ایم کیو ایم پر الزامات کی حقیقت

گزشتہ کئی سالوں کے دوران کراچی میں سیاسی کارکنوں سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قتل کیا گیا۔ان قتل ہونے والوں میں میں ڈاکٹرز،وکلاء،پروفیسرز بھی شامل تھے۔کچھ عرصہ پہلے کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کو قتل کردیا گیا تھا۔شکیل اوج کے قتل کے کچھ دنوں بعد رینجرز نے ایم کیوایم کے ایک کارکن کو گرفتار کرکے اس پر اس قتل کا الزام ڈال دیا۔جبکہ شکیل اوج کے قتل کی ذمی داری القاعدہ برصغیر نامی تنظیم نے قبول بھی کی تھی۔اور اس کی ایک وڈیو بھی جاری کی تھی۔لیکن پھر بھی اس قتل کا الزام ایم کیو ایم پر ڈال دیا گیا۔شکیل اوج کے بیٹے کا کہنا تھا کہ میں نے پولیس سے اس وڈیو کے بارے میں رابطہ کیا تو انہوں نے دیکھے بنا ہی اس کو مسترد کردیا۔ جس سے اسے اندازہ ہوا کہ وہ ایک خفیہ ایجنڈا رکھتے ہیں اس کے پیچھے۔یعنیٰ وہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ اس کو سنجیدہ لیا جائے اور انہوں نے ایک سیاسی جماعت کے بندے کو پکڑا ہے وہ اس کو زبردستی اس میں ملوث کرکے اس کیس کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ان کا بیٹا مسلسل کہہ رہا ہے اس کے باپ کے قتل میں القاعدہ برصغیر ملوث ہے۔اس کے علاوہ ان کو کالعدم تنظیموں کی طرف سے بھی دھمکیاں مل رہی تھیں لیکن اس کے باوجود رینجرز اس کا الزام ایم کیو ایم پر ڈال رہی ہے۔رینجرز کی جانب سے ایسا کرنا کچھ نیا نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی رینجرز سبط جعفر کے قتل کا الزام ایم کیو ایم پر لگاچکی ہے۔رینجرز نے  ایم کیو ایم کے ایک کارکن کو گرفتار کرکے اس پر یہ الزام لگایا کہ اس نے سبط جعفر کا قتل کیا ہے۔جبکہ سبط جعفر کے قتل کے الزام میں 3 اپريل 2013 کو کالعدم لشکر جھنگوی کے نعیم بخاری گروپ کے دو دہشت گردوں کو گرفتار کیا تھا۔لیکن جمعرات 29 جنوری 2015 کو ایم کیو ایم کے ایک کارکن کو گرفتار کرکے کہا جاتا ہے کہ اس نے سبط جعفر کو قتل کیا ہے۔حالانکہ اس سے پہلے ایس ایس پی سی آئی ڈی فیاض خان نے پریس کانفرنس کرکے ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا اعلان کرچکے ہیں ان قاتلوں کا تعلق لشکر جھنگوی سے تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کیس کے ملزمان پہلے ہی گرفتار ہوچکے ہیں۔اس کیس میں ایم کیو ایم کے کارکن کو کیوں گرفتار کیا گیا۔جبکہ سبط جعفر کو قتل کرنے کی ذمہ داری بھی لشکر جھنگوی نے قبول کی تھی۔پھر یہ کیس ایم کیو ایم پر کیوں ڈالا جارہا ہے۔

اب بات کرتے ہیں کراچی میں اسکولوں پر ہونے والے کریکر حملوں کی۔عوام کو یاد ہوگا کہ کچھ مہینے پہلے رینجرز نے ایم کیوایم کے کچھ کارکنان کو گرفتار کرکے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی میں اسکولوں پر دستی بم حملہ ایم کیوایم کے کارکنان نے حیدر عباس رضوی کے کہنے پر کیا تھا۔لیکن اب تحقیقات کی گئی تو پتہ چلا کہ سانحہ صفورا حملہ میں ملوث ملزم سعد عزیز اس میں ملوث تھا اور اس بات کا اس نے اعتراف بھی کیا.لیکن پھر بھی رینجرز یہ کیس ایم کیو ایم پر زبردستی ڈال رہی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ رینجرز اصل مجرموں کو چھپاکر کراچی میں ہونے والی کسی بھی وارات کا الزام ایم کیو ایم پر لگادیتی ہے۔اور اصل مجرموں کو چھوڑ کر ایم کیوایم کے بے گناہ کارکنان کو گرفتار کررہی ہے۔ 


حقیقت بات یہ ہے کہ رینجرز نے کراچی میں اصل مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔اس کی کوشش ہوتی ہے کہ شہر میں کوئی بھی واقعہ ہو اس کا تعلق ایم کیو ایم سے جوڑا جائے۔اس طرح رینجرز نے ایم کیوایم کے سابق سینیٹر عباس کمیلی کے بیٹے کے قتل کا الزام بھی ایم کیو ایم پر ڈالا ہے جبکہ اس واقعہ کی ذمہ داری بھی لشکر جھنگوی قبول کرچکی ہے۔رینجرز اصل مجرموں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتی ہے  اور ایم کیو ایم کے نہتے کارکنان اس کا آسان شکار ہیں اس لیئے وہ ان کو با آسانی گرفتار کرکے کسی بھی قتل کا الزام ان پر ڈال دیتی ہے۔کٹی پہاڑی اور سہراب گوٹھ پر منشیات،اسلحہ عام ہے۔چوری کی گاڑیاں پورے کراچی سے چوری ہوکر کٹی پہاڑی میں آتی ہے جہاں گاڑیوں کے پارٹس نکال کر ان کو سستے داموں بیچ دیا جاتا ہے۔لیکن وہاں رینجرز کبھی ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کرے گی کیوں کہ وہاں سے جوابی کاروائی بھی ہوتی ہے۔جبکہ ایم کیو ایم کے سات ہزار کارکنان کو گرفتار کیا لیکن کوئی جوابی کاروائی نہیں ہوتی۔

واضح رہے یہ رینجرز تھی جس نے ایم کیو ایم پر نیٹو کے انیس ہزار کنیٹینر چوری کرنے کا الزام لگایا اور جب عدالت نے ثبوت مانگا تو ڈی جی رینجرز بیان سے منحرف ہوگئے اور پھر خاموشی سے اس وقت کے ڈٰی جی رینجرز رضوان اختر نے معافی  نامہ جمع کروادیا۔اس کے علاوہ نیٹو نے بھی انیس ہزار کنٹینر کے رینجرز کے جھوٹ کی تردید کردی۔گیارہ مارچ کو رینجرز کے چھاپے کے بعد رینجرز نے لائیسنس یافتہ اسلحہ کو کہا کہ یہ نیٹو کا اسلحہ ہے۔اگلے ہی دن نیٹو کی تردید آگئی۔جس سے رینجرز کا جھوٹ آشکار ہوگیا۔

جہاں تک بھتہ خوری کی بات ہے۔آپ کراچی آکر کسی بھی تاجر سے پوچھ لیں کی بھتہ کون لیتا ہے۔سب کا یہی جواب ہوگا کہ لیاری گینگ وار والے۔تاجر حضرات آپ کو ان دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کے نام بھی بتادیں گے لیکن رینجرز نے آج تک ان گینگ وار کے دہشت گردوں کی کوئی لسٹ نہیں بنائی اور نہ ان کو باہر ملک جانے سے روکا،آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی ان کو ملک سے بھگادیا گیا جس کی وجہہ سے بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی۔جب لیاری میں بھتہ خوری اپنے عروج پر تھی اس وقت رینجرز نے ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالا بلکہ ڈی جی رینجرز تو لیاری کو سب سے پرامن علاقہ بولتے رہے۔کراچی میں کالعدم تنظیموں کے خلاف جتنے بھی آپریشن کیئے وہ پولیس نے کیئے جبکہ رینجرز کا حال یہ تھا کہ انہوں نے کالعدم تنظیموں کو چندہ جمع کرنے کی کھلی چھوٹ دی۔کئی مقامات پر شہری گواہ ہیں کہ رینجرز کی موبائل کے برابر میں کالعدم تنظیم والے کیمپ لگا کر چندہ جمع کرتے رہے۔رینجرز نے کالعدم تنظیموں کو اتنی چھوٹ دی کہ انہوں نے ہزاروں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا لیکن رینجرز نے ان کالعدم تنظیموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی رینجرز کا ریکارڈ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ ایم کیو ایم پر جھوٹے الزامات لگائے اور ان کیسوں کے الزامات لگائے جن میں کالعدم تنظٰیمیں ملوث تھیں اور وہ اس کی ذمہ داری قبول بھی کرچکی تھیں۔نیٹو کنٹینر کے جھوٹ پر جتنا ذلیل رینجرز ہوئی اتنا کوئی بھی نہیں ہوا لیکن رینجرز اب بھی کالعدم تنظیموں کی دہشت گردی کو ایم کیو ایم کے کھاتے میں ڈال کر اصل قاتلوں کو بچانے میں مصروف ہے جس کا اظہار شکیل اوج کا بیٹا حسان اوج بھی کرچکا ہے۔رینجرز تو دور کی بات ہے خود ہمارے ملک کے وزیر داخلہ کالعدم تنظیموں کی دہشت گردی کو بھارت کے کھاتے میں ڈال چکے ہیں جبکہ شجاع خانزادہ کے قاتل کالعدم تنظیم کے لوگ ہیں اور وہ فیصل آباد سے پکڑے بھی گئے ہیں لیکن چوہدری نثار کالعدم تنظیموں کو بچا کر اس کا الزام پڑوسی ملک پر لگارہے ہیں۔آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔انہی کالعدم تنظیموں کے لوگ الطاف حسین کے خلاف ایف آئی آر ردج کرانے میں آگے آگے تھے اور رینجرز کی حمایت میں بھی ریلی نکالنے میں آگے آگے تھے۔سنا ہے رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہے اور کہیں یہ محبت نون لیگ اور کالعدم تنظیوں کے پرانے تعلقات کا نتیجہ تو نہیں ہے۔بہر حال کالعدم تنظیوں کے اصل قاتلوں کو بچانے کا رینجرز اور وزیر داخلہ کا یہ کام ملک کو پیرس نہیں بںائے بلکہ افغانستان سے بھی بدتر بنادے sibte jaffar  گا۔شاید ان کو کچھ سمجھ آجائے ۔

https://www.facebook.com/LetUsBuildPakistan/videos/10153539244404561

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ayesha
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.