کراچی کتاب میلہ اور عوام

کراچی کتاب میلہ اور عوام

عامر حسینی

فروری کے دوسرے ہفتے ہر سال کراچی میں ایک اشاعتی ادارہ کتاب میلے کا انعقاد کرتا ہے-اور یہ کتاب میلہ پوری دنیا سے ادیبوں کی کراچی آمد کا بہانہ بنتا ہے اور دنیا بھر میں شایع ہونے والا ایسا ادب جس کے ہماری زندگی میں کوئی بھی معنی بنتے ہوں اس کی نمائش یہاں پر کی جاتی ہے-کراچی میں ہونے والا یہ کتاب میلہ ایک طرح سے ادب،سیاست اور عوام کے درمیان تعلق اور رشتوں کو سامنے لے آنے کا سبب بن جاتا ہے-

میں بس ایک دن اس میلے میں شریک ہوا تھا-مجھے ایک تو واجد علی شاہ والی ریاست اودھ کی نسل سے تعلق رکھنے والی ادیبہ “کنیزے مراد “کی آمد وہاں لے گئی تھی-دوسرا میں یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا اس کتاب میلے میں وہ لوگ بھی آتےہیں جن کے لیے فیض،سجاد ظہیر  اور دیگر ترقی پسندوں نے لکھا تھا؟لیکن میں نے اس میلے میں زیادہ تر شرکت اپر مڈل کلاس کے لوگوں کی دیکھی-

اس میلے میں ندیم اسلم کی ادب سے اپنے رشتے کی کہانی اور منٹو کے افسانوں سے ہمارے سماج کی کایا کلپ کی بحث نے مجھے خود اپنے کتاب سے رشتوں پر غور کرنے پر مجبور کیا-

میں نے کتابوں سے رشتہ داری ویسے ہی کی تھی جیسے میری عمر کے اکثر بچے پاکستان میں کرتے تھے-اٹھ آنے میں ٹارزن،عمرو عیار،طلسم ہوشربا ،دیو اور پریوں،کوہ قاف و دور سمندر پار ایک ملک کے بادشاہ کی کہانیاں،جن سب کا اینڈ خوشگوار ہوا کرتا تھا –میں اپنے جیب خرچ سے ہر ہفتے ان کہانیوں کو شہر کی نیوز ایجنسی سے خریدا کرتا تھا-پھر ذرا بڑا ہوا تو “بچوں کا باغ”جیسا ایک رسالہ اور سید قاسم محمود کا “سائنس میگزین”مطالعہ میں آنے لگا-ریلوے اسٹیشن پر ایک اختر صاحب کا سٹال ہوتا تھا-وہاں سے رسالے لیتا تھا-پھر ایک بہت قدیم کتب خانہ “قریشی کتب خانے”سے کتابیں کرائے پر لیکر پڑھنا شروع کردیں-قریشی صاحب بھی بہت باغ و بہار آدمی ہیں-اب بھی یہ کتاب گھر چلارہے ہیں-ان کی دکان کے شیشوں میں ایک طرف ایک بڑا پوٹریٹ زوالفقار علی بھٹو کا لگا ہوا ہے تو دوسری طرف بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پوٹریٹ آویزاں ہیں-زاھد قریشی صاحب ان سے بہت لگاؤ نکھتے ہیں-میں چھوٹا سا تھا ایک دن اس کتاب گھر سے مستعار لی ہوئی کتاب واپس کرنے وہاں پہنچا تو دیکھا کہ کتاب گھر کو چاروں طرف سے پولیس والوں نے گھیر رکھا ہے-اور زاھد قریشی جو بچپن میں ہی پولیو کا شکار ہوکے ہاتھوں اور پیروں سے معذور ہوگئے تھے ان کو پولیس اٹھا کر لے جارہی تھی-ساتھ میں دیگیں بھی تھیں اور ایک پوٹلی میں کتابیں بھی تھیں-مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ آج بھٹو کی برسی تھی اور اس موقعہ پر زاھد قریشی صاحب نے نذرو نیاز کا اہتمام کیا تھا-ضیاء کی نمک خوار پولیس کو یہ کہاں برداشت تھا کہ ایک ایسے آدمی کی نذر ونیاز ہو جس کے بارے میں ان کے مربی نے اس آدمی کے مرنے کے بعد اس کے ختنے تک چیک کرنے کی کوشش کی ہو-اور اس کے بارے میں “زندیق “ہونے کے فتوے جاری کرائے ہوں-زاھد قریشی صاحب کچھ دن بعد واپس آگئے-اور ان کا ایمان بھٹو پر مزید پختہ ہو چکا تھا-میں وہاں اب جنوں،پریوں اور دیوؤں کی کہانیوں سے آگے ابن صفی کی لکھی “عمران سیریز”اور “فریدی سیریز”تک آن پہنچا تھا-اسی دوران پاپولر “رومانوی کہانیاں”بھی پڑھ ڈالی تھیں-ایک دن زاھد قریشی صاحب کہنے لگے کہ “بیٹا !یہ سب تو تم پڑھتے رہنا۔۔۔زرا میرے کہنے سے بھی ایک کتاب پڑھ ڈالو۔۔۔اتنا کہہ کر انہوں نے ایک کتاب مجھے دی-کتاب کا نام تھا”زندہ بھٹو،مردہ بھٹو”مرتب کرنے والے تھے مرحوم “ستار طاہر”اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اگلی کتاب شہید زوالفقار علی بھٹو کی کتاب “تیسری دنیا کا اتحاد۔۔۔افواہ یا حقیقت”اور پھر بھٹو کی کال کوٹھڑی میں لکھی گئی کتاب “اگر مجھے قتل کیا گیا”ان کتابوں نے میرا زوق بدلنے میں اہم کردار ادا کیا-کتابوں سے رشتہ استوار کرنے میں میرے ماموں کے حیدر آباد میں بنے “کتب خانے”نے بھی اہم کردار ادا کیا-پھر میرے ہائی اسکول کے استاد سعید الرحمان اور ریاضی کی ٹیوشن دینے والی ایک استانی اور پھر مجھے ورثے میں ملنے ایک ذخیرہ کتب ان سب سے کتاب دوستی کا گہرا رشتہ استوار کرنے میں بہت مدد ملی-ادب کا چسکا مجھے راؤ کامران صاحب اور میرے رفیق وقار اسلم بلوچ سے لگا-اور پھر چل سو چل والا معاملہ ہوگیا-ایک بات طے تھی کہ ادب،سماج اور سیاست ان کی ایک تثلیث بنا کر میں اپنا فکری سفر طے کرتا رہا-اور ان سب کو بعد رابع “فلسفہ”سے جوڑتا رہا-اس نے مجھے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیا-کتابیں انقلاب لے آتی ہیں اور یہ کتابیں جو انقلاب لانے کا سبب بنتی ہیں-ان کو سٹیٹس کو کے حامی اور علمبردار “بے ضرر اور خشک” خیال کرنے لگتے ہیں-اور ان کو نظر انداز کرڈالتے ہیں-بنو امیہ نے علی بن حسین کی دعاؤں کے literature karachi-literature1مجموعے کو اپنی ملوکیت کے لیے بے ضرر خیال کیا اور وہی مجموعہ ان کے لیے فنا کا سبب بنا-زار روس نے “ڈاس کپیٹل “کو حساب کتاب کی ایک مشکل اور ادق کتاب گردانا-اور اس کی روس درآمد پر کوئی پابندی نہ لگائی-اور اس کتاب نے “روسی انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا-ہمارے سماج میں یہ “انگارے”جیسی کتاب کی اشاعت تھی جس نے ہمارے سماج کی فرسودگی پر ذبردست چوٹ لگائی-اور تبدیلی کی راہ ہموار کی-کتاب نے “سماجی تبدیلی “میں ماقبل تقسیم اور مابعد تقسیم اہم کردار اداکیا-منٹو اور کرشن چندر اور پریم چند کو کون بھول سکتا ہے-میرے زھن پر قرۃ العین حیدر کی تحریروں نے بھی زبردست اثر کیا-اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتابیں تھیں جنہوں نے مجھے ایک باتخیل قاری سے باتخلیق لکھاری میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا-اور ان میں ادب و فلسفہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے-یہ ٹھیک ہے کراچی کا کتاب میلہ ایک حد تک ہمارے معاشرے کی ایک خاص پرت کی توجہ کا مرکز بنا رہا اور ایک بہت بڑی اکثریت اس سے دور تھی-سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لکھاری پاکستان سے یہاں موجود تھے ان کی لکھتوں کو ہماری چھوٹی سکرین پر اس طرح سے کیوں نہیں لایا جاتا جس طرح سے آج کل “عمیرہ احمد” وغیرہ کو سکرین کے تھرو اور تحریر کے زریعہ بھی زیادہ بڑی تعداد پڑھنے والوں اور دیکھنے والوں کی ملی ہوئی ہے-ادب ،سیاست اور سماجی تبدیلی کے باہمی رشتے کی بحث ابھی مجھے سیاسی میدان میں اس طرح سے سرایت کرتے نظر نہیں آتی جس طرح سے یہ کبھی ماضی میں سرایت کیے ہوئے تھی-ہاں غریب جالب کی نظموں کی گت ایک تاجر سیاسی رنگیلے نے خوب بنائی ہے-اور ایک ستم تو جماعت اسلامی والوں نے وکلاء تحریک کے دوران فیض صاحب پر یوں کیا کہ ان کی نظم جو انہوں نے اشتراک انقلاب کے دن کو دیکھے جانے کے بارے میں لکھی تھی خوب جھوم ،جھوم کر پڑھی اور فیض صاحب کی روح کو بہت اذیت دی-ہماری سیاست میں اگرچہ تبدیلی اور انقلاب کی بات زور و شور سے کی جارہی ہے لیکن سیاسی تقریروں میں ادب سے مستعار لی جانے والی نثر اور منظوم کلام کا استعمال بہت کم ہوگیا ہے-ہاں اس دوران آفات و بلیات کے ناموں کو بہت استعمال کیا جارہا ہے-امریکہ میں آنے والے سمندری طوفان”سونامی” کو کپتان جی نے اپنے نام کرایا ہے تو نواز شریف ڈرون پر دل دےبیٹھے ہیں-ایک شہباز شریف صاحب کو تو “علی بابا بروزن زربابا”کی اصطلاح پسند آگئی ہے-سیاست میں اب ایسے نام تو نظر ہی نہیں آتے جو اپنی تقریروں میں اور تحریروں میں ادب عالیہ سے مثالیں لیکر آجاتے ہوں-یہ بھی ہمارے سماج میں سیاست میں گرواٹ کی شدت کا اندازہ لگانے کا ایک پیمانہ ہے-ویسے بھی ادب اور سماجی علوم کے رشتے سیاست سے جوڑنے والوں کو ہماری ساسی جماعتیں بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتیں-اور ان کو زیادہ سے زیادہ شوبوائے کا درجہ دیا جاسکتا ہے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. mian matloob
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.