اشرافی ادبی فیسٹول کسی سماجی تبدیلی کا راستہ نہیں بن سکتے

فاروق سلہریا جوکہ بائیں بازو کے نظریات کے حامل صحافی،سرگرم کارکن اور کئی کتابوں کے مترجم ہیں سے میری شناسائی ان لاہور میں آمد کے بعد بائیں بازو کے ایک گروپ “جدوجہد”کے ساتھ وابستگی کے زمانے میں ہی قائم ہوگئی تھی

2-11-2014_231828_l_akb

وہ بھی میری طرح پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر ایسے کارکن تھے جو پارٹی کی نظریاتی بنیادوں کو پھر سے استوار کرنے کے خواہش مند تھے اور پی پی پی کو بجا طور پر ایک سوشلسٹ،سیکولر لبرل جماعت دیکھنے کے خواہاں تھے

پھر ہم دونوں نے جیت،ینگ فائٹرز اور لیبر پارٹی تک کا سفر بھی کیا اور اس دوران وہ رسالہ جدوجہد کے مدیر بنے تو میں بھی اس رسالے کا مستقل لکھاری تھا اور مارکس،اینگلس،لینن ،ٹراٹسکی سمیت بہت سے مارکسی لکھاریوں کی تحریروں کا ترجمہ بھی کیا

سلہریا پھر سویڈن چلا گیا اور وہاں سے واپس لوٹا تو وقت و حالات کافی پلٹا کھاچکے تھے اور سلہریا کا یقین فاروق طارق پر جما رہا مگر میں اس سے منحرف ہوگیا

سلہریا کی کافی عرصے بعد ایک مضبوط نظریاتی تنقید نظر سے گزری جو اس نے انگریزی روزنامے دی نیوز انٹرنیشنل میں لکھی اور اس کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر صحافی عائشہ صدیقہ نے ٹیگ کیا اور ساتھ ہی ایک تبصرہ بھی لکھا کہ

“فیض احمد فیض کو اس کی بیٹیوں اور متعلقین نے کارپوریٹ براںڈ بنا ڈالا ہے”

فاروق سلہریا اپنے مضمون میں پاکستان کے اندر ہندوستان اور دوسرے ایشیائی و یورپی ملکوں میں منعقد ہونے والے “ادبی فیسٹولز” سے متاثر ہوکر شروع کئے جانے والے “کراچی ادبی فیسٹول(کے ایل ایف) و لاہور ادبی فیسٹول(ایل ایل ایف)”کی پولیٹکل اکنامی،ان کی طبقاتی نوعیت و ساخت اور ان کی طبقاتی ساخت بارے سوالات اٹھائے ہیں جو اپنی جگہ اہم ہیں

فاروق سلہریا اپنے مضمون کا آغاز یہ بتانے کی کوشش سے کرتے ہیں کہ کلچرل انڈسٹری کا ظہور جب مغرب کے اندر سرمایہ داری نظام کے آنے بعد بالغ ہوکر سامنے آنا شروع ہوا تو بہت سے ریڈیکل دانشوروں (پال بران،پال سیوزی،ریمنڈ ولیمز،سی ایچ ملز،ھربرٹ مارکیز،رالف ملی بینڈ اور ای پی تھامپسن)نے اس بارے بات شروع کردی تھی اور وہ اکثر اس کو کلچرل آپریٹس کہا کرتے تھے

پھر آرتھر نے مارکسی نکتہ نظر سے مغربی ثقافتی انڈسٹری کا باضابطہ سنجیدگی سے تجزیہ شروع کیا

برتھولٹ بریخت کلچرل آپریٹس سے مراد ہر وہ پروسس اور سورس لیتا ہے جس کے زریعے سے کسی بھی آرٹ پر مشتمل کام کو پبلک کے سامنے لایا جاتا ہو اور وہ کہتا ہے کہ یہ آج کے ایسے دور میں ہورہا ہے جو پروموٹرز،قیاس انگریزوں اور مڈل مین کی دنیا ہے

بریخت کا یہ بھی کہنا تھا کہ کاموڈیٹی پر بنیاد رکھنے والا معاشرہ کلچرل آپریٹس کو یہ اجازت کبھی بھی نہیں دیتا کہ ان سے کوئی ریڈیکل کام لیا جاسکے کہ وہ اس کی بنیاد کے خلاف ہی جانا شروع کردے

کلچرل آپریٹس اجارہ دار سرمایہ داری کے ماتحت معاشرے میں آرٹ کی تجارت کرتے ہیں اور کلچر و آرٹ کے اصل مقصد کی نفی کرتے ہیں

سلہریا کلچرل آپریٹس کے تصور کو دانشورانہ طور پر سامنے لانے اور اس کو تھیوریز میں ڈھالنے کے حوالے معروف مارکسی اسکول فرینکفرٹ اسکول کے کردار کو بھی بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کیسے اس اسکول کے اہم مارکسی دانشور فرام نے 1932 ء میں اپنی تحریروں میں اس تصور پر بات کرنی شروع کی

ایرک فرام نے بعد میں کلچرل آپریٹس کو ایسے فلٹر سے تعبیر کیا جو کہ اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی چیزیں معاشرے کے سماجی لاشعور میں چلی جانی چاہئیں

فرام کہتا ہے کہ اپنی محنت کے بے گانہ ہوجانے کے سب بے گانگی کا شکار صنعتی مزدور بتدریج ثقافتی آپریٹس کے زیر اثر آتا ہے (ثقافتی آپریٹس جیسے فلمی،ٹی وی کمرشلز،فلمیں،ٹی وی،اخبارات وغیرہ جو سب اجارہ دار سرمایہ داری کو مضبوط کرنے کا کام کرتے ہیں)اور آہستہ آہستہ ان سے ہم آہنگ ہونے لگتا ہے

سلہریا بتاتا ہے کہ یہ مارکیز تھا جس نے اپنے 33 مقالے جو اس نے 1947ء میں لکھے پہلی مرتبہ پوری طرح سے اجارہ دار سرمایہ داری کے کلچرل آپریٹس کو ایک مربوط تصور کی شکل میں پیش کیا

ملز بھی کلچرل آپریٹس پر اپنے کام کو 1962 میں اپنی اچانک موت کی وجہ سے مکمل نہ کرسکا لیکن اس نے ان پہلوؤں کو واضح کرڈالا جن کو فرینکفرٹ اسکول نے نمایاں کیا تھا

ملز کے ںزدیک کلچرل آپریٹس میں وہ تمام تنظیمں اور زرایع شامل کئے جن میں فنکارانہ،دانشورانہ اور سائنسی کام کا ظہور ہوتا ہے

سلہریا کہتا ہے کہ فرینکفرٹ اسکول جب سرمایہ دارانہ نظام میں ابھرنے والی مغربی ثقافتی انڈسٹری کے کلچرل آپریٹس کو تصورات کی شکل میں ڈھال رہے تھے تو اسی وقت ملز اس آپریٹس میں ایک دانشور کے کردار کو دریافت کرنے کی کوشش کررہا تھا

سلہریا اس موقعہ پر فیض احمد فیض کی مثال دیتا ہے کہ کیسے وہ بھی زرا مختلف سیاق و سباق میں ایک دانشور کے کردار بارے کھوج لگارہے تھے

فیض کے ایک مضمون “پاکستانی لکھت کاروں سے اپیل” کا حوالہ دیتے ہوئے سلہریا بتاتے ہیں کہ فیض پاکستانی لکھت کاروں کو کہتے ہیں کہ ان کے قلم کو ان تمام عناصر کی مذمت میں وقف کرنا چاہئیے جو سامراجی ،نسل پرستانہ اور نوآبادیاتی مذموم صفات سے متصف ہیں اور ان کو مشرق اور مغرب کے ان لوگوں کی حمائت کے لیے لکھنا چاہئیے جو اپنی آزادی اور امن کی عالمگیر تحریک کے لیے جدوجہد کررہے ہیں

فاروق سلہریا کا خیال یہ ہے کہ کراچی ادبی فیسٹول یا لاہور ادبی فیسٹول جیسے ادبی فسیٹول کی پولیٹکل اکنامی کا سوال اگر اٹھایا جائے تو جو بات سب سے پہلے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ فیسٹولز سامراجی سفارت خانوں،سامراجی مالیاتی اداروں اور کارپوریٹ ہاؤسز کے چندوں سے منعقد ہوتے ہیں

یہ فیسٹول اصل میں اپنی کمرشل لاجک بھی رکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان ادبی فیسٹول کے زریعے سے فیشن ایبل سلیبرٹیز کو عالمی طور پر مارکیٹ کرنا ہے اور ساتھ ساتھ ان کی مقامی طور پر بھی مشہوری کرنا ہے

سلہریا کے نزدیک یہ ادبی میلے کلچرل آپریٹس کے اشاعتی سرمایہ دار اداروں کے وائٹل کاگ بھي ہیں اور یہ ادبی میلے کسی بھی لحاظ سے گراس روٹ عوامی تحریکوں کی ترجمانی بھی نہیں کرتے

سلہریا یہاں پر ان ادبی فیسٹولز کا موازنہ ادبی تنظیموں انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقہ ارباب زوق سے بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک تو ان تنظیموں کی بنیاد اراکین کا چندہ ہے اور پھر ان کے اجلاس عام جگہوں پر ہوتے ہیں نہ اشرافی مقامات پر جہاں پر اشرافی شخصیات کا ایسا جمگھٹا ہوتا ہے جہاں عام آدمی کی آواز سننا ہی مشکل ہوتاہے

‎سلہریا نے اپنے اس مضمون میں ایسے ادبی فیسٹولز کے بارے میں بہت ہی ٹھوس سوالات اٹھائے ہیں

میرے خیال میں پاکستان میں ہونے والے ادبی فیسٹولز کے اندر اس فیسٹولز کے آرگنائزر خود ہی ایسے پیرا میٹرز مقرر کردیتے ہیں اور ان فیسٹولز کے اندر جو مختلف سیشن ہوتے ہیں ان کے پینلسٹ بھی خود ہی سیلف سنسر اپنے اوپر لاگو کئے رکھتے ہیں جس سے وہ سوالات تھ بالکل اٹھائے ہی نہیں جاسکتے جن کے اٹھانے سے آپ فوری طور پر ان قوانین کی زد میں آسکتے ہیں جو بھٹو صاحب اور ضیاء الحق کی اسلامی قانون سازی کے نتیجے میں بنے یا پھر ان تمام قوتوں کے حملے کی زد میں آنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے جنہوں نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ،سابق گورنر سلمان تاثیر ،سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو قتل کردیا تھا

ان فیسٹول میں کوئی ایک سیشن بھی شیعہ،بریلوی ،احمدی،عیسائی ،ہندؤ نسل کشی بارے رکھا نہیں گیا اور کسی ایک نے بھی دیوبندی جڑیں رکھنے والی طالبانی فسطائیت اور دھشت گردی بارے اظہار خیال کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور اس کے پاکستانی ریاست کی اسٹبلشمنٹ اور دیگر پولیٹکل آپریٹس کے ساتھ رشتے اور ہمارے ادب،ثقافت اور آرٹ پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی

اور یہ کوشش ہوتی بھی کیسے ہمارے اکثر لبرل ،سیکولر دانشور تو ابھی تک موجودہ دھشت گردی کی جڑوں کا تعین کرنے اور اس کے مرتکب عناصر کی شناخت بارے ہی کنفیوژ ہیں اور کلجرل آپریٹس میں طالبانی فسطائی کلچر بارے کوئی بات کرنے سے قاصر ہیں

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.