ہونا دودھ کا کالا اور شہد کا کڑوا : پیپلز پارٹی الیکشن کیوں ہاری؟

naya

اب جبکہ الیکشن ہوچکے اور نتائج بھی سب کے سامنے آچکے تو ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس الیکشن کے دوران بہت سے ماضی میں درست خیال کیے جانے والے خیالات غلط کیوں ثابت ہوئے؟کیوں ماضی کی صداقت حال میں فکری مغالطے میں بدل گئی؟

ایک صداقت پاکستان کی انتخابی تاریخ کی یہ تھی کہ جب کبھی پی پی پی مخالف دائیں بازو کی جماعتوں کے امیدوار الک الگ الیکشن لڑ ے تو اس کا براہ راست فائدہ پی پی پی کو ہوا-پی پی پی کےامیدوار کو کامیاب ہونےسے کوئی نہیں روک سکا-

ماضی میں یہ صداقت بار بار سامنے آتی رہی لیکن اس مرتبہ یہ صداقت  ب مغالطہ ثابت ہوئی اور پنجاب میں پی پی پی کے مدمقابل دائیں بازو کے ایک نہیں بلکہ چار چار امیدوار تھے-مذھبی جماعتیں بھی متحد نہ تھیں اور دائیں بازو کا ووٹ پی ٹی آئی و مسلم لیگ کے درمیان منقسم تھا-اس کے باوجود پی پی پی کی سیٹیں پنجاب سے نہ نکل سکیں-

پنجاب میں پی پی پی کو دو سیٹیں ملیں اور یہ سیٹیں پیروں اور جاگیرداروں کے اپنے اثر و رسوخ کا نتیجہ زیادہ ہیں-مخدوم غلام مصطفی اور خواجہ غلام معین کوریجہ کی جیت کو پی پی پی کے نظریاتی ووٹ کی جیت قرار دینا مشکل ہے-

ایک دوسری صداقت یہ تھی کہ جو بھی پیپلزپارٹی کو چھوڑتا ہے اس کی سیاسی زندگی حتم ہونے کے قریب آجاتی ہے-مثال کے لیے کھر اور جتوئی وغیرہ کا نام لیا جاتا ہے-مگر اس مرتبہ ہم نے دیکھا کہ جمیشد دستی نے پی پی پی چھوڑی تو اس نے ایک کی بجائے دو نشستیں جیتیں-جبکہ شاہ محمود قریشی کی سیاست کا سورج اور جمکا ہے-ملتان آصف علی زرداری نے آکر یوسف رصا گیلانی کے گھر بہت طنز کے ساتھ پوچھا تھا کہ “ملتان میں ایک مخدوم ہوا کرتا تھا کہاں ہے؟آج ویرانی کا عالم ہے تو کیا قبلہ آصف علی زرداری کو جواب ان غزل یہ شعر نہ پیش کیا جائے

اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے

اکیلے پھررہے ہویوسف بے کارواں ہوکر

ایک اور فکری مغالطہ یہ تھا کہ کچھ بھی ہوجائے پی پی پی کے ووٹ بینک کو کچھ نہیں ہوسکتا-لیکن ان پانچ سالوں میں پنجاب کے اندر پی پی پی کے عام ووٹر کو اپنی روز بگڑتی معاشی حالت اور اس پر پی پی پی کے اندر گھس جانے والی جاگیردار اور اسٹیٹ مافیا کے ہتک آمیز روئے نے مجبور کرڈالا کہ وہ اس مغالطے کو بھی دور کردے-پی پی پی کے اس ووٹ بینک نے اپنے مزارعے اور رعایا نہ ہونے کا ثبوت دے ڈالا –اور میں نے پہلی مرتبہ پی پی پی کے ووٹر کو کسی اور جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہوئے دیکھا-

ہمیں سوچنا یہ ہے کہ آحر ماضی کی یہ صداقیتں حال میں مغالطے کس طرح بن گئیں؟ایک وجہ تو سید یوسف رضا گیلانی ،قمر زمان کائرہ ،مخدوم احمد محمود اور دیگر رہنماؤں کی طرف سے بتائی جارہی ہے اور وہ یہ کہ پنجاب کی عوام نے توانائی کے بحران ،خراب معاشی حالت اور بدانتظامی کے خلاف غصّہ نکالا ہے-کائرہ کہتے ہیں کہ مہنگائی اور امن و امان صوبے کی زمہ داری ہوتے ہیں-گویا اگر مگر کے ساتھ غلطی مانی جارہی ہے-سندھ میں کون سا مثالی طرز حکومت تھا اور وہاں کون سا سکھ لوگوں کو ملا تھا-

میرے خیال میں اس بدترین شکست اور فکری مغالطوں کی سب سے بڑی وجہ پی پی پی کی حکومت میں شامل لوگوں کے بارے میں پیدا ہونے والا برا امیج ہے-اور اس امیج کے لوگوں کے اندر تک چگہ بنالینے کی وجہ سے پی پی پی کو پنجاب میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا-یہ امیج کس طرح سے گہرا ہوا؟میں آپ کو ایک قصّہ سناتا ہوں –

مرحوم ملگ منتظر مہدی ایڈوکیٹ بھٹو صاحب کے ساتھی تھے-وہ اس زمانے میں ایم پی اے بھی رہے-گٹر جیالے تھے-ضیاء دور میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں-انہوں نے پی پی پی کی حکومت آنے کے بعد اپنے بیٹے کی نوکری کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا-وہاں بہت سارے پی پی پی کے اہم رہنماؤں سے رابطہ کیا-اور کہا کہ ان کے بیٹے کا میدٹ بنتا ہے اس کو نوکری دی جائے-اہم لوگوں نے ان کی آؤ بھگت تو خوب کی لیکن کسی نے 20 لاکھ طلب کیے تو کسی نے پندرہ لاکھ-آحرکار ملک مرحوم نے گیلانی ضاحب سے رابطہ کیا انہون نے عبد القادر سے ملنے کو کہا-ملک صاحب کہتے تھے کہ عبدالقادر میرے گھٹنوں کو چھوکر مجھے چاچا جی کہہ کرملا اور میں نے جب اپنے  بیٹے کی نوکری کی بات کی تو کہنے لگا چاچا !تساں 5 لاکھ ڈا انتظام چاکرو بھرا میڈا نوکری لگ ویسی”ملک صاحب کے بیٹے نے پیسے دیکر نوکری لینے سے انکار کردیا اور ملک صاحب کس بقول جب یہ سارا واقعہ ان کے دیگر بچوں کو پتہ چلا تو انہوں نے ان کو کہا کہ آئیندہ ان کے سامنے پی پی پی کا زکر نہ کرے-

مذکورہ بالا ایک واقعے پر کہانی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ایسی ہزاروں کہانیاں عوام میں گردش کررہی ہیں-اور پی پی پی کے سکرین پر سامنے رہنے اور اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے عیش و عشرت بھی پی پی پی کے غریب کارکنوں کے سامنے تھے-پی پی پی کی قیادت جب کارکنوں کو کچھ نہ دینے کی وجوہات بتاتے ہوئے اپنے ہاتھ پیر بندھے ہونے کا زکر کرتے تو ان کے اپنے عیش و عشرت دیکھکر ان کے کارکنوں اور عام ووٹر کا پارہ انتہا کو پہنچ جاتا تھا-ایسے میں جیالوں کو یہ کہنا بہت عجیب لگتا تھا کہ بھٹو کا جیالا کہیں جانے والا نہیں ہے-گویا یہ کہا جارہا تھا کہ “جیالے اتنے فاترالغقل ہیں کہ سو پیاز اور سوجوتے کھاکر ان کی عقل ٹھکانے پر آجاتی ہے-لیکن جیالے کارکنوں اور ووٹر نے سوجوتے اور سو پیاز کھانے سے انکار کردیا-

پی پی پی اور اے این پی جیسی جماعتوں کی عوام میں غیر مقبولیت کا ایک اور سبب یہ ہے کہ ان جماعتوں نے سویت یونین کے زوال کے بعد مزدوروں اور کسانوں کے مفادات کی سیاست کو ترک کیا-بڑے پیمانے پر نجکاری کے ایجنڈے کو سپورٹ کیا-اپنی پارٹیوں کے اندر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو چگہ دی-جس سے ان پارٹیوں میں محنت کشوں اور غریب کسانوں کی آواز کمزور ہوتی چلی گئی-اور ایک طرح سے ان جماعتوں نے معاشی پالسیوں کے میدان میں محنت کش طبقے کے مفادات کو بالائے طاق رکھا اور دولت مند طبقے کی ہوس زر کو سامنے رکھکر پالیساں تشکیل دیں-اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے-آج جب سنٹر رائٹ جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف نے میں سٹریم سیاست میں پی پی پی کو پیجھے کرنا شروع کیا اور پروگریسو نظریات پر حملے ہوئے –دائیں بازو کے دھشت گردوں نے ان پارٹیوں کے امیدواروں کا قتل شروع کیا تو یہ طبقات ان پارٹیوں کی ڈھال نہ بن سکے-

ان جماعتوں نے جنوبی ایشاء سمیت دنیا بھر میں امریکی سامراج کی دھشت گردی اور سامراجی حملوں کی تاویلات تلاش کرنا شروع کیں اور سامراجی کیمپ میں شمولیت بھی اختیار کرلی-پھر افغانستان ،شام ،عراق،لیبیا، لبنان میں سامراج کی جیرہ دستیوں پر بھی امریکہ کے کیمپ سے تعلق نہیں توڑا-اس سے ان جماعتوں کے ساتھ امریکہ مخالف جذبات کے حامل لوگون کی اکثریت نہ ہوسکی- بلکہ ان جماعتوں نے غلط طور پر یہ خیال کرلیا کہ امریکی سامراج ان جماعتوں کو پاکستان کے اندر اسٹبلشمنٹ کے مقابلے میں مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوگا اور یورپی منڈیوں تک رسائی ملے گی-پاکستان کو مضبوط معاشی بنیاد ملے گی-یہاں تک کہ امریکہ کے پاکستان کو دوسرا چاپان بنادینے کی گپ بھی چھوڑی گئی-لیکن پانچ سالوں میں جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے-

آج ان جماعتوں کو پاکستان کے محنت کشوں ،درمیانہ طبقے ،طالب علموں ،کلرکوں،ڈاکٹرز اور دیگر پرتوں میں بے پناہ غیر مقبولیت کا سامنا ہے-اس کی دو ہی بڑی وجوہات ہیں-ایک یہ اپنے انقلابی معاشی پروگرام سے منحرف ہیں-دوسری یہ کہ یہ جماعتیں سامراج مخالف نظریات سے دستبردار ہوچکی ہیں-پنجاب،خیبر پختون خوا کے ساتھ ساتھ اندرون سندھ میں بھی درمیانہ طبقے اور کام کرنے والی دیگر پرتوں میں بھی بغاوت کے آثار ہیں-صرورت اس امر کی ہے کہ یہ جماعتیں اپنی تاریخ کو دوبارہ سے زندہ کریں-عوامی سیاست کو جن بنیادوں پر زوالفقار علی بھٹو نے استوار کیا تھا ان بنیادوں کو پھر سے زندہ کریں-جس کا امکان بہت کم نظر آتا ہے-مگر نیک و بد حضور کو سمجھانا ہمارا فرض بنتا ہے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Noran danish
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.