جنرل حمید گل کی یادداشتیں از گل عرفانی

 

سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور افغان جہاد کے روح رواں جنرل حمید گل کا ایک انٹرویو روزنامہ ایکسپریس میں مورخہ  ۱۴ دسمبر کو شائیع ھوا۔

جنرل صاحب نے حسب توقع افغان جہاد اور افغانستان  کا ذکر ٹھیک اسی پئرائے میں کیا جسے سٹریجک ڈپتھ کے نام سے جانا جاتا ھے۔  ان کا یہ بھی ماننا ھے کہ افغان جہاد کا آغاز بھٹو دور میں  ھی ھو گیا تھا اور ضیاء دور کو اس کا بانی قرار دینا غلط ھے۔ لیکن جنرل صاحب کو یہ یاد دہانی کرانا ضروری ھے افغان جہاد کی اصتلاح مخصوص ھے سویت یونین کے ساتھ جنگ اور اس کے سقوط سے اور یہ جہاد جنرل ضیاء اور جنرل صاحب کے دور سے منسوب ھے۔ اس سلسلے میں جنرل ضیاء کی وہ یاد گار تقریر سنی جا سکتی ھے جس میں انہوں نے اس جھاد کی افادیت، اس میں شمولیت کی اھمیت اور اس کی ناکامی کی صورت میں پاکستان پر اس کے اثرات کی نشاندہی کی گئی۔ یہ جہاد تو کامیاب ھو گیا، سویت یونین ٹوٹ گیا لیکن جنرل ضیاء کی پیشن گوئی کے برخلاف پاکستان اس جہاد میں کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کے باوجود تباہی کی دھانے پر پہنچ گیا۔ مذھبی انتہا پسندی، کلانشکوف کلچر، جھاد کے نظریہ کا غلط استعمال اور ھییروین کی سمگلنگ اور استعمال کی بہتات۔ البتہ جنرل حمید گل صاحب یہ ماننے سے گریزاں ھیں کہ کلاشنکوف کلچر اور ھیروین کی سمگلنگ افغان جہاد کے اثرات ھیں۔ لیکن کیا ھی اچھا ھوتا کہ جنرل صاحب ھم طالب علموں کی رھنمائی کیلیئے یہ فرما دیتے کہ پھر وہ کونسے عوامل تھے جن کی وجہ سے پاکستان میں شدت پسندی،، کلاشنکوف کلچر، ھیروین اور فرقہ واریت کر فروغ ملا؟

جنرل صاحب اس جہاد میں امریکی امداد کو تسلیم تو کرتے ھیں لیکن ایک ثانولی حیثیت میں، جو ابتدائی دنوں میں نہ ھونے کے برابر تھی اور ضیاالحق نے اسے مونگ پھلی س تشبیہ دی تھی۔ البتہ یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ قائم ھے کہ ایک مقدس جہاد کیلئے امریکی مدد درکار ھی کیوں تھی، چاھے کم یا زیادہ؟ ھیلری کلنٹن کی اس تقریر کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس میں انہوں نے اقرار کیا کہ امریکہ نے سویت افواج کے مقابلے اور سرد جنگ کے دوران نہ صرف مجاھدین کے گروہ تیار کروائے، ان کی فنڈنگ کی اور جنگ ختم ھونے پر انہیں چھوڑ کر اپنا راستہ بدل لیا۔

اوجڑی کیمپ کا پراسرار واقعی آج بھی اپنے اندر بے شمار سوال چھپائے ھوئے ھے جن کے جوابات شاید جنرل حإید گل کی رائے کے الٹ ھوں۔

جنرل صاحب افغان جہاد کو آئی ایس آئی کا ایک عطیم کارنامی قرار دیتے ھیں۔ وہ اعتراف کرتے ھیں کہ آئی ایس آئی کے لوگ نہ صرف افغنستان جا جر مجاھدین کو تربیت دیتے رھے بلکہ ان اپنے دو بیٹے بھی اس جھاد میں شریف ھوئے۔ ویسے تو یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان سے مجادھدین کی بڑی تعداد اس جھاد میں شرکت کیلئے افغنستان جاتی رھی۔ جن میں بیشتر اب پاکستان کے اندر جھاد کر رھے ھیں۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی وہ یاد گار تصویر اب بھی بہت سے جھادی مجلوں میں مل جائگی جس میں وہ ایک روسی ٹینک کے اوپر فاتحانہ انداز میں کھڑے ھیں۔ ویسے تو اس فھرست میں اور بھی بہت سے نام شامل ھیں لیکن خیر۔

جنرل حمید گل اس جنگ کو آئی ایس آئی کی خفیہ لڑی گئے جنگ کہتے ھیں جب کہ آئیے دیکھتے ھیں کہ جنرل ضیاء الحق اس وقت کیا کہا کرتے تھے۔ ان کے مطابق پاکستان افغانستان میں مداخلت نہیں کر رھا بلکہ یہ تو وہاں کی مقامی لوگ ھی ھیں جو جھاد کر رھے ھیں۔

 

جنرل حإید گل صاحب پاکستان کے مسائیل کا ایک سبب تعلیمی نظام میں کی جانے والی تبدیلی کو بھی قرار دیتے ھیں۔ ان کے مطابق درسی کتابوں میں سے جھاد کے بارے مٰں قرانی احکامات کر نکال دینا بھی مسائل کا ایک سبب ھے۔ ھم اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کریں گے کہ اسلام کے دیگر احکامات کی طرح جھاد کی بھی کچھ شرائط اور اقسام ھیں۔ مسجد کے لاوڈ سپیکر سے اعلان جنگ کر دینے کا نام جھاد نہیں۔ یہ اھل علم کا موضوع ھے جن کے پاس قران اور سیرت نبوی ﷺ کی تعلیم موجود ھے۔ ورنہ سیاق و سباق سے ھٹ کر اپنے من پسد مفھوم کیلئے قرانی آیات کو استعمال کرنا طالبان اور دیگر خوارج کا ھی شیوہ ھے۔

افغانستان اور پاکستان کے یک جان اور دو قالب ھونے کی مثال دیتے ھوئے جنرل صاحب فرماتے ھیں کہ پاکستان اپنے میزائیل کے نام مختلف افغانی مجاھدین کے ناموں پر رکھتا ھے۔ یہ مجاھدین ماضی میں بر صغیر کے مسلمانوں کی مدد کیلئے حملے کرتے رھے۔ وہ محمد بن قاسم کی مثال بھی دیتے ھیں۔ البتہ بہت بہتر ھوتا کہ وہ تصویر کا دوسرا رُخ بھی دیکھتے اور انہی کرداروں کے بارے میں اس رائے پر بھی غور کرتے جو ان شخصیات کو متنازعہ  ثابت کرتی ھے۔ محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ لبرل اور آزاد خیال طبقہ ایسی رائے رکھتا ھے۔ تاریخ کے ایمادارانہ مطالعہ اکثر بہت سی غلط فہمیاں دور کر دیتا ھے۔ محم بن قاسم اگر اتنا بڑا نجات دہندہ تھا، تو سترہ سال کی عمر میں سندہ فتح کرنے کے بعد وہ کہاں گیا؟ تاریخ کیا کہتی ھے؟ محمود غزنوی نے سترہ حملے کیوں کیے؟حکومت کیوں نہ قائم کی؟ بقول حسن نثار، ضیاء الحق کو دور جدید کا اورنگزیب کہا جائے تو غلط نہ ھوگا۔ دونوں نے اسلام کا نام لیکر منافقانہ انداز سے حکومت کی۔

جنرل صاحب نے داعش کے بارے میں جو رائے دی اس سے کافی حد تک متفق ھونا پڑے گا۔ البتہ کاش وہ کچھ ذکر ان تکفیری گروہوں کا بھی کر دیتے جن کو پاکستان میں اپنا نمائندہ کہتے ھوئے داعش نے اپنے ساتھ شامل ھونے کی دعوت دی ھے۔ لیکن شاید دفاع پاکستان کونسل میں انہی تکفیری گروہوں کی موجودگی جنرل صاحب کو کچھ کہنے سے روک رھی ھوگی۔

داعش کے بارے میں وہ فرماتے ھیں:

داعش کی حقیقت
داعش کا ایک تاریخی پس منظر ہے، جس کے لئے ہمیں اٹھارویں صدی میں جانا پڑے گا۔ شیخ عبدالوہاب صاحب نے purity in islam کا تصور دیا اور بالآخر وہ بڑھتے بڑھتے شیخ عبدالوہاب کے نام سے وہابی ازم کہلایا۔ وہابی ازم کو سعودی عرب نے اختیار کیا۔ ان کا ایک معاہدہ ہوا، ان کی ایک سیاسی تنظیم بنی جس کا نام الاخوان تھا، جو ہاؤس آف سعود کی تھی، انہوں نے کہا جناب مذہبی معاملات ہم دیکھیں گے اور سیاسی معاملات آپ دیکھیں گے، اس کے بعد انہوں نے یعنی ہاؤس آف سعود نے بار بار بادشاہت کو خط لکھے کہ آپ راستے سے بھٹک چکے ہیں، آپ نے مغرب کو اپنے اوپر سوار کر لیا ہے۔ داعش والوں نے کہا کہ تمہارے ہاں تو بادشاہ کا ہی حکم چل رہا ہے اور جو تم نے ہم سے معاہدہ کیا تھا اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ عرب تیل کی دولت ہاتھ آ جانے کے باعث بہت امیر ہوچکے تھے اسی لئے یہ معاہدے سے منحرف ہوناشروع ہو گئے۔

آگے چل کر وہ اتنے خفا ہوئے کہ ان کے اندر ایک گروپ پیدا ہو گیا جس کا سربراہ یمیاالعتیبی تھا‘ اس گروہ نے 1979ء میں کعبہ شریف پر قبضہ کر لیا‘ یہ جو شدت نظر آتی ہے یہ انہی لوگوں میں ہے‘ یہ گلے کاٹنا وغیرہ۔ ہم سفاک لوگ نہیں ہیں یہ عرب کے شدت پسند لوگ ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جب وہ لوگ بوسنیا میں پہنچے تو وہاں پر نسلی بنیادوں پر جو ظلم کیا گیا تھا کہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے بچے نکال دیئے تھے تو وہاں کی عوتوں کو لے کر آئے‘ جن لوگوں نے یہ ظلم کیا تھا عورتوں سے کہا کہ ان کے گلے پر چھری پھیرو اور وہ بیچاری کانپ رہی ہیں۔ یہ سلسلہ بڑھتاچلا گیا۔

داعش کا اصل خطرہ تو ہے سعودی عرب کے لئے۔ داعش نے کچھ اسلام کی تشریحات کر رکھی ہیں کہ تم کو جہاں بھی کافر ملے یا مرتد ملے اسے ختم کر دو۔ یہ تکفیری کہلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرتد کو کافر سے پہلے ختم کرو کیونکہ یہ ساتھ منافق بھی ہے۔ آپ اس طرح سے نہیں کر سکتے کیونکہ جب ایک خلا پیدا ہوتا ہے تو اسے آپ لُو سے بھی بھر سکتے ہیں اور نسیم صبا سے بھی پُر کر سکتے ہیں۔ ہوا یہ کہ ایک طرح کی لُو چل پڑی اور آپ حیرت زدہ ہوں گے کہ پاکستان میں اس کا اثر نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں مُلا عمر اور اس کے طالبان کا اثر ہے۔ یہ برکت ہے اس جہاد کی کہ یہاں پر داعش کا وجود نہیں ہے۔ وہ داعش ہو یا طالبان سب کا حل پاکستان کے پاس ہے اور میں تو یہ کہوں گا کہ اس وقت پاکستان ہی ہے جو دنیا کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ مسلم معاشروں میں جو شدت آ گئی ہے اسے روکنے میں پاکستان ہی مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

ان کے خیال میں پاکستان میں داعش کا اثر نہیں ھے کیونکہ پاکستان میں ملا عمر اور اس کے طالبان کا اثر ھے۔ اور یہ اسی افغان جھاد کی برکت ھے۔ ھم یہ التجا کریں گے جنرل صاحب سے کہ وہ اس جھاد کے مزید فیوض و برکات کی تفصیل اس جھاد کے ناقدین اور متاثرین سے سن لیں جو شدت پسندی، تکفیری گروھوں اور فرقہ واریت جیسی برکتوں سے فیض یاب ھو رھے ھیں۔

ویسے جو تعریف آپ نے تکفیریوں کی کی بیان کی ھے، انصاف سے بتائں کیا لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ اسی فلر کے عکاس نہیں؟ اس کے باوجود آپ کے ساتھ دفاع پاکستان میں نظر آتے ھیں۔

بحیثیت سابق ڈی جی آئی ایس آئی پاکستان، جنرل حمید گل کی شخصیت ھم سب کیلئے قابل احترام ھے البتہ ضرورت اس امر کی ھے کہ جنرل صاحب افغان جھاد اور اس کے بعد پیدا ھونے والے عوامل کے بارے میں پاکستانیوں کی اس اکثیرت کی آواز کو سنیں جو ان کی بات سے اختلاف رکھتی ھے۔ ھم سب بھی اسلام اور پاکستان سے اتنی ھی محبت کرتے ھیں جتنی وہ۔ لہذا خدارا ھماری بات کو کسی نام نہاد لبرل کی رائے کہہ کر نظر انداز مت کیجئے گا۔ پاکستان دوسرے معاشروں سے شدت پسندی تب ھی ختم کر سکتا ھے جب پہلے اپنے معاشرے سے کرے۔

 

 http://www.express.pk/story/309942/

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.