صحافتی مہارت برائے فروخت: نواز شریف حکومت سے رشوت لینے والے صحافیوں کی فہرست منظر عام پر آگئی – عامر حسینی

shakirBwDP3bmCcAAvRAj02

1

ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف حکومت نے اپنے لئے فضا بہتر بنانے کے لیے پاکستان کے مایہ ناز صحافیوں میں بیس کروڑ روپے کی رقم تقسیم کی اور یہ رقم جن صحافیوں میں تقسیم کی گئی ان میں کاشف عباسی ، نصرت جاوید، جاوید چوہدری،انصار عباسی، حامد میر، سید طلعت حسین، مہر بخاری، ابصار عالم، بابر ستار، مطیع اللہ جان، نسیم زہرہ، مشتاق منھاس، مظہر عباس، اعجاز حیدر، سلیم صافی، شاہزیب خانزادہ، سمیت 20 صحافی شامل ہیں

اب اگر آپ طاہر القادری اور عمران خان کے احتجاجی دھرنوں کے تناظر میں ان صحافیوں کی فائل کی گئی نیوز ، ٹاک شوز میں کی جانے والی گفتگو اور ان کے لکهے جانے والے آرٹیکلز کا ریکارڈ موجودہ سیاسی بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک کا نکلوا کردیکهیں تو یہ بات بہت واضح ہوجاتی ہے کہ یہ صحافی وزیر اعظم نواز شریف اوران کے بهائی وزیر اعلی میاں محمد شہباز شریف کے دفاع میں ہی سرگرم نہیں رہے بلکہ انہوں نے عمران خان اور ڈاکٹر قادری کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ اٹهارکهی

انہی صحافیوں نے نہ صرف ڈاکٹر طاہر القادری ، علامہ حامد رضا اور راجہ ناصر عباس کو نہ صرف فرقہ پرست سیاسی مذهبی تنظیموں کے سربراہ قرار دینے کی کوشش کی بلکہ یہ تهیوری بهی ایک مصدقہ حقیقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اندر بعض عناصر اور امریکہ سمیت کئی ایک ممالک جن میں ایران کو بهی شامل کیا گیا پاکستان کے صوفی بریلوی اہلسنت کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں کو بریلوی طالبان بریگیڈ بنانے کا پروجیکٹ دے چکی ہیں اور یہ بریگیڈ دیوبندیوں کے مقابلے میں بنایا جارہا ہے اور اس وقت سنی بریلوی شیعہ و تنظیموں کا اتحاد مسلم لیگ نواز کی حکومت کو اس لئے گرانا چاہتا ہے کہ بریلوی طالبنائزیشن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلم لیگ نوازکی حکومت ہے

آپ اگر ٹوئٹر اور فیس بک پر مذکورہ صحافیوں کےخیالات کا ریکارڈ دیکهیں اور ان ٹویٹس میں استعمال زبان پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ کس طرح سے یہ صحافی اپنی تمام صحافتی مہارت کو میاں نواز شریف کے ہاتھ فروخت کرچکے اور میاں نواز شریف کے اشارے پر یہ نام نہاد لبرل، غیر جانبدار، غیر فرقہ پرست صحافی کس قدر فرقہ وارانہ پروپیگنڈے سے کام لے رہے ہیں

نصرت جاوید جن کا کبھی یہ دعوی تها کہ وہ لفافے کے قریب بهی نہیں پهٹکتے تهے اب خود ایک عرصے سے اپنے کالموں میں یہ لکهنے لگ گئے ہیں کہ اب ان سے بغاوت نہیں ہوتی ، ماضی میں جہاں سچ ان کی استطاعت سے بڑا ہوتا وہاں وہ چپ کاروزہ رکهتے تهے اور مذهب رخصت پر عمل پیرا ہوا کرتے تهے لیکن بڑهاپے میں انہوں نے مذهب رخصت پر عمل کرنے کی بجائے ظالم حکمران کیمپ کو جوائن کرلیا ہے اور برسوں کی ریاضت کو غارت کرلیا ہے – جس طرح کی بازاری اور غلیظ زبان نصرت جاوید نے حال ہی میں الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری افضل خان کے لئے استعمال کی اس سے ظاہر ہے کہ افضل خان نے نواز شریف کے سیاسی مفادات کے ساتھ ساتھ نصرت جاوید اور دیگر نواز یافتہ لبرلز کے ذاتی مفادات کو بھی گہری زک پہنچائی ہے

سید طلعت حسین نے نواز شریف کا ایک ایسا انٹرویو کیا جس میں سوالات بهی پہلے سے تیار کردہ تهے اور جواب میاں نواز شریف اپنے مینجرز سے پوچھ کر دیا کرتے تهے اور اس کا پول سید طلعت حسین خود ایک نجی محفل میں ان چند صحافیوں کے ساته ایک مجلس میں کهول چکے ہیں جن کے نام اس فہرست میں موجود ہیں اور وہ ویڈیو بهی منظر عام پر آچکی ہے

مہر بخاری ، کاشف عباسی ، جاوید چوہدری کے بارے میں کچه کہنا اس لئے فضول ہے کہ ان تینوں کی صحافت میں آمد اول دن سے مال ، طاقت اور مراعات کے حصول کے لئے ہے اور میں ان تینوں کے بارے میں بہت کچه جانتا ہوں ،جاوید چوہدری اپنے نام سے جو کچھ پیسے کے عوض کرتا ہے وہ الگ ہے یہ جو نام بدل کر نام نہاد جہادی و کالعدم دیوبندی تکفیریوں کے لئے لکهتا رہا ہے وہ زیادہ خوفناک ہے

حامد میر ، جاوید چوہدری ، ہارون الرشید ، انصار عباسی ان صحافیوں میں شامل ہیں جنہوں نے گهوسٹ ناموں سے ضرب مومن ، غزوہ ، خلافت راشدہ ، جرار سمیت کئی ایک نام نہاد جہادی و فرقہ پرست رسالوں میں لکها اور دنیا بهر میں عالمی دہشت گردی کے نیٹ ورک کو عالمی جہاد کہہ کر اس کی کامیابی کے گن گائے – مجیب الرحمان شامی ، جاوید چوہدری ، انصار عباسی ، حامد میر ان صحافیوں میں شامل ہیں جو جماعت دعوہ ، جامعہ رشیدیہ جیسے اداروں کی جانب سے اپنے جہادی رسائل کے لئے لکهنے والوں کی تربیت کے لئے کرائے جانے والے جہادی صحافتی کورس کے ماڈریٹر اور لیکچرر اور انسٹرکٹر بن کر جاتے رہے اور اس وقت ان جہادی و فرقہ پرستانہ رسائل و شوشل میڈیا سایٹس کے انچارج و دیگر ملازم افراد میں سے اکثر نے اپرینٹس شپ جنگ ، نیوز ، نوائے وقت ، روزنامہ پاکستان وغیرہ سے کی ہے اور یہ ایک طرح سے دیوبندی دہشت گردی کے پروموٹر صحافیوں کا ایک لشکر تیار کیا گیا ہے جسے صحافتی جہادی بریگیڈ کہا جاسکتا ہے اور یہ سارا بریگیڈ کہیں نہ کہیں جاکر نواز و شہباز شریف کے دستر خوان سے جڑ جاتا ہے

مجهے سب سے زیادہ افسوس اوردکھ ان لبرل ، سیکولرز اور بائیں بازو کے صحافیوں پر ہے جو یقینی طور پر لفافہ جرنلزم پر لعنت بهیجتے ہیں اور وہ کم از کم اس قدر بے ضمیر نہیں ہیں کہ چند ٹکوں کی خاطر نواز شریف اینڈ کمپنی کے اشارے پر دیوبندی ٹیررازم کی حمایت میں کهڑے ہوجائیں لیکن وہ بهی شدت کے ساته بریلوی طالبان ، بریلوی تکفیریت ک اصطلاح کو عام کرنے میں لگ گئے ہیں – ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قاتل دیوبندی تکفیریوں کا موازنہ مظلوم گروہوں سنی بریلوی اور شیعہ سے کر رہے ہیں – تعمیر پاکستان ویب سائٹ پر سارہ خان نے حال ہی میں کمرشل لبرلز کی اس بد دیانتی پر ایک موثر مضمون لکھاہے 

https://lubpak.com/archives/321461

جیو جنگ گروپ نے نواز شریف کی نمک حلالی کرنے کے لئے ایک طرح سے دیوبندی تکفیری ازم کا ماسک چڑهالیا ہے اور اس گروپ نے حامد میر کو یہ فریضہ دیا کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری، حامد رضا اور دیگر بریلوی سیاسی رہنماوں کو ملا فضل اللہ، حکیم اللہ محسود، اسامہ بن لادن کے برابر قرار دینے کے لئے فضا ہموار کریں اور ڈاکٹر طاہر القادری کو بریلویوں کا رشید غازی بناڈالیں

ابصار عالم ، مظہر عباس ، انصار عباسی ، مطیع اللہ جان سمیت صحافیوں کا ایک بریگیڈ ہے جو سنی بریلوی اور شیعہ برادری کے مذهبی سیاسی رہنماوں کے دیوبندی تکفیری دہشت گردی کے خاتمے ، ملک میں پرائیویٹ لشکر سازی پر حقیقی پابندی اور دوسرے مسالک کے خلاف ریاستی سطح پر کفر سازی کی مہم چلانے والی تنظیموں کی ورکنگ کو ختم کرانے اور نواز حکومت کے تکفیری دہشت گردوں سے اتحاد اور ان کے ہمدردوں کی سرپرستی کے خلاف جدوجہد کو بریلوی طالبانائزیشن قرار دینے اور ان کے امن قائم کرنے کے ڈسکورس کو تکفیری ڈسکورس قرار دینے کے لئے پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں اور اس پروپیگنڈے کے زیر اثر کئی ایک لبرل اور سیکولر غلط قسم کی غیر جانبداری پر مبنی لائن اختیار کرنے کے چکر میں بریلوی طالبان جیسی اصطلاحیں استعمال کررہے ہیں

چونکہ اس وقت پاکستان میں کوئی ایسی مسلح تنظیم موجود نہیں ہے جو خود کو صوفی سنی مسلمانوں سے موسوم کرتی ہو تو اس لئے زمین پر بریلوی طالبان کا وجود ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تو ان میں سے بعض لبرل، موب وائلنس یا بلوائی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ صوفی سنی بریلویوں نے دیوبندی ٹیررازم کی جگہ استعمال کرنا شروع کی ہے جبکہ اس تجزیہ نما مفروضے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اہلسنت بریلوی کی دیوبندیوں کے خلاف موب وائیلنس کا ایک بهی واقعہ موجود نہیں ہے اور اب تک گوجرہ ، جوزف کالونی ، لاہور میں مرکز احمدیہ ہر حملہ اور حیدرآباد میں احمدیوں پر موب وائلنس اور لاڑکانہ ،میں دهرم شالہ پر حملے کے مرکزی کردار تکفیری دیوبندی ثابت ہوئے ہیں ،لیکن موب وائلنس اگر مذهبی تناظر میں وقع پذیر ماضی میں جب بهی ہوتی رہی ہے تو اس میں کیا سنی ، کیا دیوبندی ، کیا وهابی اور کیا مزهبی تنطیموں کے کارکن اور عام سیاسی سیکولر تنظیموں کے کارکن سبهی رنگ کے لوگ شامل نظر آئے اور اسے محض بریلوی موب وایئلنس کہنا درست نہیں ہے – یقینی طور پر پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ خودکش حملہ آور، بمباری اور ذبح کرنے کے واقعات میں دیوبندی تکفیری ملوث ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے سرپرست دیوبندی علماء آجکل کمرشل لبرلز کے ساتھ ہم آواز ہو کر قوم کو سنی بریلوی اور شیعہ طالبان کی آمد کا پراپیگنڈا کر رہے ہیں

اضافی نوٹ

آج جب “صحافت برائے فروخت “آرٹیکل لکھ ڈالا تو جو تبصرے آئے وہ ایک لمبی اور حتمی وضاحت کا سبب بن گئے جسے الگ سے تهریڈ میں لکهنا پڑا
صحافت اور پروفیشنل ازم دونوں لازم و ملزوم ہیں ،میں اس اصول کے تحت ہی یہ آرٹیکل لکهنے کا مرتکب ہوا ہوں

پہلی بات یہ ہے کہ مجهے ایک لسٹ موصول ہوئی جو میں آپ کو بتادیتا ہوں کہ اس وقت آئی ایس آئی ، ایم آئی ، آئی بی کے آفیشلز کے پاس موجود ہے اور جب یہ لسٹ اسلام آباد میں ان تین ایجنسیوں کے هیڈکوارٹر میں گئی تو وہاں سے یہ ان لسٹ ایک لیٹر کے ساته پرونشل اور ریجنل ، سیکٹر آفسز کو اور وہاں سے یہ ڈسٹرکٹ هیڈ کوارٹرز کو ارسال ہوئی اور ان سے پوچها گیا کہ کیا وہ اس بارے میں اپنے طور پر کوئی اطلاعات رکهتے ہیں ،جو انٹیلی جنس گیدرنگ ہوئی اس کی تفصیل بهی خاصی حیران کردینے والی ہے

میں نے اس ساری معلومات کے حاصل ہونے کے بعد یہ جائزہ لیا ہے کہ جن صحافیوں کے نام اس لسٹ میں شامل ہیں ان کی گذشتہ کئی دہائیوں سے پریکٹس کیا ہے ، میں نے ذکر کیا کہ جاوید چوہدری ، حامد میر سمیت کافی سارے نام جو ان لسٹوں میں شامل ہیں وہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں طالبان، سپاہ صحابہ، جماعت الدعوہ کے وکیل ہیں اور ان میں سے بعض کالعدم جماعتوں کے ترجمان رسالوں اور جریدوں میں گهوسٹ ناموں سے آرٹیکل لکهتے رہے ، جوید چوہدری کا کوڈ نام یاسر خان ہے جو ضرب مومن کے فرنٹ پر شایع ہوتا رہا ہے ، دوسرا یہ کالعدم دیوبندی تنظیموں کی جہادی صحافتی کورس کے انسٹرکٹر بنتے رہے اور میرے پاس غزوہ ، ضرب مومن اور روزنامہ اسلام کے اخبارات کی خبروں کی کٹنگ موجود ہے جن میں ان کی شمولیت کا زکر ہے ، تیسرا حامد میر سمیت کئی ایک صحافی نہ صرف محمد احمد لدهیانوی کی پروجیکشن کرنے میں ملوث ہیں بلکہ یہ اسامہ بن لادن سمیت کئی ایک عالمی و علاقائی دہشت گردوں کو پروموٹ کرتے رہے اور اس سارے دهرنے والے معاملے میں تو ان صحافیوں کا کردار بہت زیادہ گندہ ہوگیا

نواز شریف کے دسترخوان سے فیضیاب ہونے والے یہ کمرشل لبرلز اور طالبان پرست صحافی احمد لدهیانوی ، مفتی نعیم ، فضل الرحمان اور طاہر اشرفی کے فرقہ ورانہ اور اینٹی سنی بریلوی ، شیعہ بیانات کو بڑها چڑها کر پیش کرتے رہے ہیں مسئلہ صرف اتنا ہے کہ صوفی سنی بریلوی اور شیعہ ، احمدی ، کرسچن ، ہندو اس دیوبندی تکفیری دہشت گردی کے متاثرین ہیں ، مظلوم ہیں اور کچلے ہوئے ہیں جبکہ یہ سارا صحافتی ٹولہ الٹا سنی بریلوی ، شیعہ کو ظالم ، ان کو دہشت گرد اور تکفیری بناکر دکهانے میں مصروف ہے ، اس معاملے میں انسانیت پسندی کا مذهب بہت واضح ہے کہ ہمیں ظالموں اور اس کے حامیوں خو بے نقاب اور مظلوموں کے ساته کهڑا ہونا ہے

تعصب اور شاونزم یہ نہیں ہے کہ جو کمیونٹیز نہ تو دہشت گرد ہیں اور نہ ہی نجی لشکر سازی کی حامی ہیں ان کو طالبان یا دہشت گرد کہنے کی مذمت کی جائے اور ایسا کہنے والوں کے جعلی اور فیک سیکولر یا لبرل ہونے کی قلعی کهولی جائے اور دکهایا جائے کہ کیسے وہ ایک طرف تو دیوبندی تکفیری دہشت گردی کے عذر خواہ بنتے ہیں تو دوسری طرف امن ہسند مظلوم کمیونیٹز کے خلاف بے سروپا الزامات کی بوچهاڑ کرتے ہیں

جنگ جیو گروپ نے تو نواز شریف کی نمک خواری میں اس کے مخالفین کو گرانے کے لئے دیوبندی انتہاپسند اور تکفیری تنظیموں کے پاس جاکر پناہ لے لی

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ میں تکفیریوں کے ساته دیوبندی لفظ کیوں استعمال کرتا ہوں تو اس کی وجہ یا ان کی دانستہ پردہ پوشی یا پھر انٹرنیشنل ریلیشنز ، جیو پالیٹکس اور اس تناظر میں یہ جو فرقہ وارانہ سیاسیات کی حرکیات ہے کو نہ سمجھ پانا اور پروپیگنڈا بازی سے متاثر ہوجانا ہے

دیکهئے جب میں یا میرے جیسے اور بہت سارے دوست سپاہ صحابہ سے لیکر طالبان تک اور اس کے جملہ دہشت گرد، انتہا پسند ، اینٹی شیعہ ، اینٹی سنی صوفی بریلوی اور اینٹی احمدی ، ہندو ، کرسچن موقف رکهنے والی تنظیموں کے لیے دیوبندی تکفیری انتہاپسند و دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس کی سب سے بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ خود ان تنظیموں کا یہ دعوی ہے کہ یہ دیوبندی مسلک سے تعلق رکهتی ہیں اور جب ہم ان کو ان دیوبندی تنظیموں اور قیادت سے الگ کرتے ہیں جو دہشت گرد نہیں ہیں تو اس لئے ان کے ساته لفظ خارجی یا تکفیری لگاڈالتے ہیں تاکہ امن پسند دیوبندی ان سے منہا ہوجائیں ،جبکہ ہم ان کے دیوبندی ہونے پر اصرار کرتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج تک کسی ایک دیوبندی عالم ، تنظیم ، مدرسے کی انتظامیہ نے ان تنظیموں کو دیوبندی ازم سے خارج کرنے کا اعلان نہیں کیا ، کسی دیوبندی مسجد کے دروازے ماضی کی سپاہ صحابہ آج کی اہل سنت والجماعت کے لئے بند نہیں کئے گئے اور نہ ہی کسی مدرسے نے ان ہر بین لگایا اور کوئی ایک سنگل فتوی ان کے خلاف موجود نہیں ہے ، جبکہ آج پورے پاکستان میں دیوبندی مدارس کی تنظیم وفاق المدارس ، ان کی سیاسی نمائندہ تنظیمیں جے یو آئی کے تمام دهڑے اہلسنت والجماعت دیوبندی سابقہ کالعدم سپاہ صحابہ کے ساته اشتراک میں کهڑے ہیں اور ملکر اینٹی شیعہ ، اینٹی صوفی سنی تحریک چلائے ہوئے ہیں اور عسکریت پسندی کی حمایت اور اس کے لئے عزر تلاش کرتے ہیں اس لئے ہمارے لئے اس کو کسی مبهم اصطلاح میں بیان کرنا اور ان کی شناخت کو چهپانا اصل میں دہشت گردی ، انتہا پسندی کے ڈسکورس کو بے چہرہ کرکے پیش کرنے کا نام ہے

حقیقی بات تو یہ ہے کہ دیوبندی حضرات نے یہ وتیرہ اختیار کرلیا ہے کہ وہ دیوبندی دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کی دیوبندی شناخت خو چهپانے میں سرگرداں رہتے ہیں اور اس کو ظاہر کرنے والے خو فوری طور پر متعصب قرار دے دیتے ہیں

آپ نے کہا زاتی عناد اور اختلاف کو صحافت سے الگ کرنا چاہئیے ،زرا یہ بتلائیے کہ کہاں زاتی عناد اور اختلاف کو ان صحافیوں نے الگ رکها جن کا زکر اس لسٹ میں ہے
یہ لوگ آصف علی زرداری ، سلمان تاثیر ، شهباز بهٹی ، سمیت پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف جو باتیں صحافت کے نام پر کرتے رہے ہیں کیا وہ صحافت تهی ؟ میں کیسے اسی کے عشرے سے لیکرستائیس دسمبر دو ہزار سات کی سیاہ شام تک کی ان سب کی بدبو دار صحافت اور ضیاء الحق کی باقیات کی گود میں بیٹه کر کی جانے والی تخریب کاریوں کو بهول سکتا ہوں ؟

میں کوئی بچہ یا تاریخ سے نابلد ان کے نئے شاندار جمہوریت نواز ، آزاد عدلیہ نواز کاسٹیومز اور خود کو اینٹی جرنیل شاہی کے مامے چاچے بناکر پیش کرنے والے ان مداریوں کے مداری پن میں آنے والا نہیں ہوں ، میرا بهی ایک سیاسی ، صحافتی سفر ہے جس دوران میں ان کو الف ننگا(معنوی اعتبار سے مادی اعتبار سے نہیں) دیکه چکا ہوں ،اس لئے یہ مفروضہ قائم کرنا کہ حامد میر یا طلعت حسین صاحب جمہوریت کی حمایت میں اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مخالفت میں یہ سب کررہے ہیں یا تو سادگی پر مبنی ہے یا آنکهوں میں دهول جهونکنے کے مترادف ہے

ڈاکٹر طاہر القادری کا ماڈل ٹاؤن میں 14 افراد کی شہادت اور 100 سے زائد لوگوں کا سیدهی فائرنگ سے زخمی ہونے پر 21 افراد پر مقدمے کا مطالبہ اور وزیر اعظم سمیت صوبائی و وفاقی کابینہ کے مستعفی ہونے کی ڈیمانڈ غیر آئینی و غیر جمہوری ہرگز نہیں ہے اور نواز شریف ایند کمپنی چونکہ بے ایمان اور بدعہدی کی ماسٹر ہے اس لئے طاہر القادری نے پہلے مطالبات کی منظوری پهر دهرنے کا خاتمہ کی شرط بالکل جائز رکهی ہے اس سارے عمل کو فوج کا سکرپٹ ، فوج کا پلان کہنا بهی ایک مفروضہ ہے جس کا اتنا بهی دستاویزی ثبوت نواز شریف کے نمک خواروں کے پاس نہیں ہے جتنا میں نے کم از کم کوئی دستاویز پیدا کرکے تو دیا ہے

اور جبکہ حامد میر ، انصار عباسی ، طلعت حسین ، نصرت جاوید تو بنا کوئی ثبوت دئے قادری کو کبهی بریلوی طالبان فورس بنانے کے ہر پورجیکٹ پر کام کرتا دکهاتے ہیں تو کبهی ان کو کینڈا تو کبهی لندن پلان لیکر آنے والا بتلاتے ہیں اور آج تک کوئی ثبوت یا تحریر بهی پیش نہیں کرپائے

میں نے اپنے آرٹیکل میں جو بهی خیال پیش کیا اس کی بنیاد موجود ہے اور میں نے آج تک اپنی بات کسی سنی بریلوی یا شیعہ عالم کے منہ میں نہیں ٹهونسی میرا کسی بریلوی یا شیعہ سیاست دان سے نہ کل کوئی تعلق تها نہ آج کوئی تعلق ہے اور نہ ہی میں نے اپنا کوئی آرٹیکل ان رہنماون کو بهیج کر ان سے کوئی داد طلب کی ہے میں جس بات کو ٹهیک خیال کررہا ہوں اسے بیان کررہا یوں اگر کسی کو یہ تعصب لگتا ہے تو اسے اختلاف رائے کا بنیادی حق حاصل ہے ، لیکن بار بار ایک ہی بات کو سوال بناکر پیش کرنا اور الزام کو میرے کسی آرٹیکل کے نیچے کمنٹس میں دوهرانا ٹهیک نہیں ہے جب آپ نے یہ فرض کرلیا ہے کہ میں دیوبندی -وهابی اور ان کے دہشت گردی و انتہا پسندی کے ساته تعلق کے سوال ہر متعصب ہوں اور آپ کے خیال میں میرا موقف میرے مارکسسٹ نظریات سے لگا نہیں کهاتا اور متضاد ہے تو پهر میرا خیال ہے کہ بحث بے کار ہوجاتی ہے مجهے آج ایڈورڈ سعید کے سارتر ، سیمون دی بووا اور فوکو کے فلسطین اور اسرائیل کے ایشو پر متعصب رویے بارے پڑهکر یہ خیال آرہا تها کہ پاکستان میں بهی دیوبندی تکفیری خارجی دہشت گردی کے بارے میں سیکولر ،لبرل اور سرخوں کی بہت بڑی تعداد اسی طرح سے متعصب ہے جس طرح سے فلسطین کے سوال پر یورپ اور امریکہ میں اب بهی بہت سے لبرل ، سیکولر اور سرخے متعصب ہیں اس لیے برائے مہربانی اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے دنیا کے ان لکهاریوں کو پڑهیے جو آپ کی نظر میں متعصب نہ ہوں

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ameer Abbbas Hashmi
    -
  2. گلفام رامے
    -
  3. iftikhar
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.