Wikileaks prove that Dr Shahid Masood’s analysis was so right!


اک کہانی سنو
سویرے سویرے
نذیر ناجی

وکی لیکس میں 2008ء اور 2009ء کے حوالے سے فوجی بغاوت کی جو خبریں‘ تجزیئے‘ حتیٰ کہ جنرل کیانی کا نام لے کر کھلی دعوتیں کہ وہ آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ کر لیں‘ محض خیال آرائیاں نہیں تھیں۔ جو تفصیلات منظرعام پر آئی ہیں‘ ان سے پتہ چلا کہ ”سب ادھر کا اشارہ تھا۔“

لیکن صحافت صرف اشاروں پر چلنے کا نام ہے؟ یا کچھ اپنی فہم و دانش‘ تجربے اور مشاہدے کا فائدہ بھی اٹھانا چاہیے؟ اشاروں پر چلنے والوں کا حشر وہی ہوتا ہے‘ جو فوجی بغاوت کی خبریں دینے والوں کا ہوا۔ کچھ تو ایسے بھی تھے‘ جو صدر زرداری کی رخصت کی باقاعدہ تاریخیں دیتے رہے۔

ایک صاحب کو یہی فکر لاحق رہی کہ وہ ایوان صدر سے جائیں گے کیسے؟ اپنے پیروں پر چل کر؟ یا ایمبولینس میں؟ صدر زرداری تو وہیں موجود ہیں۔البتہ ان صاحب کا پتہ نہیں کہ وہ کیسے گئے؟ جس حالت میں انہیں نکلنا پڑا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ پیروں پر چل کر نہیں جا سکے ہوں گے

اور ایک لکھنے والے کا تو تکیہ کلام ہی یہی رہا کہ ”فیصلہ ہو چکا ہے۔“ یہ عجیب فیصلہ تھا‘ جس کی پہلی اطلاع دو سال پہلے آ گئی تھی کہ ”ہو چکا ہے۔“ مگر سامنے اب تک نہیں آیا۔ ایک اور صاحب تو بستر پر جانے سے پہلے منتخب حکومت ختم ہونے کی نوید سنایا کرتے تھے۔ مگر انہیں ابھی تک کسی بھی صبح کو امید کا سورج دکھائی نہیں دیا۔ بات وہی ہے کہ صحافی کے لئے محض ادھر کے اشارے کافی نہیں ہوتے۔ اکثر یوں بھی ہو جاتا ہے کہ حالات رخ بدل جاتے ہیں۔ انہی حالات پر نظر رکھنا صحافی کی ذمہ داری ہے۔

میرے پاس کوئی اطلاعاتی نظام نہیں ہوتا اور نہ ہی اشارے دینے والوں سے میرا کوئی رابطہ ہے۔ میں صرف خبریں اور تجزیئے پڑھتا ہوں اور پھر ممکنات کا جائزہ لے کر اندازہ کرتا ہوں کہ دستیاب حالات میں کیا کچھ ممکن ہے اور جو ممکن نظر آتا ہے اس کا اظہار کر دیتا ہوں۔ تاریخیں صرف نجومی دیتے ہیں۔ یہ علم میرے پاس نہیں۔ اندازے کبھی درست نکل آتے ہیں۔ کبھی غلط ہو جاتے ہیں‘ مگر حتمی بات کرنے والوں کو پچھتانا پڑتا ہے۔

مجھے کوئی انتہائی بااختیار شخص بھی اگریہ کہے کہ فلاں تاریخ کو میں یہ قدم اٹھانے والا ہوں‘ تو میں جائزہ لوں گا کہ ایسا ہو بھی سکے گا یا نہیں؟ تاریخیں دینے والوں کے ہجوم میں جب میں یہ لکھا کرتا تھا کہ ایسا ممکن نظر نہیں آتا‘ تو اس کی متعدد وجوہ تھیں۔

Source: Jang, 9 Dec 2010

…..

Comments by a fellow blogger Bawa on Dr Shahid Masood etc (courtesy pkpolitics)

ڈاکٹر صاحب نے فرمایا

“ہاں ایک اور بات بلکہ بہت امپورٹنٹ بات میں کہنا چاہتا ہوں کہ مجھ سمیت ایک دو لوگ یہ بات بار بار دو ہزار نو اور دو ہزار دس میں کرتے رہے اور غالبا میں ان پہلے لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے مائنس ون کی بات کی. ایک دو اور لوگوں نے مائنس ون کی بات کی مائنس ون ڈسکس ہو رہا ہے. مذاق اڑایا گیا. تضحیک ہوئی ہم نے نہیں سنی. ہم نے کہا کہ سب اچھا نہیں ہے گڑبڑ ہے کچھ ہوگا کچھ ہونے جا رہا ہے ہماری تضحیک ہوتی رہی مذاق اڑایا جاتا رہا. ہمارے سورسز یا ہم چند لوگ جو کہہ رہے تھے کہ گڑبڑ ہے. ایک طوفان بدتمیزی بپا رہا. آج میں بیٹھکر جب اپنی ان پرانی تحریروں کو دیکھتا ہوں یا اپنے پروگرام کے آرکائیوز کو نکال کر دیکھتا ہوں تو اسوقت دو ہزار نو کے آغاز کے، دو ہزار نو کے درمیان کے یا دو ہزار نو کے آخر کے یا دوہزار دس کے شروع کے آرکائیوز اور ٹیلی کر رہا ہوں اس دور کے وکی لیکس کے تو میرے اس پروگرام کے اندر جو الزام تھا کہ چند ہی لوگوں کو لیکر آتا ہے. شاہین صہبائی یا اور لوگوں کو لا رہا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہی تو وہ باتیں تھیں جو ہم کہہ رہے تھے کہ جی مائنس ون ڈسکس ہو رہا ہے، عدم اعتماد لایا جاتا رہا کیری لوگر بل ہم لیکر آئے. جو باتباد میں آئی اسکو جھٹلایا جاتا رہا. اور ایسے بہت سے واقعات. ہمارا تجزیہ الله تعالیٰ کا احسان ہے اسوقت کا اور آج کا – اگر کہیں ویب سائیٹس پر کالم پڑے ہوئے ہیں تو وہ تجزیے جو ہم لوگ کرتے رہے ہم تی وی پہ کہتے رہے اور ساری دنیا کی گالیاں بھی سنتے رہے دباو برداشت کرتے رہے. آج خوشی اس بات کی ہے کہ تھوڑا سا اطمینان ہے کہ میں نے یا چند ساتھیوں نے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولا. ہماری اطلاعات تھیں ہم ان پر کھڑے رہے قائم رہے. ہر طرف سے انکار کے باوجود ہم اپنی بات پر قایم رہے”

ڈاکٹر صاحب آپکو تو اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے وکی لیکس کا سہارہ لینا پڑا. ہمیں اپنے آپکو سچا ثابت کرنے کے لیے کسی وکی لیکس کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے. آپ نے زرداری کے جانے کا اسوقت تک شور مچایا جب تک آپکو جو سے فارغ نہ کر سدییا گیا. اسوقت ہم نے کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب زرداری جانے والا نہیں آپ چاہے جتنے مرضی پروگرام کر لیں. دیکھ لیں دو سال کا عرصۂ ہوگیا. آپکو جیو چھوڑنا پر گیا لیکن زرداری ایوان صدر میں ہی ہے. آپکا زرداری کو افغانستان جانے والا جہاز ابھی تک آپکے احکامات کا منتظر ہے. آپ نے بیت الله محسود کو زندہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن جو خدا کے پاس چلا جاتا ہے اسے کوئی واپس نہیں لا سکتا. ایک اور بات جن بارہ ڈبوں کے دو سال کھلنے کی ہر پروگرام میں نوید سنائی جاتی تھی وہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟ اب تو الطاف بھائی نے زرداری کا براہ راست نام زبان پر لانے پر بھی پابندی عاید کر دی ہے. جو دت کر کھڑے ہوتے ہیں وہ پسپائی اختیار نہیں کرتے. کھل کر زرداری کا نام لیکر تنقید کیا کریں. ہاں بارہ ڈبوں کا اب بھی کبھی کبھی ذکر کر دیا کریں. ہم نے تو سال ڈیڑھ سال پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ

بند ڈبے اب کبھی نہیں کھلیں گے

…..

ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ایجنٹ —– بلی تھیلے سے باہر کیسے نکلتی ہے؟

واشنگٹن (شاہین صہبائی) ویکی لیکس کے انکشافات کے نتیجے میں کئی چہرے لال پیلے ہوگئے ہیں لیکن سب سے زیادہ نقصان اسٹیبلشمنٹ کو اٹھانا پڑا ہے جبکہ پاک فوج اور آئی ایس آئی پر براہِ راست حملے کئے گئے۔ اگر اس طرح دیکھا جائے تو ان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا دھوکے باز سیاست دانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ یہ سیاست دان ڈھیٹ ہوچکے ہیں اور اپنی ساکھ کے باعث ناقابل اعتبار ہوچکے ہیں کیونکہ یہ لوگ دن میں وعدے کرکے رات میں توڑ دیتے ہیں

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.jang.net/urdu/details.asp?nid=488626

…..

Is Dr Shahid Masood an honest journalist?

مجھے اس پروگرام میں ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے کوئی اختلاف نہیں ہے ……میرا اختلاف ہمیشہ سے کچھ اور رہا ہے .. وہ یہ کہ وہ جو کام کر رہے ہیں یعنی لگاتار زرداری کی کلاس لے رہے ہیں .. میں سمجھتا ہوں اس کا کور فائدہ دن کے آخر میں زرداری ہی کو ہو گا”

پہلے پہل مجھے بھی ایسا ہی لگتا تھا. بہت شروع میں مجھے انکی باتیں بہت خوبصورت اور پر کشش لگتی تھیں جیسے اب بھی انکا پروگرام سننے والے ہر نئے آدمی کو لگتی ہیں. انکا دلفریب اور بے تکلفانہ انداز گفتگو اور حکومت پر کھل کر تنقید کرنا ہر حکومت مخالف آدمی کو اپنی طرف کھینچتا ہے

لیکن پھر میں جیسے جیسے ڈاکٹر صاحب کے پروگرام دیکھتا گیا میری سوچ تبدیل ہوتی گئی. انکا چند مخصوس لوگوں کو بلانا اور ہر پروگرام میں وہی چند مخصوس باتیں کرنا عجیب سا لگنے لگا اور ذہن پر اسکا منفی اثر ہونے لگا.

یوں کہہ لیں کہ پی پی پی مخالف ہونے کے باوجود ذہن انکی باتوں کو ماننے سے انکار کرنے لگا. جب دل و دماغ کی کشمکش شروع ہوئی تو میں نے ڈاکٹر صاحب کو اصولوں کی بنیاد پر جانچنے کے لیے ایک میعار بنانے کا فیصلہ کیا.

وہ میعار کیا تھا؟ آئیں و قانون کی بالادستی پر یقین اور جمہوریت سے وابستگی . . اس میعار پر جب میں نے ڈاکٹر صاحب کو پرکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب جو دن رات زرداری کی کلاس لے رہے ہیں یہ صرف زرداری کی کلاس نہیں ہے بلکہ اس سے آگے کچھ اور بھی ہے. کچھ مزید ریسرچ کی تو اس نتیجے پر پہنچا کہ زرداری ایک بہانہ ہے جمہوریت اصل نشانہ ہے. اب سوال یہ کہ میں کن وجوہات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں؟ آئیے آپ سے شیئر کرتا ہوں

زرداری روز اول سے ایک کرپٹ آدمی تھا اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے. جب آپ اور میرے جسے لوگ یہ سادہ سی بات جانتے ہیں تو کیا ڈاکٹر شاہد صاحب جیسا زیرک آدمی اس سے واقف نہ تھا؟ وہ بغیر کسی شکایت کے جب صرف روپوں کی خاطر جیو چھوڑ کر زرداری جیسے کرپٹ آدمی کی دعوت پر پی ٹی وی کے چیرمین بنے تو اسوقت انکی اصول پسندی، قوم کا درد اور سچائی کا ساتھ دینے کا دعوه کہاں گیا تھا؟ جب ڈاکٹر صاحب پی ٹی وی کے چیرمین تھے لوگوں کو کیوں نہیں بتایا گیا کہ زرداری کرپٹ آدمی ہے؟ اسوقت این آر او اور سوئس اکاونٹس کی حقیقت عوام کو کیوں نہیں بتائی گئی؟ جب زرداری صدر منتخب ہونے جا رہا تھا اسوقت زبان پر تالے کیوں لگے تھے؟ کیوں نہیں واویلا کیا گیا کہ دنیا کا کرپٹ ترین آدمی پاکستان کا صدر بننے جا رہا ہے اسے روکو؟

انہوں نے پی ٹی وی چھوڑ کر زرداری کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا جو بظاہر تو زرداری کی کرپشن بیان کرنا تھا (حالانکہ وہ کبھی بھی زرداری کی کرپشن پر کوئی ریسرچ ورک سامنے نہیں لائے) لیکن اس سے زیادہ انکا کام عوام کو جمہوریت کے خاتمے اور فوج کے اقتدار کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا تھا.

انکا ہر پروگرام اس بات سے شروع ہوتا تھا اور اسی بات پر حتم ہوتا تھا کہ فوج کیا سوچ رہی ہے یا فوج کب اقتدار سنبھال رہی ہے؟ انکے اسٹبلشمنٹ کے ایجنڈے سے وابستگی کی وجہ سے ہی الطاف حسین نے بھی فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دینے کے لیے انکے پروگرام میں یا انکے ساتھ انٹرویو میں اپنا مخصوس پیغام دینا مناسب سمجھا.

دوسرے لفظوں وہ جمہوریت کے خاتمے کے لیے دانستہ یا نا دانستہ طور پر اسٹبلشمنٹ کے مہرے کے طور پر استعمال ہو رہے تھے. انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ زرداری کو اقتدار سے اگر انکی کرپشن کی وجہ سے فارغ کیا جاتا ہے تو اسکے بعد سیاسی قیادت کیا ہوگی؟ انکے ذہن میں دو ہی باتیں ہیں کہ یا تو زرداری اقتدار میں ہوگا اور اگر زرداری نہیں ہوگا تو پھر فوج ہوگی

انہوں نے کبھی آئیں اور قانون کی بالا دستی کی بات نہیں کی. پچھلے کوئی دو سال سے آپ بھی یہیں ہیں اور میں بھی. کوئی مجھے انکا ایک بھی پروگرام بتا دیں جسمیں انہوں نے آئیں کی بالادستی کی بات کی ہو. جب بھی انہوں نے مائنس ون، مائنس ٹو یا مائنس آل یا کوئی بھی حکومت کی تبدیلی کی بات کی تو متبادل کے طور پر انہوں نے ہمیشہ فوج کی بات کی. کیوں؟ کیا آئین میں کسی حکومت کی ناکامی کے بعد فوجی کی حکمرانی کا لکھا ہے؟

انہوں نے ہمیشہ پروگرامز میں آمرانہ ذہن رکھنے والے اور ایسے لوگوں کو بلایا ہے جو ہمیشہ آمریت کو سہارہ دیتے رہے ہیں یا جنکی عوام میں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے. اگر جمہوری ذہن والے یا عوام میں جڑیں رکھنے والے لوگوں کو بلا بھی لیا گیا ہے تو انکے اردگرد چار ٹوکنے والے اور مسلسل بولنے والے لوگ بٹھائے گئے اور انہیں بولنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی انکا موقف لوگوں تک جانے دیا گیا

ڈاکٹر صاحب ایک طرف قوم کو زرداری کی کرپشن کی داستانیں سناتے ہیں اور دوسری طرف نومبر دو ہزار نو میں شاہین صہبائی کے ساتھ زرداری سے ملنے ایوان صدر پہنچ گئے. زرداری کے پرنسپل سیکریٹری سلمان فاروقی نے زرداری کو ان دونوں سے ملنے پر آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن زرداری نے آخری وقت پر سلمان فاروقی کو یہ کہہ کر ملنے سے انکار کر دیا کہ جاو ان سے کہہ دو کہ میرے خلاف جتنا لکھ سکتے ہو یا بول سکتے ہو لکھ اور بول لو. اس واقعے کا ذکر حامد میر نے سولہ نومبر دو ہزار نو کے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں کیا تھا. کہاں گئے اصول، سچ اور کرپشن کی داستانیں؟

ڈاکٹر صاحب نے اے آر وائی پر آتے ہی زرداری کے متعلق چپ سادہ لی اور سوئس اککاونٹس اور این آر او کا ذکر غایب ہو گیا. سچ بولنے والوں کی زبانیں حالات دیکھکر پلٹا نہیں کھا لیا کرتیں. جب سے ڈاکٹر صاحب اے ار وائی پر آئے ہیں. انہوں نے نام لیکر زرداری پر تنقید کرنا کیوں بند کر ہے؟ یہ این آر او کرنے پر انہیں کس نے مجبور کیا ہے؟ اصول پرست لوگ تو نوکریاں جوتے کی نوک پر لکھتے ہیں. یہ کیسی نوکری ہے جس نے زبان پر زرداری کا نام لانے پر بھی پابندی لگا دی ہے؟ کہاں گئے سوئس اکاونٹس اور وہ ڈبے جس میں سوئس اککاونٹس کے راز پوشیدہ تھے؟

بس یہی ڈاکٹر صاحب سے اختلاف ہے. آدمی کے کچھ اصول ہونے چاہئیں اور ان اصولوں کی پاسداری ہونی چاہئیے بے شک اس کے لیے نوکری داو پر لگانی پڑے. ہمارے سامنے اسوقت بہت سے با عزت ججز موجود ہیں جنہوں نے نوکری کو لات مار دی لیکن پی سی او پر حلف نہیں اٹھایا. ایسے با اصول لوگوں کو نہ صرف قوم سلام کرتی ہے بلکہ تاریخ بھی اور وہ امریکی دانشور بھی شرمندہ ہو جاتا ہے جس نے کہا تھا کہ ہر انسان کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ھے جسمیں اسکو خریدا جا سکتا ھے. یہ اصول پرستی اور ایمانداری سب اسوقت تک ہوتی ھے جبتک کوئی مناسب قیمت نہیں لگانے والا ملتا. جیسے ہی کوئی مناسب قیمت لگاتا ھے انسان بک جاتا ھے

با اصول انسان اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ وہ عظیم انسان ہیں. انکا کردار اور انکے اصول انکے ذاتی مفادات کے طابع نہیں ہوتے اور وہ کبھی مفاہمت کا شکار نہیں ہوتے

انسان کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو — انسان تو ہر دور میں انمول رہا ہے

……..

بند ڈبے اب کبھی نہیں کھلیں گے

گرمی کی چھٹیوں میں ٹاٹ سکولوں کے اساتذہ طلباء کو اسقدر ھوم ورک دے دیتے ہیں کہ اگر طلباء پوری چھٹیاں بھی کام کرتے رہیں تو بھی یہ ختم نہیں ہوتا. سکول میں کچھ میرے جیسے طالب علم بھی ہوتے ہیں جو پوری چھٹیاں کام کو ہاتھ نہیں لگاتے اور آخری ایک دو ہفتے دن رات ایک کرکے کام مکمل کر لیتے ہیں. کئی سالوں سے یہی روٹین چل رہی تھی اور گزارہ ہوجاتا تھا. آٹھویں جماعت میں پوری چھٹیاں کھیلنے کودنے اور رشتہ داروں کو ملنے ملانے میں گزاردیں. جب چھٹیوں کا ایک ہدفتہ باقی رہ گیا تو کتابیں کاپیاں لیکر بیٹھ گئے. چھٹیوں کا کام توقع سے کہیں زیادہ تھا. جیسے جیسے سکول کھلنے کا دن قریب آ رہا تھا ویسے ویسے چہرے کا رنگ زرد ہوتا جا رہا تھا. چھٹیوں کا کام ابھی آدھا ہی مکمل ہوا تھا کہ وہ منحوس دن آن پہنچا جب سکول کھل گیا. بوجھل قدموں سے سکول پہنچے تو ماسٹر جی کا ڈنڈا جسے کلاس نے مولا بخش کا نام دے رکھا تھا آنکھوں کے آگے لہرانے لگا. پہلا دن سکون سے گزر گیا اور ماسٹر جی نے چھٹیوں کے کام کا ذکر نہ کیا لیکن جاتے وقت انہیں پتہ نہیں کیا دورہ پڑ گیا کہ کہنے لگے کہ کل ساری کلاس اپنا اپنا چھٹیوں کا کام لے کر آئے ورنہ سزا دی جائے گی. ہم آدھی رات تک بیٹھکر کام مکمل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن یہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا. اگلے دن آتے ہی ماسٹر جی نے چھٹیوں کا کام دکھانے کو کہا. ہم نے ڈرتے ڈرتے کارڈ کھیلنے کی کوشش کی اور عذر پیش کیا کہ کام تو ہمارا مکمل تھا لیکن اسے سکول لانا بھول گئے. ڈر اس بات کا تھا کہ کہیں ماسٹر جی کہہ ہی نہ دیں کہ جاو اور گھر سے اپنا کام اٹھا لاو. خیر ماسٹر جی نے ہمارے پرانے بہانوں کی طرح اسے بھی کوئی اہمیت نہ دی اور ہمیں پوری کلاس کے سامنے رسوا کیا. ہمیں کام – چور، اور نالائق ہی نہیں کہا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ تم آٹھویں جماعت میں بیٹھنے کے اہل ہی نہیں ہو تمہیں تو پرائمری سکول میں ہونا چاہئیے تھا اور پتہ نہیں تمہیں آٹھویں جماعت میں کس نے اور کیسے بھیج دیا ہے. میرا بس چلے تو تمہیں واپس پرائمری سکول بھیج دوں. ہمیں ماسٹر جی پر سخت غصہ آرہا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ ذاتیات پر اتر آئے ہیں لیکن بات تو وہ سچی ہی کہہ رہے تھے. بات بے عزتی اور رسوائی پر ہی ختم ہوجاتی اور چھٹیوں کے کام سے جان چھوٹ جاتی تو بھی کافی تھی لیکن انھوں نے کام – چور اور نااہل کہنے کے ساتھ ساتھ کیس بھی بحال رکھا اور حکم صادر فرمایا کہ اگر کل کام نہ لایا گیا تو بات یہیں سے شروع کی جائے گی. انھوں نے مزید وارننگ دی کہ کام نہ لانے کی صورت میں کان پکڑوا کر مرغا بنوایا جائے گا اور سزا بھی دی جائے گی. اس دن بھی ہم آدھی رات تک جاگ کر کام مکمل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام رہے. اگلے دن جب ماسٹر جی کلاس میں داخل ہوئے تو ہم نے انکو کچھ کہنے کی مہلت دے بغیر ایک تابع فرمان شاگرد کی طرح چپکے سے اٹھکر ماسٹر جی کی ٹیبل کے پاس جاکر کان پکڑ کر مرغا بن گئے. ہماری دیکھا دیکھی ہمارے دوسرے ساتھی بھی جنھوں نے چھٹیوں کا کام مکمل نہ کیا تھا آکر مرغے بن گئے. ماسٹر جی نے غصے میں مرغوں کر ڈنڈے برسانا شروع کر دیے. میرے ساتھی درد کی شدت سے رونے اور چیخنے لگے. ہمارے اوپر ڈنڈوں کا کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ ہم نے کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلیں تھیں اور ہم اس دن ملیشے کی یونیفارم کے نیچے تین تین شلواریں اور قمیضیں پہنکر آئے تھے. ماسٹر جی نے فائینل وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ کل جو کام نہیں لیکر آئے گا اسے سکول سے نکال دیا جائے گا. اگلے دن ہم اپنا نامکمل کام ہی لیکر سکول آگئے تاکہ ہماری نالائقی کے چرچے گھر تک نہ پہنچنے پائیں. ماسٹر جی نے ہر مضمون کے لیے الگ اگل ڈبہ رکھا ہوا تھا اور کام پکڑ کر مطلوبہ ڈبے میں رکھتے جا رہے تھے. ہم نے نیچے منہ کرکے اپنا کام ماسٹر جی کے سپرد کر دیا اور انھوں نے ہر مضمون کا کام علیحدہ علیحدہ ڈبوں میں رکھ دیا. خدا کا لاکھ لاکھ شکر تھا کہ ماسٹر جی نے کام کہیں کھول کر چیک نہیں کر لیے ورنہ ہم پھر مصیبت میں پھنس جاتے. ماسٹر جی نے سب سے چھٹیوں کا کام لیکر ڈبوں کو بند کرکے اسے اپنی سیف میں رکھوا دیا

ہم چھٹی والے دن فٹبال کھیلنے سکول جایا کرتے تھے. ایک دن کھیلتے ہوئے پیاس لگی تو پانی پینے سکول کے نلکے کی طرف گئے جو کہ ہمارے کلاس روم کے سامنے ہی تھا. جب ہم نلکے سے پانی پی رہے تھے تو ہماری نگاہ اچانک کلاس روم کی طرف چلی گئی. کلاس روم کا دروازہ چھٹی کے دن کھلا دیکھکر ہمیں حیرت ہوئی. کلاس روم کے باہر ماسٹر جی کی سرکاری گاڑی یعنی سائیکل کھڑی تھی. ہم چپکے سے برآمدے کے ستون کی آڑ لیکر ساری خفیہ کاروائی دیکھنے لگے. ایک اجنبی لڑکا کمرے سے چھٹیوں کے کام والے بند ڈبے لاکر سائیکل پر لوڈ کر رہا تھا. اسکے بعد کلاس مونیٹر صاحب کچھ ڈبے اٹھائے اندر سے باہر آئے اور ڈبوں کو سائیکل کے کیریر پر رکھکر رسی سے باندھنے لگے. ہم برآمدے کے ستون کے پیچھے سے نکل کر سائیکل کے قریب جا پہنچے اور مونیٹر صاحب سے پوچھا کہ کلاس کی دن رات ایک کرکے حاصل کی گئی خون پیسنے کی کمائی کہاں لیجائی جا رہی ہے؟ مونیٹر صاحب جواب دینے کی دوسری جانب چلنا شروع ہوگئے. غالبا وہ کلاس روم لاک کرنے جا رہے تھے. ہم نے اجنبی لڑکے سے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ یہ ڈبے کہاں لیجائے جا رہے ہیں تو اس نے صرف اتنا کہا کہ میں تو انکا مہمان ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ ڈبے کہاں لیکر جا رہے ہیں. مونیٹر صاحب جب واپس آئے تو دوبارہ میں نے اپنا سوال دہرایا لیکن انھوں نے اتنا جواب دیا کہ میں وہی کر رہا ہوں جسکی مجھے ہدایات دی گئی ہیں. یہ کہکر اسنے اجنبی لڑکے کو سائیکل کی اگلی سیٹ یعنی فریم پر بٹھایا اور وہ نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگئے

میں نے گھر پہنچکر مونیٹر صاحب کے خفیہ مشن کی تفصیلات اپنے ہمسائے جو کہ میرے کلاس فیلو بھی تھے بتائیں. اگلے روز میرے سکول پہنچنے سے پہلے ہی میرا ہمسایہ پوری کلاس کو یہ نیوز بریک کر چکا تھا. کلاس کے سب لڑکے اسی موضوع پر بات کر رہے تھے. کچھ نڈر لڑکے مونیٹر صاحب کے پاس جاکر اس معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اسکا ایک ہی جواب تھا کہ میں نے وہی کیا جسکی مجھے ہدایات دی گئی تھیں. اور کسی کو کچھ پوچھنا ہو تو ماسٹر جی سے پوچھ لیں. پوری کلاس میں سے کسی کو بھی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ ماسٹر جی سے پوچھ لیں کہ یہ مونیٹر صاحب کا ذاتی کاروائی تھی یا اسکے احکامات آپ نے دیے تھے.

چند روز گزرنے کے بعد ہم نے بات کی تہہ تک پہنچنے کی غرض سے مونیٹر صاحب سے لنچ شیئر کرنے فیصلہ کیا. لنچ کے بعد ہم نے مونیٹر صاحب سے پوچھا کہ انھوں نے ڈبے کہاں پہنچائے تھے؟ مونیٹر نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد جواب دیا کہ ماسٹر جی کی ہدایات کے مطابق انکے گھر میں انکی سیف میں رکھوا دیے تھے. پھر ہم نے سوال کیا کہ ماسٹر جی نے ڈبے گھر کیوں منگوائے تھے تو انکا جواب تھا کہ ماسٹر جی نے چھٹیوں کام چیک کرنا ہوگا. یہ سنکر ہماری آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا. گویا ابھی بلا ہمارے سر سے ٹلی نہیں ہے. اس خفیہ کاروائی کی خبر ہماری کلاس سے نکل کر پورے سکول میں پھیل گئی اور دوسری کلاسوں کے شرارتی لڑکے خالی پیریڈ میں ہماری کلاس میں آکر طنزیہ انداز میں پوچھتے کہ سنا ہے کہ تمہارے ماسٹر جی نے کام چیک کر لیا ہے اور جلد ہی یہ ڈبے واپس آکر کلاس میں کھلنے والے ہیں یا تمہارے ڈبے کب واپس آرہے ہیں؟ جی چاہتا تھا کہ ان سب کا منہ نوچ لوں لیکن چھپ رہنے میں ہی عافیت تھی

ایک روز ہم سکول سے گھر جاتے ہوئے دکان سے پکوڑے خرید کر کھاتے جا رہے تھے کہ ہماری نظر اس کاغذ پر پڑی جسمیں پکوڑے ڈال رکھے تھے. کاغذ پر لکھی تحریر دیکھکر پکوڑا ہمارے حلق میں اٹک کر رہ گیا. یہ تو ہماری ہی لکھائی تھی اور یہ کاغذ تو ہمارا چھٹیوں کا کام تھا جو ہم نے آدھی آدھی رات جاگ کر مکمل کرنے کی کوشش کی تھی. ہم الٹے پاؤں پکوڑوں کی دکان کی طرف چل دیے. دکاندار کسی کام سے گھر جا چکا تھا لیکن اسکا بیٹا جو کہ ہمارا پرائمری سکول کا کلاس فیلو تھا اور غربت کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکا تھا وہاں موجود تھا. ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ سکول کے ٹیچر اپنی ردی انہیں دے جاتے ہیں اور یہ کاغز بھی اسی ردی میں شامل تھا. دوران گفتگو ہم نے دکان کے پچھلے حصے کی طرف نظر دوڑائی تو وہاں ہمارے ڈبوں میں سے صرف ایک ڈبہ پڑا نظر آیا جسکا مطلب یہ تھا کہ باقی ڈبے استعمال ہو چکے ہیں. اگلے دن ہم نے کلاس میں مونیٹر صاحب سے پوچھا کہ جناب آپ نے ڈبے ماسٹر جی کی سیف میں رکھوائے تھے یا پکوڑوں کی دکان میں. وہ کھسیانی سی ہنسی نھستے ہوئے کلاس روم سے باہر نکل گیا

ہمیں اپنی اور اپنے کلاس فیلوز کی دن رات کی محنت کو پکوڑوں کی نزر ہونے کا بہت افسوس ہوا لیکن یہ سوچکر دل کو اطمینان بھی ہوا کہ اب ہمیں کوئی کام -چور ثابت نہیں کر سکے گا اور کوئی ہماری اہلیت پر انگلی نہیں اٹھائے گا. وہ باب جسکا آغاز بھی رسوائی اور انجام بھی رسوائی تھا اب ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکا ہے کیونکہ بند ڈبے اب کبھی نہیں کھلیں گے

….

اگلے پورے سال کے پروگراموں کی سمری حاضر ہے

نمبر ایک : فوج اقتدار پر قبضے کے لیے بالکل تیار کھڑی ہے
نمبر دو: زرداری کو چیف جسٹس افتخار چوہدری پھانسی کی سزا سنانے والے ہیں
نمبر تین : زرداری کو ملک سے باہر لیجانے کے لیے جہاز میں پٹرول ڈالا جا رہا ہے
نمبر چار : عمران خان کو بغیر الیکشن تا حیات وزیراعظم اور الطاف حسین کو صدر مملکت بنایا جا رہا ہے
نمبر پانچ : جمہوریت کا نام لینے والوں کو خونخوار طالبان کتوں کے آگے ڈال دیا جائے گا
نمبر چھ : آرمی چیف کو امیرالمومنین بنانے کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی زمہ داری ڈاکٹر شاہد مسود صاحب کو دی جائے گی اور وہی انکی قوم سے خطاب کی تقریر لکھیں گے

اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے قبر میں ٹانگیں لٹکائے روداد خاناور ڈاکٹر مبشر حسن، منہ سے لالین ٹپکاتے اکرام سہگل اور اکرم شیخ، قوم کو گالیاں دیتے حسن نثار اور جھوٹوں کے شہنشاہ صالح ظافر، شاہین صہبائی اور انصار عباسی، پان کی پیک کی پچکاریاں مارتے سلیم بخاری، جمائیاں لیتے جنرل اسد درانی، بھڑکیں مارتے حمید گل، بڑھاپے میں سٹھیائے ہوئے ہارون رشید، ہر پارٹی کا بیڑہ غرق کرنے والے مشاہد حسین اور ماں کا نہ باپ کا – شیخ رشید آپکا، ہر پروگرام میں آکر آمریت کے گیت سنائیں گے اور ڈاکٹر صاحب سے داد پائیں گے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. IRFAN URFI
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.