اتحاد امہ کانفرنس-اہل سنت بریلوی ،شیعہ کو ٹوپی پہنانے کی کوشش

 پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں “اتحاد امہ”کے نام سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا اور اس کانفرنس میں زیادہ نمائندگی دیوبندی،وہابی مکتبہ فکر کی ان سیاسی مذھبی جماعتوں اور شخصیات کی تھی جوکہ پاکستان کے اندر تکفیری دیوبندی دھشت گرد تنظیموں اور ان تنظیموں کی انتہا پسندانہ فرقہ وارانہ جارحیت کے بارے میں ہر پلیٹ فارم پر عذر ہائے لنگ تڑاشتے رہتے ہیں اور ان کی وکالت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے
جبکہ اس کانفرنس میں اتحاد امت کے نام پر جے یو پی کے نئے دھڑے کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر کی شرکت کو میں اس تناظر میں دیکھتا ہوں کہ وہ ابھی حال ہی میں جے یو پی کے سربراہ مولانا انس نورانی سے اختلافات کے باعث الگ ہوئے ہیں اور وہ لائم لائٹ میں رہنا چاہتے ہیں اور اسی لیے کسی بھی پلیٹ فارم کو وہ اپنی پروجیکشن کا زریعہ خیال کرتے ہوئے اس میں شریک ہوجاتے ہیں
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے حال ہی میں نشتر پارک کراچی میں ایک کانفرنس کی جس میں پاکستان سنّی تحریک کے سربراہ علامّہ ثروت قادری سمیت علمائے اہل سنت بریلوی کے ایسے مذھبی سیاسی لیڈر شریک ہوئے تھے جو سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ ان کو دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کی وکالت کرنے والی کسی بھی سیاسی و مذھبی تنظیم کے اجتماع میں شرکت نہیں کرنی ہے اور وہاں صاحبزادہ ابوالخیر نے سعودی عرب سمیت عرب ملکوں کی سلفی وہابیت کے شدت پسند ایجنڈے کے نفاز اور پاکستان کے معاملات میں مداخلت پر شدید تنقید کی تھی اور انہوں نے ٹی ٹی پی،سپاہ صحابہ سمیت دیوبندی دھشت گرد تنظیموں کو بھی کڑے ہاتھوں لیا تھا اس لیے ان کی جانب سے اتحاد امت کانفرنس میں شرکت کو سوائے لائم لائٹ میں رہنے کے اور کیا سمجھا جاسکتا ہے
اس کانفرنس میں کچھ شیعہ رہنماء بھی شامل ہوئے اور ایران سے بھی شرکت دیکھنے کو ملی جس کو نرم سے نرم لفظوں میں انتہا کی مصلحت پسندی کہا جاسکتا ہے
پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں سعودی عرب کی جانب سے اور ایسی ریڈیکل وہابی-سلفی دیوبندی جماعتوں کی جانب سے بہت عرصے سے اتحاد امہ کے نام پر ایک مہم چلائی جاتی رہی ہے اور اس طرح کی مہمات کا مقصد اپنی فرقہ پسند تکفیری انتہا پسندانہ نظریات کو بے نقاب ہونے سے بچانا اور اپنے آپ کو تنہائی کا شکار ہونے سے بچانا ہوتا ہے
پوری مسلم دنیا میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران شیخ ابن تیمیہ،محمد بن عبدالوہاب نجدی،شاہ اسماعیل دھلوی ،سید احمد بریلوی ،سید مودودی،حسن البنّا اور سید قطب وغیرہ کے نظریات و افکار جو بنیادی طور پر سخت فرقہ وارانہ ،تکفیری،خارجی فکری لہروں سے مسلح تھے کو اسلامی فکر ،اسلامی انقلاب ،احیائے اسلام ،رجوع الی سبیل السلف جیس؛ی اصطلاحوں،رد شرک و بدعت و احیائے توحید و سنت کے نام سے پوری دنیا میں مسلط کرنے کی منظم مہم چلائی گئی اور اس مہم کے زریعے مذھب اہل سنت کو مسخ اور اہل تشیع کے خلاف بدترین پروپیگنڈا مہم کو ابھارا گیا اور مسلمانوں کی اکثریت پر ان افکار کو مسلط کرنے کی منظم کوشش کی گئی اور ان افکار کے زبردستی نفاز کے لیے پرتشدد تحریکوں کو شروع کیا گیا اور ساتھ ہی تصور جہاد کے مفہوم کو مسخ کردیا گیا اور اسے بگاڑ دیا گیا،سرد جنگ کے زمانے میں سویت-امریکی بلاک میں بٹی دنیا میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب لیگ ہو،اسلامی کانفرنس ہو ،رابطۃ عالم اسلامی ہو اور سعودی عرب کے ساتھ بہت گہرے تعلقات رکھنے والی مسلم ملکوں میڑ دیوبندی،سلفی تنظیمیں ،اسلامی انقلاب کی داعی سیاسی مذھبی جماعتیں ہوں سب کی سب مسلم ملکوں میں سواد اعظم اہل سنت اور اہل تشیع کے خلاف سرگرم رہی ہیں
اہل سنت تو خاص طور پر اس مہم کا بری طرح سے نشانہ بنے کہ ایک طرف تو مسلم دنیا کے اندر اور مسلم دنیا سے باہر سلفی وہابیت اور دیوبندیت کو اہل سنت اور سنّی سمجھ لیا گیا اور یہ سمجھا جانے لگا کہ انتہا پسندی،دھشت گردی ،تکفیر ،خارجیت سب کا منبع اہل سنت ہیں اور ان کا قائد سعودی عرب ہے
اہل سنت کے علماء ،دانشور اپنی کتابوں میں بجا طور پر یہ لکھتے رہے کہ وہابی ازم سے متاثر جملہ تحریکوں اور فرقوں کی جانب سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اہل سنت جن کو پاکستان میں عرف عام میں بریلوی کہا جاتا ہے کفر ساز ہیں،فرقہ پرست ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہابی دیوبندی مولوی اور مفتی تھے جنھوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت کو عشرک ،بدعتی ،کافر قرار دیا اور ایک منظم فرقہ پرستانہ مہم فرقہ پرستی کا خاتمہ کرنے کے نعرے کے ساتھ چلائی
یہ شاہ اسماعیل دھلوی ،سید احمد بریلوی اور ان کی اقتداء کرنے والے دیوبندی مولوی تھے جنھوں نے اہل سنت کی اکثریت کو مشرک،بدعتی ،گمراہ اور جہنمی فرقہ ہونے کا فتوی دیا اور یہ وہابی مولوی تھے جیسا کہ نواب صدیق حسن قنوجی ،ثناءاللہ امرتسری کہ جنھوں نے اہل سنت بریلوی کو مشرک اور ان کے اولیاء اللہ کے مقبروں کو طاغوت سے تعبیر کیا اور اہل تشیع کے خلاف بھی پہلی منظم تکفیری مہم وہابی و دیوبندی حلقوں کی جانب سے چلائی گئی
یہ فرقہ پرست ماضی خود جماعت اسلامی کا بھی ہے کہ جس کے بانی سید مودودی نے تو دور جاہلیت ،شرک ،بدعت کا سرچشمہ اصحاب رسول ،تابعین و تبع تابعین میں ڈھونڈ نکالا تھا اور مسلمانوں کی اکثریت کو غیر صالح،کافر،مشرک ،بدعتی قرار دے ڈالا اور مسلمانوں ،غیر حارب غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کو عین اسلامی اور جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کیا
پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو دارالعلوم دیوبند ہو ،دارالعلوم ندوہ ہو ،جماعت اسلامی کا ہیڈکوارٹر ہو ،وہابی تنظیمیں ہوں ان سے منسلک جو بھی مذھبی لہریں تھیں ان سب کا مقصد نفاز اسلام اور نفاز شریعت کے نام پر سنّی بریلوی اور اہل تشیع کی مذھبی فکر اور ان کی کلچرل شناخت کو تباہ کرنے والی تکفیری خارجی متشدد فکر کو نافذ کرنا رہا ہے اور یہ ایک طرح سے پاک و ہند میں اہل سنت بریلوی کی اکثریت کو ختم کرنا اور شیعہ کے وجود سے سرزمین کو پاک بنانے کا عمل بھی کہا جاسکتا ہے
ابتداء میں بریلوی،شیعہ کی سنٹر رائٹ مذھبی جماعتیں نفاذ اسلام یا نفاذ شریعت کی دیوبندی وہابی جماعتی تحریکوں کا حصّہ بنتے رہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر سنّی کی سنٹر رائٹ جماعتیں اور شیعہ کی سنٹر رائٹ جماعتیں ان تحریکوں کآ حصّہ نہ ہوتیں تو یہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی تھیں
لیکن 80ء کی دھائی سے اہل سنت بریلوی کی مذھبی سیاسی سنٹر رائٹ جماعتوں کو شدت سے یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ دیوبندی،وہابی ،جماعتی حلقے ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے منظم منصوبہ پر عمل کررہے ہیں اور ہم نے اس فرسٹریشن کے آثار مولانا شاہ احمد نورانی جیسی معتدل شخصیت میں بھی دیکھے
مجھے یاد ہے کہ علامہ شاہ احمد نورانی نے نواز شریف کے 96ء میں برسراقتدار آنے کے بعد مسلسل دیوبندی اور وہابی نام نہاد جہادی تنظیموں کے عزائم کے بارے میں یہ کہا کہ ان کے سب گوریلوں کا حقیقی ہدف اہل سنت بریلوی ہیں اور انہوں نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ
مریدکے میں لشکر طیبہ کا ہیڈکوارٹر ،بہاول پور میں جیش محمد کا آفس ،جھنگ میں سپاہ صحابہ کا مرکز یہ سب کے سب ہندوستانی فوج سے زیادہ اہل سنت بریلوی کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں
اور جب ان کی تنقید میں اضافہ ہونے لگا تو اس زمانے میں قاضی حسین احمد ،مولوی فضل الرحمان آگے بڑھے اور انہوں نے اتحاد امت کا ڈرامہ کیا اور ملّی یک جہتی کونسل بنائی جو بعد میں ایم ایم اے بنی اور اس طرح سے دیوبندی ،وہابی ،جماعتی خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے اور پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ بڑی تعداد میں نشستیں لینے میں کامیاب ہوگئے اور جبکہ اس اتحاد کا سنٹر رائٹ کی بریلوی سیاسی جماعت جے یو پی کو کوئی فائدہ نہ ہوا ،یہاں تک کہ اگر پی پی پی کی لیڈر بے ںظیر بھٹو نے اپنی پارٹی کو سندھ ميں سینٹ کی ایک نشست کی قربانی دینے کے لیے نہ کہا ہوتا تو مولانا شاہ احمد نورانی سینٹ میں بھی نہ نہ پہنچ پاتے
نائن الیون کے فوری بعد دفاع افغانستان کونسل ،پھر ایم ایم اے بنا کر دیوبندی ،وہابی ،جماعتی تنظیموں نے ایک طرح سے اپنے اندر سے اٹھنے والی پوری دھشت گرد قاتل مشین کو بچانے کا کام کیا اور اس کے لیے جے یو پی اور تحریک نفاز فقہ جعفریہ کے کاندھے استعمال کئے گئے اور اس مشین نے 60 ہزار سے زیادہ پاکستانی شہری شہید کئے جس میں سب سے زیادہ شیعہ اور بریلوی مکتبہ فکر کے لوگ مارے گئے
جب سے پاکستان کے اندر شیعہ کی نسل کشی،اہل سنت بریلوی ،عیسائی ،ہندؤ ،احمدیوں پر حملے شروع ہوئے ،خود کش بم دھماکے شروع ہوئے اور قتل و غارت گری کا طوفان آیا تو دیوبندی ،وہابی اور جماعتی پروپیگنڈا مشینری کا کام یہ رہا کہ وہ ان وارداتوں کو سی آئی اے،راء،موساد،راما ،بلیک واٹر کے کھاتے میں ڈال دے ،جماعت اسلامی ،جماعۃ الدعوۃ ،وفاق المدارس جو بظاہر غیر جانبدار اور فرقہ واریت سے ماوراء پلیٹ فارم خود کو ظاہر کرتے ہیں یہ تھیوری دیتے رہے کہ پاکستان کے اندر امریکی ،بھارتی ،اسرائیلی اور افغان انٹیلی جنس دھشت گردی کی وارداتیں مذھبی لبادے میں کرارہے ہیں اور شیعہ سنّی ،دیوبندی ،سنّی فساد کرانے کی کوشش ہورہی ہے ،ان کی اس تھیوری اور مفروضے کو مان بھی لیا جائے تو ہونا یہ چاہيے تھا کہ یہ جماعتیں اور ادارے ان تںطیموں اور افراد کے خلاف مہم چلاتے اور ان کو اسرائیلی ،امریکی ،بھارتی ،افغانی ایجنٹ قرار دیتے جن کی طرف سے شیعہ،بریلوی ،کرسچن،ہندؤ ،احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم اور ان کے خلاف دھشت گردی کو فروغ دینے کی مہم چلائی جارہی تھی ،ایسے گروہوں میں دیوبندی دھشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ/ملت اسلامیہ/اہل سنت والجماعت سرفہرست تھی لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ کہ جب دفاع اسلام کونسل بنی تو جماعت اسلامی اور جماعۃ الدعوۃ نے سپاہ صحابہ پاکستان کو اس میں شامل کیا اور وہ جو شیعہ و بریلوی کے خلاف زہر اگلتے تھے ان کو گلے سے لگا لیا
تحریک طالبان پاکستان کا سب سے بڑا دفاع جماعت اسلامی،جماعت الدعوۃ،وفاق المدارس،جے یوآئی کے تمام دھڑے اور دیوبندی تبلیغی جماعت والے کرتے رہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے
دیوبندی ،وہابی اور جماعت والے شیعہ،بریلوی اہل سنت،ہندؤ،کرسچن ،احمدیوں ،سیکولر ،لبرل کے خلاف صف آراء ہونے والی دیوبندی کلنگ مشین اور اس مشین کو نظریاتی غذا اور تقویت فراہم کرنے والوں کا دفاع کرنے اور ان کو بچانے یہ ان کی صفائی پیش کرنے کا کام کرتے رہے ہیں اور وہ اتحاد امت کی چادر میں ان دھشت گردوں کو بچانا چاہتے ہیں
اس کانفرنس میں دیوبندیوں کے مفتی اعظم مولوی تقی عثمانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ کے ان سے اصولی اختلاف ہیں اور انھوں نے تقریر کے دوران اہل تشیع کے خلاف وہ بہتان اور الزامات لگائے جو اکثر سعودی عرب کی طرف سے اثنا عشری اہل تشیع کے خلاف لگائے جاتے ہیں
تقی عثمانی یقینی طور پر اس بات سے واقف ہوں گے کہ فتوی کفر دیتے ہوئے کس قدر احتیاط ایک مفتی کے لیے لازم ہوا کرتی ہے
انھوں نے اثنا عشری شیعہ پر تحریف قران کے قائل ہونے کا الزام دھرا اور اثنا عشری کو علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو خدا ماننے کا الزام بھی دیا اور یہ تک تہمت لگا ڈالی کہ اثنا عشری ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کے بارے میں سخت بے حیائی و بے شرمی والے کلمات بولتے ہیں
تقی عثمانی نے اصل میں جھوٹ ،بہتان ،تہمت جیسے افعال قبیحہ کا ارتکاب کرنے میں اپنے اکابر دیوبند کی پیروی کی کہ جب سنّی علمائے عرب کے سامنے مولانا شاہ احمد رضا بریلوی نے دیوبندی مولویوں کے وہابی خارجی افکار کو بے نقاب کیا تو ان مولویوں نے ایک فتوی لکھا جس میں خود کو پکّا سنّی صوفی مشرف پر عامل قرار دیا اور حسین احمد مدنی نے الشہاب الثاقب میں بار بار وہابیہ کو وہابیہ خبیثہ لکھا اور پھر جب حجاز پر آل سعود کا قبضہ ہوگیا تو اچانک ان پر انکشاف ہوا کہ محمد بن عبدالوہاب نجدی پکا موحد ،شرع کا پابند اور اسلام کا داعی عظیم تھا اور یہ بھی منکشف ہوا کہ وہابیہ کو خبیث حسین احمد مدنی نے نہیں بلکہ ان کے ایک متعصب شاگرد نے کتابت کرتے ہوئے لکھ ڈالا تھا
تقی عثمانی کو بخوبی علم ہے کہ علی کی الوھیت کا قائل فرقہ نصیریہ ہے نہ کہ اثنا عشری اور بھلا یہ بات تقی عثمانی جیسے مولوی سے کیسے پوشیدہ رہ سکتی ہے کہ اہل تشیع کے ہاں تجرید حقیدہ توحید میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور توحید کے حوالے سے نہج البلاغہ میں حضرت علی کے خطبات اور ارشادات موجود ہیں پھر اس حوالے سے سب سے زیادہ کلام امام جعفر صادق سے منقول ہوا ہے اور ان سب کی جانب سے توحید میں تنزیہیہ پر جو زور ہے اور تجسیم و تشبیہ کی جو مذمت ہے اس سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ اثنا عشری کیسے علی کے خدا ہونے کے قائل ہوسکتے ہیں جبکہ اصول کافی میں بھی اس حوالے سے آئمہ کی تصریحات موجود ہیں
جہاں تک تحریف قران کی بات ہے تو اثںا عشری کے ہاں اگر عقائد کی پرانی کتب مطالعہ کی جائیں تو متفقہ عقیدہ موجود ہے کہ قران اپنے آیات کے حوالے سے کسی قسم کی تبدیلی سے محفوظ رہا ہے اور اس کی ترتیب پر ساری امت کا یہ اتفاق ہے کہ یہ وفات رسول کے بعد خلیفہ ثالث حضرت ‏عثمان کے دور میں ہوئی
اتحاد امت کانفرنس میں تقی عثمانی کی دروغ گوئی اس لیے زیادہ تھی کہ وہ شاید اہل سنت بریلوی کو شیعہ کے خلاف چلنے والی شر انگیز مہم کا حصّہ بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں جوکہ اہل سنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان کا بہت عرصے سے ایجنڈا رہا ہے لیکن اہل سنت بریلوی ان کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں
اتحاد امت کانفرنس میں اعلامیہ جای کرتے ہوئے کہا گيا کہ اسلام کے کسی بھی فرقے پر حملہ اسلام پر حملہ ہے
میں دیوبندی،وہابی اور جماعت اسلامی والوں سے صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر کسی فرقہ پر حملہ واقعی اسلام پر حملہ ہے تو پھر اس لحاظ سے ٹی ٹی پی،لشکر جھنگوی،جیش محمد ،القائدہ سب کے سب اسلام پر حملہ آور ہیں تو ان کو اپنے بھائي ،بیٹے ،مجاہد اسلام وغیرہ قرار دینے اور ان سے ریاست کی ثالثی کرانے جیسے اقدامات کیسے جائز ہیں

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ahad
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.