پشتون معاشرے میں تکفیری دیوبندی عدم برداشت کے نفوذ کا مقدمہ اور فرحت تاج صاحبہ کا ردعمل

bk

Related post: مدیر ویو پوائنٹ اور فرحت تاج کے نام: کیا یہ صحافتی، علمی اخلاقیات کے مطابق ہے؟ – See more at: https://lubpak.com/archives/307361

تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے بانی سابق ایڈیٹر عبدل نیشا پوری، موجودہ ایڈیٹر انچیف علی عباس تاج،ادارتی ٹیم کی رکن سارہ خان اور دیگر ممبران نے بہت محنت اور تحقیق کے ساتھ ایک مقدمہ اپنے پڑھنے والے قارئین کے سامنے پیش کیا

پاکستان کے اندر دائیں بازو اور بائیں بازو(سیکولر، لبرل، قوم پرست) کے ساتھ تعلق رکھنے والے بہت سے دانشور،سیاسی کارکن،انسانی حقوق کے رضاکار،صحافی تجزیہ نگار شیعہ نسل کشی ،سنّی بریلوی،اعتدال پسند دیوبندی،سیکولر بلوچ و پشتون کے قتل کے زمہ دار تحریک طالبان،اہل سنت والجماعت، لشکر جھنگوی، جنداللہ وغیرہ کی دیوبندی تکفیری شناخت کو بیان یا لکھنے سے گریز کرتے ہیں اور اسے عمومی طور پر شیعہ سنّی تنازعہ یا شدت پسند سنّی-ازم کے طور پر بیان کرتے ہیں جوکہ غلط ہے اور دھشت گردوں کی شناخت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے

اس مقدمے کا زیلی مقدمہ یہ بھی تھا کہ بعض حلقے شیعہ نسل کشی کو کہیں ہزارہ نسل کشی تو کہیں مہاجر نسل کشی کہہ کر ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس دھشت گردی کے زمہ داروں کی کسی ایک نسلی گروہ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے کچھ اسے پشتون کلچر کا نتیجہ تو کچھ اس کو سرائیکی یا پنجابی نسلی ثقافتی گروہ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ تحریک طالبان پاکستان،اہل سنت والجماعت/لشکر جھنگوی ،جند اللہ،جیش محمد ،جیش العدل سب کے سب دیوبندی تکفیری دھشت گرد ہیں اور یہ کسی ایک نسلی ثقافتی گروہ سے تعلق نہیں رکھتے

ایک ذیلی مقدمہ یہ بھی تھا جوکہ تحقیق کے دوران ضمنی طور پر آیا اور وہ یہ تھا کہ افغانستان،پاکستان،بنگلہ دیش ،انڈیا کے اندر سلفی وہابی اور دیوبندی مکتبہ فکر دو ایسے مکاتب فکر ہیں جن کے اندر ایسے کرنٹ موجود رہے جو کہ تکفیری خارجی متشدد و دھشت گردانہ رجحانات اور فکری آئیڈیالوجیکل رجحانات بالقوہ موجود ہیں اور اس مقدمے کا یہ نتیجہ نہیں تھا کہ سلفی اہل حدیث اور دیوبندی ہونے کا مطلب دھشت گرد ہونا نہیں ہے بلکہ اس مقدمے کا صرف اتنا مطلب تھا کہ یہ جو تحریک طالبان پاکستان،اہل سنت والجماعت سمیت جتنے دھشت گرد گروہ ہیں ان کا وجود اور جڑیں دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر موجود اس تکفیری خارجی متشدد اور دھشت پسندانہ طاقتور رجحان کے اندر ہیں جو صرف سعودی-امریکہ-پاکستان کے سٹرٹیجک جہادی پروجکیٹ سے دیوبندی اور سلفی مکتبہ فکر کے اندر باہر سے انجیکٹ نہیں ہوا اس کی تاریخی جڑیں تو اس سے کہیں آگے پھیلی ہوئی ہیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ افغان جہاد پروجیکٹ،سٹریٹجک گہرائی کی پالیسی ،جہادی پراکسی نے اس بالقوہ رجحان کو زیادہ میچور کیا اور اس کو زیادہ طاقتور کیا

عبدل نیشاپوری نے جب اس حوالے سے افغانستان، متحدہ ہندوستان میں شیعہ کے قتل اوران کے خلاف منافرت آمیز اور فرقہ وارنہ بنیادوں پر نفرت پھیلانے کی تاریخ کا جائزہ لیا تو انہوں نے احمد شاہ ابدالی، شاہ ولی اللہ، مولوی اسماعیل دھلوی کے کردار کا جائزہ لیا تو اس سے کہیں بھی یہ مقصد نہیں تھا کہ یہ دعوی کیا جائے کہ شیعہ نسل کشی پختون کلچر میں بالقوہ موجود ہے یا احمد شاہ ابدالی نے افغانستان کے اندر اور متحدہ ہندوستان پر حملہ کرکے شیعہ پر جو نسل کشی کی وہ اس وجہ سے نہیں کی کہ وہ پشتون تھا اور اس کے پشتون کلچر نے اسے شیعہ کی نسل کشی پر مجبور کیا تھا اور جب ہم شاہ ولی اللہ کے خاندان اور خاص طور پر شاہ اسماعیل دھلوی ،سید احمد بریلوی اور اس کے تتبع اور پیروی میں دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر سے جنم لینے والے تکفیری خارجی کرنٹ کی جانب سے شیعہ کی نسل کشی پر اکسانے اور عامۃ المسلمین کو مشرک ،کافر بدعتی قرار دیکر مارنے جیسے عوامل کی نشاندہی کرتے ہیں تو اس سے مراد پورے دیوبندی مکتبہ فکر کو دھشت گرد کے برابر ٹہرانے کی مساوات پیش کرنا نہیں ہوتا

عبدل نیشاپوری نے اس حوالے سے جب باچا خان کی اصلاح پسند تحریک اور ان کی تعلیم کو پھیلانے کے حوالے سے دیوبندی مدارس کے کھولنے اور دیوبند کے فارغ التحصیل مولویوں کا تعاون لینے کی کوششوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہا کہ غفار خان کی جانب سے خیبرپختون خوا،قبائیلی ایجنسیوں اور ڈیورنڈ لائن کے ساتھ ملحقہ افغان علاقوں میں دیوبندی مدارس کھولنے کی پالیسی ان کی ججمنٹ کی غلطی تھی اور اس سے پشتون کلچر کو سیکولر، لبرل، ترقی پسند اور تنوع پسندی کے اجزاء کو مزید ترقی کرنے کا موقعہ نہیں ملا بلکہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے

عبدل نیشاپوری نے اس حوالے سے باچا خان کے بھائی غنی خان کی مولوی کی رجعت پسندی اور اس کے تنگ نظر رویوں کے خلاف ہوجانے کا زکر کیا تو میرا کہنا یہ ہے کہ صرف غنی خان ہی نہیں بلکہ باچا خان کے بہت سے ساتھی اور ان کے نیاز مند مدرسہ سسٹم سے باغی ہوئے اور ملائیت کے خلاف ہوئے اور اس میں اکوڑہ خٹک کے مدرسہ حقانیہ میں پڑھنے والے اجمل خٹک کا زکر کروں گا اور ان کی شاعری کی معروف کتاب “دہ غیرت چغہ” کا مطالعہ مفید رہے گا تو باچا خان کی دیوبندی مدارس کی ترویج اور سیکولر تعلیم کی بجائے مذھبی تعلیم اور وہ بھی ایک ایسے مکتبہ فکر کے مدرسے جس میں تکفیری خارجی متشدد کرنٹ بہت طاقتور تھا اور اس کرنٹ کے خیبرپختون خوا اور ایجنسیوں میں موجودگی شاہ اسماعیل دھلوی اور سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد سے زیادہ شدید ہوئی تھی تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے

اب اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ عبدل نیشا پوری یا تعمیر پاکستان ویب سائٹ پشتون کلچر کو طالبانائزشن کے مساوی قرار دے رہے ہیں یا باچا خان کو طالبانی قرار دیا جارہا ہے یا یہ تنقید پنجابی شاؤنزم ہے

تعمیر پاکستان ویب سائٹ نے حالانکہ پشتون قوم پرستوں کی جانب سے پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور دائیں بازو کی دیوبندی و سلفی تنظیموں کی جانب سے تزویراتی گہرائی، جہادی پراکسی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے کی کوششوں کو پنجابی جرنیلوں اور پنجاب بیسڈ سپاہ صحابہ پاکستان کا مشترکہ وینچر قرار دینے پر انھیں کبھی پشتون شاؤنسٹ قرار نہیں دیا اور اس تجزئے میں موجود جزوی صداقت کو ہمیشہ تسلیم کیا

تعمیر پاکستان ویب سائٹ کا اینٹی شعیہ ، بریلوی،ہندؤ، عیسائی،احمدی، سیکولر بلوچ و پشتون مہم اور دھشت گردی کی زمہ دار دیوبندی تکفیری دھشت گرد تنظیمیں طالبان،اہل سنت والجماعت ،جنداللہ،جنودالحفصہ ،جیش العدل ،جیش محمد وغیرہ کسی ایک نسلی ثقافتی گروہ سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ یہ کثیرالنسلی گروہ ہے اور ان سب کا اشتراک دیوبندی تکفیری آئیڈیالوجی پر ہے اور ہم سمجھتے ہیں جو اسے پشتون کلچر یا پنجابی کلچر یا سرائیکی کلچر کے ساتھ منسوب کرتے ہیں وہ شاؤنزم اور تعصب کا اظہار کررہے ہیں

ft

فرحت تاج کی میں آج بھی بہت عزت اور احترام کرتا ہوں لیکن یقین جانئیے کہ مجھے سماجی رابطے کی فیس بک پر ان کے اس بحث پر انتہائی غیر علمی اور جذباتی انداز میں تبصروں سے دکھ ہوا اور انہوں نے کئی الزامات ایسے لگائے جن کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی

انہوں نے یہ کہا کہ تعمیر پاکستان ویب سائٹ ایک بے چہرہ،بے شناخت لوگوں کی سائٹ ہے تو یہ نہايت نامناسب بات ہے اور اس ویب سائٹ کی ادارتی ٹیم اور اس کے معاون لکھاریوں میں بہت سے لوگ اپنے اصلی ناموں سے کام کررہے ہیں

اگر عبدل نیشا پوری اور چند اور ساتھی جو قلمی نام سے کام کررہے ہیں تو اس کی وجہ ان کو تکفیری خارجی دیوبندی، سلفی اور اسٹبلشمنٹ کے پیشہ ور قاتلوں سے خطرات لاحق ہیں جس کی وجہ سے وہ ایسا کرنے پر مجبور اور اس بنیاد پر اعتراضات کی بھرمار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے

تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے ایڈیٹر انچیف علی عباس تاج اپنے اصل نام سے کام کررہے ہیں اور تعمیر پاکستان ویب سائٹ ہرگز بے چہرہ اور بے نام سائٹ نہیں ہے

فرحت تاج کے عبدل نیشا پوری کے تھریڈ کے جواب میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب عبدل نیشاپوری نے خود بڑی تفصیل سے دیا ہے اور علی عباس تاج نے بھی اس حوالے سے معروضات پیش کی ہیں

دیوبندی مکتبہ فکر پر تعمیر پاکستان ویب سائٹ کی تنقید کا جہاں تک تعلق ہے تو فرحت تاج اگر دیوبندی مکتبہ فکر پر تعمیر پاکستان ویب سائٹ کی تنقید کو فرقہ پرستانہ خیال کرتی ہیں تو انہیں اس تنقید کا جواب دینا چاہئیے

تعمیر پاکستان ویب سائٹ کا دعوی ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر کے تمام مذھبی علماء اور مفتیان کرام اور اس مکتبہ فکر کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں نے آج تک دیوبندی تکفیری خارجی دھشت گرد تنظیموں کو دیوبندی مسلک سے خارج اور ان کے خلاف نام لیکر فتوی جاری نہیں کیا جبکہ وفاق المدارس ،جے یو آئی ایف کے تمام دھڑے ،پاکستان علماء کونسل یہ سب کے سب ان دھشت گردوں کے دیوبندی مسلک سے خارج ہونے کا اعلان کرنے کی بجائے ان کے ثالث کار بنتے نظر آتے ہیں

فرحت تاج کے پاس اس تنقید کا جواب تو نہیں تھا لیکن انہوں نے دیوبندی مدارس، دیوبندی مولویوں اور مفتیوں کی اس جانبداری کا دفاع کرنا اور اس کے لیے عذرتلاش کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے اس بات سے بھی بغیر کوئی دلیل دئے انکار کردیا کہ دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر تکفیری دھشت گرد کرنٹ بالقوہ موجود ہے

مجھے بہت افسوس سے لکھنا پڑرہا ہے کہ فرحت تاج (جن کی دھشت گردی ،جہادی پروجکیٹ،تزویراتی گہرائی ، سوات اور خیبرپختون خوا اور افغانستان میں طالبانائزیشن کے حوالے تحریروں کا میں مداح ہوں اور ان کی دھشت گردوں کے خلاف علمی اور قلمی کاوشوں کا معترف ہوں ) نے تعمیر پاکستان کی سنجیدہ ،علمی، دلیل کے ساتھ کی گئی دیوبندی مکتبہ فکر کی اپنے اندر پیدا ہونے والے تکفیری خارجی دھشت گرد کرنٹ اور اس کے سعودی وہابی تکفیری آئیڈیالوجی کے ساتھ رشتوں کی طویل تاریخی کہانی اور خیبرپختون خوا ،افغانستان اور قبائیلی ایجنسیوں میں اس کے اثر نفوز کے بیانیہ کو ایک سازش ،پنجابی شاؤنزم ،پختون کلچر کے خلاف پنجابی شاؤنسٹ کا حملہ قرار دے ڈالا اورپختونوں! اٹھو جیسے سلطان راہی سٹائل کو اختیار کیا جو ان جیسی سنجیدہ محقق لکھاری کے شایان شان ہرگز نہیں تھا

یہ سٹائل تو جماعت اسلامی کے پروپیگنڈا سیل کو زیب دیتا ہے اور بہت شکستہ دل کے ساتھ فرحت تاج پر یہ تنقیدی جملے لکھے ہیں

محمد بن ابی بکر ایڈیٹر تعمیر پاکستان ویب سائٹ

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.