کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، دہشت گردوں کی شناخت بهی ہے، چہرہ بهی – روزنامہ ڈان – عامر حسینی

images

Militancy in urban areas

روزنامہ ڈان (24 دسمبر ،2014 بروز بدھ ) ایک اداریہ

ملیٹنسی ان اربن ایریاز کے عنوان سے لکها ہے اور میاں نواز شریف کی جانب سے شہروں اور دیہاتوں میں دہشت گردوں کے خلاف لڑائی لڑنے کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے اور ان کے اس اعلان کا مطلب یہ نکالا ہے کہ اب حکومت نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اربن پاکستان میں دہشت گردی ایک اہم معاملہ ہے اور یہ انکے پہلے تاثر کی نفی بهی ہے کہ شہروں میں دہشت گردی کسی فرد یا سپلنٹر گروپ کی کاروائی ہے بلکہ اب یہ مانا جارہا ہے کہ اربن دہشت گردی اور عسکریت پسندی ایک منظم اور مربوط مظہر ہے
روزنامہ ڈان اپنے اداریہ میں اس سے آگے چل کر لکهتا ہے کہ نواز شریف نے اربن عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے باہم مربوط ہونے اور اس کا دہشت گردی کے ساته مجموعی تعلق کو تسلیم تو کیا لیکن وہ اس بیان میں جو دہشت گرد گروپ ملوث ہیں ان کو شناخت کرنا بهول گئے ، اور روزنامہ ڈان نے یہ تسلیم کیا کہ جب تک دہشت گردوں کی شناخت کو بے نقاب نہیں کیا جائے گا ، ان تنظیموں کا نام مشتہر نہیں ہوگا جو دہشت گردی کے نیٹ ورک کی تشکیل کرتی ہیں اس وقت تک دہشت گرد جہاں پر بهی پائے جاتے ہیں ان کا خاتمہ کیا جانے والا بیان زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہوگا
اس اخبار نے اپنے ادارئے میں آگے چلکر لکها ہے

دہشت گردی ایک چہرے کی مالک ہے ، اس کی ایک شناخت ہے – دہشت گرد گروپ جو شہروں میں منظم ہیں ان کا ایک فزیکل نیٹ ورک موجود ہے اور انفراسٹرکچر بهی ، یہ بے نام لوگ نہیں جو پولیس مقابلوں میں مارے جاتے ہیں ،جیسے سہراب گوٹه کراچی میں اس ہفتے ہوا . اگر دہشت گردی کو شکست دینی ہے تو پہلے اس کی شناخت کرنا ہوگی ، ان کے ناموں کو افشا کرنا پڑے گا ، نیٹ ورکس کو عوام میں مشتہر کرنا ہوگا اور انتہا پسندی اور دہشت گردی کا جو سپیکٹرم ہےاسے پورے کا پورا منکشف کرنا ہوگا
روزنامہ ڈان یہ تسلیم کرتا ہے کہ
اب تک ایسا نہیں ہوا ہے
اور پهر سوال اٹهاتا ہے کہ

اب تک حکومت کیوں ان گروپوں اور ان کی قیادت کا نام ظاہر نہیں کرتی جو پنجاب میں متحرک ہیں اور مذهبی انتہاپسندی کے مراکز اور دہشت گردی کے بهرتی سنٹرز کے درمیان تعلقات کو بے نقاب کیوں نہیں کرتی ؟ اور سب سے بڑهکر اب تک جو مذهبی انتہاپسند دہشت گرد تنظیمیں شناخت ہوچکی ہیں ان کو شٹ ڈاون کیوں نہیں کیا جاتا ؟ یہ بات دوسرے صوبوں پر بهی لاگو ہوتی ہے

روزنامہ ڈان نے اپنے اداریہ میں یہ بهی تسلیم کیا ہے کہ اب تک صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنی سول انٹیلجنس ایجنسیوں اور سیکورٹی اداروں کو ان دہشت گرد اور انتہاپسند تنظیموں کے خلاف اس طرح سے محترک نہیں کرپائیں جس طرح سے ان کو ہونا چاہئیے

اگرچہ روزنامہ ڈان کے اس اداریہ میں کسی ایک لائن میں بهی خود اس چہرے کا نام نہیں لیا گیا جو دہشت گردی کا اس کے بقول ہے اور نہ ہی دہشت گردوں کی شناخت اس نے خود ظاہر کی

جبکہ پاکستان سمیت قومی ، علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا کا یہ رحجآن رہا ہے کہ اس نے جب اکثر دہشت گردی کے چہرے کو کبهی تو سنی شدت پسندی کا نام دیا اور کبهی مسلم بنیاد پرست دہشت گردی کا لیکن اس نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی دیوبندی وهابی تکفیری شناخت اور اس کے دیوبندی تکفیری چہرے کو آج تک بے نقاب کرنے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ کراچی میں آپریشن کے دوران مارے یا پکڑے جانے والے دہشت گردوں کی تنظیم اور اس کے مسلکی پس منظر کو بهی اکثر سنسر کردیا جاتا ہے اور محض کالعدم لکهنے پر اکتفا کیا جاتا ہے

آج سے سال پہلے تک انگریزی اور اردو میڈیا نے یہ روش پکڑرکهی تهی کہ وہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ ، سنی بریلوی ٹارگٹ کلنگ اور نسل کشی کا زکر تک نہیں کرتا تها اور سپاہ صحابہ ، تحریک طالبان پاکستان ، لشکر جهنگوی ، جنداللہ ، تنظیم الفرقان ، اہلسنت والجماعت کی دیوبندی شناخت کو بهی ظاہر کرنے سے گریز کرتا تها اور پهر جب پاکستان میں سوشل میڈیا پر خاص طور پر ایل یو بی پاک ، روشنی جیسے آفیشل پیجز ، عبدل نیشاپوری، علی ناطق ، علی عباس تاج ، آصف زیدی ، ریاض الملک ، ثقلین امام ، خالد نورانی ، محمد عثمان بن ابی بکر ، سید احسن عباس رضوی ، خرم زکی اور راقم سمیت کئی ایک لوگوں نے یہ لکهنا شروع کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کا چہرہ دیوبندی تکفیری ہے

اور ان سب کی شناخت تکفیری آئیڈیالوجی سے وابستگی ہے اور یہی اس ملک میں شیعہ و صوفی سنی نسل کشی ، کرسچن ، ہندو ، احمدیوں کی منظم پراسیکیوشن کی زمہ دار ہیں تو ابتداء میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو بے نام و بے شناخت رکهنے اور اسے بس مذهبی انتہاپسندی یا مسلم بنیاد پرستی وغیرہ سے تعبیر و شناخت کرنے پر زور لبرل ، کمیونسٹ اور لیفٹ کے خاص حلقوں کی طرف سے دیا گیا اور ان میں کئی ایک تو بہت جلد بے نقاب بهی ہوگئے کہ وہ تو لبرل ، سیکولر اور کمیونسٹ ماسک پہنے اصل میں دیوبندی تکفیریوں سے بڑے تکفیری فاشسٹ تهے اور ان کا لبرل ازم ، سیکولر ازم ، مارکس ازم فیک تها اور جعلی تها ، ان میں کئی ایک تو وہ تهے جو دیوبندی ازم کے معماروں کو عظیم سامراج دشمن ، بہت بڑے قوم پرست اور سماجی انصاف و سوشلزم کے داعی ثابت کرنے نکل پڑے اور انہوں نے اہلسنت والجماعت / سپاہ صحابہ سمیت جتنے دیوبندی تکفیری دہشت گرد گروپ تهے ان کی دیوبندی شناخت کو چهپانے اور ان کے دیوبندی مدارس کے ساته رشتے ناطے اور دیوبندی ملائیت کے ساته ان کے تعلقات پر پردے ڈالنے کی سرتوڑ کوشش کی

پهر یہ بهی کیا کہ پاکستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں کے درمیان دیوبندی تکفیری آئیڈیالوجی کا جو اشتراک بنتا ہے اس کو دهندلانے اور اس پورے نیٹ ورک کی جڑیں جن انتہاپسندی کے مراکز اور بهرتی سنٹرز میں موجود ہیں اس سے توجہ ہٹانے اور دیوبندی تکفیری دہشت گردی کے منظم نیٹ ورک کے بارے کنفیوژن پهیلانے اور گول مول خیالات کو سامنے لانے کے لئے کبهی تو اس دہشت گردی کو شیعہ – سنی بائنری اور کبهی سعودیہ -ایران بائنری سے تعبیر کیا اور کبهی یہ کوشش کی کہ سنی بریلوی اور شیعہ دہشت گردی کی اصطلاح کو پروان چڑهایا تاکہ پاکستان میں منظم دہشت گردی کے دیوبندی وهابی تکفیری چہرے اور شناخت پر کوئی اتفاق نہ ہوسکے

پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کی شناخت اور چہرے کو چهپانے اور اسے مسخ کرنے کا کام ایک طرف تو اس دہشت گردی کے دائیں بازو کے حامی کرتے ہیں جن کی اکثریت دیوبندی وهابی ہے اور ان کے ظاہری چہرے دیوبندی ، وهابی مذهبی سیاسی جماعتیں ، جماعت اسلامی ، جماعت دعوہ وغیرہ ہیں اور ان تنظیموں سے ہمدردی رکهنے والے صحافی ، کالم نگار ، اینکرز ، تجزیہ کار ہیں اور خود پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے لئے کام کرنے والے کئی ایک تجزیہ کار ایسے ہیں جو دہشت گردی کی جڑیں سی آئی اے ، را ، موساد ، ایم آئی فائیو میں تلاش کرتے ہیں اور اسے یہود و ہنود ، نصاری کی سازش قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طالبان یہ نہیں کرسکتے

اسی دیوبندی وهابی لابی کے اندر ایک حصہ وہ ہے جو دہشت گردی کو پاکستان کی ریاست ، فوج ، ایف سی ، پولیس کے آپریشنز کا ردعمل قرار دیتا ہے اور دہشت گردوں کو مجاہد کہتا ہے یعنی وہ مانتا ہے کہ یہ کاروائی دیوبندی تکفیری تنظیموں کی کارستانی ہے لیکن وہ اس کا جواز بتلاتا ہے اور اسے جہاد کہتا ہے اور اپالوجی میں یہ مذکورہ بالا دونوں گروہ کہیں کہیں مل جاتے ہیں

دوسری طرف پاکستان میں ایسے لبرل ، سیکولرموجود ہیں جو دہشت گردی کی دیوبندی تکفیری فکری بنیاد کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں اور ان کی فکری گمراہی کا عالم یہ ہے کہ مولوی عبدالعزیز کے خلاف احتجاج کے دوران سپاہ صحابہ والے اور وفاق المدارس والے گول مول ڈسکورس کے ساته آئیں تو ان کے ساته بهی کهڑے ہونے میں مضائقہ خیال نہیں کرتے اور شناخت اور چہرے کو مسخ کرنے بلکہ اس پر پردہ ڈالنے میں شامل ہوجاتے ہیں

تیسری طرف پاکستان میں ایسے کمیونسٹ ہیں جو خود تو سامراجیت ، عالمگیر سرمایہ داری اور ریاست کے نیولبرل مارکیٹ ماڈل اور اور اس سب کی کوکه سے جنم لینے والی دیوبندی وهابی تکفیری فاشزم کے خلاف کوئی ترقی پسند سامراجی سرمایہ داری محاز نہ بناسکے ، نہ ہی پاکستان میں شیعہ ، صوفی سنی نسل کشی اور مزهبی اقلیتوں کی مذهبی پراسیکیوشن کی زمہ دار تنظیموں کے خلاف فرنٹ نہ بناسکے لیکن وہ ریاست اکهاڑ پهینکنے کے نام پر ، کہیں سامراجی جنگوں کی مخالفت کے نام پر اور کہیں سرمایہ داری کی مخالفت کے نام پر دیوبندی وهابی تکفیری دہشت گرد تنظیموں اور ان کی دہشت گردی کو سامراجیوں اور ان کی گماشتہ ریاستوں کے خلاف مزاحمت بتلارہے ہیں ، ان کا خیال ہے کہ وزیرستان ، سوات ، خیبرایجنسی ، باجوڑ ، کرم ایجنسی ، افغانستان ، عراق اور شام میں دیوبندی وهابی تکفیری دہشت گرد تنظیمیں اور ان کے دہشت گرد نہیں بلکہ عوامی مزاحمت سامنے آئی ہے

یہ سوات ، وزیرستان ، خیبرایجنسی وغیرہ میں غریب طبقات کی مزاحمت کے قصے کہانیاں مارکسی ٹرمنالوجی کے ساته بیان کرنے میں مصروف ہیں اور اس طرح سے طالبان ، جنداللہ ، داعش ، وغیرہ کے لئے مارکسزم کے راستے سے راہ ہموار کررہے ہیں اور ان کا اصل چہرہ اور شناخت مسخ کرنے اور چهپانے میں مصروف ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دیوبندی وهابی تکفیری جن دلائل سے دیوبندی دہشت گردی کا جواز دیتے ہیں ویسے ہی دلائل ان کمیونسٹوں کے پاس بهی ہیں

روزنامہ ڈان کا اداریہ بالواسطہ طور پر مجه جیسے بہت سے لوگوں کی تائید کرتا ہے اور واضح ہوجاتا ہے کہ دہشت گردی کے دیوبندی وهابی تکفیری چہرے اور شناخت پر ہمارا اصرار بے جا اور بے مقصد نہ تها اور نہ ہے اس شناخت کے بغیر یہ لڑائی صاف وژن کے ساته لڑی نہیں جاسکتی

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.