ڈاکٹر شکیل اوج، جنهیں مذهبی فسطائیت کا اژدها نگل گیا – عامر حسینی –

34

ڈاکٹر شکیل اوج جوکہ میری مادر علمی کراچی یونیورسٹی کے اسلامیات و شریعہ اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تهے گلشن اقبال کراچی میں عین مسجد بیت المکرم کے سامنے اس وقت شہید کر دیےگئے جب وہ ڈی لٹ کی ڈگری لینے کے لئے خانہ فرہنگ ایران، کراچی میں ایک منعقدہ تقریب میں جارہے تهے

ان کیتجہیز و تکفین اور تدفین ہوچکی ہے اور میں نے ان کی فیس بک پر بنی وال دیکهی تو مجهے معلوم ہوا کہ انهوں نے اسی سال مارچ کے مہینے میں فیس بک جوائن کی تهی اور اب کوئی اور ان کے اکاونٹ کو آپریٹ کر رہا ہے

ان کی وال پر ایک تهریڈ ہمیں بتارہی ہے کہ تعزیت اور غمگساری کے آنے والوں کا ان کے گهر پر تانتا بندها ہوا ہے اور ان کا بیٹا بڑی خندہ پیشانی اور ضبط کے ساته سب سے مل رہا ہے

میں ڈاکٹر شکیل اوج صاحب کی فلاسفی اور ان کے خیالات سے کئی معاملات پر متفق نہیں رہا کیونکہ وہ تهیالوجی ، مابعد الطبعیات اور مثالیت پسند مذهبیت کے قائل تهے اور وہ پاکستان کے آئین میں کسی بهی گروہ یا فرد کے مذهبی شناخت کا تعین کرنے کی بدعت کو بهی عین حق خیال کرتے تهے اور وہ مذهبی تعبیرات کے راستے سے انصاف اور مساوات کے حصول کو قابل عمل خیال کرتے تهے

مجهے ان کی جانب سے ایران کے پین اسلام ازم کے تصورات کی حمایت سے بهی اختلاف تها اور وہ جس طرح سے سید مودودی ، حسن البنا ، سید قطب سمیت پین اسلام ازم کے خیالات کی حمایت کرتے تهے مجهے ان سے بهی اتفاق نہیں تها ، لیکن ان سب کے باوجود وہ مذهبی ہم آهنگی ، اعتدال پسندی ، رواداری ، تحمل ، برداشت کے داعی تهے اور فرقہ وارانہ و مسلکانہ افراط و تفریط کے سخت خلاف تهے جس کی وجہ سے وہ اپنے شاگردوں ہی میں نہیں بلکہ یونیورسٹی کے دیگر شعبوں کے طالب علموں میں بهی مقبول اور قدر کی نگاہ سے دیکهے جاتے تهے

ڈاکٹر شکیل اوج میں ایک بات اور بہت ہی نمایاں تهی کہ وہ تصوف کے دلدادہ تهے اور صوفی منش تهے ، صوفیوں کی رواداری ، اونچ نیچ سے پاک برابری اور انسانیت پسندی پر مبنی فلاسفی سے ان کا لگاو بہت شدید تها

اس کی ایک وجہ تو شاہد یہ تهی کہ ڈاکٹر شکیل اوج کا ایک صوفی سنی گهرانے سے تعلق تها اور دوسری وجہ ان کا فارسی ادب سے شغف تها جس میں یقینی بات ہے انہوں نے عظیم صوفی فارسی شاعری پڑهی ہوگی – سنی شیعہ، صوفی، بریلوی دانشوروں میں ان کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا

وہ پاکستان سمیت ہر ایک مسلم معاشروں میں تیزی سے پهیلنے والی تکفیری سوچ اور اس کے بطن سے پهوٹنے والی دہشت گردی پر سخت فکر مند رہتے تهے اور اس حوالے سے انهوں نے اس سوچ کا سدباب کرنے اور بین المسالک مکالمے کو بڑهانے کے لئے تقریر ، تحریر اور مکالمے کا میڈیم استعمال کیا اور میرے زاتی علم میں یہ بات ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں شیعہ ، صوفی سنی ، دیوبندی ، اهل حدیث کے سرکردہ لوگوں سے روابط بهی کئے اور ان کے قریبی لوگوں نے مجهے بتایا کہ ڈاکٹر شکیل اوج دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس اور عام تعلیمی اداروں میں پڑهنے والے دیوبندی نوجوانوں میں تکفیری انتہا پسند اور سخت اینٹی شیعہ و صوفی سنی مخالف خیالات کی مقبولیت پر سخت فکر مند تهے اور اس ضمن میں انہوں نے جامعہ اسلامیہ بنوریہ ٹاون کے بہت سے مذهبی سکالرز سے رابطہ بهی استوار رکها ہوا تها اور وہ شیعہ و دیوبندی اعتدال پسند علماء کے درمیان پل کا کردار بهی ادا کرنا چاہتے تهے

لیکن دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر تکفیری سوچ بہت زیادہ غالب آچکی ہے اور تکفیری دہشت گرد تنظیموں نے ایک خوف و ہراس پیدا کررکها ہے اور تکفیری لابی کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگالیجئے کہ جب ڈاکٹر شکیل اوج نے تکفیری فتنے اور سوچ کا سدباب کرنے کے لئے پل کا کردار ادا کرنے پر کمر کسی تو ان کے خلاف کاروائیاں شروع ہوگئیں

ان کی اپنی یونیورسٹی میں تکفیری دیوبندی وهابی مسلک سے تعلق رکھنے والے چار پروفیسر صاحبان نے ان کو جان سے ماردینے کی دهمکی پر مبنی موبائل پیغامات ارسال کئے اور پهر دیوبندی مدرسہ جامع العلوم کورنگی کراچی کے دارالافتاء کے صدر مفتی رفیع عثمانی جوکہ سابق جج شرعی عدالت مفتی تقی عثمانی کے بهائی ہیں اور اپنے بهائی اور مفتی نعیم صدر الشریعہ جامعہ بنوریہ کی طرح تکفیری دیوبندیوں کی سرپرستی فرمارہے ہیں اور ان کی کئی ایک تصویریں ملک اسحاق ، اورنگ زیب فاروقی ، مسعود الرحمان عثمانی اور لدهیانوی کو تهپکی دیتے ہوئے ، گلے لگاتے ہوئے موجود ہیں نے ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف توهین رسالت کا فتوی دے ڈالا – اسی طرح کا ایک فتوی حال ہی میں دیوبندی مفتی نعیم نے ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف بھی جاری کیا ہے

ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف نفرت انگیز مہم کا یہ معاملہ دوسال قبل اس وقت شروع ہوا تها جب ڈاکٹر شکیل عوج نے مسلمان عورتوں کو اہل کتاب سے شادی کو جائز قرار دیا اور لپ سٹک اور نیل پالش کے ساته نماز کی ادائیگی کے جواز کا فیصلہ دیا تها تو ان پر توهین مذهب کا الزام لگایا گیا تها ڈان نیوز کی ویب سائٹ کے مطابق

The suspects were named as Abdul Rasheed – the department’s previous dean, along with Auj’s colleagues Naseer Ahmed Akhtar and Ubaid Ahmed Khan. Another suspect named Mohammad Samiuz Zaman was a secretary at the nearby NED Engineering University.

“They all were involved in the SMS controversy for which the late Dr Auj had registered the case two years back fearing risks to his life,” Shah said.

The SMS read: “The blasphemer of the Prophet and Quran, Dr Shakil, curses be upon him, deserves only one punishment – beheading.”

سزا اور بدنامی کے خوف سے دیوبندی مسلک کے دارالعلوم کورنگی کراچی کے ترجمان نے اگرچہ انکار کیا ہے کہ ان کی جانب سے ڈاکڑ شکیل اوج کے خلاف کوئی فتوی دیا گیا ہے لیکن اس ترجمان کایہ کہنا اس کے دعوے کو مشکوک کرتا ہے کہ مفتی رفیع عثمانی شکیل اوج نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتے ڈاکٹر شکیل اوج کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ مفتی رفیع عثمانی نے دو سال پہلے ان کے گستاخ رسول اور واجب القتل ہونے کا فتوی دیا تها ڈاکٹر شکیل اوج پر تکفیری لابی کا دباو تها کہ ایک تو وہ دیوبندی اور شیعہ کے درمیان فاصلے کم کرنے کی کوششیں ترک کردیں اور دوسرا وہ ایرانی انقلاب کے بارے میں تعریفی اور مداحانہ روش ترک کرڈالیں

ڈاکٹر شکیل اوج نے اپنے خلاف قتل کی دهمکیوں پر مبنی ایس ایم ایس بهیجنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کراچکے تهے اور ان کے ملزمان ضمانت پر تهے جن میں سے پروفیسر رشید کو حراست میں لیا گیا ہے لیکن کیا مفتی رفیع عثمانی کو بهی ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف انتہائی غیر زمہ دارانہ فتوی دینے پر شامل تفتیش کیا جائے گا؟ مجهے اس پر شک ہے کیونکہ ایسا ہونا ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ پاکستان میں شیعہ ، احمدی ، صوفی سنی اور یہاں تک کہ اعتدال پسند دیوبندی و اهل حدیثوں کے خلاف کهلے عام کفر کے فتوے جاری کرنا معمول بن چکا ہے جبکہ اس ملک میں کهلے عام شیعہ کے خلاف تو دیوبندی مکتبہ فکر کی کالعدم دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ نام نہاد اہل سنت والجماعت جو ایک سیاسی جماعت کے طور پر پورے ملک میں کام کررہی ہے کهلے عام نفرت انگیز بیانات ، فتوے اور تشدد اور قتل پر اکسانے والی تقریریں کرتی پهرتی ہے اور تکفیری دیوبندی مسلح گروپ شیعہ ، صوفی سنی مسالک سے تعلق رکهنے والوں کا قتل کررہی ہیں لیکن نہ ہی وفاق پاکستان ، نہ ہی صوبائی حکومتیں ان کو پکڑ کر جیل میں ڈالتیں اور نہ ہی ان پر پابندی لگاتی ہیں اور پاکستان کا مین سٹریم میڈیا بهی ان کو بهرپور کوریج دے رہا اور کئی ایک اینکر ، صحافی اور نام نہاد کالم نگار تو خود ان تکفیریوں کے ترجمان بن گئے ہیں

مذهبی فسطائیت اور مذهبی فاشزم جس کی سب سے بدترین شکل تکفیریت اور اس کی بنیاد پر ظہور پذیر ہونے والی دہشت گردی ہوتی ہے ،ہمارے پروفیشنلز ، اساتذہ ، ڈاکٹرز ، انجئینر ، شاعر ، ادیبوں اور اعتدال پسند تهیالوجکل سکالرز کو آہستہ ، آہستہ نگل رہا ہے اور اس فسطائیت کے پیروکار نوجوان خاص طور پر دیوبندی مکتبہ فکر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے خلاف جس قسم کا اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ ہونا چاہئیے وہ دیکهنے کو آنکهین ترستی ہیں

کیا ہم اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ پاکستان کی ہر گلی اور محلے میں لوگ اپنے اپنے مسلک اور اپنے فرقے کے نام پر مسلح جتهے بناکر ایک دوسرے پر حملہ کردیں اور ملک شام ، عراق یا افریقی ملک صومالیہ یا الجزائر بن جائے؟

Shakeel-Rafi-Usmani-Death-Fatwa

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.