محرم تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ – از ایس ایچ بنگش

religion-karbala_00320330

ہجری و اسلامی سال کا آغاز محرم سے ہوتا ہے،محرم کی اتنی اہمیت و فضلیت ہے کہ زمانہ قبل اسلام کے لوگ حتی کی کفار و مشرکین بھی محرم سمیت چار مہینوں میں جنگ و جدل سے احتراز کرتے تھے۔لیکن افسوس صد افسوس کہ اسلام کے لبادے میں مسلط ظالم و جابر ملوکیتی حکمرانوں بنی امیہ اور یزید ملعون نے اس مبارک مہینے میں رسول اللہ ص کے نواسے امام حسین علیہ سلامکو دشت کربلا میں اپنے اصحاب و انصار سمیت شہید کر دیا۔ لیکن تا قیامت ابدی فتح و کامرانی پھر بھی حق وامام حسین علیہ سلام کے نام ہوئی اور لعنت کا حقدار یزید لعین ہی ٹہرا۔۔ یہی وجہ ہے کہ محرم کو،تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ کہا جاتا ہے۔ امام خمینی ؒ نے آج کی کربلا میں بھی درس کربلا پر عمل پیرا ہو کر وقت کے یذیدی صفت قوتوں امریکہ اسرائیل اور ان کے ایجنٹوں کو شکست دی۔امام خمینی فرماتے تھے کہ لوگ ہمیں رونے اور عزاداری کرنے والے پکار کر مزاق اڑاتے تھے ،لیکن ہم نے انہی آنسوؤں و عزاداری سید الشہدا امام حسین علیہ سلام  کی مدد سے صدیوں پر محیط بادشاہی نظام و ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ کر دیا۔ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہے وہ سید الشہدا  امام حسین علیہ سلام و کربلا ہی کی بدولت ہیں۔

سال رواں محرم کو دنیا بھر میں موجود اسلامی سکالرز علما اور دینی و عزاداری تنظیموں نے مزار شریکتہ الحسینؑ بی بی زینب س دمشق سوریا کے حرمت و دفاع کے عنوان سے منانے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ
بی بی زینب س ،رسول اللہ ص کی نواسی اور حضرت امام حسینؑ کی بہن جنہں کربلا کے بعد افواج یذیدی نے دیگر خواتین و بچوں کے ہمراہ قید کرکے شام و کوفہ کے زندانوں اور بازروں میں اسیر کیا لیکن
بی بی زینب س نے اپنے والد علیؑ اور نانا محمد ص کی شجاعت اور دین کے دفاع کے لئے خطبے دے کر یذید لعین اور بنی امیہ کو بے نقاب کردیا۔ آجکل اس دور کے یذیدی امریکہ اسرائیل اور دور حاضر کے خواراج و تکفیری القاعدہ طالبان مل کر بی بی زینب س کے مزار دمشو سوریا کو مسمار کرنا چاہتے ہیں لیکن دنیا بھر میں موجود حسینی و زینبی کردار والے باضمیر لوگ اس شیطانی مثلث امریکہ اسرائیل اور دور حاضر کے خواراج و تکفیری القاعدہ طالبان کو علامہ اقبال کا یہ شعر یاد دلا کر کہتے ہیں کہ امام حسینؑ و سیدہ زینب س کی یاد اور ان کے مزارات تا قیامت دنیا بھر کے حریت پیسندوں کے لئے مشعل راہ رہیں گے۔

حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق

یک حسینؑ رقم کرد و دیگر زینب س

علامہ اقبال ہی نے محرم کی دس تاریخ عاشورا اور ذی الحجہ کی دس تاریخ قربانی کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

ہے نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل

اسی طرح محرم کے دوران جلوسوں اور باطل و یذیدیوں کے خلاف برسرپیکار رہنے کا درس دیتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا۔

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؑ

کہ فکر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا اور کیا ہے

ایک سجدہ شبیریؑ ایک ضرب ید الہی ؑ

یاد رہے علامہ اقبال نے نے ضرب ید الہیؑ کی تشبیہ شیر خدا حضرت امام علیؑ جسے رسول اللہ نے ید اللہ کا خطاب دیا تھا اور فرمایا تھا کہ ـ جنگ خندق میں علیؑ کا ایک ضرب  (جسں سے عمربن ابدود کو واصل جہنم کیا تھا)۔ثقلین(دونوں جہانوں) کے عبادتوں سے بہتر ہے۔

پہلی محر م کادن

          یہ سال کا پہلا دن ہے اور اس کے لئے دوعمل بیان ہوئے ہیں ۔

۱۔       روزہ رکھے اس ضمن میں ریان بن شبیب نے امام علی رضا سے روایت کی ہے ۔کہ جوشخص پہلی محر م کاروزہ رکھے اور خدا سے کچھ طلب کر ے تو وہ اس کی دعا ء قبو ل فرما ئے گا۔ جیسے حضرت زکر یا علیہ السلام کی دعاء قبو ل فر مائی تھی ۔

۲۔       امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ پہلی محرم کے دن دو رکعت نمازادا فرماتے اورنماز کے بعداپنے ہاتھ سو ئے آسما ن بلند کر کے  دعاء پڑھتے تھے :

          شیخ طوسی نے فرمایا کہ محرم کے پہلے نو دنوں کے روزے رکھنا مستحب ہے مگر یوم عاشورہ کو عصر تک کچھ نہ کھائے پئے اور بعد عصر تھوڑی سی خاک شفاکھالے سید نے پورے ماہ محرم کے روزے رکھنے کی فضیلت لکھی اورفرمایاہے کہ اس مہینے کا روزے رکھنا انسان کوہر گنا ہ سے محفو ظ رکھتاہے ۔ سوائے یو م عاشو رہ   کیو نکہ اس دن کا روزہ مکروہ ہے اور بعض کے نزدیک حرام ہے.حلال خدا و رسول ص کو حرام قرار دینا اور حرام کو حلال قرار دینے کی بدعت بھی اسلام میں بنی امیہ نے ڈالی ۔ جیسے رسول اللہ کی سنت کہ انگشتری یا نگینے کو دائیں ہاتھ میں پہنا جاتا ہے لیکن بنی امیہ نے بائیں ہاتھ میں پہننا شروع کیا اور یہاں تک کہ بنی امیہ کے ایک ملوکیتی بادشاہ نے جمعے کا خطبہ بدھ کے دن پڑھوایا۔ بنی امیہ کی طرف سے اس طرح کی خرافات کا جائزہ ممتاز دینی سکالر مودودی ؒ نے اپنی کتاب، خلافت و ملوکیت میں لیا ہے کہ کس طرح بنی امیہ نے اسلام کے لبادے میں اسلام کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ جس طرح رسول اللہ ص کے زمانے میں منافقین نے مسجد ضرار بنا کر اسلام کو اسلام کے لبادے میں تباہ کرنے کی کوشش کی لیکن رسول اللہ ص نے اس مسجد فساد ضرار کو مسمار کرانے کا حکم دے کر مسلمانوں کو تا قیامت اسلام کے لبادے میں اسلام دشمنوں کی پہچان کرادی۔

                                                                                                                                                                 

کربلا کے واقعہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقوال پر نظر ڈالنے سے،محرم عاشورا کے جو پیغام ہمارے سامنے آتے ہیں ان کوہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔

(1) پیغمبر (ص) کی سنت کو زندہ کرنا:

بنی امیہ یہ کوشش کر رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی سنت کو مٹا کر زمانہٴ جاہلیت کے نظام کو جاری کیا جائے۔ یہ بات حضرت امام حسینؑ کے اس قول سے سمجھ میں آتی ہے کہ ”میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے یا فساد پھیلانے کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔ بلکہ میرا مقصد امت اسلامی کی اصلاح اور اپنے جد پیغمبر اسلام (ص) و اپنے بابا علی بن ابی طالب  علیہ سلام کی سنت پر چلنا ہے۔“

(2) باطل کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹنا:

بنی امیہ اپنے ظاہری اسلام کے ذریعہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ واقعہ کربلا نے ان کے چہرے پر پڑی اسلامی نقاب کوالٹ دیا،  تاکہ لوگ ان کے اصلی چہرے کو پہچان سکے۔ ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ نے انسانوں و مسلمانوں کو یہ درس بھی دیا کہ انسان کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور دین کامکھوٹا پہنے فریبکار لوگوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔

(3) امر بالمعروف کو زندہ رکھنا:

حضرت امام حسین علیہ السلام کے ایک قول سے معلوم ہوتا ہے، کہ  آپ کے اس قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا ۔ آپنے ایک مقام پر بیان فرمایا کہ میرا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکرہے۔ایک دوسرے مقام پر بیان فرمایا کہ : اے اللہ! میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو بہت دوست رکھتا ہے۔

(4) حقیقی اور ظاہری مسلمانوں کے فرق کو نمایاں کرنا:

آزمائش کے بغیر سچے مسلمانون، معمولی دینداروںا ور ایمان کے جھوٹے دعویداروں کو پہچاننا مشکل ہے۔ اور جب تک ان سب کو نہ پہچان لیا جائے، اس وقت تک اسلامی سماج اپنی حقیقت کا پتہ نہیں لگاسکتا۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان، دینی پابندی  و حق پرستی کے دعووں کوپرکھا جا رہا تھا۔ امام علیہ السلام نے خود فرمایا کہ لوگ دینا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تودیندار کم نکلتے ہیں۔

(5) عزت کی حفاظت کرنا:

حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت وآزادی کا مظہر ہے۔ امام علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور  دوسرا  عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجانا۔ امام نے ذلت کو پسند نہیں کیا اور عزت کی موت کو قبول کرلیا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ :  ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میںذلت کوقبول کرنے والا نہیں ہوں۔

(6) طاغوتی طاقتوں سے  جنگ:

امام حسین علیہ السلام کی تحریک طاغوتی طاقتوں کے خلاف تھی۔ اس زمانے کا طاغوت یزید بن معاویہ تھا۔ کیونکہ امام علیہ السلام نے اس جنگ میں پیغمبراکرم (ص) کے قول کو سند کے طور پر پیش کیا ہے کہ ” اگر کوئی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ا ور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کوحرام کررہا ہو،  تواس پر لازم ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے اللہ کی طرف سے سزا دی جائے گی۔“

(7) دین پر ہر چیز کو قربان کردینا چاہئے:

دین کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے بچانے کے لئے ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں ،بھائیوں اور اولاد کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے امام علیہ السلام نے شہادت کو قبول کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی اہمیت بہت زیادہ اور وقت پڑنے پر  اس کو بچانے کے لئے سب چیزوں کو قربان کردینا چاہئے۔

(8) شہادت کے جذبے کو زندہ رکھنا:

جس چیز پر دین کی بقا، طاقت، قدرت و عظمت کا دارومدار ہے  وہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ دین فقط نماز روزے کا ہی نام نہیں ہے یہ خونی قیام کیا ،تاکہ عوام میں جذبہٴ شہادت زندہ ہو اور عیش و آرام کی زندگی کا خاتمہ ہو۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد  فرمایاکہ :  میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں۔ آپ کا یہ جملہ دین کی راہ میں شہادت کے لئے تاکید ہے۔

(9)اپنے ہدف پرآخری دم تک  باقی رہنا:

جو چیز عقیدہ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ ہے اپنے  ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا۔ امام علیہ السلام نے عاشورا کی پوری تحریک میںیہ ہی کیا ،کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے  تسلیم نہیں ہوئے۔ امام علیہ السلام نے امت مسلمہ کو ایک بہترین درس  یہ دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوںکے سامنے ہرگز نہیں جھکنا  چاہئے۔

(10)جب حق کے لئے لڑو تو ہر طبقہ سے کمک حاصل کرو:

کربلا سے، ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر سماج میں اصلاح یا انقلاب منظور نظر ہو تو سماج میں موجود ہر س طبقہ سے مدد حاصل کرنی چاہئے۔ تاکہ ہدف میں کامیابی حاصل ہو سکے۔امام علیہ السلام کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی طرح کے لوگ موجود تھے۔

(11) افراد کی قلت سے گھبرانا نہیںچاہئے :

کربلا ،امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی مکمل طور پر جلوہ گاہ ہے کہ ”حق و ہدایت کی راہ میں افراد کی تعدا د کی قلت  سے نہیںگھبرانا چاہئے۔“  جو لوگ اپنے ہدف پر ایمان رکھتے ہیں ان کے پیچھے بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھیوں کی تعداد کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہئے اور نہ ہی ہدف سے پیچھے ہٹنا چاہئے۔ امام حسین علیہ السلام اگر تنہا بھی رہ جاتے تب بھی حق سے دفاع کرتے رہتے اور اس کی دلیل آپ کا وہ قول ہے جو آپ نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ آپ سب جہاں چاہو چلے جاؤ یہ لوگ فقط میرے —–۔

(12)ایثار کے ساتھ سماجی تربیت کوملا دینا:

کربلا ،تنہا جہاد و شجاعت کا میدان نہیں ہے بلکہ سماجی تربیت و  وعظ ونصیحت کا مرکز بھی ہے۔ تاریخ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا یہ پیغام  پوشیدہ ا ہے۔ امام علیہ السلام نے شجاعت، ایثار اور اخلاص کے سائے میں اسلام کو نجات دینے کے ساتھ لوگوں کو بیدار کیا اور ان کی فکری و دینی سطح کو بھی بلند کیا،تاکہ یہ سماجی و جہادی تحریک ،اپنے نتیجہ کو حاصل کرکے نجات بخش بن سکے۔

(13) تلوار پر خون کوفتح:

مظلومیت سب سے اہم اسلحہ ہے۔ یہ احساسات کو جگاتی ہے اور واقعہ کو جاودانی بنادیتی ہے۔ کربلا میں ایک طرف ظالموں کی ننگی تلواریں تھی اور دوسری طرف مظلومیت۔ ظاہراً امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھی شہید ہو گئے۔ لیکن کامیابی انھیں کو حاصل ہوئی۔ ان کے خون نے جہاں باطل کو رسوا کیا وہیں حق کو مضبوطی بھی عطا کی۔ جب مدینہ میں حضرت امام سجاد علیہ السلام سے ابراہیم بن طلحہ نے سوال کیا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟  تو آپ نے جواب دیا کہ اس کا فیصلہ تو نماز کے وقت ہوگا۔

(14) پابندیوں سے نہیں گھبرانا چاہئے:

کربلا کا ایک درس یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنے عقید و ایمان پر قائم رہنا چاہئے۔ چاہے تم پر فوجی و اقتصادی پابندیاں ہی کیوں نہ لگی ہوں۔ امام علیہ حسین السلام پر تمام پابندیاں لگی ہوئی تھی۔ کوئی آپ کی مدد نہ کرسکے اس لئے آپ کے پاس جانے والوں پر پابندی تھی۔ نہر سے پانی لینے پر پابندی تھی۔ مگر ان سب پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی کربلا والے نہ اپنے ہدف سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی دشمن کے سامنے جھکے۔

(15) نظام :

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی پوری تحریک کو ایک نظام کے تحت چلایا۔ جیسے ،بیعت سے انکار کرنا، مدینہ کو چھوڑ کر کچھ مہینے مکہ میں رہنا، کوفہ و بصرے کی کچھ شخصیتوں کو خط لکھ کر انہیں اپنی تحریک میں شامل کرنے کے لئے دعوت دینا۔ مکہ، منیٰ اور کربلا کے راستے میں تقریریں کرنا وغیرہ۔ ان سب کاموںکے ذریعہ امام علیہ السلام اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ عاشورا کے قیام کا کوئی بھی جز بغیر تدبیر کے پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عاشور کی صبح کو امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کے درمیان جو ذمہ داریاں تقسیم کی تھیں وہ بھی ایک نظام کے تحت تھیں۔

(16) خواتین کے کردار سے  استفادہ:

خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو حضرت عیسیٰ ، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم السلام—— یہاں تک کہ پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے کے واقعات میں بھی خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ اسی طرح کربلا کے واقعات کو جاوید بنانے میں بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا، حضرت سکینہ علیہا السلام، اسیران اہل بیت اورکربلا کے دیگر شہداء کی بیویوں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہونچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک اسیران کربلا نے  ہی پہنچایا ہے۔

(17)میدان جنگ میں بھی  یاد  خدا:

جنگ کی حالت میں بھی اللہ کی عبادت ا ور اس کے ذکرکو نہیں بھولنا چاہئے۔  میدان جنگ میں بھی عبادت و یادخدا ضروری ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور دشمن سے جو مہلت لی تھی، اس کا مقصدتلاوت قرآن کریم ، نماز اور اللہ سے مناجات تھا۔ اسی لئے اپنے فرمایاتھاکہ میں نماز کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔ شب عاشور آپ کے خیموں سے پوری رات عبادت و مناجات کی آوازیں آتی رہیں۔ عاشور کے دن امام علیہ السلام نے نماز ظہر کو اول وقت پڑھا۔ یہی نہیں بلکہ اس پورے سفر میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی نماز شب بھی قضا نہ ہوسکی ، چاہے آپ کو بیٹھ کر ہی نماز کیوں نہ پڑھنی پڑی ہو۔

(18) اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا:

سب سے اہم بات انسان کا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ چاہے اس ذمہداری کو نبہانے میں انسان کو ظاہری طور پر کامیابی نظر نہ آئے۔ اور یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی سب سے بڑی کامیابی اپنی ذمہ داری کوپورا کرنا ہے ، چاہے اسکا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بھی، اپنے کربلا کے سفر کے بارے میں یہی فرمایا تھاکہ جو اللہ چاہے گا بہتر ہوگا، چاہے میں قتل ہو جاؤں یا مجھے (بغیر قتل ہوئے) کامیابی مل جائے۔

(19) مکتب کی بقاء کے لئے قربانی:

دین کے معیار کے مطابق، مکتب کی اہمیت، پیروان مکتب سے زیادہ ہے۔ مکتب کو باقی رکھنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام و حضرت امام حسین علیہ السلام جیسی معصوم شخصیتوں نے بھی اپنے خون و جان کو فدا کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ یزید کی بیعت  دین کے اہداف کے خلاف ہے لہٰذا بیعت سے انکار کردیا اور دینی اہداف کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کردی، اور امت مسلمہ کو سمجھا دیا کہ مکتب کی بقا کے لئے مکتب کے چاہنے والوں کی قربانیاںضروری ہے۔ انسان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ قانون فقط آپ کے زمانہ سے ہی مخصوص نہیں  تھا بلکہ ہر زمانہ کے لئے ہے۔

(20)  اپنے رہبر کی حمایت ضروری ہے:

کربلا ،اپنے رہبر کی حمایت کی سب سے عظیم جلوہ گاہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کے سروں سے اپنی بیعت کو اٹھالیا تھااور فرمایا تھا جہاں تمھارا دل چاہے چلے جاؤ۔ مگر آپ کے ساتھی آپ سے جدا نہیں ہوئے اور آپ کو دشمنون کے نرغہ میں تنہا نہ چھوڑا۔ شب عاشور آپ کی حمایت کے سلسلہ میں حبیب ابن مظاہر اور ظہیر ابن قین کی بات چیت قابل غور ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے اصحاب نے میدان جنگ میں جو رجز پڑہے ان سے بھی اپنے رہبر کی حمایت ظاہر ہوتی ہے ،جیسے حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم نے میران داہنا ہاتھ جدا کردیا تو کوئی بات نہیں، میں پھر بھی اپنے امام ودین کی حمایت کروں گا۔

مسلم ابن عوسجہ نے آخری وقت میں جو حبیب کو وصیت کی وہ بھی یہی تھی کہ امام کو تنہا نہ چھوڑنا اور ان پر اپنی جان قربان کردنیا۔

(21) دنیا ، خطرناک لغزش گاہ ہے:

دنیا کے عیش و آرام و مالو دولت کی محبت تمام سازشوںا ور فتناو فساد کی جڑہے۔  میدان کربلا میں جو لوگ گمراہ  ہوئے یا جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیںکیا، ان کے دلوں میں دنیا کی محبت سمائی ہوئی تھی۔ یہ دنیا کی محبت ہی تو تھی جس نے ابن زیاد وعمر سعد کو امام حسین علیہ السلام کا خون بہانے پر آمادہ کیا۔ لوگوں نے شہر ری کی حکومت کے لالچ اور امیر سے ملنے والے انعامات کی امید پر امام علیہ السلام کا خون بہا یا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے آپ کی لاش پر گھوڑے دوڑآئے انھوںنے بھی ابن زیاد سے اپنی اس کرتوت کے بدلے انعام چاہا۔ شاید اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ لوگ دنیا پرست ہوگئے ہیں، دین فقط ان کی زیانوں تک رہ گیا ہے۔ خطرے کے وقت وہ دنیا کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کے دلوں میں دنیا کی ذرا برابربھی محبت نہیں تھی ،اس لئے انھوں نے بڑے آرام کے ساتھ اپنی جانوں کو راہ خدا میں قربان کردیا۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن صبح کے وقت جو خطبہ دیا اس میں بھی دشمنوں سے یہی فرمایا کہ تم دنیا کے دھوکہ میں نہ آجانا۔

(22) توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے:

توبہ کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا، انسان جب بھی توبہ کرکے صحیح راستے پر آ جائے بہتر ہے۔ حر جو امام علیہ السلام کو گھیرکر کربلا کے میدان میں لایا تھا، عاشور کے دن صبح کے وقت باطل راستے سے ہٹ کر حق کی راہ پر آگیا۔ حر امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر اپنی جان کو قربان کرکے، کربلا کے عظیم ترین شہیدوں میں داخل ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے لئے ہر حالت میں اور ہر وقت توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔

(23) آزادی:

کربلا ،آزادی کا مکتب ہے اور امام حسین علیہ السلام اس مکتب کے معلم ہیں۔ آزادی وہ اہم چیز ہے جسے ہر انسان پسندکرتا ہے۔ امام علیہ السلام نے عمر سعد کی فوج سے کہا کہ اگر تمھارے پاس دین نہیں ہے اور تم قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے ہو تو کم سے کم آزاد انسان بن کر تو جیو۔

(24) جنگ میں ابتداء نہیں کرنی چاہئے:

اسلام میں جنگ کو اولویت نہیں ہے۔ بلکہ جنگ، ہمیشہ انسانوںکی ہدایت کی راہ میں آنے والی رکاوٹ ک دور کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ اسی لئے پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام نے ہمیشہ یہی کوشش کی، کہ بغیر جنگ کے معاملہ حل ہوجائے۔ اسی لئے  آپنے کبھی بھی جنگ میں ابتداء نہیں کی۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ ہم ان سے جنگ میں  ابتداء نہیں کرےں گے۔

(25)انسانی حقوق کی حمایت:

کربلا جنگ کا میدان تھا ،مگر امام علیہ السلام نے انسانوں کے مالی حقوق کی مکمل حمایت کی۔ کربلا کی زمین کو اس کے مالکوں سے خرید کر وقف کیا۔ امام علیہ السلام نے جو زمین خریدی اس کا حدود اربع  چارضر ب چار میل تھا۔ اسی طرح امام علیہ السلام نے عاشور کے دن فرمایا کہ اعلان کردو کہ جو انسان مقروض ہو وہ میرے ساتھ نہ رہے۔

(26)  اللہ سے راضی رہنا:

انسان کا سب سے بڑا کمال، ہر حال میں اللہ سے راضی رہنا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ ہم اہل بیت کی رضا وہی ہے جو اللہ کی مرضی ہے۔ اسی طرح آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں بھی اللہ سے یہی مناجات کی کہ پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔

 امام حسینؑ نے کربلا میں یذید لعین بنی امیہ اور ہر دور کی یذیدیت کو تاقیامت نیست و نابود و بے نقاب کرکے حریت پسندوں کی جیت کی راہ ہموار کر دی۔ بقول شاعر

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akmal Zaidi
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.