چل پڑا ہے قافلہ اب نہیں رکے گا، بلوچ لانگ مارچ خانیوال میں

IMG0029B

یہ فروری کی یکم تاریخ تھی اور ہفتے کا دن تھا جب میں 12 بجے سے ہی جاکر لاہور موڑ خانیوال پر کھڑا ہوگیا تھا اور میری نظریں مشرق کی سمت ملتان کی طرف سے آنے والی سڑک پر لگی ہوئی تھیں

میرے ہاتھوں میں تازہ گلابوں کا ایک بوکے تھا اور چند اخبارات تھے،میں نے صبح سویرے اپنے سیاسی استاد محمد اعظم خان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اعظم بھائی کو بلایا

ان کے سامنے میں نے دی وائس فار مسنگ بلوچ کے روح رواں ماما قدیر بلوچ کا نمبر ملایا تو آگے سے ایک نعت کے بول سنائی دینے لگے

“فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے مگر

ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں”

تھوڑے توقف کے بعد ماما کی فون پر آواز سنائی دی

میں نے اپنا تعارف کرایا اور پھر پوچھا کہ وہ کہاں تک پہنچے؟

انہوں نے کہا کہ وہ خانیوال سے 6 کلومیٹر دور ہیں

میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ڈسٹرکٹ بار،ڈسٹرکٹ پریس کلب اور سیاسی و سماجی کارکنوں کو پیغام دیا کہ ان کو لاہور موڑ پر آنا چاہئیے اور بلوچ مسنگ پرسن کی بازیابی کے لیے پیدل مارچ کرنے والوں کا استقبال کرنا چاہئیے

جانتا تھا کہ بہت کنفوژن پھیلی ہوئی ہے شہر میں ایک حلقہ ایسا تھا جو بلوچستان میں مرنے والے پنجاب کے مزدروں ،ڈاکٹرز،تاجروں اور دیگر لوگوں کی ہلاکتوں پر بلوچستان کے لوگوں سے جواب کے طالب تھے

کچھ ایسے تھے جو خوفزدہ تھے ان نادیدہ ہاتھوں کی طاقت اور بدمستی سے جو آدمی کو ایسے غائب کرتے تھے جیسے سر سے سینگ

اب میں کیسے بتاتا کہ یہ جو 20 سے 25 مرد ،عورتیں بلکہ لڑکیاں اور بچے کوئٹہ سے پیدل چلکر پورا بلوچستان،پورا سندھ اور پوری سرائیکی بیلٹ کو عبور کرتے ہوئے خانیوال پہنچے ہیں تو ان کے ساتھ کیسے کیسے المیے جڑے ہوئے ہیں

ماما قدیر جس نے بلوچوں کی طرح لمبی سفید پگڑی پہنی ہوئی تھی اور ایک ہاتھ میں تسبیح تھی اکیلا تو اتنا لمبا سفر پیدل کرکے یونہی تو نہیں آگیا تھا بلکہ اس کے کندھے پر اس کے جواں سال بیٹھے کی مسخ شدہ لاش دھری ہوئی ہے جسے وہ سارے پاکستان کو دکھا رہا ہے کہ شاید انصاف کی کرن نظرآجائے

ابھی قافلہ زرا دور تھا کہ انسانی حقوق کمیشن کے کوآرڈینٹر اکرم خرم ایڈوکیٹ ،پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری اشرف گادھی،شیعہ برادری کی جانب ‎میر بابر ،اختر اور بیٹھک تنظیم کے شہزاد فرانسس،کبیروالہ پریس کلب کے آفس سیکرٹری امین وارثی  پھولوں کے ہار لیکر آگئے اور اس طرح سے ایک ڈھارس ہوئی

انتظار ختم ہوا اور ماما قدیر بلوچ،فرزانہ مجید بلوچ کی قیادت میں سامنے سے آتے ہوئے نظر آئے اور چلتے چلتے ہمارے قریب آگئے

میں ڈسٹرکٹ پریس کلب خانیوال،انٹرنیشنل سوشلسٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے پھولوں کا بکے پیش کیا اور میں نے کہا

“میرے بزرگ ماما قدیر بلوچ،میری بہنوں،اور بھائیو!

میں جانتا ہوں کہ آپ کا درد،تکلیف،اذیت اور کرب میرے چند تسلی کے جملوں سے دور ہونے والی نہیں ہے لیکن میں آپ کو یہ یقین ضرور دلانا چاہتا ہوں کہ آپ کے جو بھائی،باپ،اور دیگر دشتے دار اچانک غائب کردئے گئے ہیں ہم ان کی بازیابی کا مطالبہ کرنے میں آپ کو حق بجانب خیال کرتے ہیں

ہم ریاست کے کسی ادارے کے کسی اہلکار کی غیر آئینی ،غیر قانونی حرکت کی حمائت نہیں کرتے اور بلوجستان کی عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم کی شدید مذمت کرتے ہیں”

میں نے یہ جملے ادا کئے تو پھر ایک لڑکی جس کا نام راحیلہ بلوچ تھا کہنے لگی

“میرا بھائی ایک ماہی گیر تھا ،محنت مزدوری کرتا تھا اسے ایک دن اٹھالیا گیا اور یہ واقعہ 2009ء کا ہے اور اج 2014ہ ہے میرے بھائی کا کوئی پتہ نہیں ،کیا اپنے حق کی بات کرنا گناہ ہے ؟

فرزانہ مجید بلوچ کہنے لگی کہ

اس کا بھائی جو یونیورسٹی کا طالب علم تھا اچانک اٹھالیا گیا اور کون سا دروازہ ہے جو میں نے نہیں کھٹکایا ،کیا حاکم ،کیا جج صاحبان سب ہی نے طفل تسلیاں دیں اور حقیقت اپنی جگہ ہے کہ میرے بھائی کا تاحال کوئی پتہ نہیں ہے ،میں پوچھتی ہوں کہ اگر میرے بھائی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے  پرچہ کیوں نہیں دیتے،اسے عدالت کے روبرو پیش کیوں نہیں کرتے ؟

ماما قدیر نے اس موقعہ پر بیان دیتے ہوئے کہا

18ہزار چارسو بلوچ مسنگ ہيں،مارو اور پھینک دو کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے اور ابھی خضدار سے 125 مسخ شدہ لاشیں اجتماعی قبروں سے برآمد ہوئی ہیں جن کا ڈی این اے ٹسٹ غیرجانبداری سے کرکے رپورٹ سامنے لیکر آنی چاہئیے

ماما قدیر،فرزانہ بلوچ ،راحیلہ بلوچ اور دیگر بچیاں بول رہی تھیں اور مجھے سخت گٹھن کا سا احساس ہورہا تھا آخر یہ معصوم بچے،بچیاں کس جرم کی سزاکاٹ رہی ہیں؟وہ کون سے نادیدہ ہاتھ ہیں جو ان کے پیاروں کو غائب کردیتے ہیں

غائب ہونے والوں میں کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینیر ،کوئی طالب علم یہ سب ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں

غائب ہونے والوں کا سب سے بڑا قصور مجھے یہ نظر آتا ہے کہ انہوں نے حکومت سے اپنے حقوق کی مانگ شروع کی ہوئی تھی وہ اپنے گیس،تیل،سونے،چاندی اور دیگر قومی زرایع و وسائل کی لوٹ پر سراپا احتجاج تھے اور یہ بات ارباب اختیار کو برداشت نہیں ہوئی اور ظلم و جبر کا نیا باب وا ہوگیا

مجھے غریب الوطن مسافروں کے اس پیدل مارچ کے استقبال کے لیے بہت کم لوگوں کے آنے پر نہ جانے کیوں انتینو گرامچی کا کلچرل ہیجمنی یعنی ثقافتی تسلط کے فلسفے کی یاد آئی

ظہور دھریجہ صاحب ! مجھے افسوس ہے کہ آپ آخری تجزيے کے مطابق ایک شاؤنسٹ،متعصب قوم پرست نکلے اور آپ کی گفتگو سے بورژوازی قوم پرستی کا تعفن اٹھتا دکھا‏ئی دیا،انانیت کا غبار ایسا چھایا کہ آپ یہ بھول گئے کہ لہولہان پیروں کے ساتھ اور جوان بیٹے کی مصلوب لاش لیکر پیدل لانگ مارچ کرنے والا یہ ماما قدیر،اپنے بھائیوں کی جدائی میں گھر سے نکلنے والی فرازانہ و راحیلہ اور ان جیسی اور بچیاں آخر کوئٹہ کے سنگلاخ پہاڑوں اور کاٹ دینے والی سردی کا مقابلہ کرتے ہوئے قتلام کا ںطارہ بار بار کرنے والے ملتان تک آئے ہیں تو ان سے ہمدردی کا وقت ہے نہ کہ ان لاشوں کے حساب مانگنے کا جو ان پیدل مارچ کرنے والوں نے نہیں گرائیں وقت نہیں ہے

اگر غلامی کی زنجیریں واقعی توڑنی ہیں اور اپنے لوگوں کو استحصال سے نجات دلانی ہے تو کبھی موقعہ پاکر ایک عورت کے مضامین پڑھ لینا جسے دنیا “ارون دھتی رائے ” کے نام سے جانتی ہے

ارے یہ مجھے اس موقعہ پر ارون دھتی رائے کیوں یاد آئی اور مجھے پاکستان کا کوئی دانش ور،کوئی ادیب جو زندہ ہو کیوں یاد نہیں آیا؟

شاید مجھے آج کے تناظر میں کوئی زندہ ادیب پاکستان میں نظر ہی نہیں آتا

کے بی فراق گوادر سے لکھتے ہیں کہ

یہاں کے ادیبوں اور شاعروں کو فلسطین،کشمیر،برما،اراکان تو نظر آتے ہیں مگر اچانک گم ہوجانے والے بلوچ نظر نہیں آتے اور جو کھیل بلوچستان کی سرزمین پر کھیلا جارہا ہے اس بارے سب نے لب سی رکھے ہیں

بلوچستان میں سب ٹھیک نہیں ہے ورنہ اجتماعی قبروں کی دریافت نہ ہوتی،مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے نہ ملتیں اور قلی کیمپ پھر سے پرہجوم نہ ہوتا

ارون دھتی رائے کی استعاراتی زبان کا اگر استعمال کروں زرا ترمیم کے ساتھ تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ

“بلوچستان میں نو گیارہ نہیں ہیں اور نہ ہی نومبر ستمبر ہے”

“پاکستان میں کئی گھنٹوں کے تجزئے،کبھی نہ ختم ہونے والے کالم اور اینکر پرسنز کی پرویز مشرف کی قسمت پر گھنٹوں گھنٹوں کے پروگراموں کی کوئی کمی نہیں ہے

لیکن بلوچستان میں جو بدمست ہاتھی کی بدمستیاں ہیں اس کا کوئی زکر نہيں ہے،امریکی سی آئی اے،اسرائیلی موساد،بھارتی راء اور افغانی راما پر ماہرین،ریٹائرڈ جرنیلوں اور سابق سفارت کاروں اور سٹریٹجک ایکسپرٹ کی گفتگو ختم ہونے والی نہیں ہے مگر کہيں کوئی بڑا تذکرہ خضدار کے نواحی قصبے توتک کا نہیں ہے،اللہ نذر کے گاؤں پر گرائے جانے والے بارود کا نہیں ہے،پنجگور کے آپریشن کا زکر نہیں ہے

یہاں ایسے امراء کی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ اگر ان کی حفاظت کا خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا تو وہ ٹیکس دینا بند کردیں گے لیکن یہاں کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہاں غریبوں کی جان کو ہمیشہ کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی

بلوچ،بلوچستان ہمارے ہاں آہستہ آہستہ ایک ٹیبو کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں اور ان کی نسل کشی پر پردے ڈالنے کی کوشش جاری ہیں اور جھوٹے خواب دکھائے جانے بلکہ جھوٹ کو سچ بناکر اور سچ کو جھوٹ بناکر دکھانے کی کوشش جاری ہے

ہمارے ہاں ایک بھی کالم کار،ایک بھی آرٹسٹ،ایک بھی ادیب ایسا نہیں ہے جو سات سمندر پار جاکر دوسروں کا احوال بتانے کی بجائے زرا پیدل مارچ کرے روجھان کے راستے سے اور اپنے اس سفر کا روز احوال لکھے اور بلوچستان کو آئینہ کرکے رکھ دے

سچی بات یہ ہے کہ ایسا قلم کار،ایسا کرانتی کاری،ایسا آرٹسٹ،ایسا ادیب تو میں بھی نہیں ہوں نہیں جانتا ایسا قلم کار کرانتی کاری کب یہاں جنم لے گا جو حقیقت مینوفیکچر نہیں کرے گا بلکہ جو ہوگی اسے بیان کرے گا تب وہ خواب پورا ہوگا کہ

چل نکلا ہے قافلہ-اب نہیں رکے گا

Comments

comments

Latest Comments
  1. Gull Muhammad Baloch
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.