وزیر اعظم نواز شریف، ڈاکٹر طاہر القادری سے خوفزدہ کیوں؟ – خرم زکی

q

 

سعودی ریالوں اور طالبان کے تشدد کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے والی نواز شریف حکومت اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کو آئینی و جمہوری طریقے سے ڈیل نہیں کر رہی تو کیسے توقع رکھتی ہے کہ دوسرے ان کے ساتھ آئینی و جمہوری سلوک کریں ؟

پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کا پورا حق ہے کہ اپنی جماعت کے بے گناہ مقتولین کے لیۓ “یوم شہداء” منائیں اور احتجاج کریں، لیکن حکومت کو حق نہیں تھا کہ پورے پنجاب کو کنٹینرز لگا کر بلاک کر دیتی کیوں کہ نقل و حرکت کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے اور آئین پاکستان اس بنیادی حق کی حفاظت کرتا ہے. اور پھر طرہ یہ کہ ایک مرتبہ پھر کئی افراد پولیس کی فائرنگ سے جان بحق ہو چکے ہیں. گزشتہ چوبیس گھنٹے میں شہباز شریف کی پنجاب حکومت نے آٹھ سے زیادہ پر امن سنی صوفیوں بریلویوں کو شہید کر دیا ہے، بھکر، خوشاب اور لاہور سے پولیس تشدد کی خبریں آ رہی ہیں

کیا یہ وہی حکومت نہیں جو طالبان، انجمن سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسی کالعدم تکفیری خارجی تنظیموں سے مذاکرات پر زور دیتی رہی ہے اور باوجود اس کہ کے پورے ملک میں دیوبندی مسلک کے انتہا پسندوں سے تعلق رکھنے والے یہ دہشتگرد گروہ عام شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے حکومت کی رٹ “مذاکرات” تھے. پھر کیا وجہ ہے کہ طالبان مخالف سنی صوفی گروہوں کے ساتھ بجاۓ مذاکرات کے ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے ؟ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ حکومت صرف دہشتگرد گروہوں کی نمائندہ ہے اور اس کا “انتخابی حلقہ” بھی سلفی اور دیوبندی تنظیمیں ہیں اور ان ہی کی خوشنودی کے لیۓ طالبان مخالف سیاسی جماعتوں کو بزور طاقت کچلا جا رہا ہے اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے

قطع نظر اس بات کے کہ آپ طاہر القادری اور عمران خان کی پالیسیز سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف، ہم ان کے احتجاج کرنے کے جمہوری حق کو قبول کرتے ہیں اور اس حکومتی کریک ڈاؤن کی مذمت. اگر حکومت کو کریک ڈاؤن کرنا ہے تو سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسے دہشتگرد گروہوں کے خلاف کرے جنہوں نے پورے ملک میں دہشتگردی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا ہے.- کریک ڈاؤن ان دیوبندی مدارس اور مسجدوں کے خلاف بھی ہونا چاہیے جن میں لشکر جھنگوی اور طالبان کے دہشت گردوں کو پناہ دی جاتی ہے

ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ چند عشروں میں طالبان اور سپاہ صحابہ کے تکفیری خوارج نے بائیس ہزار سے زیادہ شیعہ مسلمانوں اور دس ہزار سے زیادہ سنی صوفی مسلمانوں کو شہید کیا ہے – لاہور کے داتا دربار سے لے کر کراچی کے عبداللہ شاہ غازی اور بلوچستان میں جھل مگسی سے لے کر خیبر پختونخواہ میں رحمان بابا کے مزار تک، دیوبندیوں اور سلفیوں کی صفوں میں چھپے ہوۓ خوارج نے ہزاروں سنی صوفیوں کی نسل کشی کی ہے – یقینی طور پر اس نسل کشی میں سعودی عرب کی مالی امداد اور نواز شریف کی سیاسی حمایت نے تکفیری خوارج کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں

آج پاکستان کی سنی صوفی اکثریت کی نمائندگی ڈاکٹر طاہر القادری اور سنی اتحاد کونسل کے حامد رضا کر رہے ہیں جبکہ شیعہ جماعت مجلس وحدت المسلمین کے راجہ ناصر عباس بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں – طالبان اور سپاہ صحابہ کے خوارج کے خلاف سنی شیعہ وحدت کی یہ عظیم مثال ہے جس سے نواز شریف اور سعودی حکومت خائف ہے

یہ کون سی منطق ہے کہ کالعدم دہشتگرد تنظیموں کو تو کھلے عام پورے ملک میں جلسے جلوس کی آزادی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے احتجاج کو کنٹینرز کھڑا کر کے بزور طاقت کچھ جا رہا ہے ؟ کیا نواز شریف فراموش کر چکے کہ کس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے ججوں کی بحالی کے لیۓ نکالے جانے والے لانگ مارچ کو بھی اسی طرح کنٹینرز لگا کر سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تھی ؟ اس وقت خود نواز شریف کی نظر میں یہ سب غیر جمہوری ہتھکنڈے تھے. تو آج وہی طریقے جمہوری اور آئینی کیسے ہو گئے ؟

اگر فوج کی پشت پناہی کی بات کریں تو کیا نواز شریف انکار کر سکیں گے کہ ججوں کی بحالی کی تحریک اور اس لانگ مارچ میں فوجی قیادت ان کی پشت پناہی نہیں کر رہی تھی ؟ کیا وجہ ہے کہ جو وہاں پیو تو حلال ہے اور یہاں پیو تو حرام ہے. کیا شہباز شریف سابقہ آرمی چیف جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں نہیں کرتے رہے ؟ نواز شریف صاحب اس منافقانہ اور دو رنگی طرز عمل کو جلد از جلد خیر بعد کہ دیں تو ہی اچھا ہے. صحیح طریقہ یہ ہے کہ سیاسی مخالفین سے بات چیت اور کالعدم تکفیری خارجی دہشتگرد گروہوں کے خلاف آپریشن کیا جاۓ. جب تک اس کے برعکس ہو رہا ہے یہ تاثر قوی ہوتا جاۓ گا کہ موجودہ حکومت ایک بادشاہانہ اور آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے نہ کہ جمہوری رویہ کی

طاہر القادری اور عوامی تحریک کے خلاف آپریشن کر کے محض انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان سے منسلک حلقوں اور ہمدردوں کو خوش کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے اور یہ فراموش کر بیٹھی ہے کہ ملک کا “سواد اعظم” صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی تعلیمات پر عمل پیرا لوگوں پر مشتمل ہے نہ کہ سعودیہ کے لے پالک غنڈوں پر. ایک تکفیری خارجی گروہ کو خوش کرنے کے لیۓ ملک کی سنی صوفی اکثریت کو سائیڈ لائن کرنا کوئی جمہوری طرز عمل نہیں اور زبردستی سعودیہ سے امپورٹڈ انتہا پسند سوچ کو معاشرے پر مسلط کرنے کے نتائج اچھے نہیں نکل سکتے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Rafique Farooqi
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.