یوم نجات 12 دسمبر: پاکستانی قوم چیف جسٹس افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ پر خوش کیوں؟
Related post (2012): Countdown for Chief Justice Iftikhar Chaudhry – by Arbab Zaheer https://lubpak.com/archives/230078
نیوز رپورٹ: بارہ دسمبر پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ کا دن ہے اس دن جہاں چیف جسٹس کے کچھ حامی جن کا تعلق طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف وغیرہ سے ہے اداس ہیں وہیں پاکستانیوں کی کثیر تعداد یوم نجات بھی منا رہی ہے – بی بی سی اور دیگر میڈیا رپورٹس کے مطابق سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، پنجاب اور گلگت بلتستان میں مختلف مذاھب، فرقوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے 12 دسمبر 2013 کو یوم نجات منانے کا اعلان کیا ہے
چیف جسٹس افتخار چودھری مختلف وجوہات کی بنیاد پر پاکستان کی تاریخ کے متنازعہ ترین چیف جسٹس رہے ہیں – نیوز رپورٹس کے مطابق ان سے لوگوں کی ناراضی کی وجوہات حسب ذیل ہیں
طالبان اور سپاہ صحابہ کی حمایت: افتخار چوہدری کے دور میں پاکستانی عوام اور فوج کے دشمن گرفتار شدہ تکفیری خوارج دہشت گردوں کو رہا کیا گیا جن میں ملک اسحاق، خلیفہ عبدالقیوم، خادم ڈھلوں، ملا برادر وغیرہ شامل ہیں – افتخار چودھری کے قریبی رشتہ دار رانا ثنااللہ سپاہ صحابہ اور طالبان کے دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے رہے اور ان کے اشارے پر کسی بھی گرفتار شدہ دہشت گرد کو سزا نہیں سنائی گئی
ارسلان چودھری کی کرپشن: سموسے کی قیمت پر از خود نوٹس لینے والے اور حکومتی وزرا کو معزول کرنے والے چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کی کروڑوں روپے کی کرپشن ہڑپ کر لی اور اس کو کوئی سزا نہیں دی
نواز شریف کی خدمت: افتخار چودہری کے دور میں عدالت عظمیٰ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حمایت میں کھل کر سامنے آئی – پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین صدر مملکت زرداری کے خلاف سیاسی مہم جوئی کی گئی ، وزیر اعظم گیلانی کو معزول کیا گیا لیکن نواز لیگ کے افراد خاص طور پر شریف فیملی کی کرپشن سے پردہ پوشی کی گئی
شیعہ نسل کشی اور بلوچ نسل کشی: افتخار چوددھری نے گرفتار شدہ طالبان اور سپاہ صحابہ کے تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے انسانی حقوق کے لئے غائب شدہ افراد کے نام پر سیکیورٹی اداروں کو تنگ کرنے کی کوشش کی لیکن انہی تکفیریوں کے ہاتھوں شیعہ، سنی بریلوی، احمدی اور مسیحی پاکستانیوں کی شہادت پر چپ سادھ لی – بلوچستان میں سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں بلوچ نوجوانوں کی شہادت پر کوئی توجہ نہ دی
جنگ گروپ کی خدمت: افتخار چودھری نے جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمن سے اپنے ذاتی تعلقات انصار عباسی اور نجم سیٹھی کی وساطت سے مستحکم رکھے اور جنگ و جیو کی ٹیکس چوری اور کرپشن کی پردہ پوشی کی
بی بی سی اردو میں شاہد ملک لکھتے ہیں کہ افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک چلانے والے وکلا بھی ان کی ریٹائرمنٹ پر یوم نجات منا رہے ہیں
تین نومبر سنہ دوہزار سات میں پاکستان میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد جسٹس افتخار محمد چوہدری کی چیف جسٹس کے عہدے پر اور اعلیٰ عدلیہ کے دیگر ججز کو بحال کروانے کے لیے چلنے والی تحریک کے کرتا دھرتا افراد شاید افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ پر اُتنی ہی خوشی محسوس کر رہے ہیں جتنی اُنہیں 16 مارچ سنہ 2009 کو اُنہیں افتخار محمد چوہدری کی بطور چیف جسٹس بحالی پر ہوئی تھی
اس عرصے کے دوران وکلا تحریک کے سرکردہ رہنما چیف جسسٹس سے دور ہوتےگئے شاید اس کی وجہ افتخار محمد چوہدری کے ایسے اقدامات ہیں جن پران رہنماؤں کو تحفظات تھے۔
اُن رہنماؤں میں چوہدری اعتزاز احسن ، علی احمد کُرد، جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود، سردار لطیف کھوسہ شامل ہیں
سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کا شمار اُن افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے ججز بحالی کے لیے وکلاء تحریک میں سب سے پہلے اپنا خون دیا۔ اسلام آباد کے شاہراہ دستور پر وکلا کے مظاہرے کے دوران پولیس نے جن کے سر پر سب سے پہلے لاٹھی برسائی وہ سردار لطیف کھوسہ ہی تھے۔
سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ وکلاء نے جس مقصد کے لیے عدلیہ بحالی کی تحریک شروع کی تھی وہ مقصد پورا نہیں ہوا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس تحریک کا مقصد افتخار محمد چوہدری کی ذات کی بحالی نہیں بلکہ عدلیہ کو خود مختار بنانا تھا اور خاص طور پر ضلعی عدالتیں جہاں پر لوگ آج بھی انصاف کے حصول کے لیے آتے ہیں جہاں پر اُنہیں اپنا حق لینے کے لیے سالوں بیت جاتے ہیں۔
سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ وکلاء نے جس مقصد کے لیے عدلیہ بحالی کی تحریک شروع کی تھی وہ مقصد شائد پورا نہیں ہوا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس تحریک کا مقصد افتخار محمد چوہدری کی ذات کی بحالی نہیں بلکہ عدلیہ کو خود مختار بنانا تھا اور خاص طور پر ضلعی عدالتیں جہاں پر لوگ آج بھی انصاف کے حصول کے لیے آتے ہیں جہاں پر اُنہیں اپنا حق لینے کے لیے سالوں بیت جاتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ افتخار محمد چوہدری نے اس عرصے کے دوران جتنا وقت از خود نوٹس لینے اور ریاست کے دیگر اداروں کے امور میں مداخلت میں صرف کیا اتنا وقت وہ ضلعی عدالتوں میں اصلاحات پر صرف کرتے تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی۔
اُنہوں نے کہا کہ سنہ دوہزار سات کی تحریک کے بعد بحال ہونے والی اعلیٰ عدلیہ گذشتہ ادوار سے بہتر ضرور ہے
لیکن اس کے اثرات نچلی عدالتوں تک نہیں پہنچے۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہاکہ افتخار محمد چوہدری نے ایسے معاملات پر از خود نوٹس یا ایسے مقدمات کی سماعت کی جن کی وجہ سے وہ مقامی میڈیا پر چھائے رہے اور شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس دن اُن کا بیان یا اُن کے ریمارکس پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت نہ بنے ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اُنہیں وکلاء تحریک کا رہنما ہونے پر تو کوئی افسوس نہیں ہے البتہ مایوسی ضرور ہوئی کہ جس مقصد کے لیے اس تحریک کا آغاز ہوا تھا اُس کے ثمرات ابھی تک سامنے نہیں آئے۔
جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اُس وقت چیف جسٹس کی پالیسیوں سے اختلاف کیا اور اُن پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جب عدالت عظمیٰ نے پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرنا شروع کی۔
اُنہوں نے کہا کہ اس مخالفت کی وجہ سے اُنہیں مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا کیونکہ جب اُن کے کلائنٹس کو یہ احساس ہوا کہ طارق محمود چیف جسٹس کی پالیسیوں سے اختلاف ہے تو اُنہوں نے مقدمات واپس لے لیے۔
علی احمد کُرد بھی اُن وکلاء میں شامل ہیں جنہوں نے اس تحریک میں چیف جسٹس کی بحالی کے لیے کارواں کی لمحوں کی مسافت کو گھنٹوں اور پھر دنوں میں طے کیا لیکن افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد وہ چیف جسٹس کی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ کافی عرصے تک گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بعد افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل وہ منظر عام پر آئے ہیں۔ چیف جسٹس کے حمایتی وکلا کے گروپ سے علیحدگی کے سوال پر وہ کُھل کر بات نہیں کر رہے۔ تاہم یہ وہ ضرور کہتے ہیں کہ جس مقصد کے لیے اُنھوں نے لاٹھیاں کھائیں اور قید وبند کی صحبتیں برداشت کیں وہ رائیگاں چلی گئیں اور آج بھی لوگ انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
’
چیف جسٹس کے وکلاء حمایتی گروپ سے علیحدگی کے سوال پر علی احمد کرد کُھل کر بات نہیں کر رہے تاہم یہ وہ ضرور کہتے ہیں کہ جس مقصد کے لیے اُنھوں نے لاٹھیاں کھائیں اور قید وبند کی صحبتیں برداشت کیں وہ رائیگاں چلی گئیں اور آج بھی لوگ انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ وکلا نے عدلیہ بحالی کی تحریک افتخار محمد چوہدری کے لیے نہیں بلکہ عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے شروع کی تھی جس کا حصول آج تک ممکن نہیں ہوا۔ علی احمد کُرد شاید گیارہ دسمبر کے بعد جب افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے، اس پر کُھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں۔
بیرسٹر اعتزاز احسن اور عاصمہ جہانگیر جیسے وکلاء کے سرکردہ رہنما بھی چیف جسٹس کے مخالف گروپ کا حصہ نظر آتے ہیں۔ ان وکلاء رہنماؤں نے بھی اعلیٰ عدالتوں میں ججز کو تعینات کرنے کے لیے نام تجویز کرنے کے چیف جسٹس کے اختیار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے دیگر ارکان کو بھی نام تجویز دینے کا اختیار ہونا چاہیے۔
افتخار محمد چوہدری کی عہدے پر بحالی کے بعد اُن کا حمایتی سمجھا جانے والا وکلا کا گروپ مسلسل چار سال سے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں شکست کا سامنا کر رہا ہے۔
چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ پر چاروں صوبوں کی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اُن کے اعزاز میں الوداعی تقریبات کا بھی اہتمام نہیں کیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/12/131210_cj_tenure_lawyers_reaction_rk.shtml
Comments
Latest Comments
I am pleased that Takfiri Saudi ideological CJ will be gone for good. I hope and I pray to Allah that next CJ would be a really justice not the Qazi who gets favors from the killers of Christians, Ahmadis, Sunni Barelvis and Shias.
سنہ 2007 میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں شروع ہونے والی عدلیہ بحالی کی تحریک 16 مارچ سنہ 2009 کو چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کی بحالی کی صورت میں اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔
اس وقت عوام کا مرکزِ نگاہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری تھے جو اب ریٹائر ہو رہے ہیں۔ وکلا کی کامیاب کے نتیجے میں عدلیہ تو آزاد ہوئی لیکن عام لوگوں کے مسائل شاید پہلے سے بھی بڑھ گئے ہیں۔
لوگوں کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کی حقیقت جاننے کے لیے جب سپریم کورٹ کا رخ کیا تو وہاں ایک سائل محمد شریف کیانی سے ملاقات ہوئی۔
ذیلی عدالتوں میں وکلا کی بھاری فیسیں ادا کرتے کرتے تھک جانے کے بعد وہ سپریم کورٹ کے دروازے پر تھے لیکن انصاف کے لیے چیف جسٹس کو لکھی گئی درخواست کی شنوائی نہ ہو سکی۔
وہ کہتے ہیں: ’ضلعی عدالت میں بیٹی کے حق میں ڈگری ہوئی تو مخالف پارٹی دوسری عدالت میں چلی گئی اور اب اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔ پہلے وکیل کو پچاس ہزار روپے کی فیس دی اور پھر دوسرے کو مالی حالات خراب ہونے کے باوجود ایک لاکھ روپے دیے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اب ایک ماہ سے زیاہ عرصہ ہوگیا ہے چیف جسٹس صاحب کو درخواست دی ہے، آج کوئی امید تھی کہ کچھ ہو جائے گا لیکن وہ بڑے کیس میں مصروف تھے۔‘
جب ان سے پوچھا کہ چیف جسٹس تو کل ریٹائرڈ ہو رہے ہیں تو شریف کیانی نے کہا کہ ’ان سے بہت امیدیں تھیں لیکن اب کیا ہو سکتا ہے۔‘
“اگر کسی وکیل کی خدمت حاصل کی ہوتی تو آج میں یہاں نظر نہیں آتا کیونکہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اور نہ ہی میں وکلاء کی فیسیں برداشت کر سکتا تھا۔”
سید محمد اقتدار حیدر
سپریم کورٹ کے باہر ہی سید محمد اقتدار حیدر سے ملاقات ہوئی جو سنہ 1997 سے عدالتوں میں اپنے مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا کہ کسی وکیل کی خدمات کیوں حاصل نہیں کیں تو ان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی درخواست دائر کرنا سیکھ لیا۔
’ اگر کسی وکیل کی خدمت حاصل کی ہوتی تو آج میں یہاں نظر نہیں آتا کیونکہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اور نہ ہی میں وکلا کی فیسیں برداشت کر سکتا تھا۔‘
’انصاف سب کے لیے‘ وکلا کی رائے
علی احمد کرد انصاف کی موجودہ صورتحال سے مایوس ہیں
کیا واقعی اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے بعد فوری اور سستے انصاف کا خواب پورا نہیں ہو سکا اور انصاف کا حصول مزید مہنگا ہو گیا ہے؟
“بس کیا کہوں ایک آدمی کو قدرت نے اتنا بڑا موقع دیا لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا اور ایک عام اور غریب آدمی کا حال ویسے کا ویسے ہی ہے۔”
علی احمد کرد
اس پر وکلاء تحریک میں’ انصاف سب کے لیے‘ کے نعرے لگانے والے جوشیلے وکیل رہنما علی احمد کرد سے بات کی تو انہوں نے دلبراشتہ ہو کر کہا کہ اس پر بات کرنے کا دل نہیں کرتا ہے۔
’بس کیا کہوں ایک آدمی کو قدرت نے اتنا بڑا موقع دیا لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا اور ایک عام اور غریب آدمی کا حال ویسے کا ویسے ہی ہے۔‘
اس پر مزید بات کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے کہا کہ چیف جسٹس کے دور میں انصاف بالکل مہنگا ہوا۔
“کچھ لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ چونکہ تحریک انہوں چلائی تھی اس لیے اس کی اونرشپ کے حق دار بھی وہی ہیں اور یہ تاثر دینا شروع کر دیا جبکہ موکل کو اس بات سے مقصد ہوتا ہے کہ اس کو ریلیف ملے چاہے اس کا حق بنتا ہے یا نہیں۔”
جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود
’کچھ لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ چونکہ تحریک انہوں چلائی تھی اس لیے اس کی اونرشپ کے حق دار بھی وہی ہیں اور یہ تاثر دینا شروع کر دیا۔ جبکہ موکل کو اس بات سے مقصد ہوتا ہے کہ اس کو ریلیف ملے چاہے اس کا حق بنتا ہے یا نہیں۔‘
جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کے مطابق وکلا کی فیسیوں میں اضافے کے علاوہ انصاف کے مہنگے ہونے کی ایک وجہ سپریم کورٹ میں عام مقدموں کے علاوہ ازخود نوٹس کے مقدموں کی سماعت ہے۔
’ ان کیسز کو زیادہ وقت دیا جاتا تھا اور اسی وجہ سے دیگر مقدمات کو وقت نہیں مل پاتا تھا جس کی وجہ سے دیگر شہروں سے آنا جانا اور اسلام آباد میں رکنا موکل کو ہی برداشت کرنا پڑا تھا۔‘
چیف جسٹس کا کردار
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وکلا کے معاوضے میں اضافے اور ان سے قربت کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کیے؟
“افتخار چوہدری ملکی تاریخ کے انتہائی طاقتور چیف جسٹس تھے اور ان کی عدلیہ کے بارے میں جو سوالات اٹھائے جاتے ہیں ان کو حل کرنے کی جانب توجہ دیتے۔”
جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود
اس پر جسٹس طارق محمود کا کہنا تھا کہ ’چیف جسٹس کو اس طرح کے وکلا کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہیے تھی۔’لیکن ہمارے سامنے تھا کہ انھوں نے ضلعی بار ایسویشی ایشنز کے دورے کیے اور انتخابات کے بعد ان سے جا کر حلف لیا اور چیف تیرے جانثار کے نعرے بلند ہونا شروع ہوئے۔‘
نچلی سطح پر سستے انصاف کی فراہمی سے متعلق جسٹس طارق محمود کا کہنا تھا کہ ’افتخار چوہدری ملکی تاریخ کے انتہائی طاقتور چیف جسٹس تھے۔’اگر وہ اپنے ادارے کی جانب زیادہ توجہ دیتے تو آج فخر سے یہ بات کہی جا سکتی تھی کہ انتظامیہ اور مقننہ کے برعکس عدلیہ نے اپنا کام کیا۔ آج اگر پارلیمان اور انتظامیہ پر بات ہوتی ہے تو عدلیہ کے کردار پر سوالات اٹھائے جاتے ہی
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/12/131210_pakistan_cj_justice_iftikhar_tk.shtml
کسی بھی فیلڈ میں اس وقت تک ترقی کا دعوی حقیقی نہیں ہے جب تک اس شعبے کے عام آدمی تک اس ترقی کا فائدہ نہیں پہنچ جاتا، انصاف کے معاملے میں بھی یہ میزانیہ بنا حاصل کئے ہی عدلیہ کی آزادی کا دعوی کیا گیا ہے جو کہ ایک دیوانے کی بھڑک کے سوا کچھ نہیں ہے ، کیا ہوا کہ جج صاحب نے سموسے کی قیمت ، پتنگ بازی کے نقصان اور عتیقہ اوڈھو کی شراب پر نوٹس لیا مگر عام آدمی کیلئے انصاف کے حصول کی راہ میں عدلیہ کی طرف سے رکاوٹیں دور کرنے پر توجہ نہ دی گئی ، عام آدمی آج بھی کئی سالون سے اپنے جائز حق کیلئے اس عدلیہ کے علاقائی درباروں میں دھکے کھانے پر مجبور ہے
Man without a legal legacy
ARIFA NOOR
Chief Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry. — File photo by AFP
Published
2013-12-11 06:54:31
Share
Email
0 Comment(s)
Print
BEFORE Chief Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry came along, the one resurrection known to mankind had been deemed a miracle. But Pakistan’s chief justice managed it twice — in 2007 and then in 2009. And since his second coming, what a rollercoaster ride the inhabitants of the big white building on Constitution Avenue have been on. From the NRO to the prime minister’s appointments to missing people, nothing proved too small or too controversial.
Some of it, it is alleged, was driven by the CJ’s love of publicity. It’s plausible — on the first day of his restoration, he walked up the stairs to his office on the top floor of the building. The clever move provided visuals to the 24/7 news channels as each one of them showed the climb. It was a moment that captured the CJ and his era. For individuals — however larger than life they may be — are a product of their times and the CJ is no different. He captured the imagination of a nation that was tiring of a dictator and learning to shape its destiny as the news camera stood witness.
General (retd) Musharraf provided a focal point for those opposing him when he sacked the CJ. The political parties, the lawyers, the same middle class that Musharraf was said to have mid-wifed. And of course the television cameras turned this into the stuff of legends — the 26-hour journey to Lahore from Islamabad, the May 2007 visit to Karachi and even the final Long March in 2009.
The dictator slayer understood this. He returned after a revolution that had been televised and he ensured that the cameras didn’t stop rolling.
He thundered against corruption, chastised bureaucrats and police officials, treating them with the contempt ordinary people wished they could exercise. He personified the aam aadmi when he reminded the politician that his job was to serve the people.
A lawyer who does not want to be named says: “The CJ needs to be seen in his two roles — his historic defiance to Musharraf, which no one can ever deny him, and then as an ordinary judge where he faulted again and again.”
His courtroom proceeded to provide fodder to the 24/7 ticker monster with a voracious appetite.
In an age of experience where politicians were bound by economic constraints and could no longer promise roti, kapra aur makaan, the CJ became the medieval king whose darbar was open to all those who could send in a petition or get a journalist to report their story.
At the same time, the traditional saviour of the people, the army, was also busy patching its uniform that had seen considerable wear and tear during the Musharraf era.
Within this context, Chaudhry made all the right sounds, especially for the burgeoning middle class that wanted not just employment and food hand-outs from its elected representatives but also merit and honesty.
He promised to check sugar prices, corruption, appointments made on the basis of nepotism and shady contracts that were finalised after alleged kickbacks. Cartel owners, investors and prime ministers were dragged to the courts.
Bureaucrats were kept so busy that they complained they had little time left for their work.
And most were treated with disdain. For instance, Adnan Khawaja, whom then prime minister Yousuf Raza Gilani appointed as the head of OGDCL, was berated for his young age when he appeared in the court. Few managed to give as good as they got, such as former attorney general Irfan Qadir whose verbal sparring in Courtroom One was relished by many.
The Swiss cases proved such an obsession that the Supreme Court sent home an elected prime minister despite warnings that it would derail a fledgling democracy.
Perhaps, someone remembered that the middle classes in most developing countries have always prioritised honesty over democracy.
Be as it may, this was not the only time Iftikhar Chaudhry’s court was accused of judicial over-reach. The International Commission of Jurists’ latest report on the SC provides an excellent and comprehensive analysis of the court’s activities.
Ahmer Bilal Soofi, who is a Supreme Court advocate as well as a former federal minister, advocated for strategic judicial restraint in the future, adding that “each time there is a violation of a rule or an audit objection, corruption cannot be assumed and a criminal case registered. The courts and NAB have to have proof of corruption before proceeding”.
He said the government, its bureaucrats and entrepreneurs should be given a chance to take quick decisions and turn the wheel of economy.
His views were seconded by a former government official who said that the SC had hampered decision making in the executive.
By this time, his earlier supporters had distanced themselves from him — the gutsy lawyers who had led the initial onslaught against Musharraf in support of Chaudhry (Asma Jahangir, Aitzaz Ahsan and Ali Ahmed Kurd, to name a few); political parties such as the PPP and the ANP that shed blood for his restoration became his biggest critics and even within the bars there were whispers. And then came the harshest blow — his son’s alleged corruption that left a dark stain on his reputation. It’s a stain that has not faded with time.
But the final blow came just recently when protesting lawyers outside his Court House were attacked by the police. The incident brought home his isolation from his support base.
But perhaps more importantly, Chaudhry’s justice was of the medieval variety — akin to the caring rulers who roamed the streets to check on the welfare of their subjects. This individualised approach to justice remains just that — popular folklore that does not impress those who record history.
Sugar prices remained unchanged while the real estate juggernaut Bahria Town too ploughs ahead and McDonalds still continues to sell its burgers from the corner of the F-9 park in Islamabad; judgments cannot change market forces nor institutional working.
http://www.dawn.com/news/1061767/man-without-a-legal-legacy
koi to ta jo islami nizaam lana chata ta
pejamistri on facebook
A person who did corruption of 100’s of rupees by producing counterfeit receipts of patrol, who got counterfeit domicile for his son admission in medical college, who used to request a Grade 20 officer for the transfer and will get a HBFC loan for his son’s valima, in three years was able to invite 4000 people in his daughter’s wedding, his son is running a million’s of dollar business, and his daughter is married to a filthy rich industrialist.
Iftikhar Chaudhary has set highest standards of corruption for the future Chiefs of Supreme Court.
سماعت کے دوران عدالت نے ایف سی کے قائم مقام سربراہ کے لباس پر تنقید کی اور کہا کہ چونکہ اُن کا تعلق سکیورٹی سے ہے اس لیے اُنھیں یونیفارم پہن کر آنا چاہیے تھا۔ اس موقع پر میجر جنرل اعجاز شاہد کے وکیل اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر روسٹم پر آئے اور کہا کہ عدالت ذاتیات پر آنے کے بجائے قانون کے مطابق اس مقدمے کی کارروائی کو آگے چلائے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ ڈسپلن کی پابندی کروانا بھی ضروری ہے اس لیے عدالتی آداب کو بھی سامنے رکھا جائے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے موکل کو بینچ کے ایسے سربراہ کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہتے جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سیاسی چیف جسٹس ہیں۔
بینچ میں موجود جواد ایس خواجہ نے عرفان قادر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں اور عدالت اُن کی وکالت کا لائسنس منسوخ بھی کرسکتی ہے۔ اس موقعے پر اٹارنی جنرل منیر اے ملک روسٹم پر آئے اور کہا کہ عدالت کو اس ضمن میں تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ عرفان قادر اٹارنی جنرل بھی رہے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/12/131211_ig_fc_contempt_case_zs.shtml
پاکستان کے نامزد چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ غیر اہم معاملات پر دائر کی جانے والی درخواستوں اور اختیارات کو ذاتی مفاد میں استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے
اُنھوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 183 کی شق (3) کے تحت سپریم کورٹ کو ملنے والے اختیارات کی حدود پر نظرِثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ کو آئین کی اس شق کے تحت کسی بھی واقعے یا اہم معاملے پر ازخود نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 کی ذیلی شق 3 اور 187 کے تحت عدالت عظمیٰ کو دیے گئے اختیارات کے تحت قانون اور سماجی حرکیات میں موجود فرق کم کرنے کے لیے استدعا کی جا سکتی ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے عدالت کو ریاست کے تینوں ستونوں کی آئینی حیثیت کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ خاص طور پر آئین کی شق 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل کے حصول کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔
یاد رہے کہ انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹس اور متعدد ماہرینِ قانون نے ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے آئین کی اس شق کے تحت مختلف معاملات میں ازخود نوٹس لینے پر تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان معاملات میں بعض اوقات شفافیت کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی جمعرات کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اُٹھائیں گے۔ حلف برداری کی یہ تقریب ایوان صدر میں منعقد کی جائے گی۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/12/131211_justice_tasadduq_discourage_suo_moto_zz.shtml
اربوں کی بدعنوانی سے شراب کی دو بوتلوں تک
شجاع ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: بدھ 11 دسمبر 2013 , 15:09 GMT 20:09 PST
Facebook
Twitter
Google+
دوست کو بھیجیں
پرنٹ کریں
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کئی از خود نوٹس لیے
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بحال ہونے کے فوراً بعد از خود نوٹس کے قانونی تصور کو یوں استعمال کیا جیسے کوئی جنگجو اپنے پسندیدہ ہتھیار کو استعمال کرتا ہے۔
ان کے اس عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے سنہ 2004 میں سپریم کورٹ کو پورے سال میں ازخود نوٹس کےلیے صرف 450 درخواستیں موصول ہوئیں تھیں لیکن مشرف مخالف وکلا تحریک کے نتیجے میں ان کی بحالی کے دو ہی سال بعد ان درخواستوں کی تعداد 90 ہزار سے زیادہ ہوگئی۔
اسی بارے میں
وکلا افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ پر خوش
مطمئن افتخار چوہدری کا رنج
متعلقہ عنوانات
پاکستان, عدالتیں
گویا سوموٹو نہ ہوا عوام کی نظر میں سستے انصاف تک پہنچنے کا ایک سستا اور فوری راستہ ہو گیا۔
آخر یہ ہے سوموٹو یا از خود نوٹس ہے کیا بلا؟
پاکستان کے آئین میں دیگر ممالک کی طرح ایک ایسی شق ہے جس کے تحت عدالتِ عظمیٰ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ’انسانی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے کسی بھی عوامی سطح کے مسئلے‘ پر از خود نوٹس لے کر فیصلہ دے سکے۔ یعنی اگر عدالت یہ محسوس کرے کہ کہیں پر انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے تو عدالت خود ہی اس پر مقدمہ چلا سکتی ہے۔
“دیکھیں یہ ایک جاگیردارانہ معاشرہ ہے جہاں علم حاصل کرنا، تعلیم دینا حکومتوں کی ترجیح رہی ہی نہیں۔ اگر یہ ترجیح نہیں ہے تو انصاف کے محکمے کی بھی یہی صورت حال ہے اسی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کو کچھ ایسے مسائل پر کام کرنا پڑتا ہے جو کہ ذیلی سطح پر ٹھیک ہو جانے چاہیے تھے۔ ایسا بھی ہوا ہوگا کہ ایسے معاملات کو اہمیت دی گئی جہاں نہیں دینی چاہیے تھی۔”
جسٹس وجیہ الدین
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کئی از خود نوٹس لیے۔ ان میں وزرا کی اربوں روپے کی مبینہ بدعنوانی سے لے کر شراب کی دو بوتلوں کے معاملات شامل ہیں۔ کہیں لاپتہ افراد کے بنیادی حقِ انصاف کو اجاگر کیا گیا تو کہیں عدالت نے چپل کبابوں کی قیمت کو انسانی حقوق کا معاملہ پایا۔ ظاہر ہے، ہر پالیسی کی طرح انصاف کی فراہمی کے اس لائحۂ عمل کے حامی بھی ہیں اور ناقدین بھی۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی اکتوبر سنہ 2013 کی ایک رپورٹ میں اتنے سارے سو موٹو لینے پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے جن میں ملزمان کی بے گناہی کے مفروضے کو ٹھیس پہنچنا اور حکومتی اداروں کا اپنے اختیارات سے تجاوز شامل ہیں۔
مگر کیا وجہ تھی کہ چیف جسٹس کو یہ لائحہِ عمل اختیار کرنا پڑا؟ اس سوال پر سپریم کورٹ کے سابق جسٹس وجیہ الدین کہتے ہیں: ’میں سمجھتا ہوں کہ اس رجحان کی وجہ خراب طرزِ حکومت تھا۔ اگر ہمارے ہاں جمہوری حکومتیں صحیح طریقے سے کام کرتیں، قانون کی حکمرانی ہوتی، آئین کی بالادستی ہوتی تو پھر یہ سب کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اسی لیے سوموٹو اختیارات کا زیادہ استعمال ہوا۔‘
مگر خراب طرز حکومت تو اس ملک میں پہلے بھی تھا۔ دوسری بات یہ کہ کیا انصاف کی فراہمی کا یہ پائیدار طریقہ ہے؟
جسٹس وجیہ الدین کہتے ہیں: ’دیکھیں یہ ایک جاگیردارانہ معاشرہ ہے جہاں علم حاصل کرنا، تعلیم دینا حکومتوں کی ترجیح رہی ہی نہیں۔ اگر یہ ترجیح نہیں ہے تو انصاف کے محکمے کی بھی یہی صورت حال ہے اسی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کو کچھ ایسے مسائل پر کام کرنا پڑتا ہے جو کہ ذیلی سطح پر ٹھیک ہو جانے چاہیے تھے۔ ایسا بھی ہوا ہوگا کہ ایسے معاملات کو اہمیت دی گئی جہاں نہیں دینی چاہیے تھی۔‘
پاکستان کے آئین کی شق
پاکستان کے آئین میں دیگر ممالک کی طرح ایک ایسی شق ہے جس کے تحت عدالتِ عظمیٰ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ’انسانی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے کسی بھی عوامی سطح کے مسئلے‘ پر از خود نوٹس لے کر فیصلہ دے سکے۔ یعنی اگر عدالت یہ محسوس کرے کہ کہیں پر انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے تو عدالت خود ہی اس پر مقدمہ چلا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل بابر ستار کہتے ہیں کہ سوموٹو کا زیادہ استعمال حکومت کی ناکامی تو ہے ہی مگر ملک کے عدالتی نظام کی بھی ناکامی ہے۔
انھوں نے کہا کہ سوموٹو کا اس قدر استعمال قانون کی فراہمی کا ایک پائیدار طریقہ نہیں ہے: ’سوموٹو کے ساتھ متعدد مسائل ہیں۔ کچھ غیر معمولی معاملات میں تو آپ کو سوموٹو کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر لاپتہ افراد کا معاملہ جس کا تعلق ہمارے سول ملٹری روابط سے ہے، جہاں کوئی ذیلی عدالت یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتی اور اداروں کی اعلیٰ ترین قیادت کو مسئلے کے حل کے لیے ادارے کے تمام تر اختیارات کا استعمال کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے علاوہ اس سے مسائل بھی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ملک میں ’پری ٹرائل سرٹنٹی‘ یعنی قانونی مستقل مزاجی نہیں رہی یعنی آپ کو نہیں معلوم کہ کس چیز پر سوموٹو لیا جا سکے گا۔ ’آپ کو معلوم نہیں کہاں پر آپ کو ٹرائل کورٹ میں جانا ہے، ہائی کورٹ میں جانا ہے اور کہاں پر سپریم کورٹ خود اس کا نوٹس لے گی۔‘
کیا سپریم کورٹ کے سوموٹو کے زیادہ استعمال سے ملک کی عدالتِ عظمیٰ کے وقار میں کمی ہوئی ہے؟
بابر ستار کہتے ہیں ’یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ قانون دانوں کو شاید ایسا لگاتا ہو مگر عام آدمی کے لیے تو وہ ظلم کے خلاف آخری دفاع ہیں۔
’قانون دانوں کو نہ صرف اس کے طرزِ استعمال پر تشویش ہے بلکہ اس بات پر بھی تحفظات ہیں کہ سوموٹو کو بطور ایک حل پیش کیا گیا ہے۔‘
’سوموٹو کوئی حل نہیں ہے۔ اگر لوگ کہیں کہ اتنے برے حالات ہیں تو اب کیا کریں تو یہ تو وہی بات ہوئی کہ برے حالات ہوتے ہیں تو فوج آ جاتی ہے اور ہم نے ماضی میں یہی سیکھا ہے کہ اس سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔‘
جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کہتے ہیں کہ شاید ہم لوگوں کو یہ سمجھا نہیں سکے کہ سوموٹو عوامی مسائل کا حل نہیں ہے۔ ان کے مطابق عوامی توقعات کی وجہ سے عدالت نے مقبول قسم کے کیس سنانا شروع کر دیے جن سے شاید طرزِ حکومت میں بہتری نہ آنے کی وجہ سے لوگوں کو براہِ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
چیف جسٹس کے پیشہ ورانہ ورثے کے بارے میں بحث تو شاید کئی سال تک جاری رہے مگر ایسی کوئی بھی بحث دو الفاظ کے بغیر نہ مکمل ہے۔ سوموٹو!
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/12/131211_chief_justice_suo_moto_rwa.shtml
جسٹس افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ میں بطور جج پہلا حلف پی سی او جج کے تحت ہی لیا لیکن بطور چیف جسٹس بحال ہونے کے بعد پی سی او کے تحت حلف لینے والے پچاس کے قریب ججوں کو عدالتوں سے نکال باہر کیا۔ وہ ان ججوں میں بھی شامل تھے جنھوں نے پرویز مشرف کے اقتدار کو قانونی لبادہ پہنانے کے لیے نظریۂ ضرورت کا سہارا لیا۔ بعد میں افتخار چوہدری نے اسی نظریہ ضرورت کو ’دفن‘ کرنے کا فیصلہ بھی صادر کیا۔
افتخار چوہدری ان ججوں میں بھی شامل تھے جنھوں نے پرویز مشرف کے اقتدار کو قانونی لبادہ پہنانے کے لیے نظریہ ضرورت کا سہارا لیا
جسٹس افتخار چوہدری سپریم کورٹ میں تعیناتی کے پانچ سال کے اندر ہی چیف جسٹس کے عہدے پر پہنچ گئے۔ جسٹس افتخار چوہدری کو چیف جسٹس بننے کی اتنی جلدی تھی کہ انھوں نے جسٹس ناظم حسین صدیقی کی سینیارٹی کو چیلنج کر دیا۔ اگر جسٹس افتخار چوہدری سینیارٹی کی تنازعے میں جیت جاتے تو وہ 2005 کی بجائے 2003 میں ہی چیف جسٹس بن چکے ہوتے۔
جنرل پرویز مشرف کو اپنے دونوں عہدے رکھنے سے متعلق سپریم کورٹ کے ایک اور قانونی لبادے کی ضرورت تھی تو انھیں جسٹس افتخار چوہدری ’ناقابلِ اعتبار‘ لگے۔
جنرل مشرف کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کو چیف جسٹس کی طرف سے اپنے بیٹے کو نوازنے پر اعتراض نہیں تھا لیکن انہیں پریشانی اس بات کی تھی کہ چیف جسٹس نے کئی فوجی جرنیلوں سے ذاتی تعلقات بنا لیے تھے اور اپنے بیٹے ارسلان افتخار کو بھی ایک جنرل کا داماد بنوا لیا تھا۔ البتہ اس جنرل کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد یہ رشتہ بھی ختم ہو گیا۔
پرویز مشرف نے پہلی بار جب افتخار چوہدری کو سپریم کورٹ سے نکالنے کی کوشش کی اور ان پر اپنے عہدے کا فائدہ اٹھا کر اپنے بیٹے کے کریئر میں مدد دینے کا الزام لگایا تو پاکستان کے لوگوں نے افتخار چوہدری کی طرف سے فوجی آمر کو’ نہ‘ کرنے کی ہمت کو خوب سراہا اور انہیں واپس سپریم کورٹ میں پہنچا دیا۔
نظریہ ضرورت
جسٹس افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ میں بطور جج پہلا حلف پی سی او جج کے تحت ہی لیا لیکن بطور چیف جسٹس بحال ہونے کے بعد پی سی او کے تحت حلف لینے والے پچاس کے قریب ججوں کو عدالتوں سے نکال باہر کیا۔ وہ ان ججوں میں بھی شامل تھے جنھوں نے پرویز مشرف کے اقتدار کو قانونی لبادہ پہنانے کے لیے نظریہ ضرورت کا سہارا لیا۔ افتخار چوہدری نے اسی نظریہ ضرورت کو ’دفن‘ کرنے کا فیصلہ بھی صادر کیا۔
جنرل مشرف نے جب دو ماہ بعد ایمرجنسی اختیارات کا سہارا لے کر افتخار چوہدری کو نکالا تو بڑی سیاسی جماعتوں کو جنرل پرویز مشرف کی طاقت پر گرفت کو کمزور کرنے کا موقع ملا۔
اسی دوران پرویز مشرف کا دور ختم ہو گیا اور ایوانِ صدر کا مکین بدل گیا۔ اس نئے صدر نے بھی جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے میں لیت و لعل کا مظاہرہ کیا لیکن بالآخر اسے ہار مانی پڑی اور افتحار چوہدری قریباً دو سال کے بعد دوسری بار سپریم کورٹ پہنچ گئے اور 12 دسمبر 2013 تک اس عہدے پر براجمان رہے۔
صدر زرداری کو افتخار چوہدری کو بحال کرنے میں لیت و لعل سے کام لینے کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی اور کئی برس تک سوئٹزرلینڈ کے حکام کو خط لکھنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے ایک وزیراعظم کی قربانی دے دی اور آخرِکار اس وقت خط لکھا جب اس خط لکھنے کا شاید وقت ہی گزر چکا تھا۔ سپریم کورٹ بھی اس جھگڑے میں اتنی تھک چکی تھی کہ اس نے حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے ڈرافٹ کو مان کر جان چھڑا لی۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جوڈیشیل ایکٹیوزم کا ایسا بازار گرم کیا کہ ان پر طرح طرح کے الزام لگنا شروع ہو گئے۔ ان کی جانب سے جنرل مشرف کی حامی اداکارہ کے سامان سے مبینہ طور پر شراب کی دو بوتلیں برآمد ہونے کی خبر پر ازخود نوٹس لینے پر نہ صرف جگ ہنسائی کا باعث بنے بلکہ لوگوں کا ان پر اعتبار بھی کم ہوتا گیا۔
چیف جسٹس نے اپنے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف تحقیقات کو رکوانے کے بعد اسے دو افراد کے مابین لین دین کا معاملہ قرار دے کر اسے ختم کر دیا
سابق چیف جسٹس افضل ظلہ نے سنہ نوے اکانوے میں جب آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عوامی نوعیت کے معاملات اٹھانے شروع کیے تو انھوں نے پوری کوشش کی کہ وہ ایسے مقدموں کا فیصلہ کریں جس سے بڑی تعداد میں لوگوں کو ریلیف ملے۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اس طاقت کا استعمال سوائے سیاسی حکومتوں کو تنگ کرنے کے لیے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے ایسے مقدمات کا نوٹس لینا شروع کیا کہ حکومت کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ سپریم کورٹ نے انھیں کام کرنے کا موقع ہی نہیں۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد کا مقدمہ شروع کیا لیکن آخری دنوں تک اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہ دے سکے۔
چیف جسٹس نے عوامی خواہشات پر ملک سے بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن جب اپنے بیٹے ارسلان افتخار پر کروڑوں روپے کے لین دین کا معاملہ سامنے آیا تو پھر اسی اخلاقی طاقت سے محروم ہو گئے۔
صدر زرداری کو افتخار چوہدری کو بحال کرنے میں لیت و لعل سے کام لینے کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی
ارسلان افتخار کا بحریہ ٹاؤن کے مالک سے کروڑوں روپے کے لین دین کا جب معاملہ سامنے آیا تو سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا۔ چار ماہ تک مختلف سماعتوں کے دوران ارسلان افتخار کے خلاف تحقیقات کو رکوانے کے بعد اسے دو افراد کے مابین لین دین کا معاملہ قرار دے کر ختم کر دیا۔
ارسلان افتخار کے واقعے کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت کے اندر وہی حیثیت رہ گئی جو آخری دنوں میں سجاد علی شاہ کی تھی اور اگر ان کا مدت زیادہ ہوتی تو شاید ان کا حشر بھی سجاد علی شاہ والا ہی ہوتا۔
افتخار چوہدری کو ایک ایسے چیف جسٹس کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے ایک فوجی آمر کو نہ کر کے داد تو خوب وصول کی لیکن سپریم کورٹ میں بیٹھ کر جج کی بجائے ایک ایسا آمر بننے کی کوشش کی جس نے عدالت کو دربار میں تبدیل کر دیا۔ افتخار چوہدری نے عام لوگوں کے مقدموں کو حل کرنے کی بجائے ’سیاسی انصاف‘ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ بری طرح ناکام رہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/12/131211_chief_justice_tenure_zz.shtml