طاہر القادری کے لبرل اور دیوبندی نقادوں پر ایک نظم – از عامر حسینی
سنو لبرل ازم کے جعلی علمبردارو
تمہارے نظریات سے وہ سڑاند اٹهتی ہے
ناک پر رومال رکهکر بهی دماغ پهٹا جاتا ہے
تمہیں نازو هیئت مقتدرہ کا مخالف نظر آتا ہے
وہ تمہیں جمہوریت کا ستون لگتا ہے
تم اس کے پیچهےچهپے
شاہ عبداللہ کو نہ دیکهو
پاکستانی برانڈ خلیفہ بغدادی ملا فضل اللہ کو نہ دیکهو
تم اگر ایک سنٹر رائٹ کے ایسے مولوی کو
منہ بهر بهر گالیاں دو
اسے انقلاب ،انقلاب کرنے پر لتاڑو
اور اس کے ڈنڈوں کو قاری حسین کی چهری بناڈالو
اس کے حکومت کو للکارنے کو
للکار غازی رشید بنا ڈالو
مرکز منهاج کو تم شمالی وزیرستان کا جنگل شوال بنادو
اور اپنے پروگراموں میں
لدهیانوی کو پیس بروکر کہو
سمیع الحق کو مدبر بناو
اور تم تکفیری دیوبندی لونڈوں سے
فرقہ پرست مخالف بینر تلے اتحاد بنالو
مجهے کوئی فرق نہیں پڑتا
میں جانتا ہوں تمہاری قیمت کیا ہے
کہیں پی سی بی کی چئیرمین شپ ہے
کہیں پی ٹی وی کی ڈائریکٹر شپ
کہیں هارٹی کلچر لاہور کی سربراہی
اور کچه نہ بنے تو کہیں چند بهاری مالیت کے چیک
تمہارا لبرل چہرہ داغدار ہے
اور سنو ماضی کے سرخ غازوں پر اترانے والو
کتاب انقلاب کو دیمک زدہ کرنے والو
نجکاری کو پبلک پرائیویٹ شراکت کا نام دینے والو
نیو لبرل مارکیٹ ماڈل کے سرخ نما سبز دلالو
تمہارا چہرہ ایوب دور میں انقلاب انقلاب کرنے والا
پیجا شیدا آج نازو کا دلال بنا پهرتا ہے
اس کو خود کش بمبار عصمت معاویہ نظر نہیں آتا
سید المنافقین طاہر اشرفی اسے امن پسند لگتا ہے
لال مسجد ضرار سے اٹهنے والا فتنہ ظالمان
اسے جہاد و انقلاب لگتا ہے
اور تم حامد میر کی زبان مستعار لیکر
مسجد ضرار کو منهاج والوں سے ملاتے ہو
ریاست کے جبر کو سرمایہ کی محافظ کو بچاتے ہو
تمہیں سرمایہ کی ریاستکا بکهیرنا خوفزدہ کرتا ہے
او لینن ،لینن کی تکرارکرنے والے موقعہ پرست سن
کارل مارکس کہتا ہے
ریاست تو بس حاکموں کا آلہ تشددہے