ملک اسحاق کی ہلاکت: عارف جمال حقائق کی بجائے تصوراتی مفروضوں پر کیوں انحصار کررہے ہیں؟ – عامر حسینی

aj
پاک ٹی ہاوس بلاگ جس کو فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر رضا رومی، یاسر ہمدانی سمیت کئی ایک لبرل ایڈمن کرتے ہیں اور یہ بلاگ بنیادی طور پر نجم سیٹھی گروپ کے متعلقین یا مداحوں کا ھائیڈ پارک ہے، اس بلاگ پر مونا کاظم شاہ نے ملک اسحاق کے مظفر گڑھ کے علاقے شاہ والہ کے قریب اپنے چودہ ساتھیوں سمیت مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے کے واقعہ پر امریکہ میں مقیم صحافی عارف جمال سے ایک انٹرویو کیا

http://pakteahouse.net/2015/07/29/malik-ishaq-killed-arif-jamal-talks-with-mona-kazim-shah/

اس انٹرویو میں انھوں نے ملک اسحاق کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کے واقعہ پر جب عارف جمال کی رائے طلب کی تو عارف جمال نے پہلے توبنا کوئی ٹھوس دلیل دئیے جبکہ ابھی اس پولیس مقابلے کو ہوئے خود ان کے بقول چند گھنٹے گزرے تھے اسے لفظ مبینہ استعمال کئے بغیر فیک پولیس ان کاونٹر یعنی جعلی پولیس مقابلہ قرار دے دیا ، عارف جمال نے اپنی گفتگو میں حسب معمول بنا کسی ثبوت کے یہ تھیوری پیش کی کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسی جس سے ان کی مراد آئی ایس آئی ہے وہ دیوبندی عسکریت پسندوں کی بجائے سلفی عسکریت پسندوں پر ھاتھ رکھے ہوئے ہے، اس مفروضے کے تحت عارف جمال نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے اندر جو سلفی طالبان ہیں ان پر بھی پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا ھاتھ ہے

عارف جمال نے یہ سب مفروضے بنانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ چونکہ دیوبندی عسکریت پسند افغانستان اور کشمیر میں جانے کو تیار نہیں ہیں اس لئے پاکستانی عسکری اسٹبلشمنٹ ان کو مارنے کا کام کررہی ہے

عارف جمال کی یہ ساری گفتگو بہت ہی مضحکہ خیز اور حقائق کے بالکل منافی ہے ، اصل میں عارف جمال کا معاملہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ایک تھیوری وضع کی ہے اور یہ تھیوری ان کی کتاب ٹرانس نیشنل جہاد جوکہ جماعت دعوہ / لشکر طیبہ کی تاریخ پر مشتمل ہے ، اس کتاب میں عارف جمال نے سلفی عسکریت پسندوں اور دیوبندی عسکریت پسندوں کو دو واضح الگ الگ کیمپوں میں رکھا ہے اور انھوں نے دیوبندی عسکریت پسند تنظیموں سے کہیں زیادہ خطرناک جماعت دعوہ کو قرار دیا ہے اور ان کی کوشش یہ رہی کہ وہ کسی طرح سے یہ ثابت کردیں کہ عنقریب لشکر طیبہ پاکستان کی ریاست کے خلاف بطور تنظیم ھتیار اٹھالے گی اور عارف جمال کا دعوی تھا کہ جب کبھی ایسا ہوگا اس وقت پاکستان ٹوٹ جائے گا

عارف جمال بہت عرصہ سے امریکہ مقیم ہیں اور ان کے امریکی تھنک ٹینکس روابط ہیں اور ان کی تحریروں کا بغور جائزہ لیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے اندر کی جو جیو پالیٹکس ہے اس میں وہ امریکیوں کے اندر اس حلقے کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں جو پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے جماعت دعوہ، لشکر طیبہ سمیت کشمیر اور افغانستان میں عسکری سرگرمیوں پر فوکس رکھنے اور پاکستان کے اندر کاروائیاں نہ کرنے والے عسکری گروپوں سے روابط پر فوقتا فوقتا تنقید کرتے ہیں

عارف جمال پاکستان کے اندر مذھبی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردی کے نیٹ ورک پر جب بھی بات کرتے ہیں تو وہ دیوبندی دہشت گرد نیٹ ورک کو ایک تو کم خطرناک بتاتے ہیں ، دوسرا وہ ان کے عالمی سلفی دھشت گرد نیٹ ورک القاعدہ ، داعش وغیرہ کے ساتھ باہمی تعلقات اور لنکس کو چھپاتے ہیں

پاکستان میں دہشت گردی کا کنسورشیم کے عنوان سے حسن عبداللہ نے ایک تفصیلی آرٹیکل لکھا اور اس تجزیہ میں انھوں نے واضح طور پر کہا کہ جتنے بھی دہشت گرد گروپ اس وقت پاکستان کے اندر سرگرم ہیں ان کے باہمی رشتے ایک دوسرے کے ساتھ موجود ہیں ، وہ کہاں الگ ہوتے ہیں اور کہاں ملتے ہیں یہ لائینیں بہت گڈ مڈ ہیں

عارف جمال نے افغانستان کے اندر افغان طالبان سے سپلٹ ہوکر داعش کے وجود کو ایک سلفی فنومنا بتلایا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ داعش میں شمولیت کے لئے حنفی فقہ کو ترک کرنا ضروری نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان ، ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں القائدہ انڈین سب کونٹینٹ اور داعش جو سامنے آئی ہے اس کے اندر شامل ہونے والے یا اس سے اشتراک کرنے والے دیوبندی تکفیری دہشت گرد گروپ فقہی اعتبار سے حنفی المسلک ہیں جبکہ جہاد ، قتال پر وہ سلفی آئیڈیا لوجی سے اتفاق رکھتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ القائدہ ، داعش ، اور ان سے اشتراک کرنے والے تو پاکستانی ریاست ، فوج ، پولیس ، انٹیلی جنس اداروں سب سے برسرپیکار ہیں اور ان کے خلاف پاکستان نے اعلان جنگ کیا ہوا ہے

پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کی سٹریٹجک پارٹنر شپ اس وقت بھی جماعت دعوہ ، جیش محمد کے دو نئے ناموں سے بننے والے گروپ تحریک خدام الدین اور تحریک غلبہ اسلام سے نظر آتی ہے ان میں جماعت دعوہ سلفی ہے اور آخر الذکر دو گروپ دیوبندی ہیں اور یہ تینوں گروپ پاکستان کے اندر کاروائی کرنے والے القائدہ ، داعش اور طالبان سمیت دہشت گرد کنسورشیم کو تکفیری و خارجی گروہ قرار دیتے ہیں ان کے بارے میں پاکستانی عسکری اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی میں موجود جماعت دعوہ سمیت پرو پاکستانی اسٹبلشمنٹ عسکری گروپس ایک طرح سے ملٹری لائن کو فالو کرتے ہوئے ان کو راء ، سی آئی اے اور موساد و بلیک واٹر کے ایجنٹ بتلاتے ہیں ، پاکستانی ریاست تو ان تکفیری خارجی ریاست کے سامنے کھڑے ہونے والے گروپوں سےلڑ رہی ہے ، عارف جمال ان گروپوں کو ایک تو سلفی شناخت دیکر دیوبندی تکفیری عسکریت پسندوں سے الگ کرتے ہیں اور پھر ان پر فوج کا ھاتھ ہونے کی دلیل جماعت دعوہ ، لشکر طیبہ اور فوج کے باہمی رشتوں سے دیتے ہیں ، یہ اصل میں جان بوجھ کر ایسی تھیوری کو آگے بڑھانے کی کوشش ہے جس میں امریکیوں کے ہاں جو پرو انڈین لابی ہے اس کے نکتہ نظر کی تائید ہوتی ہے جبکہ روگ / بدمعاش آرمی کے نکتہ نظر کو تقویت ملتی ہے

عارف جمال نے گفتگو کے دوران صحافتی معروضیت کو مدنظر نہیں رکھا ، اور اس رپورٹنگ کو بھی مکمل نظر انداز کردیا جو پاکستان کے تمام موقر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی ویب سائٹس پر موجود ہے ، اس کے برعکس انھوں نے بہت وثوق سے اسے ایک جعلی پولیس مقابلہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سے آگے جاکر یہ کہنے کی کوشش بھی کی ہے کہ ملک اسحاق کا گروپ فوج کے کہنے پر کشمیر اور افغانستان میں کاروائیاں کرنے سے انکاری تھا یہ انتہائی فضول بات ہے کیونکہ عارف جمال نے اپنی کتاب شیڈو آف وار میں خود بہت تفصیل سے بتایا تھا کہ سپاہ صحابہ پاکستان کے سابق سربراہ مولوی اعظم طارق نے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مدد کے لئے کشمیر میں جہاد کے لئے حرکت الانصار کے عالمی طور پر دہشت گرد گروپ قرار دئے جانے کے بعد جیش محمد کی تشکیل میں مدد کی تھی اور سپاہ صحابہ کے بہت سے اراکین جیش محمد کا حصہ بنے تھے ، جیش محمد کو اب بھی سپاہ صحابہ پاکستان سے ریکروٹمنٹ کی مد میں کمک مل رہی ہے اور ملک اسحاق گروپ کا کشمیر میں یا افغانستان میں جہاد کرنے پر کوئی اختلاف نہیں تھا

اس سارے قضئیے میں بات صرف اتنی سی ہے کہ پاکستانی فوج ہر اس گروپ کے خاتمے پر متفق نظر آتی ہے جو پاکستان کے خلاف داعش ، القائدہ اور طالبان کے ساتھ ملکر کاروائی کرتا ہے اور فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ڈاکٹرائن کے خلاف ھتیار اٹھانے والوں کے لئے سہولت کار بنتا ہے

پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ دیوبندی اور سلفی پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں کے روابط ہیں لیکن یہ وہ ہیں جو بہرحال طالبان فضل اللہ گروپ ، جماعت الاحرار ، لشکر جھنگوی العالمی جیسے گروپوں کی طرح القائدہ برصغیر الھند یا داعش سے اشراک میں نہیں ہیں اور پاکستان کے اندر قتال کے قائل نہیں ہیں

میں یہ واضح کردوں کہ یہاں میں نے عارف جمال سمیت ان لبرل تجزیہ کاروں کے فیک تجزیوں کا رد کرنے کے لئے پاکستان کے اندر عسکریت پسند نیٹ ورک کا تحلیلی تجزیہ کیا ہے اور ان فکری مغالطوں کو بیان کیا ہے جو عارف جمال یا اس کے قبیل کے لوگ پھیلاتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی ماڈیفائیڈ جہادی پراکسی کی پالیسی کی حمائت کرتا ہوں ، ایسا ہر گز نہیں ہے اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ جہادی پراکسی جس جہادی آئیڈیالوجی پر استوار ہوتی ہے اس کے اندر ہی تکفیری فاشزم کے جینز موجود ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ، جماعت دعوہ ، جے یو آئی ایف ، تنظیم اسلامی اور صاف عسکریت پسند تشخص رکھنے والی تنظیمیں جیسے حزب المجاہدین ، جیش محمد وغیرہ ہیں ان سے ٹوٹ کر تکفیری خارجی دہشت گردوں سے مل جانے والے افراد کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں

اس تحلیلی تجزیہ کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ میں پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے بلوچستان کے اندر بلوچ علیحدگی پسند تحریک کو کچلنے اور ان کے بیانئے کے مقابلے میں اپنے جہادیوں کے استعمال کی حمائت کرتا ہوں یا اس فنومنا کے وجود کا انکاری ہوں مگر لبرل کمرشل کے ہاں یک خطی طور پر ہر طرح کے مذھبی دہشت گردی کو ایک طرف تو ملٹری کی پراکسی کے طور پر پیش کرنا یا اس حوالے سے کسی بھی طرح کی تقسیم کو چھپانا اور دیوبندی تکفیری فاشزم کو زبردستی سلفی ثابت کرنا یہ سب اصل میں جیوپالٹیکس میں کسی ایک علاقائی یا عالمی قوت کی پراکسی کے طور پر کام کرنے کی علامت ہے

عارف جمال سے کہیں زیادہ بہتر ملک اسحاق کی ہلاکت کا تجزیہ وائس آف سنی نے کردیا ہے جو اگرچہ سنی کمیونٹی کا ترجمان ہے مگر اس کی یکے بعد دیگرے اس موضوع پر آنے والی پوسٹیں کمرشل لبرلز سے کہیں زیادہ متوازن اور معروضی ہیں

رضا رومی اور مونا کاظم شاہ سے میں کہوں گا کہ اگر وہ اس موضوع پر بات کرنے کے لئے حسن عبداللہ کو زحمت دیتے تو کہیں زیادہ معروضی تجزیہ سامنے آنا تھا ، وہ دی نیوز انٹرنیشنل کے عامر میر ، ندیم شاہ سے بات کرتے ، جنوبی پنجاب میں کرائم رپورٹنگ کے بہترین رپورٹرز شکیل انجم ، ان کے استاد عبدالقادر یوسفی ، ملک تحسین ، شکیل احمد سے بات کرتے تو زیادہ بہتر تجزیہ سامنے آتا ہے

آپ آج مظفرگڑھ سے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائیندوں کی رپورٹنگ پڑھیں وہ بہت زیادہ متوازن اور معروضیت لئے ہوئے ہے اور اخبارات کے ان نمائیندوں نے وہ دھول نہیں اڑائی جو عارف جمال نے اڑانے کی کوشش کی ہے

ملک اسحاق اور ان کے ساتھیوں کی مبینہ پولیس مقابلے میں ھلاکت پر لبرل کمرشل مافیا ، دیوبندی تکفیری فاشسٹ لابی کا یہ اتفاق کہ یہ جعلی پولیس مقابلہ تھا وقت سے پہلے فرض کی ہوئی فنتاسی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ دیوبندی تکفیری فاشزم کے بہت سے مخالفین نے اس فنتاسی کو خرید کر ایسے ماورائے پولیس ان کاونٹرز کی تبلیغ شروع کی ہے جو کسی بہت بڑے دہشت گرد جس کا کردار ملک اسحاق کی طرح کا ہو جبکہ ابھی اس بات کا کوئی ثبوت سامنے نہیں ہے کہ یہ ایک جعلی پولیس ان کاونٹر تھا
عارف جمال کہتا ہے کہ ملک اسحاق کا ماورائے عدالت و قانون فیک ان کاونٹر پاکستانی ریاست کی جانب سے اس بات کا اظہار ہے کہ یہ قانونی طور پر کدی دہشت گرد کو سزا دینے میں ناکام ہوچکی ہے اور یہ بالکل کمزور ہوچکی ہے

میں منتظر ہوں کہ عارف جمال کی کوئی ایسی تحریر مجھے نظر آئے جس میں انھوں نے امریکہ کے افغانستان ، عراق پر کسی قانونی ، عالمی قانونی ضابطوں کے بغیر حملوں پر تنقید کی ہو ، اس نے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کے دوران بغیر کسی ٹرائل کے ڈرون حملوں اور سی آئی اے کے انڈر کور آپریشن کی مذمت کی ہو اور سی آئی اے کے ایبٹ آباد آپریشن کی مذمت کی ہو اور یہ کہا ہو کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ قانون اور انصاف کی اقدار پر یقین نہیں رکھتا

کمرشل لبرل بہت زیادہ جانبدار ہیں وہ پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے جہادی پراکسی سے تعلقات پر جتنے بے باک نظر آتے ہیں اتنے وہ امریکہ اور دیگر طاقتوں کے بارے میں نظر نہیں آتے

بھارتی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور بھارتی ریاست افغانستان ، پاکستان ، سری لنکا سمیت جنوبی ایشیا میں جس پراکسی وارز میں ملوث ہے اس پر ہمارے ان کمرشل لبرلز کے ہاں کوئی بات دیکھنے کو نہیں ملتی ہے اور امریکی سٹریٹیجی جو جنوبی ایشیا کے حوالے سے ہے اس پر بھی کوئی ناقدانہ نظر ان کے ہاں موجود نہیں ہے یہ تنقید کا سارا زور پاکستان اور چین کی سٹریٹیجک پارٹنر شپ اور ان کے سلفی ،دیوبندی عسکریت پسند لنکس پر ہوتا ہے، یہ ایک طرح سے ون سائیڈڈ ، فنتاسی مکسڈ اور جانبدار تجزیہ ہے

14

1112

13

Snip20150730_20Snip20150730_21

Comments

comments

Latest Comments
  1. Z
    -
  2. Z
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.