روس کا شام اور یوکرین میں امریکی یورپی استعمار کو شکست دینا تیسری دنیا کے لئے ایک خوش آئند بات ہے – از ایاز امیر

397445-vladimir-putin

نپولین کو صرف روس کی سرد ی نے ہی شکست نہیں دی تھی بلکہ یہ سخت جان روسی سپاہیوں کی جانبازی تھی جس نے پانسہ پلٹ دیا۔ ماسکو کی شاہراہ پر ہونے والی بوروڈینو کی جنگ میں روسی فوج نپولین کی گرینڈ آرمی کے مقابلے پر آئی تو اس سے پہلے کہ وہ پسپائی اختیار کرتی، فرانسیسی فوج کا بھاری جانی نقصان ہو چکا تھا۔ ٹالسٹائی کے ناول ’’جنگ اور امن‘‘ ، جو اب تک لکھے گئے عظیم ترین ناولوں میں سے ایک ہے، کا موضوع یہی جنگ ہے لیکن اس میں ٹالسٹائی نے نپولین کی شکست کا کریڈٹ روسی سپاہیوں کی بجائے قسمت اور تاریخ کے انوکھے واقعات کو قرار دیا ۔ تاہم انگریز ی زبان میں عمدہ اور جاندار انداز میں لکھی گئی ایک کتاب ’’روس اور نپولین ‘‘ میں مصنف ڈومینک لیون نے اس بات کی وضاحت کی کہ اس جنگ کا فیصلہ کن باب روسی سپاہیوں نے اپنے خون سے ہی رقم کیا تھا۔

روسی فوج کے ہاتھوں نپولین کی گرینڈ آرمی اور پھرایک سو پچاس سال بعد ہٹلر کی مہیب جنگی مشین کی تباہی ہمیں اس بات کی تفہیم کی دعوت دیتی ہے کہ صدر پیوٹن کریمیا میں کیا کرنے جارہے ہیں اور یہ کہ مغربی ممالک کی طرف سے دکھائے جانے والے رد ِ عمل کے جواب میں ان کارویہ ایسا کیوں ہے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کی جانی چاہئے کہ اگر روسی جوان جرمن فوج کے حملے، جسے جنگی تاریخ میں سب سے بڑا حملہ قرار دیا گیا، کا مقابلہ ڈٹ کر نہ کرتے اور اپریشن باربروسہ کے دوران جرمن فوج کا ایک بڑا حصہ تباہ نہ ہوجاتا تو دوسری جنگ عظیم کا فیصلہ نارمنڈی لینڈنگ  سے نہیں ہونا تھا۔ دراصل روس ہمیشہ سے ہی ایک عظیم طاقت رہا ہے… ایک ایسی طاقت جو یورپ کے طاقت کے مراکز میں اپنی اہمیت رکھتی ہو، تاہم بالشویک انقلاب، ا سٹالن ازم کی ابتلا اور پھر دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران ہونے والے نقصانات کی وجہ سے وہ اگرچہ عسکری اعتبار سے امریکہ کی مسابقت کرنے کی پوزیشن میں آگیا تھا ، معاشی اعتبار سے امریکہ کا ہم پلہ ثابت نہ ہو سکا۔

دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد ہونے والی یورپ کی تقسیم اوربقول مسٹر چرچل، آہنی پردہ کھنچ جانامغربی ممالک کے لئے ناپسندیدہ عمل تھا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ ا سٹالن کی افواج عملی طور پر یورپ کا نقشہ تبدیل کررہی تھیں۔ اس کے بعد تقریباً ساڑھے چار دہائیوں تک(1945 تا 1989)دنیا پر بنیادی طور پر دوبڑی سپرپاورز حکومت کرتی رہیں… امریکہ اور سوویت یونین۔ جب ستر کی دہائی میں امریکہ کو واٹر گیٹ اسکینڈل نے ہلاکر رکھ دیا اور نکسن کے استعفے کے بعد جیرالڈ فورڈ نے اقتدار سنبھالا تومیں ماسکو میں پاکستانی سفارت خانے میں تھا۔ اُس وقت سوویت یونین کو بھی کچھ مسائل کا سامنا تھا لیکن واٹر گیٹ اسکینڈل اور ویت نام میں شکست کے بعد امریکہ کا بہت برا حال تھا۔ اُن دنوں سوویت یونین زیادہ طاقت ور دکھائی دیتا تھا اور جب روسی وزیر ِ خارجہ آندرے گرومیکوکچھ کہتے تو دنیا ہمہ تن گوش ہو کر نہ صرف اُن کی بات سنتی بلکہ سمجھنے اور ماننے میں ہی عافیت گردانتی۔

لیکن پھر دور آیا میخائل گورباچوف کا جب یکے بعد دیگرے مختلف یورپی علاقوں سے عظیم سوویت یونین کا کنٹرول ختم ہوتا گیا۔یہ سب کچھ احسن طریقے سے بھی ہو سکتا تھا لیکن مسٹر گوربا چوف نے کمیونسٹ پارٹی، جس پر لینن نے عظیم ملک کی بنیاد رکھی تھی، کو تباہ کرکے قوت کا ارتکاز توڑ ڈالاتھا۔ امریکی سرد جنگ میں فتح ، جس کے نتیجے میں سوویت یونین پارہ پارہ ہو گیا اور دیوار برلن منہدم ہو گئی، کا کریڈٹ رونالڈ ریگن کو دیتے ہیں۔ یہ بات تاریخی طور پر درست نہیں کیونکہ جس رہنما نے مغرب کے لئے سرد جنگ جیتی وہ ریگن نہیں گوربا چوف تھے۔ دراصل وہ فتح روسی رہنما نے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی کیونکہ کسی کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ رونما ہونے والے کچھ واقعات اتنی عجلت سے سوویت یونین جیسی عقربی طاقت کا شیرازہ بکھیر دیںگے۔ کچھ تاخیر سے کمیونسٹ پارٹی نے مسلح افواج میں موجود کچھ ہم خیال عناصر کی مدد سے اگست 1991 میں حکومت کا تختہ الٹ کر ناروا عمل کو روکنے کی کوشش کی لیکن کسی دلیر اور قائدانہ صلاحیتو ں والے رہنماکی غیر موجودگی کی وجہ سے وہ اقدام ناکامی سے ہمکنار ہوا۔ گوربا چوف نے استعفیٰ دے دیا اور سوویت یونین جغرافیے سے نکل کر تاریخ کا حصہ بن گیا۔

اس کے بعد کہانی آگے بڑھتی ہے اور روس کے لئے مزید خرابی اُس وقت پیدا ہوئی جب گوربا چوف کے جانشین ، بورس یلسن ، جو بظاہر بہت جاندار دکھائی دیتے تھے، جلد ہی ووڈکا کے نشے میں مدہوش رہنے لگے۔ ایک مرتبہ اُنھوں نے سرکاری دورے پر امریکہ سے آئرلینڈ جانا تھا اور جب اُن کا جہاز ڈبلن ائیرپورٹ پر اترا تو معلوم ہوا کہ روسی صدر باہر آنے کی پوزیشن میں نہیں۔ جب وہ پوری کوشش کے باوجود کسی بہتر حالت میں اپنے میزبانوں سے ملنے کے قابل نہ ہوئے تو جہاز اُن کو لے کر وہیں سے ماسکو کی طرف روانہ ہو گیا۔ ایک مرتبہ جب یحییٰ خان نیپال کے دورے پر گئے تو ان کا طیارہ کھٹمنڈو ائیر پورٹ پر تادیر پرواز کرتا رہاتاکہ اس دوران جنرل موصوف اس قابل ہوجائیں کہ وہ اپنے نیپالی میزبانوں سے مل سکیں ۔ بہرحال وہ بورس یلسن سے بہتر ثابت ہوئے اور اپنی حالت پر قابو پاگئے۔ اس کے بعد روس میں تاریخ کی سب سے بڑی نج کاری ہوئی، یوں سمجھ لیں نج کاری کے نام پر لوٹ سیل لگ گئی اور ریاستی اداروں کو اپنے مصاحبوں اور پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہاتھ کوڑیوں کے مول فروخت کردیا۔آج ہم جن روسی ارب پتیوں کو دیکھتے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر نے اُسی نج کاری کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے۔

ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ روس روبہ زوال تھا اور مغرب، خاص طور پر امریکہ کی نگاہ میں عالمی معاملات میں اس کی اب کوئی اہمیت باقی نہ تھی۔ یورپی یونین نے ان مغربی ریاستوں کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے جو ماضی میں سوویت بلاک میں شامل تھیں۔ اس کے بعد زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نیٹو نے مشرق کی سمت قدم بڑھانے شروع کردئیے اور روس لاچارگی سے دیکھتا رہا۔ اس توہین آمیز زوال سے روس کو کسی قدر باعزت مرتبہ دلانے اور کھوئی ہوئی طاقت کا احساس بیدار کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ پرکشش شخصیت کا مالک ولادیمر پیوٹن ہے۔ روس کے روئیے میں تبدیلی کے آثار تو کچھ دیر سے ہویدا تھے لیکن ان کا عملی مظاہرہ پہلی مرتبہ شام اور پھر حالیہ کریمیا کے بحران کے موقع پر اُس وقت دیکھنے میں آیا جب روس نے ایک حقیقی عالمی طاقت کا سا رویہ دکھایا۔ شام میں روس نے ایک لکیر کھنچ کر دنیا کو بتادیا کہ اس سے آگے بڑھنے کی کوشش مہنگی پڑے گی۔ یہاں اسد حکومت کی سخت جانی، ایران اور حزب اﷲ نے روس کو تقویت پہنچائی اور شام کی موجودہ حکومت کو تشدد کے ذریعے تبدیل کرنے کی کوششیں تاحال ناکامی سے ہمکنار ہورہی ہیں۔ کریما دوسری بڑی مثال تھی جب روس نے مغربی طاقتوں کو عملی طور پر آنکھیں دکھائیں ۔

دراصل یہ مغرب کی غلطی تھی کہ وہ سمجھ بیٹھا تھا کہ شہنشاہ زار کی سرزمین، وہ سرزمین جہاں مرد ِ آہن ا سٹالن نے جنم لیا تھا اور جس دھرتی نے اپنے خون سے نپولین اور ہٹلرکی جارحیت کو واپس دھکیل دیا تھا، کو عالمی معاملات میں ہمیشہ کے لئے ایک گمنام کونے تک محدود کیا جاسکتا ہے۔ نہیں، تاریخ کا دریا ایسے من پسند دھاروں تک محدود نہیں رہتا۔ صرف 65 سال پہلے تک چین نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن پھر انقلاب آیا اور اذیت برداشت کرتے اور قربانیاں دیتے ہوئے چیئرمین مائو نے ببانگ دہل عوامی رپبلک کے قیام کی نوید سنائی۔ آج راوی ’’چین ہی چین ‘‘لکھتا ہے۔

دوسری جنگ ِ عظیم میں لیجنڈری فیلڈمارشل ایرک مین اسٹین کی قیادت میں جرمن فورسز نے کریمیا کو فتح کرلیا تھا لیکن پھر جنگ کا نقشہ بدل گیا اور سرخ فوج نے جرمن فوج کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچاتے ہوئے کریمیا کو واپس چھین لیا۔ اس طرح کریمیا روس کے جغرافیے ہی نہیں، اس کی کہانیوں، تاریخ اور تخیل کا بھی حصہ ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جس کے ایک ایک انچ سے روسی سپاہیوں کے لہو کی مہک آتی ہے۔ بورس یلسن کے عہد کا کمزور روس اس کی طرف انگلی سے بھی اشارہ نہیں کرسکتا تھا لیکن مسٹر پیوٹن مضبوط قدموں پر کھڑے ہیں۔ اس مرتبہ اندازوں کی غلطی روس نہیں، فریق ِ مخالف سے ہوئی ۔ کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور تھا اور اس کے ہر روئیے سے رعونت اور خود پسندی ٹپکتی تھی۔ تاہم اس کا یہ دور بہت مختصر مدت کے لئے تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ دیر مزید اس کی بالا دستی قائم رہتی لیکن کیا کہنے جارج بش کی خداد داد صلاحیتوں کے ، کہ اُنھوں نے عراق اور افغانستان کی جنگوں میں الجھا کر امریکہ کو بے دم کردیا۔ اگر صرف القاعدہ امریکہ کو ہیجان میں مبتلا کرنا چاہتی تو شاید اتنی کامیاب نہ ہوپاتی۔ جس دوران امریکہ نسبتاً اپنے مقام سے زوال کی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، روس اور چین عالمی طاقت کا اسٹیٹس حاصل کرتے جارہے ہیں۔

… اور یہ تیسری دنیا کے لئے ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ گیارہ ستمبر کے بعد دنیا کے اس حصے کے لیے امریکہ کا رویہ بہت ہی تکلیف دہ بن چکا تھا۔ یاد ہوگا کہ امریکی کس رعونت بھرے لہجے میں کہاکرتے تھے …’’ہم اپنی حقیقت خود رقم کرتے ہیں اور ہم ہی اس دنیا کی نئی حقیقت ہیں۔‘‘ اور پھر یہ سنگین دھمکی بھی یادداشت سے کبھی محو نہیں ہوگی…’’ اگر تم ہمارے ساتھ نہیں تو تم ہمارے دشمن ہو۔‘‘عظیم رومن شاعر اور دانشور ہوریس کی بات دل کو لگتی ہے…’’ عقل سے خالی دیوہیکل طاقت خود اپنے وزن سے ہی زمیں بوس ہوجایاکرتی ہے۔‘‘صرف پیوٹن ہی فتح مند قدموں پر اپنی جگہ کھڑے مسکرا نہیں رہے، بلکہ تمام روس۔… ٹالسٹائی ، پشکن ، چیخوف اور دوستو وسکی کا روس کریمیا ، جو اس سے چھن گیا تھا، کی فتح کا جشن منارہا ہے اور گورباچوف اور یلسن کی وجہ سے پیشانی پر لگے ہوئے داغ دھل رہے ہیں اور اک عالم ِ پیر مررہا ہے اور اک جہان ِ نو پیدا ہورہا ہے۔

 

Source :

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=183215

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.