تکفیر اور تبرہ کی بحث کی آڑ میں شیعہ نسل کشی کا جواز ڈھونڈا جا رہا ہے

takf10

Summary: In the guise of the debate on Takfir vs Tabarra, apolologits of the banned terrorist outfits Sipah-e-Sahaba Pakistan (SSP aka ASWJ) and Taliban (TTP) are trying to justify Shia genocide in Pakistan.

پاکستان میں آج کل تکفیری دہشت گرد گروہ کے وفادار اور حامی حضرات شیعہ نسل کشی کو تکفیر اور تبرا کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں – دوسرے الفاظ میں، ان حضرات کے بقول چونکہ شیعہ حضرات صحابہ کرام پر تبرا (لعنت، توہین) کرتے ہیں اس لئے دیوبندی حضرات شیعوں کی تکفیر کرتے ہیں اور یہیں سے شیعہ نسل کشی اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے – ملاحظہ کیجئے دیوبندی عا لم دین مولانا طاہر اشرفی کا یہ بیان

اسلام آباد۔۔ پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین مولاناطاہر محمود اشرفی نے سانحہ راولپنڈی کے خلاف یوم جمعہ کو یوم مذمت کے طو رپر منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر تبرہ، تکفیر بند کردی جائے، متنازعہ تحریروں اور تقاریر کرنیوالوں کو گرفتار کرکے پابندسلاسل کیا جائے تو ملک میں امن قائم ہوجائیگا

tak

http://www.onlinenews.com.pk/details.php?newsid=244612

اسی طرح کے دلائل روزنامہ امت کے طالبان پرست سپاہ صحابہ پرست کالم نویس سیف الله خالد نے بھی پیش کیے ہیں

sk

تکفیر اور تبرہ پر پابندی کی باتیں کرنے والے حضرات بتائیں کہ سپاہ صحابہ و طالبان کے تکفیری دیوبندی دہشت گرد، بے گناہ احمدیوں، سنی بریلویوں اور مسیحیوں کو کیوں قتل کرتے ہیں – عاشورہ اور میلاد کے مذہبی جلوسوں پر پابندی کی باتیں کرنے والے اس حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں کہ تکفیری طالبان و سپاہ صحابہ دہشت گردوں نے سب سے زیادہ حملے نماز جمعہ پر کیے ہیں کیا مساجد اور نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی لگا دی جائے

اسی طرح کچھ عرصہ قبل ایک متعصب مولوی نما شخص نے تجویز دی کہ فرقہ واریت ختم کرنے کے لئے شیعہ علماء یومِ فاروقِ اعظم (رض) منائیں اور سنی علماء یومِ حسین(ع) کے پروگرام میں شرکت کریں تو فرقہ واریت ختم ہو سکتی ہے۔ یہ بظاہر بہت اچھی بات لگتی ہے لیکن دراصل ایک سازشی ذہن کی غمازی کر رہی ہے جس کے مطابق ملک میں جاری شیعہ نسل کشی مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوئی عالمی سازش نہیں ہے، نہ اسے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی سرپرستی حاصل ہے بلکہ شیعہ نسل کشی تو توہینِ صحابہ کرام (رض) کا ردِ عمل ہے اور یہ بات کہہ کر شیعہ نسل کشی کو جواز فراہم جاتا ہے۔ یہ سازشی ذہن اس بات کی جان بوجھ کر چھپا رہا ہے کہ سنی اور شیعہ اسلام کے دو مختلف لیکن یکساں قابل احترام مسالک ہیں جن کے بعض ہیرو مشترک ہیں اور بعض مختلف، جیسا کہ شیعہ مسلمان حضرت ابو طالب (رض) کا احترام کرتے ہیں لیکن سنی مسلمانوں کے دیوبندی اور وہابی مسلک کے افراد حضرت ابوطالب پر کفر کا الزام لگاتے ہیں، اسی طرح سنی مسلمان حضرت ابو بکر (رض) کو نہایت جلیل القدر صحابی تسلیم کرتے ہیں جبکہ شیعہ مسلمان حضرت ابوبکر پر حضرت فاطمہ کو اذیت پہنچانے کا الزام لگاتے ہیں وغیرہ- یہ بات بہر حال غلط ہے کہ دور حاضر کے شیعہ اکابرین نے کبھی کسی بھی صحابی بشمول حضرت ابو بکر کو کافر کہاہو- در حقیقت آیت الله خمینی، آیت الله خامنہ ای اور دوسرے سینئر شیعہ علماء کے مطابق سنی مسلک کے اکابرین کی توہین یا تکفیر حرام ہے
ہو سکتا ہے کہ معدودے چند شیعہ صحابہ کرام کی توہین کے مرتکب ہوتے ہوں اور اس کے بھی شواہد ہیں کہ دشمن کے ایجنٹ تکفیریوں نے پرنٹنگ پریس لگا کر شیعہ کے نام سے جعلی کتابیں شایع کیں، لیکن اس کا قصور وار تمام شیعہ مسلمانوں یا علما کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا – اسی طرح دیوبندی مسلک کے تکفیری گروہ کی دہشت گردی کا ذمہ دار تمام دیوبندیوں یا تمام سنی مسلمانوں کو قرار دینا بھی ٹھیک نہیں

یہ امر بہر حال واضح ہے کہ کسی کو بھی مذھب کے نام پر قانون اپنے ہاتھ میں لینے اور قتل و غارت کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی – ہم یہ پوچھتے ہیں کہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے معصوم شیر خوار شیعہ ہزارہ بچوں نے کس صحابی رسول کی تکفیر یا توہین کی تھی؟ صحابہ کرام اور امہات المومنین کی توہین شیعہ مراجع عظام کے فتویٰ کے مطابق صریحاً حرام ہے اور اور شیعہ کشی اور خود کش حملے اہلِ سنت علماء کے مطابق سنی مذہب میں حرام ہیں۔ کچھ متعصب تکفیری اور ان کے معذرت خواہان بڑی چرب زبانی سے شیعہ کشی کی اصل وجہ یعنی “تکفیری دیوبندی” دہشت گردوں کی شناخت، سعودی عرب، قطر اور بحرین کی فنڈنگ اور عالمی طاقتوں کی شیعہ و سنی کو تقسیم کرنے کی سازش چھپاتے ہیں اور قتل کا سارا الزام خود مقتول پر ہی ڈال دیتے ہیں کہ شیعہ اپنی وجہ سے ہی قتل ہو رہے ہیں یعنی تکفیر اور توہین صحابہ ۔ یہ بات متعدد مرتبہ میڈیا پر آ چکی ہے کہ پشاور اور دیگر شہروں سے کالعدم سپاہ صحابہ کے اپنے پرنٹنگ پریس پکڑے گئے ہیں جس میں صحابہ کرام (رض) سے متعلق غلیظ اور توہین آمیز مواد چھاپا جاتا تھا تاکہ اسے شیعہ مسلمانوں پر تھونپ کر ان کے قتل کا جواز بنایا جائے

ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر ملک میں فرقہ واریت ہے تو ہمیں گلی محلوں میں عام شیعہ سنی مسلمان ایک دوسرے پر حملہ کرتے اور گلے کاٹتے کیوں نطر نہیں آتے؟ شیعہ اور سنی ایک ساتھ کاروبار کیوں کرتے ہیں؟ ان کے بچے اکٹھے سکول کالج کیوں جاتے ہیں؟ وہ ایک ساتھ آبادیوں میں پر امن طریقے سے کیوں رہتے ہیں؟ اگر ملک میں فرقہ واریت ہے تو ہمیں صرف اہلِِ تشیع کی نسل کشی کی حد تک ہونے والی قتل و غارت گری کیوں نظر آتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ جواب میں کسی سنی مسجد، مدرسہ یا تبلیغی اجتماع کو نشانہ نہیں بنایا جاتا؟ ان ساری رہورٹس اور ماہرین کی آراء کو کہاں رکھیں جس کے مطابق سعودی عرب وہابی دیوبندی فکر کے حامل افراد کو بھرپور فنڈنگ کرتا ہے جو شیعہ کے جلوسوں اور اہلِ سنت کے میلاد کے اجتماعات اور مقدس مزارات پر حملہ کرتے ہہں؟ اتحاد بین المسلمین کا مطلب یہ نہیں کہ شیعہ اور سنی اپنے کچھ عقائد چھوڑ کر ایک نئے عقیدہ پر اتفاق و اتحاد کر لیں بلکہ شیعہ سنی اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ شیعہ اور سنی اپنے اپنے عقیدے پر قائم رہتے ہوئے مسلم امہ کے وسیع تر مفاد اور دشمن طاقتوں کی رسوائی کے لئے مشترکات پر جمع ہو جائیں اور جو اختلافی چیزیں ہیں انہیں علمی سطح پر رکھیں تاکہ اختلاف تفرقہ نہ بن جائے۔ یہ اختلافات چودہ سو سال پرانے ہیں اور ختم نہیں ہو سکتے ان کا حل یہی ہے کہ مسلم امہ کے مفاد کی خاطر ان کا علمی انداز میں پرکھا جائے۔ گلی محلوں میں اچھال کر لوگوں کے جزبات کو برانگیختہ کر کے قتل و غارت نہ کراوئی جائے جو مسلمان دشمن طاقتیں چاھتی ہیں کہ مسلمان آپس میں ہی لڑ مر کر ختم ہو جائیں۔ ایک دوسرے کے مقدسات کا احترام کریں اور غیر ذمہ دار افراد کو سختی سے تفرقہ بازی سے منع کریں۔ جذباتی تقریریں کر کے فرقہ واریت کے جن کو بوتل سے باہر نکالنا بہت آسان ہے لیکن اسے دوبارہ قید کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

ملک میں دہشت گردی کی جڑ سعودی حمایت یافتہ “تکفیری دیوبندی” ہیں جو شیعہ، سنی اور معتدل دیوبندی علماء کئ قتل میں ملوث ہیں اور یہ تکفیری دہشت گرد سنی کا لبادہ اوڑھ کر اہلِ سنت اور بالخصوص دیوبندی عوام کو نہ صرف گمراہ کر رہے ہیں بلکہ خود مقدس مسلکِ اہلِ سنت اور مسلک دیوبند پر بھی دہشت گرد ہونے کا لیبل لگا رہے ہیں۔ پاکستان میں فرقہ واریت نہیں بلکہ طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی دہشت گردی ہے جو سب کے سب “تکفیری دیوبندی” ہیں۔ انہوں نے معتدل اہلِ دیوبندی علماء کو بھی شہید کیا ہے مثلاً مولانا حسن جان، مولانا شامزئی و دیگر

ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا مفتی حسن جان، ڈاکٹر سرفراز نعیمی ، ڈاکٹر فاروق، مولانا سلیم قادری اور دیگر سنی اکابرین بھی تبرا کے مرتکب ہوۓ تھے؟ کیا لاہور میں نماز جمعہ پڑھتے ہوۓ قتل ہونے والے سو سے زائد احمدی بھی تبرا کرتے تھے؟ کیا پاک فوج کے جرنیل اور جوان جو طالبان کے ہاتھوں شہید ہوۓ بھی توہین صحابہ کے مرتکب تھے؟ کیا پشاور اور لاہور میں شہید کیے جانے والے سینکڑوں مسیحی بھی صحابہ کے دشمن تھے؟

در حقیقت ایسا نہیں ہے – پاکستان میں شیعہ نسل کشی کا تبرا و تکفیر کی بحث سے کوئی تعلق نہیں – جو تکفیری خارجی گروہ شیعہ مسلمانوں کو کافر کافر کے نعرے لگا کر قتل کر رہا ہے یہی گروہ سنی بریلوی، اعتدال پسند دیوبندی و سلفی، مسیحی اور احمدی کو بھی قتل کرتا ہے اور یہی گروہ پاک فوج اور حکومت کو بھی مرتد قرار دے کر ان کے خون کو حلال قرار دیتا ہے

سپاہ صحابہ کے تکفیری مولویوں اور ان کے حمایتیوں کے ساتھ یہ ساری بحث فضول اور وقت کا ضائع کرنا ہے یہ پاکستان کے دشمنوں کے ایجنٹ ہیں ان سے بحث کی بجائے ان کا معاشرتی ترک تعلق کیا جائے اور ان کے تمام دہشت گردوں کو سخت سزا دی جائے

Part Source

twtakf1

takf2

takf3

 

takf7

takf8

takf9

 

takf5

takf6

Comments

comments

Latest Comments
  1. Baig
    -
  2. Baig
    -
  3. Mohammad Tariq Chughtai
    -
  4. Sarah Khan
    -
  5. zafar
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.