بلوچستان میں دیوبندی تکفیریت، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور بلوچ تحریک کی پیچیدہ صورتحال – عامر حسینی

 

mengal1

میں نے اپنے مضمون ” داخلی ہجرتوں کے سلسلے کب ختم ہوں گے ” میں انگریزی ماہنامہ “هیرالڈ ” کی ایک کور سٹوری کا حوالہ دیا تها جس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے یہ خیال ظاہر کیا تها کہ یہ نیوز سٹوری مجهے ملٹری اسٹبلشمنٹ کو خوش کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش زیادہ لگتی ہے ، اسی طرح کے خیال کا اظہار ایگزامن ڈاٹ کام پر پوسٹ ہونے والے ایک تجزیہ میں بهی کیا گیا ہے ، اصل میں انگریزی اخبار ڈیلی ڈان جسے وہی گروپ شایع کرتا ہے جو هیرالڈ شایع کرتا ہے نے ایک تجزیہ شعیب حسن کا شایع کیا ہے ” اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تجزیہ صحافتی دیانت اور معروضیت سے خالی ہے لیکن خود ایگزامن ڈاٹ کام کے تجزیہ کار نے بهی صحافتی ایمانداری اور اصولوں سے ہٹ کر ایک کلیشے کا استعمال کرتے ہوئے شعیب حسن کے غیر بلوچ تجزیہ کار ہونے کا زکر خصوصی طور پر کیا ہے اور اس سے بالواسطہ طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ بلوچ انسرجنسی پر جو بهی غیر بلوچ تجزیہ کار لکهے گا وہ لازمی اسٹبلشمنٹ کی لائن کی مطابقت میں ہوگا ٹهیک نہیں ہے

ڈان گروپ کا هیرالڈ ماہنامہ ایسا انگریزی ماہنامہ ہے جس سے ملٹری اسٹبلشمنٹ زیادہ تر خوش نہیں رہتی اور سابق آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے تو آن دی ریکارڈ یہ بیان دیا تها کہ هیرالڈ کو تو ہم سے کوئی عدوات ہے کیونکہ خاص طور هیرالڈ اور خود ڈیلی ڈان کی ادارتی پالیسی پاکستان آرمی کی تزویراتی گہرائی کی پالیسی ، جہادیوں کو بطور پراکسی استعمال کرنے اور ملک میں مذهبی بنیاد پرستوں کے زریعے سے سیاست میں مداخلت کرنے اور آئی ایس آئی کے سیاسی کردار پر تنقید کی عکاس رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس گروپ نے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی لائن کو کبهی فالو نہیں کیا

مجهے عائشہ صدیقہ نے انٹرویو دیتے ہوئے ایک مرتبہ کہا تها کہ انہوں نے ڈیلی ڈان میں لکهنا اس لئے چهوڑا کہ اس کے فرنٹ پیج پر بهی بعض اوقات پلانٹڈ خبریں جوکہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے پلانٹ کی جاتی تهیں شایع کردی جاتی تهیں لیکن آج کل وہ انگریزی اخبار ایکسپریس ٹرائیبون میں لکهتی ہیں اس اخبار کے ایک نیوز ایڈیٹر نے حال ہی میں اپنے ایک آرٹیکل میں انکشاف کیا کہ کیسے دهرنا ایپی سوڈ کے دوران ملٹری اسٹبلشمنٹ نے ان کے اخبار کے سی ای او اور ایڈیٹر کے زریعے اپنی مرضی کی خبریں ، هیڈ لائنز اور تجزئے شایع کرائے اور جبکہ بعض خبروں کو کل کرنے یا دبے انداز میں لگانے کی ہدایات جاری کیں اور خود عائشہ صدیقہ نے بتایا تها کہ کیسے ان کے بلوچستان پر لکهے آرٹیکل ایکسپریس ٹرابئیون نے شایع کرنے سے معذرت کرلی

میری اس موضوع پر ایکسپریس ٹرابئیون کے ایڈیٹر کمال صدیقی سے بات بهی ہوئی تهی لیکن وہ بات چیت اپنے دفاع پر زور اور حقیقت سے دوری پر مبنی تهی ،ویسے ٹرابئیون نے تو دیوبندی تکفیریت کے آگے بهی سرنڈر کردیا تها ایگزامن ڈاٹ کام کا تجزیہ کار ڈان گروپ کے مالکان کی پاکستان کے آمر حکمرانوں کے ساته تعلقات پر بهی روشنی ڈالتا ہے اور وہ اس میں یہ انکشاف بهی کرتا ہے کہ ریکوڈک پروجیکٹ سے کروڑوں ڈالر کمانے والا مسلم لاکهانی نامی آدمی نے ڈان گروپ کے ایڈیٹر ظفر عباس اور اس کے دوسرے صحافی بهائی مظہر عباس جیبیں خوب گرم کی ہیں ،جبکہ وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران واشنگنٹن میں ڈان کے نمائیندے کی اس سے قربتوں کا زکر بهی کرتا ہے

شفیق مینگل سربراہ تنظیم مسلح دفاع وطن کے بارے میں شعیب حسن کا تجزیہ تهوڑا سا متنازعہ ضرور ہے لیکن هیرالڈ میں یہ سٹوری پہلے شایع ہوئی تهی اور هیرالڈ نے اپنی سٹوری میں شفیق مینگل ، رمضان مینگل ، عمر ایرانی کے ایف سی کے ساته تعلقات اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سرپرستی کا زکر ضرور کیا ہے اگرچہ جبری گمشدگیوں ، داخلی مہاجرت اور بلوچ نسل کشی اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اس کی رپورٹنگ اتنی طاقتور نہیں ہے جتنی ہونی چاہئیے تهی لیکن یہ پهر بهی کئی اور اخباری گروپوں سے قدرے بہتر ہے
لیکن پاکستانی انگریزی جرنلزم میں بهی بلوچستان ، شیعہ صوفی نسل کشی ، دیوبندی تکفیریت جیسے ایشوز پر سیلف امپوذڈ سنسر شپ کے ساته ساته ملٹری اسٹبلشمنٹ اور مذهبی فاشسٹوں کی مداخلت بهی بہت واضح نظر آتی ہے اور یہ بهی اتنا آزاد اور بے باک نہیں ہے جتنا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے

ایگزامن ڈاٹ کام کا تجزیہ کار بی ایل اے ، بی آر اے وغیرہ کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ صرف ملٹری کو نشانہ بناتے ہیں لیکن مجهے بہت معذرت کے ساته یہ کہنا ہے کہ یہ کہتے ہوئے وہ ان بے گناہ مزدوروں اور اساتذہ اور ڈاکٹرز اور دکانداروں کی ہلاکتوں کا زکر گول کرجاتا جن کو محض آباد کار پنجابی کہہ کر ماردیا گیا یا ان کے شناختی کارڈ پر پنجاب کی سکونت دیکه کر مار دیا گیا ،اس طرح کی چشم پوشی نے خود ایگزامن ڈاٹ کام کے اس تجزیہ کار کی اپنی معروضیت کو نقصان پہنچایا ہے

بلوچستان میں مذهبی فاشزم ازم دیوبندی تکفیریت کے زیرسایہ بہت تیزی سے اپنے قدم جمارہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے شفیق مینگل ، عمر ایرانی ، رمضان مینگل ، عثمان کرد اور کئی اور کردار جو دیوبندی تکفیریت کے مکسچر کے ساته بلوچ شناخت کے ساته کهڑے نظر آتے ہیں کی سرپرستی ایف سی ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے لوگ کررہے ہیں لیکن بلوچستان کے اندر وہ گروپ بهی موجود ہیں جو دیوبندی وهابی تکفیریت کے ساته خود بلوچستان میں دولت اسلامیہ کے قیام کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور وہ پاکستان کی ملڑی اسٹبلشمنٹ کی پراکسی نہیں ہیں مگر یہ درست ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ بلوچ قومی تحریک کے ساته آج بهی مذهبی فسطائی ڈسکورس کے زریعے سے نمٹنا چاہتی ہے اور اس نے بلوچستان میں تکفیریت کو اندر تک سرایت کرنے کا موقعہ فراہم کیا ہے

یہاں ایک بات تو واضح ہے کہ بلوچستان میں دیوبندی تکفیریت کو ایک پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کی ایف سی اور بلوچستان میں تعینات آئی ایس آئی و ایم آئی کے حکام کی پالیسی جی ایچ کیو اور آبپارہ میں آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کی منظوری اور منشا کے بغیر تو جاری نہیں ہوگی ،لیکن پهر یہ سوال بهی سامنے آجاتا ہے کہ وہ وزیرستان کے اندر ، خیبر ایجنسی میں جو آپریشن جاری رکهے ہوئے ہے کیا وہاں واقعی بلاتمیز سب ہی تکفیریوں کے خلاف کاروائی جاری ہے ؟ جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کے فوری بعد پاکستانی آرمی کے جیٹ طیاروں نے شمالی وزیرستان میں جو کاروائی کی اس بارے میں آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز میں پہلی مرتبہ حقانی گروپ که کمانڈرز کو نشانہ بنانے کا زکر خصوصی طور پر کیا تو کیا وہ محض فیس سیونگ ہے ؟

ملٹری اسٹبلشمنٹ حافظ سعید کی سرپرستی اور مسعود اظہر کو دوبارہ سے متعارف کرانے بارے بهی مسلسل تنقید کی زد میں ہے اور پاکستانی سرحد کے قریب بهارتی کشمیر میں ایک فوجی اڈے پر کل ہی حملہ ہوا ہے اور کشمیر میں انسرجنسی کا لیول پهر سے اوپر جارہا ہے اور جنرل راحیل کے دورہ امریکہ کے دوران یہ بهی سننے کو ملا کہ راحیل کا زیادہ فوکس بهارت تها تو ملٹری اسٹبلشمنٹ کے زهن میں کیا ہے اور وہ کیسے چیزوں کو مینج کررہی ہے اس بارے میں بیت سی گنجلک موجود ہیں اور پهر وہ پنجاب کی حد تک بریلوی ، شیعہ مذهبی سیاسی گروپوں کو کیا امیدیں دلارہی ہے یہ بهی خاصی پیچیدہ صورت حال ہے

http://www.examiner.com/…/pro-army-dawn-newspaper-conducts-…

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.