میرے لہو سے وضو

 

میرے لہو سے وضو اور پھر وضو پہ وضو

 ڈرا ہوا ہوں زمانے تیری نماز سے میں

 طالبان کی شریعت کی بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک انسان کو قتل کرکے اس کے لہو سے وضو کرکے نماز پڑھنا اور ان کی شریعت سے مراد صرف اور صرف بیگناہ  انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنا ہے.یہ درندگی کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ جب بیگناہ انسانوں کو قتل نہ کرلیں ان کو چین نہیں آتا.یہ کون سے شریعت کے جس میں کوئی مسجد امام بارگاہ جنازہ گاہ محفوظ نہیں جہاں لوگوں کے گلے کاٹ کے فٹ بال کھلی جائے یہ کس شریعت کی بات کرتے ہیں

 یہ کونسی شریعت ہے کہ  پولیو کے قطرے پلانے والوں کو گولی ماردی جائے

 یہ کونسی شریعت ہے کہ لڑکیوں کے اسکولوں کو تباہ کردیا جائے

 یہ کونسی شریعت ہے کہ ایک نہتی لڑکی ملالہ کو صرف اس وجہ سے گولی  مار دی جائے کہ  وہ لڑکیوں کی تعلیم کی بات کرتی تھی

 یہ کونسی شریعت ہے کہ معصوم بچیوں کو حدود کے نام پر کوڑے مارے جائیں

 یہ کونسی شریعت ہے کہ قلم کا جواب قلم سے دینے کے بجائے صحافیوں کو قتل کیا جائے اور میڈیا کے دفاترپرحملہ کیا جائے 

 یہ کونسی شریعت ہے کہ بینک ڈکیتی .اغوا برائے تاوان ، منشیات اور اسلحے کا کاروبار کیا جائے

 یہ کونسی شریعت ہے کہ معصوم لوگوں کے کھوپڑیوں کے مینار بنائے جائیں

 

یہ کونسی شریعت ہے کہ جید علمائے کرام اورمذہبی اسکالرز، سینکڑوں مساجد، امام بارگاہیں، گرجا گھر ، بزرگان دین کے مزارات، لڑکیوں کے اسکول اورمسلح افواج کی تنصیبات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے

 

طالبان کسی ایک مخصوص گروہ کا نام نہیں کہ جس کوکالعدم قرار دے دیا اور آپریشن کر دیا تو مسئلہ حل ہو گیا. طالبان دراصل ایک سوچ ہے ایک مسلک ہے ایک مذہب ہے جس کے نظریات کو پھیلنے سے ہمیں روکنا ہو گا.ہمارے ملک میں ہر شعبے میں اس مائنڈ سیٹ کے  لوگ گھس  گئے ہیں . اوریا مقبول جان اور انصارعباسی جیسے صحافی ہوں یا عمران خان جیسے سیاست دان ہوں یا جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتیں یہ سب   طالبان کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور ان جیسے اور لوگ میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس طالبانی سوچ کو پھیلانے میں مصروف ہیں.ایسے مدارس بھی موجود ہیں جو طلباء میں طالبانی سوچ پیدا کر رہے ہیں.ہم کو سمجھنا ہوگا کہ طالبان، سپاە صحابہ، لشکرِ جھنگوی، جمعیت علماٴ اسلام وغیرە میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ مافیا ہے۔ فکری حوالے سے سب ایک ہیں، طالبان اس فکر پر عملی طور پر کار بند ہیں جبکہ دیگر جماعتیں اور انکے مدارس طالبان کو افرادی قوت، لاجسٹک سپورٹ، فنڈز، خفیہ اطلاعات اور پناە گاہیں مہیا کرتی ہیں۔

 

اکثر ممالک بشمول بنگلہ دیش اور مصر جسے ملک تو اس بات کو پانی سر پر سے گزرنے سے پہلے ہی سمجھ گے اور اس مسلک اور تکفیری سوچ سے تعلق رکھنے والی جماعت اسلامی اور اخوان مسلمون پر پابندی پر پابندیاں لگا کر اپنی قوم کو تباہی سے بچا لیا. بلکل اس طرح کی کاروائی کی ہے پاکستان کو بھی ضرورت ہے.اور طالبانی سوچ رکھنے والی جماعتوں جیسے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف پر پابندی لگائی جائے اور میڈیا پر ان سوچ رکھنے والے صحافیوں پر پابندی لگی جائے.سوشل میڈیا پر طالبان کے پیجز کو بند کیا جائے اور طالبانی سوچ پیدا کرنے والے مدراس کے خلاف لال مسجد جیسا آپریشن کیا جائے. تب ہی اس انتہا پسند  طالبانی سوچ کا خاتمہ ممکن ہے.ورنہ مذاکرات ایک لاکھہ دفعہ ہوں کوئی فائدہ نہیں. جب تک اس سوچ کا تدارک نہیں کیا جاتا، امن ایک دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوگا۔ جبکہ ریاست ان اہم نکات کو فراموش کرتے ہوۓ مذاکرات پر توجہ مرکوز کیۓ بیٹھی ہے۔حکومتِ پاکستان اور طالبان کے درمیان اگر مذاکرات کامیاب بھی ہو جائیں تو پھر بھی پاکستان میں امن قائم نہیں ہوگا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ہے کہ ان مذاکرات کے ایجنڈے پہ طالبان کی بریلوی، شیعہ، عیسائی، قادیانی، ہندو اور دیگر مذاہب و مسالک کے خلاف دہشتگردانہ کاروائیوں کے حوالے سے سرے سے زکر ہی موجود نہیں ہے اور طالبان اپنے سوا کسی کو مسلمان سمجھتے ہی نہیں ہیں.اگر مذکرات کامیاب بھی ہوجائیں جب بھی وہ ان کو مارنا نہیں چھوڑیں گے

 

آخر میں ایک سوال ہے کیا چوہدری نثار ، نواز شریف ، عمران خان اور منور حسن کی اپنی اولاد کسی خود کش دھماکے میں مرتی تو  کیا وہ پھر بھی مذاکرات کی بات کرتے؟

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akmal Hussain
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.