شہید ذوالفقار علی بھٹو ایک زندہ تحریک

Zulfikar-ali-bhutto-PHOTO-SHAHID-ALI-EXPRESS-640x480

شہید ذوالفقار علی بھٹو ایک زندہ تحریک

قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کا 85واں یوم ولادت آج دنیا بھر میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے. گڑھی خدا بخش میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کی تقریبات جاری ہیں۔ ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکن ان کے مزار پر حاضری دے رہے ہیں اور فاتحہ خوانی کررہے ہیں۔ کارکنان نے مزار پر قرآن خوانی کا بھی اہتمام کیا ہے۔، اس کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کی یاد میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ملک بھر میں تقاریب منعقد کی جارہی ہیں۔

 

ریڈیوپاکستان آج تیسرے پہر ساڑھے چار بجے ان کی سالگرہ کے موقع پرایک خصوصی پروگرام نشرکرےگاجس کا موضوع ہے ذوالفقارعلی بھٹو کی سیاسی اور جمہوری خدمات ۔

 

پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928ء کولاڑکانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بمبئی ، کیلیفورنیا اور آکسفرڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔ جنہوں نے اپنی زندگی آمریت کے خلاف جدوجہدٴ جمہوریت کی بحالیٴ عوام کی خدمت ان کی فلاح و بہبود اور پاکستان کو دنیا کے نقشہ پر ایک با وقار اور اہم ترین مقام دلانے کے لئے صرف کیٴ پی پی پی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر لکھتے ہیںٴ چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 ئ کو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک موہنجو ڈارو کی سر زمین لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ پاکستانی سیاست کی ایک روایت کے مطابق انہوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ نچلے طبقات کے لئے سیاست کے دروازے کھول دیئے انہوں نے عوام میں بنیادی حقوق کا شعور اور حقیقی مسادات و آزادی کی محبت پیدا کی اپنی جدوجہد کے نتیجے میں وہ پاکستانی سیاست کی ماہیت و کیفیت میں انقلابی تبدیلیاں رونما کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے سیاست کے پرانے جاگیرداری کلچر کو عوامی بنادیاٴ یعنی عوامی سیاستٴ عوام کے ذریعےٴ عوام کے لئے یہی حقیقی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ ان سے پہلے پاکستان میں ایسے کسی تصور کا وجود نہیں تھا۔

شہید بھٹو نے نظریاتی اور عملی اعتبار سے عوامی سیاست کی بنیاد رکھی۔ شہید بھٹو نے تمام مکتبہ فکرٴ تمام طبقات اور تمام انسانوں کو عزت و احترام دیاٴ خصوصاً انہوں نے طالب علمٴ رہنمائوںٴ وکلائ برادریٴ مختلف بار کونسلوں کے عہدیداروںٴ مزدوروںٴ کسانوںٴ اقلیتوں کو وہ عزت و احترام دیا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قافلے میں جوق در جوق شامل ہونے لگے۔ شہید بھٹو کی عوامی سیاست کے سامنےٴٴ اسٹیٹس کوٴٴ کی قوتیں بے بس ہوگئیں تھیں شہید بھٹو نے پارٹی پروگرامٴ اپنے نظریات و خیالات کو بڑی سادگیٴ وضاحت اور عوامی انداز میں پیش کیا۔ جس کے نتیجے میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے انہیں بے پناہ تائید و حمایت حاصل ہوئی۔ شہید بھٹو نے خاص طور پر نوجوان نسل کو قیادت کے لئے ابھاراٴ انہیں پارٹیٴ اور بعد میں حکومت میں اہم عہدوں پر فائز کیا۔ نوجوان لیڈروں کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک اہم سیشن میں شرکت کے لئے بھیجا۔ شہید بھٹو نے سیاست کے پرانے روایتی فرسودہ کلچر کو دفن کرکے ایک نئے سیاسی کلچر کی بنیاد رکھیٴ جس میں ووٹ کی طاقتٴ غریب طبقات کے ہاتھ میں تھیٴ یہ اصول آج پاکستان کی سیاست میں تسلیم کئے جاچکے ہیں۔ شہید بھٹو نے جس عوامی سیاسی کلچر کو معاشرے میں روشناس کروایا۔ اس میں ایک جاگیردار اور امیر کبیر سیاسی امیدوار کو بھی ووٹ کے لئے غریب کے گھر جانا پڑتا ہےٴ بھٹو ازم نے ایک باقاعدہ مسلک کے طور پر فروغ پایا۔ جس کا اہم سبب جمہوریت کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کی جدوجہد اور بھٹو خاندان کی قربانیاں ہیں۔ بھٹو اور پیپلز پارٹی پاکستان میں جمہوریتٴ وفاقٴ انسانی آزادیٴ عوام کے عزت و وقار کی بحالی کے لئے جدوجہد کی سب سے بڑی علامت بن چکی ہے۔ شہید بھٹو نے پاکستانی روایتی سیاست کو ڈرائینگ روم اور اخباری بیانات سے نکال کر عوام کے ساتھ سڑکوں اور گلیوں میں لے آئے۔ وہ کہتے تھےٴ ایک بھٹو میں ہوںٴ اور دوسرا بھٹو آپٟ عوامٞ ہیں۔ بھٹو اور عوام میں کوئی فرق نہیں ۔

پاکستان کے سیاسی افق پر شہید ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک بن کر ظاہر ہوئے تھےٴ اس کی قیادت کے اعلیٰ کردار اور پارٹی کے عوامی منشور نے ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا۔ پی پی پی میں سول سوسائٹی کا ایک بڑا قافلہ جوق در جوق شامل ہوا طلبہ و طالبات اور نوجوان طبقہ اس کا ہر اول دستہ بناٴ وکلائ برادریٴ ٹریڈ یونینٴ مزدوروںٴ کسانوںٴ شاعروںٴ دانشوروںٴ ادیبوں اور آرٹسٹوں نے پارٹی کو مضبوطی بخش۔ اس عوامی قوت کے آگے تمام فوجی آمر اور ان کی سرکاری جماعتیں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیںٴ فرسودہ نظام کی گرہیں کھل گئیںٴ فوجی حکومتٴ وڈیرہ ازمٴ صنعتی اجارہ داریاں اور سول ملٹری بیورو کریسی کاظالم اندھیرا ختم اور حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہونے لگا۔

شہید بھٹو نے اپنی شاندار خداداد صلاحیتوں کی بدولت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی اقوام کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا آغاز کرنے سے قبل انہوں نے عوام کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط کیا جس کے لئے وہ سب سے پہلے اقتدار کی مسند کو ٹھوکر مار کر عوام کی صفوں میں آگئے تھے اور ایوب کی فوجی آمریت کے خلاف ایک عوامی تحریک کا آغاز کرکے ایک تاریخی جدوجہد کرتے ہوئے اس ملک کو پارلیمانی جمہوریت اور متفقہ آئین کا تحفہ دیاٴ اور عوام کو جمہوریت کے تصور سے روشناس کروایا۔

انہوں نے ملک سے مارشل لائ اٹھایاٴ تاریخ ساز شملہ معاہدہ کیاٴ پہلے ایٹمی ریکٹر کا افتتاح کیاٴ پاکستان کے مقبوضہ علاقے بھارت سے واگزار کروائےٴ بھارت سے جنگی قیدیوں کی واپسی کا معاہدہ کیاٴ شہید بھٹو کی بدولت پاکستان سلامتی کونسل کا رکن بناٴ قائد عوام نے بین الاقوامی انرجی کمیشن سے فرانس سے پلانٹ حاصل کرنے کی اجازت لیٴ نیو کلیئر ری پراسیسنگ پلانٹ حاصل کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے۔ شہید بھٹو کو تیسری دنیا کے 77 ممالک نے ان کی فہم و فراست کا یہ تحفہ دیا کہ پاکستان تیسری دنیا کا چیئرمین بنا۔ مزید برآںٴ بین الاقوامی میڈیا اور اداروں نے بھی شہید بھٹو کی عظمت کو انتہائی خراج تحسین پیش کیا ہےٴ نیویارک ٹائمز کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے مختصر عرصے میں پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک آزاد جمہوری ملک کا روپ عطا کردیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو مزاج کے لحاظ سے عقلی اور سیاسی اعتبار سے ان جرنیلوں پر فوقیت حاصل ہےٴ جو ملک پر حکمرانی کررہے تھےٴ ان تمام ابتدائی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے اقدامات نے اس حقیقت کی تصدیق کردی۔ نیوز ویک نے ان الفاظ میں شہید بھٹو کو خراج تحسین پیش کیاٴ آنے والے دنوں میں ذوالفقار علی بھٹو ہی پاکستان کی بڑی امید ہیں۔ ان کے نقاد بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ بھٹو صاحب بنیادی طور پر ایک مخلص جمہوریت پسند قوم پرست ہیں۔

شہید بھٹو نے جمہوریتٴ وفاقیت کی مضبوطی اور عوامی نمائندہ اداروں کی بالادستی کی جو جنگ لڑی ہےٴ اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا انہوں نے عوام اور جمہوریت کا نیا اسلوب عوام کو دیا ہے انہوں نے عوام کو ان کے حقوق سے روشناس کروایاٴ جس سے ان میں ایک نیا جوش و خروش ایک نیا ولولہٴ ایک نئی بصیرت اور قیادت کا نیا تصور پیدا ہواٴ شہید بھٹو نے جو طرز سیاست دیا تھاٴ آج بھی ان کے پیرو کارٴ صدر مملکت آصف علی زرداری کی قیادت میں انہیں اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آئینی پارلیمانی بالادستیٴ وفاقیت کی مضبوطی اور جمہوریت کے استحکام کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

5 جولائی1977 کو جنرل ضیائ الحق نے جمہوری آئینی حکومت کو برطرف کرکے ملک میں مارشل لائ نافذ کردیاٴ بیگم نصرت بھٹوٴٴ یادیں اور یادیںٴٴ میں شہید بھٹو کے عزم جراتٴ اور استقامت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیںٴٴ جب عدالت نے ان کے لئے سزائے موت کا حکم جاری کردیا تو میں ان کے لئے رحم کی اپیل داخل کرنا چاہتی تھیٴ مگر انہوں نے کہاٴٴ اگر تم نے ایسا کیاٴ اور ضیائ نے مجھے رہا کردیاٴ تو میں عوام کے سامنے کیا منہ لے کر جائوں گاٴ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لوں گاٴ لہٰذا رحم کی اپیل دائر نہ کی گئی اور شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنے حق اور جمہوریت کے موقف پر ڈٹے رہا۔ شہید بھٹو کو 4 اپریل کو صبح سویرے منہ اندھیرے پھانسی دے دی گئی مگر انہوں نے حق و سچ اور عوامی حقیقی جمہوریت کے لئے آمروں کے خلاف جو آواز بلند کی تھیٴ وہ آج بھی زندہ ہےٴ بھٹو ایک زندہ تحریک کا نام ہے۔آج پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی قیادت میں شہید بھٹو کے فلسفہ پر چلتے ہوئے جمہوریت کے خلاف ہر طرح کے چیلنجز اور بحرانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Khalid Bhatti
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.