سرگوشیاں

eid

 

اس مرتبہ عید ایک ایسے موقعہ پر آرہی ہے کہ میرے سینے پر تازہ زخم لگے ہیں اور ان زخموں سے اٹھنے والی ٹیسیں مجھے ساری ساری رات بے چین رکھتی ہیں-سوچتا ہوں کہ اس دن کو خوشی کے طور پر کیسے مناؤں؟

ایک جوان رعنا تھا علی شوذب کاظمی جو اب نہیں رہا-سنا ہے کہ اس کے دماغ میں ایک ایسا ٹیومر تھا جس نے اس کی جوانی کا لحاظ نہ کیا اور اس کی ساری بہار کو پہلے خزاں میں بدلا اور پھر اس کو اس جہان رنگ و بو سے بے نیاز کرڈالا-اس کا جنازہ تھا حیدریہ مسجد میں تو ایسے لگ رہا تھا کہ بس یونہی کچھ دیر کے لیے سوگیا ہے اور ابھی آنکھ کھلے گی اور اس کی شوخیاں لوٹ آئیں گی-مگر میر تقی میر نے کہا تھا کہ

آفاق کی نگری سے کون گیا سلامت

سامان لٹا یاں ہر سفری کا

میں عید کو سادگی سے منانے کی اور بھی وجوہات رکھتا ہوں-مجھے ندامت ہے کہ اس علی کاظمی نے کئی مرتبہ مجھ سے کہا کہ اس سے ملاقات کروں-وہ بہت ذھین نوجوان تھا-وہ شاعر و ادیب ماں اور باپ کا بیٹا تھا-اس کے اندر ایک باغی روح اور دل بے تاب نہاں تھا-وہ ایک ریڈیو پروگرام پر اپنی آواز کا جادو جگاتا رہا تھا-اور وہ ایسے اسلوب تحریر کی تلاش میں تھا جو اس سماج میں منٹو جیسی کاٹ کا حامل ہو-اس میں تیز طراری ایسی ہو جیسی حسن عسکری صاحب کی تحریروں میں تھی-وہ مجھ سے کسی جادو یا منتر کے ملنے کی امید رکھتا تھا جس سے شائد اس کی بے قرار روح کی شانتی کے لیے کوئی راہ ہموار ہوجاتی-جب بھی اس سے بات ہوتی وہ اپنے مستقبل کے منصوبوں بارے بات کرتا اور کسی جگہ بھی میں نے اس میں قنوطیت طاری ہوتے نہیں دیکھی-اس نے مجھے کبھی نہیں بتایا تھا کہ اس کے دماغ کے اندر ایک ٹیومر ہے جو کسی وقت بھی اس کو خاموش کرسکتا ہے-پچھلی عید پر سب سے پہلے میں وش کرنے والا وہی تھا-اور میں پچھلی عید پر بھی اپنے ماضی کے چند حوالوں کو یاد کرکے افسردہ تھا مگر اس نے کہا تھا

عامر بھائی!اگر آپ اگلے دن ملتان آجاؤ تو بہت مزا آئے گا-میں اپنے چند دوستوں سے آپ کو ملاؤں گا”

مگر میں عید والےدن اپنے کمرے میں اپنی یادوں سے چھٹکارا پانے کی کوشش میں ناکام رہا اور اگلے دن بھی کہیں جانے کی ہمت نہ کرسکا-میں اپنی اداس طبعیت سے کسی اور کی عید خراب کیوں کرتا-مگر اب مجھے پچھتاوے نے آن گھیرا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس سے ایک ملاقات تو کرلینی چاہئیے تھی-

میرے موبائل کی فون بک میں اس کا نمبر موجود ہے-میری لاگ بک میں اس کی جانب سے کی گئی کالز کا ریکارڈ ہے-اور پھر اس کے میسجز میرے ایک فولڈر میں پڑے ہیں-دوستی کے عالمی دن پر،انسانی حقوق کے عالمی دن پر،چاند رات کو کئے جانے والے پیغامات،عاشورہ کے دنوں کے پیغامات،عام دنوں میں بھیجے جانے والے میسجز،اور کئی دعوت نامے جب وہ لاہور زیر تعلیم تھا-فیس بک پر اس کی وال پر اس کی پوسٹیں پڑی ہوئی ہیں-ٹیوٹر پر اس کے پیغامات ہیں-یہ سب اس کی یادیں ہیں جو ہمارے لیے چھوڑ کر گیا ہے-اور میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اس صدمے سے باہر آکر عید سے لطف اندوز ہوں-

یہ عید بہت اداسییاں لیکر آئی ہے-پارہ چنار میں ساٹھ سے زیادہ گھر ایسے ہیں جو اس عید کو عید کی بجائے یوم سوگ کے طور پر منائیں گے-کیونکہ ان کے پیاروں کی لاشوں کے مناظر ان کی آنکھوں سے اوجھل ہونے کا نام نہیں لے رھیں-لاشوں میں بدل جانے والے ان کے پیارے افطاری کا سامان لینے پنجابی بازار گئے تھے پھر لوٹے نہیں-اور کئی ایسے ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہوگئے-ان زندہ لاشوں کے ساتھ رہنے والے مکینوں کی عید کیسی ہوگی اس کا اندازہ میں اور آپ بخوبی لگاسکتے ہیں-

ہزارہ ٹاؤن والے بھی عید والے دن اب تو ہر سال یوں کرتے ہیں کہ نماز عید ادا کرنے کے بعد وہ قبرستان کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کی تعداد اب علمدار روڈ پر رھنے والوں سے زیادہ ہوگئی ہے-یہ ایک نیا شہر ہے جو بسا ہے اور اس شہر میں بہت سکون ہے-خاموشی ہے-اور کوئی نفسانفسی کا عالم نہیں ہے-مکین یہاں کے سب آرام سے امن و آشتی سے رہ رہے ہیں-یہاں بنی قبروں پر عید کے روز مائیں،بہنیں،بیٹیاں،بیٹے،باپ،شوہر،بیویاں،دوست کھڑے ہوتے ہیں،پہلے حسرت سے دیکھتے ہیں اور پھر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے ان قبروں کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں-اور سرگوشیوں اور سسکیوں میں اپنے اوپر گذر رہی قیامت کا احوال سناتے ہین-کوئی بیوی اپنے شوہر کو یہ خبر دیتی نظر آتی ہے کہ اس نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو باہر بھیج دیا ہے-کوئی شوہر اپنی بیوی کو بتارہا رہا ہوتا ہے کہ “نیک بخت تیرے بیٹے اور بیٹی کو میں نے پاکستان سے باہر بھیج دیا ہے تو فکر مند نہ ہو-اور اب کہ خواب میں مجھے ہنستی مسکراتی ملنا-تیرے غبار آلود اور خون میں لتھڑے چہرے کو بار بار خواب میں دیکھنا مجھے باور کراتا ہے کہ تو اپنے بجوں کے لیے فکرمند ہے-دیکھ اوہ چادر زہراء کی پاسدار !وہ اب محفوظ ہیں-میری فکر مت کر بہت جلد تیرے پاس آجاؤں گا”میں یہ ساری سرگوشیاں سن رہا ہوں-ایک بیٹی اپنے باپ کی قبر پر بیٹھی کہہ رہی ہے

بابا!مجھے کئی راتوں سے ڈر لگتا ہے-آپ کا سینہ میسر جو نہیں ہے-مجھے آپ نے اپنے سینے سے لگاکر سلانے کی ایسی عادت ڈالی کہ چاچا ،پھوپھو ،ماں کے سینے سے لگ کر بھی نیند نہیں آتی ہے”

ایک معصوم بچہ اپنی ماں سے کہہ رہا ہے کہ ماما!آپ تو کہتی تھیں کہ اس عید پر بابا آجائیں گے-تو آپ یہاں کیوں آئی ہو-میں بابا کو آج صاف کہوں گا کہ ہمارے ساتھ چلیں ورنہ ہم ان سے ناراض ہوجائیں گے-ان کو یہ سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ ہمیں ان کے ساتھ عید پر سیر کرنے جانا ہے-

میں چشم تصور سے یہ سارے مناظر دیکھ رہا ہوں-یہ مناظر تو اس عید پر ہمیں بلوچستان،خیبر پختون خوا،فاٹا،کراچی ،پارہ چنار کے قبرستانوں میں کثرت سے دیکھنے کو ملیں گے-

شہر خاموشاں عید والے دن شہر خاموشاں نہیں رہا ہے-بلکہ یہ تو زندوں اور مردوں کی مشترکہ اجتماع گاہ بن گیا ہے-

ایسی ایک عید کوفہ میں اہل بیت کے ہاں بھی آئی تھی-جب 21 رمضان کو حضرت علی کی شہادت ہوئی اور 9 دن کے بعد عید پر سب کو اپنے مربی علی کی یاد نے اداس کرڈالا تھا-اور عاشور کے بعد اہل بیت کے ہاں عید کے دن عید کرنے کا حوصلہ نہ رہا تھا-علی بن حسین سے ان کے بیٹے محمد باقر نے پوچھا تھا کہ

بابا!آپ ہنستے کیوں نہیں ہیں؟

تو علی بن حسین زین العابدین نے کہا کہ

بیٹا!کربلا میں جو میں نے دیکھا تم دیکھ لیتے تو ہمہ وقت گریہ کرتے-

یہ چھوٹی چھوٹی کربلائیں جو پاکستان،مصر(جہاں فوجی آمر نے نہتے شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی)عراق،شام کے اندر روز بپا ہورہی ہیں ان کو بپا ہوتے دیکھ کر اور اپنے پیاروں کو خاک و خون میں لتھڑے دیکھ کر کتنے چہروں کو مسکرانا بھول گیا ہوگا-اور کتنے گھروں میں عید کا دن ماتم کدے میں بدل گیا ہوگا-یہی سوچ کر میں نے فیصلہ کیا کہ اس دن نئے کپڑے اور نئے جوتے اور ديگر سارے اس مد کے پیسے دھشت گردی کا نشانہ بننے والے گھروں کی کفالت کرنے والی فاؤنڈیشن کے حوالے کردوں گا-

ہمیں اس دن عہد کرنا چاہئے کہ ہم اگلی عید تک ایسا ماحول ضرور پیدا کریں گے کہ اس سماج میں سب عید کو ایک خوشی و مسرت کے دن کے طور پر منائیں-

 

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.