضروری ہے.

ایک اور غلط فہمی کہ عوام کا پیسہ کاروباری اداروں پر لگنا غلط ہے، ابھی پچھلے اقتصادی بحران میں کس کے پیسے سے بینک اور مالیاتی ادارے بچائے گئے تھے؟ ٹیکس کے پیسے سے . پچھلے دنوں شوگر انڈسٹری کو سبسڈی کی خبر تھی، یہ شوگر انڈسٹری نجی ملکیت میں ہے یا حکومت اس کی سگی خالہ ہے اور عوام ماموں ؟ نجی ملکیت کے تحت چلتی آٹو انڈسٹری کو کئی ملکوں میں سبسڈی ملتی ہے. پی آئ اے کا اصل  مسئلہ اس پر مستقل رہنے والا سرکاری دباؤ اور نا اہل اشرافیہ ہے، ہر حکومت کے ساتھ اس کی لیڈرشپ بھی بدل جاتی ہے، وردی والے ہوں یا سیاسی لیڈر ہر ایک اپنے پیادے اس ادارے میں گھسا دیتا ہے، ایک چیئر پرسن کی حکمت عملی کا نفاذ شروع ہو تو اس کو ہٹا کر دوسرا لے آتے ہیں، دوسرا سنبھلتا نہیں ہے کہ حکومت گر جاتی ہے اور تیسرا آ جاتا ہے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر کی سطح کے افراد بدلتے جاتے ہیں، نتیجہ یہ کہ ادارے میں صرف اپنی نبیڑ کا کلچر رہ گیا ہے. ادارے کے کارکنوں کو برا بھلا کہنے والے صحیح قیادت کو ووٹ دے کر آگے کیوں نہیں لاتے ، یہاں تو گالی بھی چل رہی ہے اور کوسنے بھی ، وردی والے ڈکٹیٹر کو دیکھ کر یہ غیرت اور حمیت کدھر جاتی ہے ؟ جاگیرداروں سے بھری پارلیمنٹ کو کوئی چیلنج کیوں نہیں کرتا ؟ محنت کش اور پیشہ ور ذلیل ہیں مگر اس ملک کو کھانے والی اشرافیہ کیا ہے ؟

آپ پاکستان کے کسی بھی ادارے کو لے لیں، کرکٹ، ہاکی ، ریلوے ، پی آئی اے ، اسٹیل مل؛ ان کی تاریخ پاکستان کی تاریخ کا عکس ہے. ہم نے عروج سے نہ صحیح، خاصی بلندی سے سفر کا آغاز کیا، اپنا لوہا بھی منوایا مگر ناکارہ اشرافیہ نے اپنی اوقات کو پاکستان کی اوقات بنا دیا، سب کچھ مٹی میں ملا دیا. آج پاکستان کی کرکٹ پاکستان میں نہیں ہو سکتی، ہاکی صرف سر پھاڑنے کے کام آتی ہے، کراچی جیسے شہر میں سرکلر ریلوے نہیں ہے، سٹیل مل ہاتھ مل رہی ہے اور پی آئی اے ، کھا آئی اے بن چکی ہے. پھر بھی برے اور ناکارہ  محنت کش اور ملازمت پیشہ ہیں. اس ملک کے سرمایہ دار دودھ کے دھلے جادو گر ہیں، بے شک ہیں کیونکہ اور کون ہوگا جو اتنی صفائی سے ملک کا سرمایہ  ملک سے باہر لے جا سکے. عوام دن بدن غریب اور ایک مخصوص طبقہ امیر سے امیر تر، اس سے زیادہ بہتر کونسا ملک ہوگا جو (صرف بے غیرتوں) کو سرمایہ داری اور نج کاری کے نام پر اثاثے بنانے اور عوام کے ٹیکس سے عوام کی درگت بنانے کے یکساں موقعے دیتا ہو

یہاں ریاست کی سفاکی ، محنت کشوں کی بے بسی، اور قانون کی کمزوری بھی کھل کر سامنے آتی ہے جب نہتے کارکنوں کو خون میں نہلا دیا گیا. کیا یہ ریاست انسان دوست ہے ؟ ملک کی بہتری کے لئے اٹھنے والا قدم قتل وغارت کا محتاج کیوں ؟ کیا وجہ ہے کہ اشرافیہ اتنی پاگل ہو رہی ہے کہ طاقت کا استعمال انتہائی دیدہ دلیری سے کیا گیا ؟  اور قوانین اتنے بے بس کیوں ہیں ؟ بیشتر دنیا میں محنت کشوں کو حقوق حاصل ہیں کہ وہ یونین سازی کر سکتے ہیں، مظاہرے بھی کر سکتے ہیں، ہڑتال پر بھی جا سکتے ہیں. یونین، انتظامیہ اور ریاست مل کر بات چیت سے آگے بڑھتے ہیں. آج اکیسویں صدی میں بھی یہ کون درندے ہیں جو گولی کی زبان بول رہے ہیں ؟

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.