حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور اردو کالم نگار

http://www.naibaat.com.pk/ePaper/lahore/04-11-2013/details.aspx?id=p8_28.jpg

اردو صحافت اور کالم نگار

عامر حسینی

جیسا کہ میں نے اپنے فیچر “جہادی صحافت “میں اردو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر جہادی صحافیوں کی آہ و بکاء پر خاصا تفصیل سے لکھا تھا تو مجھے مدیر ایل یو بی پاک ڈاٹ کام نے متوجہ کیا کہ مجھے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ادارتی صفحات پر شایع ہونے والے اردو کالم نگاروں کی نگارشات کا جائزہ بھی لینا چاہئے-

جب میں پاکستان نے اردو اخبارات میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبارات میں شایع ہونے کالموں اور کالم نگاروں کی نگارشات کا جائزہ لینا شروع کیا تو مجھے احساس ہونا شروع ہوگیا کہ کس طرح سے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو ہمارے اکثر کالم نگار عظیم نقصان خیال کررہے ہیں-اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اکثر کالم نگاروں کا ردعمل اس حوالے سے امریکہ کے بارے میں اتنا ہی شدید ہے جتنا یہ سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملے اور اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کاروائی کے بعد تھا اور مطالبہ بھی نیٹو سپلائی بند کردینے کا ہے-اگرچہ سارے قلم کار اس سے اتفاق نہیں کرتے-

پاکستان کی اردو صحافت کے مالکان میں اب اکٹر مالکان ایسے ہیں جو بڑے کاروباری گروپ ہیں اور جن کے مفاد میں یہ ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ کے بارے میں کوئی بہت سخت گیر قدم اٹھائے اور وہ نیٹو کی سپلائی بند کرنے کے حق میں بھی نہیں ہیں-مگر وہ پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ،آئی ایس آئی کی نظر میں اچھے طالبان کی حمائت سے بھی دستکش ہونا نہیں چاہتے-اس لیے اگر امریکہ سے تعلقات کے باب میں اگر وہ ہوش مندی کا درس دیتے ہیں تو دوسری طرف وہ طالبان سے مذاکرات کی درخواست بھی کرتے ہیں-اور طالبان سے اپنی ہمدردیاں چھپائے نہیں چھپتی ہیں-روزنامہ جنگ ،روزنامہ ایکپریس اور روزنامہ دنیا جن گروپ کی جانب سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مالکان کے مفادات میں نیٹو اور امریکہ سے تصادم ہرگز نہیں ہیں تو ان کے اداریوں میں پاکستان کی خراب معاشی حالت اور پاکستان کا بیرونی امداد پر انحصار کا تذکرہ بھی خوب ملتا ہے-جبکہ ان کے ہاں لکھنے والے اکثر کالم نگار بھی اس بارے ضرور لکھتے ہیں-http://jang.com.pk/jang/nov2013-daily/04-11-2013/idaria.htm

لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بھولے سے بھی کہیں پاکستان کی خراب معاشی حالت کا ناطہ ڈیپ سٹیٹ پالیسیوں اور تحریک طالبان پاکستان کی دھشت گرد کاروائیوں سے جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے-اور اگر کہیں باامر مجبوری تذکرہ کرنا بھی پڑے تو ملٹری اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کا نام لینے سے کتراتے ہیں-

خورشید ندیم جوکہ امین احسن اصلاحی ،جاوید احمد غامدی کے سایہ شفقت میں پروان چڑھے وہ روزنامہ دنیا میں تکبیر مسلسل کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں-وہ پاک امریکہ تعلقات کو دائرے کا سفر  قرار دیتے ہیں-اور پاکستان کے سردجنگ کے خاتمے کے باوجود جہادی پراکسی کا استعمال انڈیا اور افغانستان کے خلاف کیا جاتا رہا-یہ دریا کے پانی کے بہاؤ کے الٹ سمت حرکت کرنے کے مترادف سفر تھا-لیکن ان کے کالم کا متن بین السطور یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ پاکستان کو مجبوری میں جہادی پراکسی پاتھ کو ترک کرنا پڑے گا-گویا ان کے لاشعور میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اپنے جوھر کے اعتبار سے پاکستان نے 80ء کے عشرے میں جو پالیسی اختیار کی تھی وہی سب سے بہترین تھی-وہ اس پالیسی سے پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کو شاید خاطر میں ہی نہیں لیکر آتے-

http://dunya.com.pk/index.php/author/khursheed-nadeem/2013-11-04/4891/17495310#.UnpzF3DrzQB

ایک اور کالم نگار عامر خاکوانی ہیں-یہ بھی اسلامی جمعیت طلباء کے زیر اثر رہے اور ان کی بلوغت کا زمانہ بھی 80ء کا عشرہ ہے جب جہاد افغانستان اور پھر جہاد کشمیر کا بہت شور تھا-یہ اپنے کالموں میں پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جہادی پلاٹونوں کے بہت زیادہ حمائتی ہیں-اور پاکستان میں جہادی لابی کی حمائت میں بھی آگے آگے رہتے ہیں-حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ان کا کالم ایک طرح سے تحریک طالبان پاکستان کی ہئیت ترکیبی بارے ہے-یہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی بہت سی خواہشات کو تجزیہ کے نام پر اپنے کالم میں لے آئے ہیں-ان کے کالم کا متن ظاہر کرتا ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کے اندر ایسے گروہوں کو مغلوب دیکھنے کے خواہش مند ہیں جو پاکستان کی فوج کے ساتھ تصادم پر یقین رکھتے ہیں-اور ان کی خواہش یہ ہے کہ ان کا نیا امیر خالد عرف سید سجنا کو بنایا جائے تاکہ تحریک طالبان پاکستان میں مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھیں-وہ پنجابی طالبان،القائدہ،اور نورستان میں موجود جارح گروپوں کے سربراہ یعنی خالد عمر خراسانی اور مولوی فضل اللہ کو تحریک طالبان پاکستان پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتے-یہ کالم بھی حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان صلح اور مذاکرات کی راہ تلاشتا پھرتا ہے-

http://dunya.com.pk/index.php/author/amir-khakwani/2013-11-04/4892/13792229#.UnpzKnDrzQB

روزنامہ دنیا کے ایک اور کالم نگار حبیب اکرم ہیں-ان کو حکیم اللہ محسود کی گاڑی میں ڈرون کی آنکھ فٹ کرنے والے کی تلاش ہے-اور وہ اس مقصد کے لیے پاکستان کے سیکورٹی اداروں سے وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ وزیرستان میں پھیلے امریکی انٹیلی جنس نیٹ ورک کا سراغ لگائے-اور وہ تحریک طالبان پاکستان کی حمائت میں نمایاں طور پر سامنے آتے ہیں-

http://dunya.com.pk/index.php/author/habib-akram/2013-11-04/4896/25971283#.UnpzMHDrzQB

روزنامہ جنگ میں حامد میر اپنے ایک کالم میں تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی راہ میں آنے والی روکاوٹوں کا ذمہ دار بیرونی طاقتوں کو قرار دیتے ہیں-اور اس کے لیے وہ مسلم تاریخ میں مسلمانوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کا زمہ دار حسن بن سباء کے کردار جدید دور میں  مغربی طاقتوں اور اپنے خیال میں امریکی سامراجیت کو حسن بن سباء خیال کرتے ہیں-اور وہ اپنے ایک اور کالم میں تحریک طالبان پاکستان کو لال مسجد آپریشن کا رد عمل قرار دیتے ہیں اور اس کے رشتے ناطے جہادی پراکےی سے جوڑنے پر وہ بھی تیار نظر نہیں آتے-

http://jang.com.pk/jang/nov2013-daily/04-11-2013/col2.htm

اسی طرح عامر لیاقت حسین نے اگرچہ کہیں کہیں تحریک طالبان کی خارجیت کا زکر کیا ہے لیکن آخر میں بھی وہی اپیل تحریک طالبان سے کہ کسی طرح سے مذاکرات شروع ہوں-

http://jang.com.pk/jang/nov2013-daily/04-11-2013/col4.htm

انصار عباسی ،اوریا مقبول جان اور دیگر ان جیسے سخت گیر جہادی صحافی مابعد حکیم اللہ محسود دور میں امریکہ کے خلاف مزید آگ برسارہے ہیں-وہ اپنے کالم میں فوج کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ بزدل اور شکست خوردہ ذھنیت والے افسران کو نچلے رینک سے اوپر لیکر نہ آئے اور ایسی ذھنیت رکھنے والوں کو فارغ کرے-

http://jang.com.pk/jang/nov2013-daily/04-11-2013/col3.htm

جہادی صحافت پر مبنی یہ کالم اور ان کے لکھاریوں کا ایک سرسری سا جائزہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ کیسے ہماری جہادی صحافت کو تحریک طالبان پاکستان کے امور سے دلچسپی ہے اور وہ ان کے خیالات کو بڑے تزک و احتشام کے ساتھ اپنے کالموں کی زینت بناتی ہے-اور اسے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی جہادی پراکسی کے اخلاقی جواز کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں ہے-

جہادی کالم نگار حکیم اللہ محسود کی تنظیم کے خون آشام کردار کو نطر انداز کرتے ہیں بلکہ وہ اپنی تحریروں میں دھشت گردی کے خلاف جنگ میں مذھبی دھشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے کی تعداد بیان کرتے ہوئے شرماتے ہیں-

اردو پرنٹ میڈیا میں جہادی صحافت کے زور پر ہونے کی وجہ سے اردو آخبارات میں لکھے جانے والے ترقی پسند اور روشن خیال مضامین اور کالم کم نظر آتے ہیں-لیکن پھر بھی حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد یاسر پیرزادہ،عرفان حسین،علی منیر ،ارشاد محمود ،وجاہت مسعود ،زاہدہ حناء،حیدر جاوید سید اور دیگر کے کالمز خاصے کی چیز ہیں اور یہ ہمیں سٹیٹس کو توڑتے محسوس ہوتے ہیں-http://dunya.com.pk/index.php/author/irfan-hussain/2013-11-04/4888/21143436#.UnqYZXDrzQB

http://jang.com.pk/jang/nov2013-daily/04-11-2013/col9.htm

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akmal Zaidi
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.