شیعہ نسل کشی اور پاکستانی حکومت اور ایجنسیوں کی بے حسی – از حق گو

48e356cffadcfae02e8c0dc7e82338a0_XL

سی این بی سی چینل پہ  شیعہ نسل کشی کے حوالے سے ہونے والے ایک پروگرام میں علامہ حسن ظفر نقوی نے ملت شیعہ پاکستان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ایجنسیوں کی بے حسی کو بھی سخت حرف تنقید کا نشانہ بنایا – ان کے اس پروگرام میں بیان کیے گیے خیالات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف ان کا موقف کو سمجھنے میں آسانی ہوگی بلکہ دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے چہروں سے نقاب بھی اٹھایا جا سکے گا

شیعہ نسل کشی اور ہماری ایجنسیوں کا کردار

علامہ حسن ظفر نقوی نے پاکستان بھر میں دہشت گردی کے واقعیات کی مذمت کرتے ہوے کہا کہ افغانستان کی نام نہاد جہاد میں پاکستان کو جھونکنے والے لوگ ہی پاکستان کی موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں – آج جو یہ آگ گھر گھر  میں لگی ہوئی ہے یہ آگ ان گھروں کو بھی جلا کے راکھ کر دے گی جنہوں نے اس آگ کو افغانستان سے پاکستان منتقل کیا ہے – ان کا کہنا تھا کے مغربی سامراج کے اشاروں پر ناچنے والی ایجنسیاں ڈالرز کی لالچ میں  افغانستان جنگ میں کود کر پاکستان کو سامراج کی غلامی میں دیا جس کا نتیجہ قوم آج تک بھگت رہی ہے

ڈرون اور دہشت گردی

علامہ حسن ظفر نقوی نے اس موقف کو سختی سے رد کیا جس میں دہشت گردی کے واقعیات کو ڈرون حملوں سے جوڑا جاتا ہے – علامہ صاحب نے کہا اگر یہ بات درست تسلیم کر لی جائے کے دہشت گردی کے واقعیات ڈرون حملوں کا رد عمل ہیں تو پھر بیس ہزار سے زیادہ جانیں دینی والی شیعہ قوم بھی اپنی نسل کشی کے رد عمل میں اپنے ہم وطن پاکستانیوں پر حملے کرنے میں حق بجانب ہے؟؟ ان کا کہنا تھا کے یہ دہشت گردی 80 کی دہائی سے ہو رہی ہے پہلے اس میں صرف شیعہ کو نشانہ بنایا جاتا تھا جب کے اب شیعہ کے ساتھ ساتھ سنی بھی نشانہ بن رہے ہیں –

دہشت گردوں کی حامی حکومت

علامہ حسن ظفر نقوی نے موجودہ حکومت پر بھی کڑی تنقید کی اور حکومت کے طالبان سے مذاکرات کے موقف کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوے کہا کہ طالبان کی جنگ اسلام کی جنگ نہیں ہے نہ ان کی جنگ ڈرون حملوں کے جواب میں ہے بلکہ وہ جمہوری نظام ، جمہوری اداروں کو کفر سمجھتے ہیں اور اس نظام پر یقین رکھنے والے افراد کو کافر سمجھ کے واجب القتل قرار دیتے ہیں – اس موقعہ پر انہوں نے ان پارٹیز کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جو طالبان کے حملوں کو ڈرون حملوں کا رد عمل قرار دیتی  ہیں

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.