اکابرین علماء دیوبند اور ہم جنس پرستی۔ خرم زکی

Rainbow

امریکہ میں ہم جنسوں کےدرمیان شادی قانونی قرارہونےپر اعتراض کرنےوالےایک نظرادھربھی دیکھ لیں کہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب ارواح ثلاثہ میں بانی مکتب دیوبند مولانا قاسم نانتوی، مولانا رشید گنگوہی اور ان کے دیگرتلامذہ اور شیوخ کی کیسی کیسی داستانیں بیان فرمائی ہیں۔ امریکہ کو   گالی دینا تو آسان ہے، اپنے گریبان میں جھانکنا مشکل ہے۔اب اگر کسی کو ان اکابرین کے افعال میں کوئی بات باعث شرم، ننگ و عار نظر نہیں آتی تو سات سمندر دور ملک کے غیر مسلم باشندے اپنے لیئے جو قانون بنا رہے ہیں اس پر اعتراض کا بھی کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں بچتا۔ ذرا حکایات ملاحظہ فرمائیں

حکایت نمبر۳۰۵: حضرت والد ماجدمولانا حافظ محمداحمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور عم محترم مولانا حبیب الرحمن صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ گنگوہ کی خانقاہ میں مجمع تھا۔ اور حضرت گنگوہی اور حضرت ناناتوی کے مردید و شاگرد سب جمع تھے اور یہ دونوں حضرات بھی وہیں مجمع میں تشریف فرما تھے کہ حضرت گنگوہی نے حضرت ناناتوی سے محبت آمیز لہجے میں فرمایاکہ یہاں زرا لیٹ جاؤ۔حضرت ناناتوی رحمتہ اللہ علیہ کچھ شرما سے گئے۔مگر حضرت نے پھر فرمایا تو مولانا بہت ادب کے ساتھ چت لیٹ گئے۔حضرت بھی اسی چارپائی پر لیٹ گئے اور مولانا کی طرف کو کروٹ لے کراپنا ہاتھ ان کے سینے پر رکھ دیا جیسے کوئی عاشق صادق اپنے قلب کو تسکین دیا کرتا ہے۔ مولانا ہرچند فرماتے ہیں کہ میاں کیا کررہے ہویہ لوگ کیا کہیں گے ۔حضرت نے فرمایا لوگ کہیں گے کہنے دو۔

حکایت نمبر۲۲۶: خان صاحب نے فرمایاکہ جب منشی ممتاز علی کا مطبع میرٹھ میں تھا۔اس زمانہ میں ان کے مطبع میں مولانا ناناتوی بھی ملازم تھے اور ایک حافظ صاحب بھی نوکر تھے۔یہ حافظ جی بالکل آزاد تھے۔رندانہ وضع تھی چوڑی دار پاجامہ پہنتے تھے۔داڑھی چڑھاتے تھے۔ نماز کبھی نہ پڑھتے تھے مگر مولانا ناناتوی سے ان کو اور مولانا ناناتوی کی ان سے نہایت گہری دوستی تھی ۔وہ مولانا کو نہلاتے اور کمر ملتے تھے۔اور مولانا ان کو نہلاتے اور کمر ملتے تھے۔مولانا ان کو کنگھا کرتے تھے اور وہ مولانا کو کنگھا کرتے تھے۔اگر کبھی مٹھائی وغیرہ مولانا کے پاس آتی تو ان کا حصہ ضرور رکھتے تھے۔غرض بہت گہرے تعلقات تھے ۔مولانا کے معتقد دوست مولانا کی ایک ایسے آزاد شخص کے ساتھ اس قسم کی دوستی سے ناخوش تھے مگر وہ اس کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ایک مرتبہ جمعہ کا دن تھا۔مولانا نے حسب معمول حافظ جی کو نہلایا ۔او ر حافظ جی مولانا کو جب نہلا چکے تو مولانا نے فرمایا حافظ جی تم میں اور مجھ میں دوستی ہے…..الخ

حکایت۲۴۴: والد صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ چھتے کی مسجد میں مولانا فیض الحسن صاحب استنجے کے لئے لوٹا تلاش کر رہے تھے اور اتفاق سے سب لوٹوں کی ٹونٹیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ فرمانے لگے کہ یہ تو سارے ہی لوٹے مختون ہیں ۔حضرت نے ہنس کر فرمایا پھر آپ کو تو بڑا استنجا نہیں کرنا ہے۔(گویا مختون سے کیا ڈرہے)۔

حکایت ۲۵۱: حضرت والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ مولانا منصور علی خان صاحب مرحوم مراد آبادی حضرت ناناتوی رحمتہ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے تھے۔طبیعت کے بہت پختہ تھے اس لئے جدھر طبیعت مائل ہوتی تھی پختگی اور انہماک کے ساتھ ادھر جھکتے تھے۔انہوں نے اپنا واقعہ خود بھی مجھ سے نقل فرمایا کہ مجھے ایک لڑکے سے عشق ہوگیا اور اس قدر اس کی محبت نے طبیعت پر غلبہ پایا کہ رات دن اسی کے تصور میں گزرنے لگے میری عجیب حالت ہوگئی تمام کاموں میں اختلال ہوگیا۔حضرت کی فراست نے بھانپ لیا لیکن سبحان اللہ تربیت و نگرانی اسے کہتے ہیں کہ نہایت بے تکلفی کے ساتھ حضرت نے میرے ساتھ دوستانہ برتاؤ شروع کیا اور اسے اس قدر بڑھا یا کہ جیسے دو یار آپس میں بے تکلف دل لگی کیا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود ہی اس محبت کا ذکر چھیڑا ۔ فرمایا کہ ہاں بھئی وہ (لڑکا) تمہارے پاس کبھی آتے بھی ہیں یا نہیں؟ میں شرم و حجاب سے چپ رہ گیا تو فرمایا کہ نہیں بھائی یہ حالات تو انسان ہی پر آتے ہیں۔اس میں چھپانے کی کیا بات ہے غرض اس طریق سے مجھ سے گفتگو کی کہ میری ہی زبان سے اس کی محبت کا اقرار کرالیا۔اور کوئی خفگی اور ناراضگی نہیں ظاہر کی۔بلکہ دل جوئی فرمائی…..الخ

حکایت ۲۱۰: حضرت حافظ صاحب کے مزاج اور خوش مزاجی کے بہت قصے بیان فرمایا کرتے تھے۔ایک بار فرمایا ۔حافظ صاحب کو مچھلی کے شکار کا بہت شوق تھا۔ایک بار ندی پر شکار کھیل رہے تھے۔کسی نے کہا’’ حضرت ہمیں‘‘ آپ نے فرمایا’’اب کے ماروں تیری‘‘

حکایت ۱۱۴: میں سید صاحب کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھا تھاتو چونکہ میں چھوٹا بچہ تھا اس لئے سید صاحب کے پاؤں چھیڑ رہا تھا۔کبھی اس پاؤں کو چھیڑتا تھا کبھی دوسرے پاؤں کو۔اور چھیڑتا اس طرح تھا کہ قدم پر ہاتھ رکھ کر گدگداتا ہوا اوپر کو لے جاتا تھا۔لیکن جب میرا ہاتھ نصف ساق سے اوپر جاتا تو فوراً سید صاحب اسے نیچے اتار دیتے تھے بہت سی دفعہ میں نے ایسا ہی کیا اور سید صاحب نے ہمیشہ میرے ہاتھ کو نیچے اتار دیا۔

حکایت ۱۰۰: خاں صاحب نے فرمایا کہ میاں جی محمدی صاحب حکیم خادم علی صاحب شیخ فیاض علی صاحب شیخ قاسم علی صاحب یہ چاروں ماموں ’پھوپھی‘ خالہ زاد بھائی تھے۔ ان میں سے شیخ قاسم علی صاحب شاہ عبدالعزیز صاحب کے کچھ شاگرد تھے ان پر نہایت فریفتہ تھے ۔ میاں جی محمدی صاحب سید صاحب کے مرید اور ان پر عاشق تھے ۔حکیم خادم علی صاحب مولوی محمد اسمٰعیل صاحب پر دیوانہ تھے۔شیخ فیاض علی صاحب شاہ اسحاق صاحب پر فریفتہ تھے ۔

حکایت ۲۷۱: فرمایا کہ امیر شاہ خاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ بزرگوں کی شانیں مختلف ہوتی ہیں ۔ بعضوں کے خدام تو اپنے شیخ کے عاشق ہوتے ہیں اور بعضوں کے نہیں ہوتے ۔ چناچہ مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے خدام آپ کے عاشق تھے۔

حکایت ۲۱۵: اب سنو کہ لکھنو کے اطراف میں ایک مقام پر ایک عالم رہتے تھے۔وہ ایک لڑکے پر عاشق تھے اور اس کو بہت محبت سے پڑھاتے تھے ۔ جب والد صاحب کو اس کے حسن کا قصہ معلوم ہوا تو وہ حسب عادت اسے دیکھنے چل دئیے۔ جس مسجد میں وہ رہتے تھے اس کے جنوب میں ایک سہ دری تھی اور اس سہ دری کے اند رجانب غروب ایک کوٹھری تھی اور اس کوٹھری کے آگے شمالاً اور جنوباً ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی ۔ جس وقت والد صاحب پہنچے ہیں تو اس وقت لڑکا کوٹھری کے اندر تھا ۔اور وہ عالم اس چارپائی سے کمر لگائے ہوئے اور کوٹھری کی طرف پشت کیے ہوئے بیٹھے تھے۔والد صاحب اسباب رکھ کر ان عالم سے مصافحہ کرنے لگے جب یہ سہ دری میں پہنچے ہیں تو وہ لڑکا ان کودیکھ کر کوٹھڑی میں سے نکلا ۔ والد صاحب نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے تھے کہ ان کی نظر لڑکے پر پڑ گئی جس سے مصافحہ تو رہ گیا اور وہ والد صاحب اس لڑکے کو دیکھنے میں مستغرق ہوگئے ان عالم نے جب یہ دیکھا کہ یہ مصافحہ کرنا چاہتے تھے ’ مگر مصافحہ نہیں کرسکے تو انہوں نے منہ پھیر کر اپنے پیچھے دیکھا تو ان کو معلوم ہوا کہ لڑکا کھڑا ہے ۔اور یہ اس کے دیکھنے میں مصروف ہیں جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ حضرت بھی ہمارے ہم رنگ معلوم ہوتے ہیں تو انہوں نے اس لڑکے کو آواز دی اور کہا کہ ان صاحب سے مصافحہ کرو۔وہ لڑکا آیا اور اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا یا ۔اس وقت ان عالم صاحب نے یہ شعر پڑھا ۔

ایں ست کہ خوں خوردہ و دل بردہ بسے را
بسم اللہ اگر تاب نظر ہست کسے را

 حکایت ۲۷۵: فرمایا کہ ایک مرتبہ نبو پہلوان نے جو دیوبند کا رہنے والا تھاباہر کے کسی پہلوان کو پچھاڑ دیا تو مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو بڑی خوشی ہوئی اور فرمایا ہم بھی نبو کو اور اس کے کرتب کو دیکھیں گے۔حافظ انوار الحق کی بیٹھک میں اسے بلایا اور سب کرتب بھی دیکھے۔مولانا بچوں سے ہنستے بولتے بھی تھے اور جلال الدین صاحبزادہ مولانا محمد یعقوب صاحب سے جو اس وقت بالکل بچے تھے‘ بڑی ہنسی کیا کرتے تھے کبھی ٹوپی اتارتے کبھی کمر بند کھول دیتے تھے۔

 
 جب حیا نہ رہے۔۔۔
 
 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو۔ یقینا اسلام لواطت کی اجازت نہیں دیتا اور یہ گناہ کبیرہ میں سے ہے لیکن دوسرے پر اعتراض کا حق اسی وقت ہے جب اپنے گریبان میں جھانکنے کا حوصلہ بھی ہو۔
 

Comments

comments

Latest Comments
  1. Khan
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.