Ansar Abbasi’s appeal to Pakistani media owners

Will Aag TV of the Geo TV network no longer 'ignite' Pakistani youth?

امربالمعروف ونہی عن المنکر
کس سے منصفی چاہیں… انصار عباسی

22
نومبر 2010ء کو جنگ میں چھپنے والے میرے کالم بعنوان ”اگر حیاء نہ رہے…….“ پر مجھے قارئین کی طرف سے بے پناہ ردعمل ملا۔ مجھے یہ جان کر انتہائی خوشی اور دلی اطمینان محسوس ہوا کہ پاکستان کے مسلمان اپنے مذہبی اقدار اور اسلامی شعائر کے بارے میں اسی انداز میں جذباتی وابستگی رکھتے ہیں جیسے ایک کلمہ گو سے توقع کی جا سکتی ہے۔

شاید آپ یقین نہ کریں ماسوائے ایک صاحب کے تمام کے تمام لوگ اِس بات پرمتفق تھے کہ ہم مسلمانوں کو اپنے بنیادی دینی شعار ”حیاء“ کا تحفظ یقینی بنانا چاہئے اور فیشن شوز، کیٹ واکس، بیہودہ اشتہارات اور آرٹ اور کلچر کے نام پر پھیلائی جانے والی بے حیائی پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔ ایک بڑی تعداد کا خیال تھا کہ فحاشی اور عریانی کو پھیلانے میں مجموعی طور پر میڈیا کا بہت اہم کردار ہے۔ بعض حضرات کا کہنا تھا کہ فحاشی و عریانی کو پھیلانے والے میڈیا کا حصہ ہونے کی وجہ سے میرے لئے یہ مناسب نہیں کہ میں اِس برائی کے متعلق لکھوں۔

اِس سلسلے میں ایک قاری کا کہنا تھا کہ کالم تو بڑا اچھا لکھا ہے لیکن بہتر ہوتا کہ میں یہ سب لکھنے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لیتا۔ ان صاحب کے مطابق میں نے جو کچھ بھی لکھا وہ اِس سے سو فیصد اتفاق تو کرتے ہیں مگر اُن کا پوچھنا تھا کہ آیا میں مناسب سمجھوں گا کہ میں اپنی رائے کا اظہارمیڈیا اور خصوصی طور پر ٹی وی چینلز کے ذریعے پھیلائی جانے والی بے حیائی پر کروں۔ اِن صاحب کا کہنا تھا کہ بیہودہ فیشن شوز اور کیٹ واکس کو دکھانے اور پرموٹ کرنے والے بھی تو میڈیاکے لوگ ہیں۔ آخر میں اِس قاری نے بجا طور پر کہا ”اللہ اور رسول کے احکامات سب کیلئے ہیں نہ کہ صرف فیشن شوز (منعقد) کرنے والوں کیلئے۔ جب آپ کے چینلز پرانڈین گانے چلتے ہیں تب آپ کو اللہ اور رسول کے احکامات یاد نہیں آتے؟ برائے مہربانی ذرا یہ بھی بتائیں کہ دن میں پانچ نمازیں ہوتی ہیں اور آپ کے چینل پرکتنی بار اذان نشر ہوتی ہے اور کتنی بار گانے چلتے ہیں…؟؟”

مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہمارے لوگ بے حیائی کو بُرا جانتے ہیں۔میری ذاتی رائے میں بھی پاکستان میں فیشن شو، کیٹ واکس، اشتہارات اور فلمی گانوں کے ذریعے فحاشی کو پھیلانے پر میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجھے اِس برائی کے متعلق محض اس لیے نہیں لکھنا چاہیے کیوں کہ میرا تعلق خود میڈیا سے ہے؟،

میں یہاں اپنے قارئین کو یہ خوشخبری سنانا چاہوں گا کہ میرے 22نومبر کے کالم پڑھنے کے بعد ہمارے ملک کی ایک اہم میڈیا کی شخصیت نے اپنے میگزینز میں فحاشی و عریانی کے زمرے میں آنے والی تصویریں شائع نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ اُس شخصیت کو اپنے فیصلہ پر عمل درآمد کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اُنکے اِس عمل کو اُنکی بخشش کا ذریعہ بنائے۔آمین۔

یہاں میں یہ بھی اپنے قارئین کو بتانا چاہوں گا کہ میری میرے ادارے کی ایک اہم شخصیت سے بھی اِس موضوع پر بات ہوئی ہے جس پر مجھ سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اِس معاملہ کا مکمل جائزہ لیکر اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور کسی بھی قسم کی بے ہودگی کو دکھانے سے گریز کیا جائے۔ اللہ یہ کام کرنے کی اُن کو توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔

میری پاکستان کے تمام میڈیا مالکان سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی عریانی و بے حیائی کے تناظر میں پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیں اور اِس بات کو یقینی بنائیں کہ اِسلامی اقدار اور شعائر کو پھیلایا جائے نہ کہ اُن کو نشانہ بنایا جائے۔

میڈیا کی یقیناً بہت اہم ذمہ داریاں ہیں اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ مجموعی طور پر میڈیا کرپشن ظلم و زیادتی ناانصافی نااہل حکمرانی اور دوسرے مسائل کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار اداکر رہا ہے، مگر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم نے فحاشی و عریانی کو پھیلانے میں کسی طرح بھی کوئی کردار ادا کیا تو ہم سے اِسکی سخت پوچھ گچھ ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ سورة النور میں فرماتے ہیں ”بے شک جو لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بے حیائی پھیل جائے ان کے لیے دُنیا و آخرت میں درد انگیز عذاب ہے اور اللہ تعالی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے “(النور19)۔

میڈیا مالکان اور صحافی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے تعمیری اور صحیح استعمال کو یقینی بنا کرمیڈیا کو اپنے لئے صدقہٴ جاریہ بنا سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہی میڈیا اُن کیلئے ”گناہِ جاریہ“ نہ بن جائے۔

Jang 20 Dec 2010

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ahmed Iqbalabadi
    -
  2. Faiqrizvi
    -
  3. Sheen Alif
    -
  4. Ahmed Iqbalabadi
    -
  5. Shahid Mahmood
    -
  6. Dr M Iqbal Hayat
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.