نواز شریف ! آل سعود کے دوسرے رفیق حریری بننے سے باز آجاؤ

11150986_879694465423285_5209347178745759204_n

ساجد میر ، اویس لغاری ، شیخ رشید ، شریں مزاری ، مولوی فضل الرحمان پاکستان سے زیادہ آل سعود کے وفادار ہیں یمن پر سعودیہ عرب اور اس کے اتحادیوں کے فضائی حملے کے بعد سے پاکستان میں سینٹ اور قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس جاری ہے ، اس اجلاس کے تیسرے روز پہلے دو دنوں کے برعکس آل سعود کے ایجنٹ کھل کر میدان میں آگئے ، مسلم لیگ نواز جس کے اندر اس وقت سب سے زیادہ مضبوط آل سعود کی لابی ہے کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے سینٹر امیر جمعیت اہلحدیث پروفیسر ساجد میر نے پارلمینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کو کہا کہ سعودک عرب جنگی جہاز ، بحری جہاز ، طیارے ، مزائیل جو مانگ رہا ہے دیا جائے اور پاکستانی فوج کو بھی یمن کے باغیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا جائے

پاکستان تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری جوکہ سینٹر منتخب ہوئی ہیں ، رکن قومی اسمبلی اویس لغاری ، شیخ رشید نے بھی سعودی عرب کو مطلوبہ سامان حرب فراہم کرنے اور فوج بھیجنے کی حمایت کی جبکہ شیریں مزاری کے قائد عمران خان اور مرکزی رہنماء شاہ محمود قریشی یمن میں مداخلت کی سخت مخالفت کرچکے اور اس معاملے ميں ڈپلومیٹک کوششوں پر زور دے چکے ہيں

ہمیں افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ سعودی عرب کے حکمران آل سعود پاکستان کے اندر مسلسل لابنگ کرنے میں مصروف ہیں ، آل سعود نے پہلے پاکستان کی سنّی اکثریت کو وہابیت میں بدلنے کے لیے یہاں اہل حدیث اور دیوبندی سیاسی و مذھبی جماعتوں اور ان کے تعلیمی اداروں پر بھاری سرمایہ کاری کی اور پھر 80ء کی دھائی میں سلفی اور دیوبندی عسکریت پسندوں کو زبردستی ، بندوق اور بارود کی طاقت سے اس ملک کی اعتدال پسندانہ ، صلح کل ، تکثریت پسند تہذیب کی جگہ تکفیریت ، شدت پسند اور تنگ نظری کی ثقافت کو پروان چڑھانے کے لیے بے تحاشہ ریال خرچ کئے

سعودیہ عرب نے صرف نام نہاد جہادیوں کو اپنی پراکسی کے طور پر استعمال نہیں کیا ، بلکہ اس نے اس ملک کے کئی ایک سیاسی اور مذھبی گھرانوں کو گود لے رکھا ہے جو اس ملک میں آل سعود اور اس کے سرکاری ٹیگ وہابیت کے لیے کام کرنے میں مصروف ہیں ، پاکستان میں شریف خاندان ہو کہ ملّا فضل الرحمان ، و سمیع الحق و ساجد میر و پروفیسر حافظ سعید ، خواجہ آصف فیملی سمیت کئی ایک خاندان آل سعود کے زرخرید غلام بنے ہوئے ہيں اور پاکستان کے مفادات پر آل سعود کے مفادات کی حفاظت کرنے میں مصروف ہیں

یمن کی صورت حال پر پاکستان کی اکثریت جس ميں 60 فیصد صوفی سنّی ، 20 فیصد شیعہ ، کرسچن ، ہندؤ ، اعتدال پسند دیوبندی سب کے سب چاہتے ہیں کہ پاکستان اس جنگ میں شریک نہ ہو اور ان کی اکثریت سعودی عرب کو یمن پر جارح ملک تصور کرتی ہے اور پاکستان کی پارلمینٹ کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے کہ پاکستان کی افواج اور اس کی دفاعی صلاحیت کو سعودیہ عرب کو کرائے پر نہ دیا جائے

آل سعود کی تاریخ ہے کہ اس نے 1948 ء ، 1965ء اور 1971ء کی پاک -بھارت جنگوں میں غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کیا جبکہ پاکستان کے وجود کو سنگین ترین خطرات لاحق تھے

سعودی عرب میں 40 لاکھ پاکستانی محنت کش آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں ، ان کو کفیلوں کے پاس رہن رہنا پڑتا ہے اور وہاں کوئی لیبر لاءز نہیں ہیں ، یونین سازی کا حق نہیں ہے اور کئی سو پاکستانیوں کے سر قلم کئے جاچکے اور کئی ہزار سعودی جیلوں میں بند ہیں

غریب پاکستانی مسلمانوں کے لیے حج ، عمرہ ویسے ہی خواب اور خیال بن چکے ہیں ، جبکہ وہاں کی وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ نے اسلام ، پیغمبر ، اصحاب رسول اور اہل بیت اطہار کے مقدس آثار اور جیتی جاگتی تاریخ کو دفن کرنے کا مشن 1844ء سے جاری رکھا ہوا ہے

یہ حقائق نہ تو کبھی نواز شریف کو نظر آئے ، نہ ہی کبھی ساجد میر کو نظر آئے ، نہ فضل الرحمان کو ، نہ ہی شیخ رشید کو اور نہ ہی محمود اچکزئی کو جس نے کل ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی میں بکاؤ مال ہونے کا ثبوت پیش کیا

یہ محمود اچکزئی وہ ہے جو کل تک پاکستان نامی ریاست کے غیر فطری اور اس کو پشتونستان و گریٹر افغان کے خلاف سازش قرار دیتا نہیں تھکتا تھا اور آج اس کو سعودی عرب کی سلامتی اور اس کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی فکر کھائے جارہی ہے جوکہ سراسر ایک خاندان کی ملکیت میں بنائی جانے والی مصنوعی ریاست ہے ، پشین و چمن سمیت جنوبی بلوچستان کو افغانستان میں دوبارہ شامل کرنے کا مطالبہ کرنے والا محمود خان اچکزئی ایک ڈاکو کی بنائی ہوئی ریاست کے تقدس کی باتیں کرتا ہوا اپنے آپ کو بے نقاب رتا ہے کہ وہ کس قدر بے ضمیر اور منافق انسان ہے ، ویسے تو اکثر پشتون قوم پرستوں کے ہاں ” احمد شاہ ابدالی ” کے باب میں ترقی پسندی کے گول ہوجانے کی روایت بہت مستحکم ہے اور وہ اس لیٹرے کو ” ولی ، پیر ، بابا ” نہ جانے کیا کچھ ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں اور اس کے پنجاب ، دلّی پر حملوں اور اس دوران کیا مسلمان ، کیا سکھ ، کیا ہندؤ سب کے خون کی ہولی کھیلنے اور لوٹ مار کرنے کو ” جہاد ” کا نام دے دیتے ہیں

پاکستان کے قیام کے روز اول سے مخالف لوگ آج آل سعود سے پیسے لیکر اس ملک کو ایک پرائی جنگ میں دھیکلنے کی کوشش اسی طرح سے کررہے ہیں ، جیسے انھوں نے 80ء کی دھائی میں آل سعود اور مغرب سے پیسے لیکر پاکستان کو ایک ایسی جنگ میں دھکا دیا جس کی آگ آج تک پاکستان کو جلارہی ہے ، کلاشنکوف سے بات بڑھ کو چلتے پھرتے بموں تک آن پہنچی اور پاکستانی فوجیوں کے سروں کو کاٹ کر فٹبال کھیلنے والے درندے اس جنگ کے بطن سے پیدا ہوئے جن کے سب سے بڑے حمائتی بھی وہی ہیں جن کے بڑے کانگریس اور ہندؤ مہا سبھا کے سرمایہ داروں سے پیسے لیکر قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو ” ناپاکستان ” کہتے رہے اور پاکستن ٹوٹنے پر قومی اسمبلی کے فلور پر کہا کہ

” خدا کا شکر ہمارے اکابر پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے “

ہم شریف خاندان کو کہتے ہیں کہ لبنان کا رفیق حریری خاندان بننے سے باز آجائے ، پاکستان لبنان نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کی فوج آل سعود کے ریالوں کی مرہون منت ہے ، پاکستان کا مفاد ہی سب سے اولین ترجیح ہونی چاہیے

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.