مامی توانیم: ایران امریکہ جوہری معاہدہ اور اس پر مخلتف رد عمل – عامرحسینی

Iranian Foreign Minister Mohammad Javad Zarif shakes hands on January 14, 2015 with US State Secretary John Kerry in Geneva. Zarif said on January 14 that his meeting with his US counterpart was vital for progress on talks on Tehran's contested nuclear drive. Under an interim deal agreed in November 2013, Iran's stock of fissile material has been diluted from 20 percent enriched uranium to five percent, in exchange for limited sanctions relief.   AFP PHOTO / POOL / RICK WILKING        (Photo credit should read RICK WILKING/AFP/Getty Images)

10985864_10207291427112315_7854899114273347294_n

مامی توانیم کا مطلب ہے کہ ” ہم اپنے فیصلے کرنے پر قادر ہیں ” اور کل اگر تہران کی گلیوں ، کوچوں اور بازاروں میں لوگوں کے خوشی سے جھومتے ، گاتے ، پھلجھڑیاں چھوڑتے اور شرلی پٹاخے چھوڑتے اور پھر گاڑیوں ، موٹر بائیکس کے ھارنوں اور بائی سائیکل کی گھنٹیوں کی آوازیں سنتے دیکھتے تو ” مامی توانیم ” کا جملہ فوری طور پر سمجھ میں آجاتا

آج سے دس ماہ قبل جب ایران اور نام نہاد جی پلس فائیو ممالک کے درمیان ایرانی ایٹمی پروگرام کے مستقبل پر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو ایران کے اندر اس حوالے سے کافی پہلے ہی عوام کے اندر ایک کایا کلپ ہوچکی تھی ، ایران کی اکثریت چاہتی تھی کہ ایران کے حکام امریکہ سمیت مغرب کے ساتھ اپنی معاندانہ روش کو بدلیں اور ایران کی عالمی معاشی تنہائی کو کم سے کم کیا جائے اور اسی لئے ایران کی اکثریت نے ایران اور مغرب کے درمیان تعلقات کے برے پیٹرن کو بدلے جانے کے حامی صدارتی امیدوار حسن روحانی کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا تھا ، جبکہ حسن روحانی نے ایرانی کابینہ کے لئے جن شخصیات کا انتخاب کیا تھا وہ سب کے سب مغرب کی بہترین جامعات سے ڈاکٹریٹ اور ماسٹرز ڈگریوں کے حامل تھے اور مغرب سے بہت بہتر طور پر واقف بھی تھے ، ان سب کو ایران اور ایران سے باہر فاختائیں خیال کیا جاتا تھا اور ان کی فاختائی سوچ کو ایران کے اندر نہ صرف عوامی حلقوں میں پذیرائی مل رہی تھی بلکہ ایران کی سب سے طاقتور کونسل شورائے نگہبان کے ممبران اور اس سپریم کونسل کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے بھی تائید مل رہی تھی اور ایران میں عقاب کا اثر کم سے کم ہوتا دکھائی دے رہا تھا

مجھ سے ایران اور جی پلس فائیو کے درمیان مذاکرات پر ایرانی عوام ، انٹیلیجنٹسیا کے رجحان اور موڈ پر بات کرتے ہوئے ایرانی نژاد نگار مرتضوی اور حیات علوی جوکہ ایرانی انقلاب کی ملائیت جہت کی مخالف اور ایران کو زیادہ جمہوری ، سیکولر ، لبرل ، سماجی ، سیاسی و قانونی اعتبار سے زیادہ آزاد سماج دیکھنے کی خواہاں ہیں نے بتایا تھا کہ ایران کے اندر حسن روحانی حکومت اور آیت اللہ خامنہ ای کے درمیان ہم آھنگی ایٹمی پروگرام پر ڈیل کے حوالے سے موجود ہے اور ایک باعزت ، ممکنہ بہتر ناکہ مثالی ڈیل پر اتفاق ہوچکا جو مغرب سے کرنے کی کوشش کی جائے گی

ایران کے قدامت پرست اور اصلاح پسند حلقوں کی اکثریت کے درمیان فاختائی راستے کو اختیار کرنے پر اتفاق میں ایران کے سوشو اکنامک حالات ، خطے کی تیزی سے بدلتی صورت حال کا بڑا کردار ہے اور خود جو مغرب خاص طور پر امریکہ کی سوچ میں بدلاو دکھائی دیا ، اس میں بھی مڈل ایسٹ میں بدلے حالات کا بہت بڑا ھاتھ ہے

باراک اوبامہ نے اس ڈیل کے فوری بعد جو تقریر امریکی عوام کے سامنے کی ، اس میں بھی باراک اوبامہ نے واضح کیا کہ یہ ڈیل مڈل ایسٹ میں داعش سمیت مذھبی جنونی دہشت گردی کے خاتمے اور دیرپا امن کے قیام کے لئے خاصی کارآمد ثابت ہوگی

ایک طرف می توانیم والے لوگ ہیں تو دوسری طرف اس ڈیل پر سیخ پا ہونے والوں کی کمی نہیں ہے ، امریکی ، برطانوی ، فرانسیسی ، جرمن میڈیا اس معاملے میں واضح طور پر دو کیمپوں میں بٹا نظر آرہا ہے ، ایک کیمپ جمہوریت پسند لبرل ، سنٹر لیفٹ اور سوشل ڈیموکریٹس کی اکثریت کا ہے جو اس ڈیل کو تاریخی گردان رہا ہے اور امریکی صدر باراک اوبامہ ، امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری ، ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اور دیگر کو خراج تحسین پیش کررہا ہے ، دوسری طرف سنٹر رائٹ ، فار رائٹ کیمپ ہے جو اس ڈیل کو تاریک ترین ، گھاٹے کا سودا ، ایران کے آگے عالمی طاقتوں کے جھک جانے سے تعبیر کررہا ہے

میں اگر امریکی میڈیا کو اس وقت اپنی آسانی کے لیے نیویارک ٹائمز کیمپ اور واشنگٹن پوسٹ کیمپ میں تقسیم کروں تو بات سمجھنے میں آسانی پیدا ہوجائے گی ، اگر آپ نیویارک ٹائمز کی ویب سائٹ کا وزٹ کریں گے تو خبروں کے سیکشن میں آپ کو سب سے بڑی سرخی امریکی کانگریس میں مبینہ ایران -جی پلس فائیو ڈیل کو سبوتاژ کرنے کا عہد کئی ایک کانگریس مین کی جانب سے کیے جانے کا زکر ملے گا اور جب آپ اس کے ادارتی سیکشن میں جائیں گے تو نیویارک ٹائمز کی جانب سے جو اداریہ لکھا گیا ہے اس کا عنوان ہے

امریکہ – ایران نیوکلئیر ڈیل ، جس نے جنگ کے امکانات کم کردئیے ہیں

نیویارک ٹائمز کے آرٹیکل سیکشن میں تھامس فرائیڈ مین سمیت تقریبا ہر ایک آرٹیکل لکھنے والے نے امریکہ – ایران ڈیل کو مثالی طور قرار نہیں دیا لیکن اسے ممکنہ امکانات میں سے ایک بہتر امکان قرار دیا ہے اور نیویارک ٹائمز نے تھامس فرائیڈ مین کے زریعے امریکی صدر باراک اوبامہ کا ایک انٹرویو بھی

امریکی صدر باراک اوبامہ ایران سے معاہدے کا دفاع کرتے ہیں کے عنوان سے ڈالا ہے اور اس انٹرویو میں باراک اوبامہ نے ایران سے ڈیل بارے بہت ہی دلچسپ باتیں کی ہیں اور انھوں نے ایران سے معاہدے کو امریکی صدور رچرڈ نکسن اور رونالڈ ریگن کے چین اور سویت یونین کے ساتھ کیے گئے معاہدوں جیسا معاہدہ قرار دیا ہے ، باراک اوبامہ کا کہنا ہے کہ اس ڈیل سے انھوں نے ایران کے رجیم کو اندر سے بدلنے کی کوئی امید وابستہ نہیں کی ہے بلکہ اس معاہدے نے 15 سال تک ایرانی رجیم کے ایٹم بم نہ بنانے کی یقین دھانی حاصل کرنے میں مدد فراہم کی ہے اور اس سے امریکہ نے اپنے مڈل ایسٹ میں اتحادیوں بشمول سنی عرب اور اسرائیل کو ایک بڑے جنگ کے جہنم میں جانے سے بچا لیا ہے

امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کے اداریہ کو ہم قدرے رجائیت پرست اور امید پرست اداریہ قرار دے سکتے ہیں ، جس میں پہلے پیراگراف کے آخر میں ہی انہوں نے لکھا ہے کہ یہ معاہدہ نہ صرف ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ یہ مڈل ایسٹ کی سیاست کا نقشہ بھی بدلے گا ، اداریہ میں نیویارک ٹائمز نے اسرائیلی صدر اور امریکی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کی جانب سے اس ڈیل پر مایوسی اور اس ڈیل پر امریکی صدر کو لتاڑنے کے عمل کو حیران کن قرار دیا ہے

http://mobile.nytimes.com/…/an-iran-nuclear-deal-that-reduc…

امریکی صدر باراک حسین اوبامہ کا نیویارک ٹائمز کے معروف کالم نگار تھامس فرائیڈمین کو دیا گیا انٹرویو بہت ہی اہم ہے اور یہ واشنگٹن میں فاختائی موقف کو واضح کرنے کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے ، باراک اوبامہ اس انٹرویو میں ہرگز ایک یوٹوپیائی ، مثالیت پسند صدر کے طور پر دکھائی نہیں دے رہے جو ایران بارے بہت زیادہ مثالیت پسندی کا شکار ہو جیسا کہ عام طور پر ڈیل مخالف امریکی میڈیا ان کو دکھانے کی کوشش کررہا ہے بلکہ اوبامہ ایک عملیت پسند ، ممکنات میں سے بہتر امکان کا انتخاب کرنے والے سیاست دان کے طور پر سامنے آئے ہیں ، اوبامہ اس انٹرویو میں تھامس فرائیڈ مین کو بتاتے ہیں کہ یہ معاہدہ ایران کے حوالے سے کوئی بڑی ، بڑی امیدیں باندھ لینے کے لئے نہیں کیا گیا بلکہ ایک کم کڑوے پن کے ساتھ راستے کا انتخاب ہے ، باراک اوبامہ کی یہ عملیت پسندی خود ایرانی رجیم کی عملیت پسندی سے ملتی ہے ، ایرانی صدر آیت اللہ حسن روحانی ، وزیر خارجہ جواد ظریف اور آیت اللہ خامنہ ای نے اس معاہدے کو مثالی کی بجائے ممکنہ بہتر معاہدہ قرار دیا ہے

http://mobile.nytimes.com/…/thomas-friedman-obama-makes-his…

دوسری طرف امریکی میڈیا میں اگر عقابی کیمپ کا جائزہ لینا ہو تو واشنگٹن پوسٹ کی آفیشل ویب سائٹ کا ایک وزٹ کافی ہوگا ، واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ادارئے میں ایران سے ایٹمی معایدے پر یو بہو وہی لائن اختیار کی ہے جو سعودی عرب ، اسرائیل اور ریپبلکن کے عقابوں کی ہے اور اس ڈیل کو امریکہ کی ڈپلومیسی تاریخ کی بدترین ڈیل قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا ، واشنگٹن پوسٹ کے لئے لکھنے والے دو کالم نگاروں اور ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کی باہمی گفتگو پر مشتمل ایک وڈیو واشنگٹن پوسٹ کی نیوز ویب سائٹ پر موجود ہے اور اس ویڈیو میں دونوں کالم نگار اور لنڈسے صدارتی امیدوار ایک طرف تو اس ڈیل کو امریکی صدر باراک اوبامہ کی فاش غلطی قرار دیتے ہیں ، دوسری طرف اس ڈیل سے اوبامہ کی توقعات کو وہ یوٹوپیا اور احمقانہ خوش فہمی قرار دیتے ہیں اور ایران کو ایک دہشت گرد ، بدمعاش ریاست قرار دیتے ہوئے ایران سے تزویراتی و نظریاتی اتحاد رکھنے والے حزب اللہ ، انصار اللہ سمیت دیگر تنظیموں اور گروپوں کو مڈل ایسٹ میں جاری خون ریزی کا باعث قرار دیتے ہیں اور وہ اس دوران سلفی ازم ، دیوبندی ازم ، تکفیریت و خارجیت جدیدہ اور سعودی عرب و اس کے اتحادیوں کی یمن پر جارحیت اور ترکی کے شام کی سرحدوں پر داعش کے لئے پورا سپلائی روٹ بنانے کے زکر کو گول کرجاتے ہیں ، واشنگٹن پوسٹ کا صرف ایک مضمون نگار فرید زکریا اس ڈیل کو بہترین آپشن قرار دیتا ہے اور اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ فرید زکریا ایک صوفی سنی ڈیموکریٹ ہے اور وہ ہمیشہ سے صہیونیت مخالف رہا ہے اور سعودی سلفی ازم پر اس کے خیالات موافقانہ نہیں رہے جبکہ بقی سب آرٹیکل ، تجزیئے یوں لگتا ہے جیسے صہیونیت اور سعودی سلفی لابی نے خود ڈکٹیٹ کروائے ہوں ، العربیہ نیوز نیٹ ورک اور الجزیرہ نیٹ ورک بھی اس ڈیل پر جو مواد پیش کررہا ہے وہ واشنگٹن پوسٹ کی سعودی سلفی نواز پالیسی کے اس لئے قریب لگ رہا کیونکہ قطر سعودی عرب سے اپنے بعض معاملات میں اختلاف کے باوجود ایران کے معاملے میں سعودی عرب کے موقف کے قریب ہے

http://www.washingtonpost.com/…/bc8292d2-d978-11e4-8103-fa8…

جبکہ واشنگٹن پوسٹ کی عقابی لائن کا اندازہ کرنے لئے مندرجہ زیل لنکس کا وزٹ کافی ہوگا

http://www.washingtonpost.com/…/41947940-2a32-11e5-a250-42b…

مائیکل گریسن کو آپ صہونیت و سعودی سلفی حاکموں کا ترجمان بھی کہہ سکتے ہیں

http://www.washingtonpost.com/…/494cf99e-d980-11e4-8103-fa8…

جبکہ واشنگٹن پوسٹ نے اس ڈیل کو اپنے اداریہ میں امریکہ کے لئے بہت ہی مہنگی ڈیل قرار دیا ہے امریکہ اور مغرب کے دیگر ملکوں میں اس ڈیل کی مخالفت کے لئے اور اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے اسرائیل اور یہودیوں کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوجانے کا واویلا سامنے لایا جارہا ہے اور آنے والے دنوں میں مغربی رائے عامہ کو اسی پروپیگنڈے سے اس ڈیل کے خلاف کرنے کی کوشش ہوگی جبکہ سعودی عرب سمیت گلف ریاستوں کے وھابی حکمران اور ترکی کے جدید اخوانی رجب طیب اردوگان کا کیمپ اور مصر کا السیسی کی پروپیگنڈا مشنیری اس ڈیل کو زبردستی سنی مسلمان عربوں کے خلاف کھلی سازش قرار دینے کی کوشش کی جائے گی یعنی صہیونیت اور سلفی عرب حکومتیں ملکر ایک نئے فرقہ پرست پروپیگنڈے کا آغاز کرنے والے ہیں

ایک پروپیگنڈا یہ سامنے آرہا ہے کہ اس ڈیل کے زریعے ایران کو پابندیاں ختم ہونے کی صورت میں 150 ارب ڈالر ملیں گے جس کا ایک معتدبہ حصہ مڈل ایسٹ میں سنی اسلام اور اسرائیلی یہودیوں کے خلاف استعمال ہوگا اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پانچ سال کے اندر بلیسٹک مزائیل اور دیگر روائتی اسلحے کی خریداری پر پابندیاں ھٹنے کی صورت میں مڈل ایسٹ اور آبنائے خلیج فارس میں امریکہ اور اس کے اتحادی اور زیادہ غیر محفوظ ہوجائیں گے ، سنی اسلام کو مارجنلائز کئے جانے کا واویلا عروج پر ہے ، یہ سب مفروضے ہیں جو ایران اور مغرب کے درمیان تعلقات کے نئے باب کو کھلنے سے پہلے بند کرنے کی خواہش ناکام پالنے والوں کی جانب سے گھڑے جارہے ہیں جبکہ اس گھڑے جانے کے عمل کا سب سے کراہت آمیز اور گھناونا خاصا یہ ہے کہ سلفی ازم اور اس کے اتحادیوں بشمول دیوبندی ازم کو زبردستی سنی اسلام کا نمائیندہ چہرہ بناکر پیش کرنے اور مڈل ایسٹ میں سنی اسلام کو ایران سے لاحق فرضی اور جھوٹ موٹ کے خطرات کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جارہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں سنی مذاھب اربعہ ، اشاعرہ و ماتریدیہ کو اگر کسی ازم سے سنگین خطرہ لاحق ہے تو وہ سلفی ازم اور اس کے جلو میں اٹھنے والے داعش ازم سے ہے اور سعودی عرب اسلام کے فروغ کے نام پر بھاری رقوم کے ساتھ جو پروجیکٹس پورے عالم اسلام ، مغرب میں چلائے ہوئے ہے اس پروجیکٹ نے سنی اسلام کی مرکزی روائت کو دھندلا ، پیچھے دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، سلفی ازم سے شافعی ، حنفی ، مالکی اور اعتدال پسند حنابلہ سبھی تو تنگ ہیں بلکہ اعتدال پسند حنبلیت تو بالکل ہی معدومیت کے کنارے پہنچ گئی ہے ، سنی اسلام کی مرکزی جمہور کی روائت اپنے آپ کو سعودی عرب سے منسلک کرنے سے انکاری ہے

اور میں سمجھتا ہوں کہ مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ ، جنوبی ایشیا ، مشرق قریب ، وسط ایشیا کے سنی مسلمانوں کی جانب سے سعودی عرب اور اس کے دیگر سلفی اتحادیوں کو مامی توانیم یعنی ہم خود اپنے معاملات کے مختار ہیں کہنے کا وقت آگیا ہے اور سنی اسلام کے مرکزی دھارے جو مذاھب اربعہ ، سلسلہ تصوف اور اشعری و ماتریدی روائت سے ملکر بنا ہے کی جانب سے سلفی ازم کے نمائیندوں کو واضح پیغام بھیجنے کا وقت بھی آگیا ہے ، یہ فرقہ پرستانہ موقف نہیں ہے بلکہ سلفی ازم اور اس کے اتحادی ریڈیکل تکفیری دیوبندی ازم کے فرقہ پرست ، خون خوار ، نسل کشانہ پروگرام اور پروجیکٹ کو مسترد کرنے کا نام ہے

پاکستانی انگریزی میڈیا خاص طور پر ڈان نیوز ، دی نیشن ، پاکستان ٹوڈے کی جانب سے ایران -مغرب ڈیل کو خوش آئیند اور پاذیٹو موو قرار دیا گیا ہے بلکہ ڈیلی ڈان نے تو اس معاہدے سے پاکستان کے لئے نئے مواقع پیدا ہونے کی نوید سنائی ہے ، پی پی پی ، اے این پی ، ایم کیو ایم کی جانب سے بھی اس معاہدےکی تعریف کی گئی ہے ، آصف علی زرداری شریک چئیرپرسن پی پی پی نے اس معاہدے کو جمہوریت کی جیت قرار دیا ہے لیکن میاں نواز شریف اور ان کے وزراء اس معاہدے پر خاموش ہیں ، مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی خاموشی اختیار کی ہے جبکہ دوسرے مشیر طارق فاطمی تھوڑا سا اس ڈیل میں ایران مخالف اور سعودی حمائت والی لائن لیتے نظر آئے ہیں ، اردو میڈیا نے بھی اس ڈیل پر مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن سپاہ صحابہ پاکستان / اہلسنت والجماعت سمیت دیوبندی تکفیریت اور سلفی انتہاپسند سوشل میڈیا سائٹ پر سعودی نواز لائن کی مطابقت کرتے ہوئے فرقہ پرست تکفیری لائن اپنائی جارہی ہے اور اس معاہدے سے مضحکہ خیز حد تک یہود و نصاری و شیعہ رافضیت کا اتحاد کے بے نقاب ہونے کا راگ الاپا جارہا ہے جبکہ ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ اگر یہ واقعی کوئی یہود و نصاری و شیعیت کے درمیان اتحاد کا عکاس معاہدہ ہے تو پھر اسرائیلی صدر ، امریکی ریپبلکنز ، کئی ایک ڈیموکریٹس اس معاہدے کے خلاف اسقدر سیخ پا کیوں ہیں اور یہ معاہدہ اگر یہودیوں ، عیسائیوں اور شیعہ کا سنی اسلام کے خلاف ہے تو پھر اس معاملے پر اسرائیل ، سعودی عرب ، ترکی اور دیگر گلف ریاستیں ایک جیسا موقف کیوں رکھتی ہیں ؟

پاکستان میں ایرانی شیعہ بنیاد پرست اور انتہائی رجعت پرست متعصب حلقوں کی پیروی میں دن رات امریکہ کو شیطان بزرگ کہنے والے اور مرگ بر امریکہ کی صدا لگانے اور اپنے تئیں صہیونیت اور امریکی امپریلزم کے خلاف ایرانی حکومت اور مذھبی پیشوائیت کو تلوار برھنہ خیال کرنے والوں اور اس معاملے پر تومانوں پر ٹوٹ پڑنے والوں کے لئے بھی یہ ڈیل کھسیانے پن کو اور بڑھاوا دینے کا سبب بنی ہے اور ان کے لئے اپنے سابق موقف اور موجودہ صورت حال میں تطبیق کی گنجائش نظر نہیں آرہی ، ایسے میں ایک ایسا ہی گروپ بہت دور کی کوڑی لایا ہے اور اس نے اس ڈیل میں ایران کے کردار اور عمل کو صلح حسن سے تشبیہ دے ڈالی ہے ، اصل میں یہ مادی حالات ، زمینی حقائق اور سماجی -معاشی صورت حال کی جبری تشریح مذھبی تعبیرات کے ساتھ کرنے کا منطقی نتیجہ ہے اور اسی لئے کچھ ایرانی عقابوں کی ہمنوائی کرنے والی شیعی ملائیت اسے غداری سے تعبیر کررہی ہے تو کچھ اس کو کڑوی گولی سے تعبیر کررہے ہیں لیکن حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ایران کا حکمران طبقہ عالمی سرمایہ داری کے ساتھ ملکر ایڈونچر کرنے کے لئے بے تاب ہے اور اس ایڈونچر میں ایران کی مڈل کلاس اور اس کی پروفیشنل پرتوں کے لئے بھی بے پناہ امکانات ہیں جبکہ ایرانی سرمایہ داروں کو بھی ترقی کرنے کے بڑے مواقع اس ڈیل کے کامیاب ہونے سے دستیاب ہوں گے

11174969_10207291428072339_6137010863734706825_n 11752548_10207291427632328_673014356745036978_n

Comments

comments

Latest Comments
  1. Khoob
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.